پربت کی رانی

221

جمال اور کمال کی گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے میں ابھی 25 دن باقی تھے۔ جس چھوٹے سے شہر میں وہ رہتے تھے، گرمیوں کے موسم میں وہاں سخت گرمی پڑا کرتی تھی۔ گھر میں ایئر کنڈیشن ہونا ایک الگ بات تھی لیکن ایئر کنڈیشن 24 گھنٹے کون آن رکھ سکتا ہے۔ بجلی کا نظام بھی بہت اچھا نہیں تھا۔ ایک تو بجلی کئی کئی گھنٹے کے لیے غائب ہونا معمول تھا دوئم یہ کہ وولٹیج کی روانی میں بھی یکسانیت کا فقدان تھا جس کی وجہ سے بہت دقت کا سامنا رہتا تھا۔ خیر یہ ابھی کا مسئلہ تو نہیں تھا۔ جب سے شعور نے آنکھ کھولی تھی اسی قسم کی مشکل کا سامنا تھا۔ انسان جس ماحول میں رہتا ہے اس کا عادی نہ بھی ہو سکے تو ماحول کی سختیاں سہنے کی صلاحیتیں اس میں ضرور پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمال اور کمال اس قسم کی ہر سختی برداشت کرنے صلاحیت رکھتے تھے۔ اسکولوں کی چھٹیاں شروع ہونے سے قبل ہی جمال اور کمال کے والدین نے یہ پروگرام بنا لیا تھا کہ کم از کم وہ سب آدھی چھٹیاں شمالی علاقوں میں گزاریں گے۔ جس جگہ کا انھوں نے ارادہ سفر باندھا تھا اس مقام پر شاید ہی کوئی سیاح جاتا ہو لیکن انسپکٹر حیدر علی کا کہنا تھا کہ وہ علاقہ ہر لحاظ سے بہت انفرادیت رکھتا ہے۔ موسم شدید سے شدید گرمیوں کے زمانے میں بھی اچھا خاصہ سرد رہتا ہے۔ گرمیوں کے زمانے میں ہی وہاں ہم جیسے شہری رہ سکتے جبکہ سردیوں کے موسم میں وہاں رہنا نہایت مشکل ہے۔ برفباری بھی بے حد ہوتی ہے، درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی کئی سینٹی گریڈ نیچے گر جاتا ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس علاقے میں ٹھیک اسی موسم میں کافی تیز ہوائیں چلتی ہیں جس کی وجہ سے سردی کا احساس کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ وہاں کے مقامی لوگوں کے ہاتھ۔ پاؤں، چہرے اور خاص طور سے ہونٹوں کا برا حال ہو جاتا ہے۔ سردی کی وجہ سے جسم کی ساری کھلی جگہیں اس بری طرح پھٹ جاتی ہیں کہ ان میں سے خون تک رسنے لگتا ہے۔ ایسی صورت حال میں جو افراد وہاں سے کسی مناسب مقام کی جانب منتقل ہو سکتے ہیں، ہو جاتے ہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ پوری کی پوری آبادی کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جائے۔ پھر بھی وہ علاقہ کافی ویران ویران سا ہو جاتا ہے اس لئے انسپکٹر حیدر علی کے خیال میں مناسب یہی تھا کہ کیوں نہ گرمیوں کی چھٹیوں کے کچھ ایام وہاں گزارے جائیں۔

جمال اور کمال کو پروگرام کی یہ سب تفصیل اپنے والد سے معلوم ہوئی تو انھیں اس بات پر بڑی حیرت ہوئی کہ اس سفر اور سیاحت میں انسپکٹر حیدر علی بھی شریک سفر ہونگے اور ایک ایسا مقام جس کا نام تک جمال اور کمال نے نہ سنا ہو، وہاں جائیں گے۔ پھر یہ کہ وہ مقام شمالی علاقوں کے دیگر مقامات کے جیسا ہی خوبصورت ہے۔ جمال اور کمال نے سوچا کہ جب ایسا شمالی مقام دیگر مقامات کے جیسا ہی حسین ہے تو اس کا نام کیوں مشہور نہیں اور کبھی کسی سے بھی اس کا نام کیوں نہ سنا گیا۔ پاکستانی یا غیر ملکی سیاح عام طور پر اس علاقے کا رخ کیوں نہیں کرتے۔ یہ سارے سوالات اپنی جگہ بجائے خود غور طلب تھے ہی لیکن ان سب سے زیادہ حیران کر دینے والی بات یہ تھی کہ انسپکٹر حیدر علی نے ہی والد صاحب کو اس علاقے میں جانے کے لیے ذہنی طور پر کیوں تیار کیا۔ اول تو کسی بھی ایسے سرکاری عہدیدار کو محکمہ لمبی چھٹیاں مشکل ہی سے دیتا ہے۔ دوئم یہ کہ ایسا کیا ضروری تھا کہ وہ جمال اور کمال کے گھر والوں کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ جمال اور کمال کے علم میں یہ بات بھی آ چکی تھی، جو ان کے لیے اور بھی حیران کن تھی کہ جمال اور کمال کے والدین کو ان کے ساتھ جانا بہت ضروری ہے، کیوں؟، اس کا جواب فی الحال ان کے علم میں نہیں تھا۔

جمال اور کمال کے والد کے ساتھ مسئلہ ایک ماہ کی چھٹیاں مل جانا تھا۔ اُن کے محکمے والے اتنی لمبی چھٹیاں دیا نہیں کرتے تھے۔ جب یہ بات انھوں نے انسپکٹر حیدر علی سے کہی تو ان کا جواب تھا کہ آپ اس بات کی پرواہ نہ کریں، اس کا انتظام ہم اپنے محکمے کی جانب سے کرا دیں گے۔ یہ بات کوئی ایسی بھی نہیں تھی جو جمال اور کمال کے والد بھی نہ سمجھ سکیں۔ انھوں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ گویا اس علاقے میں لیجانے کی ترغیب میں کوئی راز ضرور پوشیدہ ہے جس کی وجہ فی الحال ان کے علم میں لانا شاید مصلحت کا کوئی تقاضا ہو۔ بے شک جمال اور کمال کو ان کے والدِ محترم نے کچھ بھی آ گاہی نہیں دی تھی لیکن جمال اور کمال چھوٹے ہونے کے باوجود کم عقل تو نہیں تھے کہ تفریح میں انسپکٹر حیدر علی کے ساتھ جانے کو انھوں نے کوئی معنیٰ نہ پہنائے ہوں۔ ان کے خیال میں انسپکٹر حیدر علی کا ساتھ جانا یقیناً کوئی راز ضرور ہے۔ کچھ بھی ہو، ایک تو وہ شمالی علاقہ جات میں ایک بالکل مختلف جگہ دیکھ لیں گے اور اگر انسپکٹر حیدر علی کا کوئی اور بھی مقصد ہوا تو وہ بھی سامنے آ جائے گا بلکہ جمال اور کمال کے خیال میں اس تفریح کا لطف اور بھی دو بالا ہو جائے گا۔ بات در اصل یہ ہے کہ جس کی جو دلچسپیاں ہوتی ہیں وہ ایک طرح اس کی فطرت بن جاتی ہیں۔ مزاج کے مطابق اگر کوئی کام کرنا پڑے تو اس کا مزا کچھ الگ ہی ہوا کرتا ہے لہٰذا دل ہی دل میں جمال اور کمال نے سوچا کہ کاش وہاں ایسا بھی کوئی سین ہو جائے جو ان کی جاسوس فطرت کی تسکین کا سبب بن سکے ویسے بھی کان کن چوہوں کی مہم کے بعد سے اب تک کوئی اور موقع ایسا ہاتھ نہیں آ سکا تھا جس کو انجام تک پہنچا کر وہ اپنی فطرت کی تسکین کر پاتے۔ (جاری ہے)

حصہ