جن معاشروں میں شرح تعلیم زیادہ ہوتی ہے وہاں اخبارات کا اثر زیادہ ہوتا ہے،ڈاکٹر نثار احمد زبیری کا ایک یادگار انٹریو

362

تقریباً نصف صدی قبل روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں طلبہ کے صفحے پر ایک مستقل کالم جامعہ کراچی کے تعلیمی اور ثقافتی ماحول کی بابت ’’شہر سے باہر میل پرے‘‘ کے عنوان سے شائع ہواکرتا تھا۔ صفحے کے انچارج تھے ڈاکٹر نثار احمد زبیری تب وہ استاد نہیں‘ صحافی تھے۔ یہ صفحہ کراچی کے طلبہ و طالبات میں بہت مقبول تھا اور یہ کالم آج بھی جب کہ جامعہ کراچی شہر کے بیچوں بیچ آگئی ہے اور وہ ویرانی اور فاصلے معدوم ہوگئے ہیں جن کی طرف کالم کے عنوان میں اشارہ کیا گیا تھا‘ جامعہ کے قدیم طلبہ میں اکثر کسی بھولے بسرے واقعے کی طرح یاد کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر نثار احمد زبیری جامعہ کراچی سے 1964ء میں نفسیات کے مضمون میں ایم اے کرکے روزنامہ ’’حریت‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ دو سال بعد وہ ادارہ ’’جنگ‘‘ سے منسلک ہوئے۔ 1973ء میں ہفت روزہ ’’اخبار جہاں‘‘ کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس سے قبل وہ شعبہ صحافت جامعہ کراچی سے ایم اے صحافت کی ڈگری لے چکے تھے۔ 1984ء تک وہ ’’اخبار جہاں‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ تارکین وطن کے لیے انہوں نے ایک نئے انداز کے خوب صورت رسالے ’’رابطہ‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔ اس کی دیکھا دیکھی اس نوع کے دو ایک رسالے اور نکل آئے۔ 1985ء میں پروفیسر زکریا ساجد کے (جنہیں وہ اپنے مرشد کا درجہ دیتے ہیں) اصرار پر صحافت کے پیشے کو خیرباد کہہ کر صحافت کی تعلیم و تدریس کے کوچے میں قدم رکھا اور اب تک اسی سے وابستہ ہیں۔

ڈاکٹر نثار زبیری کی ربع صدی تک پیشۂ صحافت سے وابستی پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ انہوں نے طلبہ کا صفحہ مرتب کیا ہو‘ کسی ہفت روزہ کے ایڈیٹر رہے ہوں یا کسی ماہنامے کا اجرار کیا ہو‘ مقبولیت ان کی صحافت کا جزو لازم رہی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ قومی مسائل اور ملکی تقاضوں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ قارئین کے مزاج شناس رہے۔ ان کی کامیابی میں اپنے کام میں انہماک‘ محنت اور امانت و دیانت کا احساس و ادراک ہے۔ وہ کوئی ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو اس کی تکمیل میں اپنے آپ کو جی جان سے کھپا دیتے ہیں۔ میں نے انہیں کبھی کوئی کام غیر ذمہ داری‘ لاپرواہی‘ کاہلی اور سرسری طریقے سے کرتے دیکھا ہی نہیں۔ خداوند تعالیٰ کو محنت پسند ہے اور وہ کسی بھی محنت کو رائیگاں جانے نہیںدیتے۔چنانچہ درس و تدریس سے وابستہ ہوتے ہی انہوں نے پی ایچ ڈی کیا۔ ان کے مقالے کا موضوع تھا ’’بچوں پر ٹیلی ویژن کے اثرات‘‘ یہ مقالہ تحقیق کے اعلیٰ معیار کی ایک مثال ہے۔ افسوس کہ مقالہ نگار نے اسے کتابی صورت میں شائع نہیںکرایا۔ اس کے باوجود انٹرنیٹ پر دستیاب ہونے کی وجہ سے اس مقالے کے بعض مندرجات کے حوالے سے مغربی مصنفین کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ شعبۂ ابلاغ عامہ کے چیئرمین رہے‘ ملائیشیا کی اسلامی یونیورسٹی کے ابلاغ عامہ کے شعبے میں درس و تدریس کا فریضہ اس خوش اسلوبی سے انجام دیا کہ ’’بہترین استاد‘‘ کا تمغہ ملا۔ انہوں نے اردو زبان میں دو قابل قدر کتابیں ’’تحقیق کے طریقے‘‘ اور ’’ابلاغ عامہ: افکار و نظریات‘‘ بھی تصنیف کی ہیں۔ ان کی ایک‘ ’’کتاب پڑھنے کا فن‘‘ زیر طبع ہے۔ جناح ویمنز یونیورسٹی اور ضیا الدین یونیورسٹی میں بھی شعبہ ہائے ابلاغ کی سربراہی کا فریضہ انجام دینے کے بعد ان دنوں اپنے ہی شعبے میں ایڈجنکٹ پروفیسر ہیں۔ ان کے مقالات اعلیٰ پائے کے تحقیقی جرائد کی زینت بن چکے ہیں۔ فکر میں اعتدال‘ جذباتیت سے گریز‘ عقل و منطق کی روشنی میں کسی مسئلے کی بابت رائے قائم کرنا ڈاکٹر زبیری کے مزاج کی یہ خوبیاں آپ کو زیر نظر انٹرویو میں بھی ملیں گی۔

ڈاکٹر زبیر یکم جولائی 1939 کو ہندوستان کے شہر شاہ جہاں پور میں پیدا ہوئے اور تحریک پاکستان کے ایک نوعمر کارکن یوں ٹھہرے کہ مسلم لیگ کے جلسوں میں نظمیں اور ترانے پڑھنے کا اعاز بھی رکھتے ہیں۔

طاہر مسعود: آپ طویل عرصے تک صحافت کے پیشے سے وابستہ رہے‘ پھر آپ نے شعبہ ابلاغ عامہ درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ اگر آپ سے دونوں پیشوں کا موازنہ کیا کرنے کے لیے کہا جائے تو آپ کیا فرمائیں گے؟

ڈاکٹر نثار احمد زبیری: ظاہر ہے کہ ابلاغ تو دونوں پیشوں میں قدرِ مشترک ہے بلکہ اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ اخبار میں بھی جب آپ کچھ لکھتے ہیں تو ابلاغ کرتے ہیں۔ درس و تدریس کے پیشے میںبھی ابلاغ کی ایک طے شدہ قسم ہے۔ یہاں آپ کو ایک نصاب کی پابندی کرنی پڑتی ہے لیکن دونوں کے اندر ابلاغ کے ذریعے ہی آپ کی بات سننے والوں اور وصول کرنے والوں تک پہنچتی ہے۔ اخبار میں آپ کا ابلاغ پورے معاشرے سے براہِ راست ہوتا ہے‘ وہاں پر آپ جو بات کہتے ہیں وہ پورے معاشرے کے اندر پہنچتی ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ سرحد کے پاس پہنچے اور ایک عرصہ دراز تک اس کا ریکارڈ رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن جامعہ کراچی میں درس و تدریس کے ذریعے آپ نوجوانوں کے ذہن تیار کرتے ہیں جو آگے چل کر معاشرے سے ابلاغ کرتے ہیں۔ یہاں ایک کڑی اور بڑھ جاتی ہے وہ یہ کہ یہاں آپ ان کے فہم میں اپنی طرف سے کوئی چیز شامل کرتے ہیں کہ جو ان کی ابلاغ کاری کے لیے آگے چل کر کام کرتی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ الگ ہے کہ درس و تدریس میں جو ابلاغ ہے جامعہ اور شہر کے حالات کی وجہ سے اس کا ابلاغ کاری میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو سب کے سب معاشرے میں ابلاغ کا فریضہ انجام نہیں دیتے۔ مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ جا کر پڑھنے لکھنے کا کام کرتے ہیں لیکن ایک اچھی خاصی بڑی تعداد ایسی ہے جو یہ کام نہیں کرتی تو وہ ایک طرح سے بڑے پیمانے پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری کوشش محدود رہ جاتی ہے لیکن جہاں تک ان کی ذہنی تیاری کا سوال ہے میں سمجھتا ہوں کہ جو ذہن ہم تیار کرتے ہیں وہ ابلاغ عامہ نہ سہی لیکن وہ معاشرے کے اندر ابلاغ بہرحال کرتے ہیں اور وہ سیاسی اور معاشرتی معاملات کو اچھی طرح سمجھنے لگتے ہیں اور ان کی ابلاغ کاری ان لوگوں کے مقابلے میں جو یہ علم نہیں پڑھتے‘ بہتر ہو جاتی ہے۔

طاہر مسعود: پیشۂ صحافت سے وابستگی کے نتیجے میں آپ وسیع پیانے پر رائے عامہ کی تربیت کا فریضہ انجام دیتے ہیں جب کہ شعبۂ صحافت میں تدریس کے ذریعے آپ محدود پیمانے پر طلبہ کے ایک محدود گروپ کی تربیت کرتے ہیں‘ آپ نے اتنی بڑی تربیت کے میدان کو چھوڑ کر ایک محدود میدان کو اختیار کرنا کیوں پسند کیا؟

ڈاکٹر نثار احمد زبیری: عام طور پر لوگ کہتے ہیں پچیس سال میں آپ کسی بھی پیشے سے ریٹائرمنٹ لے سکتے ہیں تو میں نے ’’حریت‘‘ کے زمانے سے لے کر ماہنامہ ’’رابطہ‘‘ تک چوبیس سال کام کیا ہے۔ میں نے یہ اندازہ لگایا کہ صحافت بڑی حد تک ایسی چیز ہے جو بہت مہذب معاشرے میں بہت کچھ کر سکتی ہے۔ آپ جو کچھ لکھتے ہیں ان کا اثر ان معاشروں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں صد فی فیصد تعلیم ہو‘ جہاں لوگ آپ کے لکھنے کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہوں۔ پاکستان میں یہ مرحلہ ابھی دور ہے۔ میں نے اپنے طور پر بہت ساری باتیں اپنے زمانے میں لکھیں جن کا ریکارڈ موجود ہے۔ مثلاً ساٹھ کی دہائی میں‘ میں نے یہ لکھا کہ کراچی میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سمندر کے پانی کو صاف کیا جانا چاہیے۔ میں نے بارش کے زمانے میں جب بجلی کے تار گر جاتے تھے اور حادثات ہوتے تھے۔ اس کے بارے میںلکھا کہ بجلی کے تاروں کو زیر زمین سیمنٹ کے پائپ کے اندر رکھا جائے تاکہ حادثات نہ ہوں۔ اسی طرح شہر کے اندر چلنے والی ریلوں کے بارے میں بہت سی تجاویز دیں‘ کرنسی نوٹوں کا غیر ضروری بڑا سائز ’’اخبار جہاں‘‘ کے اداریے میں توجہ دلانے کے بعد چھوٹا کیا گیا۔ غرض یہ کہ میں نے بہت سی باتیں تواتر کے ساتھ لکھیں لیکن اب میں نے دیکھا کہ ان لکھے کا کوئی اثر نہیں ہے تو پھر میں نے یہ سوچا کہ یہ طریقہ کار درست نہیں ہے یہ طریقہ درست ہوگا کہ آپ اپنے جیسے دوسرے ذہن تیار کریں جو جا کر معاشرے میں کام کریں اور اس طرح تبدیلی کا امکان شاید بڑھ جائے۔

طاہر مسعود: لیکن جس پیشے کو آپ نے اپنی زندگی کے پچیس قیمتی سال دیے اور آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں کہ آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے اور معاشرہ ویسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا تو آپ یہ طالب علم جنہیں آپ تیار کر رہے ہیں‘ یا جنہیں آپ نے تیار کیا ان کے بارے میں یہ خوش گمانی آپ کو کیسے ہے کہ ان کے لکھے کا معاشرہ پر کوئی اثر مرتب ہو جائے گا؟

ڈاکٹر نثار احمد زبیری: ظاہر ہے کہ ایک شخص کے مقابلے میں اگر زیادہ افراد ابلاغ کرنے والے ہوںگے تو اس بات کا امکان ہے کہ اثر مرتب ہوگا۔ ایک بات ایک آدمی کہتا ہے اور پھر درجن بھر لوگ اسی بات کو دہراتے ہیں اور پھر اس سے بھی زیادہ لوگ اسی بات کو کہتے ہیں تو اس میں امکان تو اپنی جگہ موجود ہے۔ ویسے یہ بڑی دور افتادہ قسم کی منطق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں لیکن مجھے اس کے سوا چارہ کار سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے اپنے طور پر یہ دیکھا کہ جن معاشروں میں رائے سازی کا کام مطبوعہ ذرائع ابلاغ بڑی عمدگی سے کرتے ہیں‘ اسی معاشرے میں جہاں تعلیم کی شرح اچھی ہے اور اخبار پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ان ملکوں کے لیے کم سے کم سو اخبار ضرور شائع ہوتے ہیں۔ یونیسکو نے یہ کم سے کم شرح مقرر کی ہے۔ مہذب ملکوں میں اس شرح سے زیادہ اخبار شائع ہوتے ہیںچنانچہ ان ملکوں میں لکھنے والوں کی بات وزن رکھتی ہے اور نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جن ملکوں میں تعلیم کم ہے‘ ان معاشروں میں اخبار پڑھنے والوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ ان میں آپ ایک بڑی شائستہ اور مہذب قسم کی رائے لکھ کر میں نہیں سمجھتا کہ اس کو بہت زیادہ ذہنوں تک پہنچایا جاسکتا ہے اور اسے رائے عامہ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے‘ چنانچہ اس انتظار میں کہ شرح تعلیم میں اضافہ ہو‘ اخبار پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو تب جا کر وہ کارآمد باتیں جو اخبار میں شائع ہوتی ہیں‘ ان کا کوئی اثر ہوگا۔ مثلاً یہ دیکھیے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا واقعہ۔ مجھے اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ جب مشرقی پاکستان کا بحران شروع ہوا اور اس زمانے کے اخبار نکال کر آپ دیکھیں تو پاکستان کا کوئی اخبار ایسا نہیں ہے جس نے یہ نہ لکھا ہو کہ اگر اس مسئلے کو عمدگی سے حل نہ کیا گیا تو کہیں یہ حصہ ٹوٹ کر علیحدہ نہ ہو جائے‘ کہیں پاکستان دو لخت نہ ہو جائے۔ یعنی پاکستان کے دو لخت ہونے سے ڈیڑھ دو سال پہلے اخبارات نے بہ حیثیت مجموعی یہ آواز بلند کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور اس مسئلے کو خراب کیا گیا اور پالیسی بنانے والوں پر اخبارات کے لکھے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں اخبارات و رسائل نے مشرقی پاکستان کے بحران کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا۔ ایک چوٹی کے صحافی نے یہاں تک لکھا کہ مشرقی پاکستان سے محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘ اسی طرح بعض اخبارات نے جنرل نیازی کو ہیرو بنا کر پیش کیا۔

ڈاکٹر نثار احمد زبیری: بالکل ٹھیک ہے‘ اس طرح سے بھی لکھا گیا لیکن اخبارات کی مجموعی رائے وہی تھی کہ مشرقی پاکستان کے مسئلے پر توجہ کی ضرورت ہے اور اس معاملے کو خوش اسلوبی سے نمٹایا جانا چاہیے اگر اس وقت اخبارات کی رائے کے مطابق پالیسی تبدیل کر دی جاتی تو شاید ملک کا ایک الگ ہونے سے بچ جاتا۔

طاہر مسعود: وہ کون سے معاشرے ہیں جہاں اخبارات کی رائے کو قبول کیا جاتا ہے اور کن معاشروں میں اخبارات کی رائے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے؟

ڈاکٹر نثار احمد زبیری: اس کے بارے میں‘ میں نے ابھی عرض کیا کہ جن معاشروں میں شرح تعلیم زیادہ ہوتی ہے وہاں اخبارات کا اثر زیادہ ہوتا ہے‘ شرح تعلیم زیادہ ہونے کی وجہ سے اخبارات زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ زیادہ گردش کرتے ہیں۔ شرح تعلیم ایک خام قسم کا مظہر ہے۔ دوسرے اور مظاہر ہیں مثلاً ان میں اخبار خریدنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ اخبارات میں جن مسائل پر لکھا جاتا ہے ان مسائل کو سمجھنے کی اہلیت ہونی چاہیے۔ فوری طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اخبار جو کچھ لکھتا ہے اس کا فوری اثر ہوگا جیسا کہ نظریات ابلاغ میں طلسمی گولی کے نظریے میں بیان کیا گیا ہے لیکن شرح تعلیم سے اس کا آغاز ہو سکتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ایسے تمام ممالک جن میں شرح تعلیم زیادہ ہے‘ وہاں اخباروں کی اثر انگیزی زیادہ ہے۔ بہت ہی کم مثالیں ایسی ہیں جہاں شرح تعلیم زیادہ ہونے کے باوجود اثر انگیزی کم ہے۔ رائے سازی کا عمل براہِ راست منسلک ہے‘ شرح تعلیم سے۔ ہمارے ملک میں چونکہ اخبارات پڑھنے والوں کی تعداد بڑھی نہیں ہے بلکہ یہ تیزی سے کم ہوئی ہے اور اب اس میں بڑی تیز رفتاری سے کمی آرہی ہے کہ لوگ کمپیوٹر پر اخبار پڑھ لیتے ہیں اور کچھ کیبل اور سیٹلائٹ کی وجہ سے خبریں اختصار کے ساتھ حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جیسا کہ ٹیلی ویژن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شیلو نیوز (سرسری خبر) کا ذریعہ ہے تو لوگ ادھر متوجہ ہو رہے ہیں اور اخباروں کی سرکولیشن تو ٹھہری ہوئی ہے یا پیچھے جا رہی ہے۔ یہ عمل ہمارے ہاںدور ہے اور دور سے دور تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس بات کے پیش نظر میں نے سوچا کہ اخبار نویسی کا جو براہِ راست طریقہ ہے اسے چھوڑ دیا جائے اور ایک بالواسطہ طریقہ اختیار کیا جائے۔

طاہر مسعود: ایسے ماحول میں جہاں اخبارات کی آرا کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جاتی ہو جیسا کہ ہمارا معاشرہ ہے تو ان معاشروں میں اخبارات کا کیا کردار رہ جاتا ہے؟

ڈاکٹر نثار احمد زبیری: یہ میں ضرور کہوں گا کہ یہ درست نہیں کہ کوئی صورت حال ہمت شکن ہو تو آپ اسے ترک کر دیں۔ اگر اخبار رائے سازی میں اپنا بنیادی فریضہ بدرجہ اتم ادا نہیں کر پا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اخبار بند کر دیے جائیں۔ اخبار تفصیلی ابلاغ کا ذریعہ ہیں جو برقی ذرائع ابلاغ نہیں ہیں۔ تفصیلی ابلاغ ہمیشہ اخبار یا جرائد کے ذریعے ہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ معاشرے میں ان کے انجذاب کی کیفیت پیدا کی جائے۔ اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ یہ میں اپنے طور پر ضرور کہنا چاہوں گا کہ لوگ اس بات کا رونا روتے ہیں کہ لوگ اخبار خریدتے نہیں ہیں اور پڑھتے نہیں ہیں لیکن میرا اپنا خیال ہے کہ اخبار کی سرکولیشن کو بڑھانے کے جتنے ذرائع ہو سکتے ہیں ہمارے اخبارات ان کو اختیار نہیں کر رہے ہیں۔ بعض اخباروں میں یہاں تک کیفیت پیدا ہو گئی ہے کہ سرکولیشن نہ بڑھنے سے ان کو فائدہ ہوتا ہے۔ یعنی جتنا کم اخبار وہ شائع کریں گے اتنا کم کاغذ اور طباعت کے اخراجات ہوں گے لہٰذا اس کو اشتہار ملتے رہیں تو سرکولیشن بھلے کم ہی رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اخبار کا یہ کام ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مشتملات کو اچھا بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنی سرکولیشن کو بہتر بنانے کی بھی جدوجہد کرنی چاہیے اور اس جدوجہد کی بیرونی دنیا میں مثالیں موجود ہیں مثلاً جب بن ہیرس نے پہلا ماس سرکولیشن کا اخبار ’’نیو یارک سن‘‘ نکالا تھا تو اس کی چھ مہینے کے اندر سرکولیشن بہت بڑھ گئی تھی اور یہ کہا جانے لگا کہ یہ وہ اخبار ہے جو ہر فرد تک پہنچ رہا ہے۔ اس نے یہ کیا تھا کہ اخبار کے مشتملات کی حدود کو توڑ دیا تھا اور ہر طرح کی خبر کو اخبار میں شائع کرنا شروع کر دیا تھا اور اس میں یہ تمام خبریں شامل تھیں جس میں آدمی کی دل چسپی ہو سکتی تھی مثلاً کھیلوں کی خبریں‘ شادیوں کی خبریں‘ مشہور لوگوں کی مصروفیات وغیرہ۔ تو چھ مہینے میں اس اخبار کی سرکولیشن اتنی ہوگئی کہ اسے دنیا کا پہلا ماس سرکولیشن کا اخبار تسلیم کیا گیا۔ اس طرح کی کوشش اخبار اپنے مشتملات کے ذریعے کرتا ہے۔ ہمارے اخباروں کے مشتملات غیر دل چسپ ہیں۔ انہیں دل چسپ بنانے کی ایسی کوشش کی جاسکتی ہے کہ اس میں انسانی دل چسپی کے پہلو شامل کیے جائیں اور اگر آپ ان اخباروں کا جائزہ لیں جو ہمارے بڑے اخبار ہیں تو اس میں عام دل چسپی کا مواد (عام دل چسپی سے مراد یہ ہے کہ اسے برائے نام تعلیم یافتہ آدمی پڑھ کر اس جانب متوجہ ہو سکتا ہے۔) نہیں ہوتا۔

طاہر مسعود: آپ کے خیال میں ہمارے بڑے اخبارات دل چسپ مواد کی پیش کش کی طرف توجہ کیوں نہیں کرتے؟

ڈاکٹر نثار احمد زبیری: میرے خیال میں اس کی وجہ ایک غلط Perception ہے۔ یہ Perception یہ ہے کہ سرکولیشن ہاکروں کا نیٹ ورک بڑھانے اور ان پر توجہ دینے سے بڑھتی ہے اور ہر جگہ اس کے سیل ڈپو بنانے اور ہاکروں کو زیادہ کمیشن دینے سے بڑھتی ہے۔ میں اس Perception میں کوئی برائی نہیں دیکھتا لیکن اس Perception میں دوسری چیزیں بھی شامل کی جانی چاہئیں اور وہ یہ کہ انسانی دل چسپی کے عنصر کو اخبارات میں زیادہ تعداد میں شامل کیا جائے اور اس کی دنیا میں بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں مثلاً انگلستان میں پاپولر پریس میں انسانی دل چسپی کی خبریں سیاسی خبروں کے مقابلے میں زیادہ چھپتی ہیں اور ان کی سرکولیشن پچاس‘ پچاس لاکھ ہے۔ اگر انسانی دل چسپی کا مواد زیادہ ہو تو یہ تجربہ ضرور کیا جانا چاہیے کہ اخباروں کی سرکولیشن بڑھانے کے لیے اخباروں کے نیٹ ورک کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی صورت گری میں تبدیلی کی جائے اور جو کم دل چسپی کی خبریں ہیں ان کا تناسب کم کیا جائے اور ان خبروں کا تناسب زیادہ کیا جائے جس میں ایک آٹھویں جماعت پاس آدمی زیادہ دل چسپی لے سکتا ہے۔

طاہر مسعود: اس کی وجہ کیا یہ نہیں ہے کہ ہمارے اخبارات اور مالکان اخبارات کی کمٹ منٹ اپنی سوسائٹی سے مضبوط نہیں ہے۔ معاشرے کے دکھ سکھ ان کو اپنے دکھ سکھ محسوس نہیں ہوتے‘ معاشرے کے مسائل اور محرومیوں پر ان کا دل نہ دکھتا ہے نہ کڑھتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یقینا وہ اپنے رپورٹروں کو اپنے معاشرے کے ان مسائل کی کوریج کے لیے مستند اور چاق و چوبند کرتے؟

ڈاکٹر نثار احمد زبیری: یہ یقینا بڑا سنگین الزام ہے۔ میں اس کو اتنی سنگینی کے ساتھ قبول نہیں کرتا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مالکان اخبارات کو اپنے Perception میں وسعت پیدا کرنی چاہیے۔ نسبتاً بڑے اخبارات تو چاہتے ہی نہیں ہیں کہ ان کی سرکولیشن زیادہ ہو لیکن وہ اخبارات جو سرکولیشن بڑھانا چاہتے ہیں وہ صرف ان باتوں پر توجہ دیتے ہیں کہ جو اخبارات کی فروخت سے متعلق ہیں۔ اس کے مشتملات کو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ پہلے ہی بہت بہتر ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ Perception میں خرابی اور خامی ہے اس کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بعض اردو اخبارات کی شکل صورت برسہا برس سے ایک جیسی ہے جب کہ دنیا کے جرائد میں تزئین و آرائش (Format) اور لے آئوٹ کچھ عرصے کے بعد تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

طاہر مسعود: پاکستان جو بے حد غریب ملک ہے جہاں شرح خواندگی بھی بے حد کم ہے‘ غربت بھی بے انتہا ہے‘ معاشرے کی اخلاقی‘ سیاسی اور اقتصادی حالت بھی دگرگوں ہے ایسے معاشرے میں اخبارات کا جو کردار ہونا چاہیے‘ کیا یہ کردار ہمارے اخبارات ادا کر رہے ہیں؟

ڈاکٹر نثار احمد زبیری: میرے خیال میں یہ کردار اخبارات ایک حد تک ادا کر رہے ہیں۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اخباروں نے اپنے اس کردار کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ اخبار کے اگر روزانہ کے مشتملات پر آپ نظر ڈالیں تو اس میں ہر طرح کی خبریں شائع ہوتی ہیں‘ اداریے شائع ہوتے ہیں‘ کالموں اور خطوط میں مختلف ذرائع سے ایسی باتیں کی جاتی ہیں جو معاشرے کے لیے اچھی ہیں۔ جن کی اچھی خاصی تکرار ہوتی ہے۔ لیکن یہ یہ کچھ پہلو ایسے ہیں جن میں ہمارے اخبارات ڈنڈی مار جاتے ہیں مثال کے طور پر میں نے دیکھا ہے کہ اگر کوئی بس ڈرائیور کسی راہ گیر کو کچل دے تو صرف اس بس کا نمبر دے دیا جاتا ہے حالانکہ اس بس ڈرائیور کی تصویر شائع کی جانی چاہیے۔ اگر وہ بھاگ گیا ہے تو اس کی تصویر کہیں نہ کہیں ہوگی۔ بس کمیٹی کے پاس یا کسی اور جگہ مطلب یہ کہ اس تفصیل سے اس خبر کو شائع نہیں کیا جاتا‘ تفصیل سے اسے شائع کرنا چاہیے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آدمی ایک جعلی لائسنس لے کر ایک دوسری بس چلا رہا ہوتا ہے۔ اس کی جو مکمل نشان دہی ہونی چاہیے وہ نہیں ہو پاتی۔ اس طرح کی خبریں آپ روزانہ دیکھیں گے خاص طور پر یہ وہ خبریں ہوتی ہیںجن کی بہت اہمیت ہوتی ہے لیکن اس میں اس شخص پر معاشرے اور قانون کا جو فوکس ہونا چاہیے اور اسے پکڑے جانے کا جو انتظام ہونا چاہیے‘ نہیں ہوتا۔ یہ باتیں مغربی ملکوںکے اخبارات میں دیکھنے میں نہیں آتیں۔ ایک اخبار میں خبر چھپی ہے کہ مارگریٹ تھیچر کو لانے میں جس سیاست دان کا کردار ہے جو ہائوس آف لارڈ کر ممبر بھی ہے اور مشہور ناول نگا رہے ایک مقدمے میں جج نے اسے چار سال کی سزا دی ہے‘ اس کی تصویر اور تمام تفصیلات چھپی ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاںبہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کی تفصیل اخبار میں شائع ہو جو بہت بڑے جرائم کرنے والے ہوتے ہیں‘ ان کے جرائم کی تفصیل اس وقت شائع ہوتی ہے جب ان کی حکومت چلی جاتی ہے اور جب تک یہ حکومت میں رہتے ہیں اس سے گریز کیا جاتا ہے اور جب یہ چلے جاتے ہیںتو ان کے جرائم کو بے نقاب کیا جاتا ہے جو نسبتاً کم اہمیت والے جرائم پیشہ عناصر ہوتے ہیں ان کی مکمل نشان دہی ہمارے اخبارات مشکل ہی سے کرتے ہیں۔ (جاری ہے)

حصہ