سوشل میڈیا پر ہیرو کا درست تعین

497

ہیرو صرف خالد لطیف:
اس خبر کے ساتھ ربیع الاول شریف کا آغاز ہوا اور عشاق کے دل ایمان سے سرشار ہوگئے، کہ ’ناموسِ رسالتﷺ‘ کا معاملہ دین کے تمام امور سے منفرد ہے اور اِس کے ایمان کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ سابق پاکستانی کرکٹر خالد لطیف نے 2018ء میں ملعون گیرٹ ویلڈر کی جانب سے خاکوں کے مقابلے کے اعلان پر ایک ویڈیو بیان جاری کیا تھاکہ جو شخص بھی اس ملعون کو مارے گا وہ اس کو پاکستانی 30لاکھ روپے دیں گے، اگر مزید ہوتے وہ اور بھی دے دیتے۔ ایسے غیرتِ ایمانی پر مشتمل اعلان اُس وقت تحریک لبیک کے سربراہ اور ڈاکٹر آصف جلالی نے بھی کیے تھے۔ اِن بیانات کے خلاف 13 ستمبر کو ملعون ویلڈر نے نیدرلینڈ کی عدالت سے قتل پر اکسانے کے جرم میں 12 سال قید کی سزا کا فیصلہ لے لیا۔ اُس نے ڈاکٹر آصف اور سعد رضوی کے لیے بھی ایسا فیصلہ لینے کا اعادہ کیا ہے۔ پھر کیا تھا، سوشل میڈیا پر خالد لطیف کے لیے مہم چل پڑی۔ سوشل میڈیا پر بطور عاشقِ رسولﷺ، عظمت کو سلام سمیت خوب سراہا گیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ساری کوششوں کے بعد بھی ایمانی غیرت زندہ ہے اور لوگ اپنے درست ہیرو کا تعین کرسکتے ہیں۔ 2018ء والی ویڈیو پورے ایمانی جذبے کے ساتھ شیئر کی جاتی رہی۔ آپ اس عمل پر لوگوں کی عقیدت کا مقام ٹوئٹ میں دیکھیں کہ ’’محترم المقام جناب خالد لطیف صاحب! کرکٹ کی وجہ سے نام رہے نہ رہے، نبی کریمﷺ سے وفا کی وجہ سے نام تاقیامت رہے گا۔“ ایسی عزت افزائی، یقین مانیں پاکستان کے کسی کھلاڑی کو کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے پر بھی نہیں ملی ہوگی۔ جے یو آئی اور تحریک لبیک سمیت کئی نیٹیزن خالد لطیف سے اظہار عقیدت و عشق کرتے نظر آئے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ نیدرلینڈ اور پاکستان کے درمیان عدالتی تعاون یا ملزمان کی حوالگی کے حوالے سے کوئی معاہدے نہیں ہیں اور اس کیس میں تعاون کے لیے پہلے کی گئی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں ملا۔ مسئلہ یہی ہے کہ مغرب کو شدید تکلیف ہے کہ ایسا کیا ہے 1400 سال قبل کی ایک ہستی جس کو ان میں سے کسی نے نہ دیکھا، نہ سُنا ہو، کیسے کوئی اُس کے لیے مرنے مارنے کی حد تک جا سکتا ہے! وہ اس کو وحشیانہ عمل قرار دیتا ہے۔ اُس نے سرسید اور مرزا قادیانی سے لے کر دبستانِ شبلی، مولانا آزاد، وحید الدین، اور پرویز سے لے کر غامدی تک کی سیریز اُتار دی، مجال ہے جو اُس کو اب تک مطلوبہ نتائج ملے ہوں۔ میری روح کانپ اٹھتی ہے کہ کیسے شبلی نعمانی نے اپنے بیان کردہ تحقیقی اصولوں پر خطِ تنسیخ پھیرتے ہوئے ’استعمار کے لیے خدمات‘ پیش کیں۔ کعب بن اشرف کے قتل کا اثر پوری اسلامی تاریخ میں توہینِ رسالت کی سزا کے لیے اول دلیل شمار کیا جاتا ے ہے، مگر استعمار کو خوش کرنے کے لیے، اس کے وحشی پن کا تاثر دور کرنے کے لیے شبلی نے پوری امت کے اجماعی فہم کو لپیٹ دیا اور قرآن،احادیث، اجماع سب کو ترک کرکے زبردستی تاریخ کی روایات کو پکڑکر اُس پر مزید جرائم ڈال کر توہینِ رسالت کی وجہ ہٹانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد سے بعینہٖ یہی کام وحیدالدین سے لے کر غامدی اور انجینئرتک کا بیانیہ بنا ہوا ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ غازی علم الدین سے لے کر خالد لطیف تک ایک ہی سبق ہے کہ ایمانی حرارت کے لیے بہت بڑا عالم،زاہد ہونا ضروری نہیں۔ یہ کام تو اللہ ترکھان سے لے کر معمولی سپاہی یا کسی کھلاڑی سے بھی کرا سکتا ہے۔

مراکش زلزلہ:
شمالی افریقہ قدرتی آفات کی زد میں آیا ہوا ہے۔ 9 ستمبر کو شمالی افریقہ کے ملک مراکش (مراکو) کے ایک شہر مراکش میں زلزلہ آیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 2500 سے زائد افراد لقمہ اجل اور 2500 کے قریب زخمی ہیں۔ سوشل میڈیا پر خوب ٹرینڈ چلا، سی سی ٹی وی کی ویڈیوز اور تصاویر جو مستقل شیئر ہوتی رہیں وہ انتہائی دل دہلا دینے والی تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ بدترین زلزلے کے بعد بھی لوگ سی سی ٹی وی و دیگر سے ویڈیوز نکال نکال کر اَپ لوڈ کرنا نہیں بھول رہے تھے۔ سی سی ٹی وی تو پھر سمجھ میںآتا ہے، مگر کچھ ویڈیوز تو باقاعدہ ایسی ہیں جن سے صاف لگ رہا ہے کہ بنانے والے کو معلوم ہے کہ کچھ ہونے والا ہے، زمین ہل رہی ہے اور وہ کھڑا ویڈیو بنارہا ہے کہ کیسے عمارت گررہی ہے۔ میں نے سرخی دیکھی کہ Social media records the moment the Morocco quake hit۔ یہی اہم بات ہے کہ اب زلزلہ بھی ہوتے ہوئے دکھایا جائے گا۔ پھر اس کی ریٹنگ کی خاطر جعلی ویڈیوز اور تصاویر بھی انتہائی بے شرمی سے ڈالی جاتی رہیں۔ جعلی سے دو مراد ہیں، ایک تو یہ کہ پرانے کسی زلزلے کی ویڈیو یا تصویر۔ یا پھر بالکل ہی جعلی۔ اب ظاہر ہے کہ سوشل میڈیا کا پورا ڈسکورس ریٹنگ، نمبروں، لائیکس، شیئرز کی تعداد کے گرد گھومتا ہے تو اِس کام کی کوئی اخلاقیات تو ہوتی ہی نہیں۔

لیبیا سیلاب:
9 ستمبر کے بعد 12ستمبر کو شمالی افریقہ کے اہم ملک لیبیا کا مشرقی شہر درنا، ایک خطرناک سمندری طوفان ڈینیل کا نشانہ بنا۔ 10ہزار کے قریب افراد لاپتا، جبکہ 3 ہزار کے قریب اموات رپورٹ ہوچکی ہیں۔ ایک چوتھائی شہر صاف ہوگیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق 30ہزار کے قریب لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ یہاں کی بھی تصاویر، ویڈیوز جو آرہی ہیں وہ انتہائی ہولناک ہیں۔ یہاں بھی مراکش والا کیس تھا۔ کئی ویڈیوز جوڑ جوڑ کر بلا تحقیق ڈالی و پھیلائی جاتی رہیں، تاہم ویڈیوز کو غور سے دیکھنے اور سننے پر جعلی اور اصلی کا فرق سمجھا جاسکتا ہے۔ البتہ سیٹلائٹ امیجز جو نشریاتی اداروں کی جانب سے جاری کیے گئے وہ تباہی کی کیفیت اور اس کی وسعت سمجھانے کے لیے سب سے اہم تھے۔

یونان سیلاب:
شمالی افریقہ سے پہلے گزشتہ ہفتے یورپ میں وارننگ جاری ہوئی تھی۔ ڈینیل نامی سمندری طوفان ترکی، بلغاریہ اور یونان سے ٹکرایا۔ ان میں سب سے زیادہ نقصان یونان کی مرکزی زرعی پٹی میں 700 مربع کلومیٹر کے دیہی علاقوں کو پہنچا۔ ترکی میں دو اموات کی اطلاع رہی، بلغاریہ میں تین ہوئیں۔ مقصد صرف اطلاع دینا نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر اُن ساری خبروں کے درمیان یہ بات بتائی گئی کہ یورپی یونین کی آب و ہوا کی نگرانی کرنے والی سروس کوپرنیکس نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر سمندر کی سطح کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت پوری دنیا میں گرمی کی ریکارڈ سطح کا سبب ہے، 2023ء انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ گرم ہونے کا امکان ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق سمندروں نے صنعتی دور کے آغاز سے لے کر اب تک انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی 90 فیصد اضافی گرمی کو جذب کرلیا ہے۔ جی، بات سمجھ میں آئی؟ اس وقت کا سب سے اہم سوال جسے مستقل ڈسکس ہونا چاہیے یہ ہے کہ دنیا کا درجہ حرارت کون بڑھا رہا ہے؟ یہ کیسے بڑھتا ہے؟ یہ شدت کم کیسے ہوگی؟ ایسا کیا کام ہوا ہے کہ ساری دُنیا مستقل ایک آگ بنتی جارہی ہے؟ کون سے ممالک ہیں جو یہ بڑھا رہے ہیں؟ یہ طوفان اتنے سارے کیسے ہوگئے ہیں کہ اب اِن کے نام رکھنے پڑتے ہیں؟اگر پہلے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اتنا خطرناک طوفان ہے تو لوگ کیا کرتے ہیں؟ پچھلے 50 سالوں میں سمندری آبادی میں 41 فیصد کمی کیسے آگئی؟

اصل بات سمجھیں:
واقعات ہوتے رہیں گے جو رپورٹ بھی ہوں گے۔ ہمارا کام اُن سے تفریح، ریٹنگ یا تبصرہ نہیں ہونا چاہیے۔ گلوبل ولیج بن جانے والی دنیا کے ساتھ جو ہورہا ہے اُس کی حقیقت کو سمجھنا ہے۔ یہ سارا ماحولیاتی بحران اصلاً انسان کے روحانی بحران سے پیدا ہورہا ہے۔ ان لوگوں نے ’ترقی کا جعلی لالی پاپ‘ دے کر آپ کو خاموش کرایا ہوا ہے، عروج و زوال کی گولیاں فٹ کرائیں، علم، سائنس و ٹیکنالوجی کو اصل قرار دیا، تسخیر کائنات کو دینی حکم بتاکر بے وقوف بنایا۔ اب ذرا بتائیں کہ کائنات کی تسخیر کے نام پر کیا اس دُنیا کو تباہ کرنا مقصود تھا؟ جدید ٹیکنالوجی کی پیدا کردہ جسمانی اور ماحولیاتی آلودگی، کیمیکل بھری غذائوں اور صنعتوں کی چمنیوں نے کیا تباہی پھیلائی ہے؟ آج کا انسان یہ زہر بخوشی جسم میں ڈالنے پر آمادہ نظر آتا ہے، سہولت پسندی کے نام پر اُس نے کربناک موت پسند کرلی ہے۔ یہی نہیں بلکہ پروسسڈ بیج نے زمین بنجر کرڈالی، پلاسٹک و تیل نے سمندری حیات ختم کرڈالی۔ دنیا کے مہنگے اور جدید ترین آلے سے چیک کروالیں، خالص آکسیجن تک ناپید ہوگئی ہے۔ حال یہ ہے کہ نیورولوجی کے سینئر ڈاکٹر دماغی و اعصابی مریضوں کو دوائی کے بجائے موبائل سے پرہیز بتا رہے ہیں۔ انسان نے مذہب اور خدا کو چھوڑ کرعقل پر کھڑی سائنس کا راستہ اختیار کیا تو ایک عقلی وجود بن گیا۔ وہ عقل کے ذریعے سوچتا، سمجھتا اور زندگی بسر کرتا ہے۔ خالق، وحی، جذبات، احساسات، وجدان، تجربات، تاریخ، تہذیب، ثقافت، زمان اور مکان سب کو بھول گیا۔ ’ہائیڈیگر‘ سے لے کر ’ہیبرماس‘ اور’ڈی لیوز‘ تک انسان کی روحانی پیاس کا کوئی جواب کسی کو نہیں مل سکا۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ دُنیا، اِس دُنیا کے مزے اورلذتوں کی طلب نے یہ تباہی مچائی ہے تو وہ اس دنیا کو تباہ کرنے پر تل گیا ہے۔ تو اب جو حقیقت بار بار ڈسکس کرنے، ہمت پکڑوانے، عام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جس کی یہ ساری زمین ہے اُس خالق کو، اس کی تعلیمات کو مائنس کرکے کسی دنیا کو نہیں بچایا جاسکتا، کسی ماحولیاتی تباہی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ٹوئٹر پر لیبیا کے سیلاب کے بعد تباہی کی ایک ویڈیو کسی مقامی فرد نے شیئر کی ہوئی تھی، میں نے نوٹ کیا کہ اُس کی کپکپاتی آواز میں عربی کے جو کلمات رواں تھے وہ رب سے توبہ، رب سے رجوع، رب کی کبریائی، اپنی معافی اور انا للہ وانا الیہ راجعون پر مشتمل تھے جو مجھے یہ سب بات سمجھا چکےتھے۔

مفتی تقی اور مقابلہ حسن:
مفتی تقی عثمانی کے آفیشل ٹوئٹر سے جیسے ہی یہ ٹوئٹ ہوئی کہ ’جنگ کی خبر ہے کہ پانچ دوشیزائیں عالمی مقابلہ حسن میں پاکستان کی نمائندگی کريں گی۔ اگر یہ سچ ہے تو ہم کہاں تک نیچے گریں گے؟ حکومت اس خبر کا فوری نوٹس لے کر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے اور کم ازکم ملک کی ”نمائندگی“ کا تاثر زائل کرے‘، لوگ مفتی صاحب پر ایشوز کی بھرمار لے کر پِل پڑے کہ مفتی صاحب اس پر بھی کچھ بولیں، اس معاملے پر بھی کوئی اظہارِ مذمت کریں۔ سب سے زیادہ تو پی ٹی آئی والے نظر آئے کہ اُن کی گرفتار خواتین پر لب کشائی کی جائے، مگر 1400 رپلائیز کی اکثریت میں مفتی صاحب کے ساتھ عوام نے وہ کیا جو بہرحال نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مفتی صاحب کے ٹوئٹر پر کئی اکاؤنٹس بنے ہوئے ہیں۔ وہ زیادہ ایکٹیو بھی نہیں ہیں۔ مئی 2015ء سے ستمبر2023ء، یعنی آٹھ سالوں میں ٹوئٹس کی جو ترتیب ہے، وہ ایسی ہے کہ اگست 2023ء میں 2، جولائی میں 1، پھر مئی جون مکمل ناغہ اور اپریل میں 2، مارچ میں 1، یعنی 9 ماہ میں صرف 6ٹوئٹس تھیں۔ ان کے فالوورز ساڑھے 4 لاکھ کے قریب ہیں۔ ایسی فعالیت دیکھ کر میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ مفتی صاحب آپ کو تو اس میڈیم کا استعمال ہی نہیں کرنا چاہیے تھا کہ اس کے تقاضے دوسرے ہیں۔ پھر مستقل بات نہ کرنے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ جہاں لوگ آج بھی یہ چاہتے ہیں کہ علما ببانگِ دہل حق گوئی کریں، ان کی رہنمائی کریں۔۔۔ مگر حق کیا ہے، کیا حق نہیں ہے اس کا تعین اب لوگ خود کرنے لگے ہیں۔

نائن الیون کے 22سال:
نائن الیون کا22 واں یوم سوگ امریکا میں بھی منایا گیا۔ یہ دن برصغیر کے مسلمانوں پر 1857ء کے بعد جیسی ہی تاریخ رقم کر گیا، گوکہ اس میں افغانستان کے مسلمان ہدف تھے لیکن اصل مقصد تو اِسلام کے بنیادی عقیدے کو نشانہ بنانا تھا۔ 2001ء میں جاوید غامدی نے کہا تھا کہ افغانستان پر امریکی حملہ دہشت گردی نہیں تھا۔ ارتقا کی منازل طے کرنے کے بعد 2019ء میں جاوید غامدی نے اِسے امریکا کے ’ظلم و عدوان کے خلاف جہاد‘ کی مثال قرار دے دیا۔ بات یہیں تک نہیں رُکی بلکہ مزید 2 سال بعد امریکا کو جب بے آبرو ہوکر افغانستان سے نکلنا پڑا، تو غامدی نے اُسے ’سپرپاور کا ایڈونچر‘ کہہ دیا۔ اب چونکہ جاوید غامدی جھوٹ میں اتنی مہارت رکھتے ہیں اور ہمیشہ یک طرفہ طرز کے پروگرام کرنے کے عادی ہیں، تو اس کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ ان کے جھوٹ زیادہ سے زیادہ سامنے لائے جائیں۔ کوئی یہ بھی پوچھنا گوارا نہیں کرتا کہ اِسلامی شریعت میں جہاد تو مسلمانوں کی ایک فرض عبادت ہے، پھر یہ امریکہ کیسے کر سکتا ہے؟ اور یہ بھی کہ خود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جس نے یہ فساد شروع کرایا، کبھی خود اُس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ کررہی ہے؟ تو کیسے غامدی صاحب نے یہ ہولناک بیانیہ معاشرے میں سرایت کیا؟ سوشل میڈیا پر آج بھی بلکہ اس ٹرینڈ کے ذیل میں بھی تلاش کریں تو آپ کو جہاں وہ ’’فارن ہائیٹ‘‘ کے کلپس ملیں گے وہاں وہ کلپس بھی ملیں گے جن میں علماء کرام نے ٹوئن ٹاور کے گلے ملنے سے قبل کے بیانات جاری کیے۔ اس میں کیا شک ہے کہ نائن الیون عالمی طاغوت پر ایک کاری ضرب تھی، جس نے ایک بار پھر مسلمانوں کو جہاد کے ڈسکورس میں ڈالا۔ پھر اِس کے بعد عراق، افغانستان، پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں مسلمانوں کی نسل کُشی کی گئی اُس کا کوئی حساب کتاب کرنے کو تیار نہیں۔ امریکا شکست کھا کر 2سال قبل چلاگیا، اس کے بعد سے مستقل افغانستان کی معاشی بہتری کی خبریں آ رہی ہیں، امن نظر آرہا ہے۔

حصہ