یوم دفاع پاکستان

468

6 ستمبر یعنی یوم دفاع پاکستان کا جب بھی ذکرآتا ہے تو مجھے بھی ہمیشہ اپنے ایک مجاہد کی حیثیت سے 1965ء میں پاک فوج کے ساتھ گزارے ہوئے زندگی کے ڈھائی ماہ کے ایام یاد آ جاتے ہیں۔

میں کراچی میں گورنمنٹ بوائز اسکولوں میں شہر کے سب سے پہلے اسکول جیکب لائنز میں میٹرک کا طالب علم تھا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ چند لڑکوں کو جونیئر بریگیڈ میں شامل رہنے کا بھی شوق تھا۔ غالباً جولائی 1965ء کی بات ہے جب کراچی میں پاک فوج نے مجاہد فورس کے لیے بھرتی شروع کی۔ میرے اسکول کے لڑکوں میں میرے علاوہ اعجاز میر، شفاعت، محمد جاوید اور ایک لڑکا اور تھا۔ ہم سب کو بھی شوق ہوا اور ہم بھی اپنے شوق کی تکمیل کے لیے بھرتی مرکز پہنچ گئے۔

ہم نے وہاں کہا کہ ہم بھی فوجی تربیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ فوج کے لیفٹیننٹ نے کہا کہ تم نے اپنی عمر دیکھی ہے؟ اس پر ہم نے جواباً کہا کہ سر آپ ہمیں بھی ضروری تربیت دیں، ہم بھی ان شا اللہ دیگر سپاہیوں کی طرح جب بھی ضرورت پڑی اپنی فوج کے شانہ بشانہ ہوںگے۔

غالباً ہمارے تحت الشعور میں مسلمانوں کے عالی شان دور کے بے نظیر واقعات کا عکس ہوگا۔ وہ واقعات کہ جن میں ایک جانب بھاری اسلحے سے لیس کفار کے سپاہی جن کے ہاتھوں میں ایسی تلواریں کہ جن کی چمک نظر کو خیرہ کردے اور دوسری جانب دولتِ ایمانی سے مالا مال مسلمانوں کا لشکر، اللہ کریم کی راہ میں جان دینے کے لیے تیار، جامِ شہادت نوش کرنے کی طلب رکھنے والے جری سپاہی اور نوجوانوں کے جذبے بھی تھے۔

لیفٹیننٹ نے ہم پانچوں طلبہ کا حوصلہ دیکھا تو ہمیں بھی ایمرجنسی تربیت میں شامل کرلیا۔ تربیت کا یہ سلسلہ ماری پور میں جاری و ساری تھا۔ اس تربیت میں پریڈ اور تنظیم کے ساتھ ابتدائی نوعیت کی تمام گن شوٹنگ، بینٹ فائٹنگ، گرینیڈ فائٹنگ اور کرالنگ وغیرہ سکھائی گئی۔ بہرحال یہ سلسلہ تقریباً اگست کے وسط تک چلتا رہا۔ حقیقتاً ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے البتہ اگست کے شروع میں ہمیں قدرے اندازہ ہوگیا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کچھ سنجیدہ گڑبڑ ہے اور آہستہ آہستہ مزید یہ بھی معلوم ہو چلا تھا کہ سرحد پر رَن کچھ نامی کوئی جگہ ہے جہاں تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے اور کسی وقت بھی کوئی بڑا واقعہ ہو سکتا ہے ۔

اسی دوران ہمیں خبروں سے معلوم ہوا کہ آپریشن جبرالٹر مزید کشیدگی کا باعث بنا۔ جس کا پس منظر یہ معلوم ہوا تھا کہ ہندوستانی فوج کی جانب سے مقبرہ حضرت بل کی بے حرمتی نے کشمیری مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پیدا کیا ہوا تھا۔ وادی ٔ کشمیر کی حیثیت سے متعلق ہندوستانی پارلیمان میں پیش ہونے والے قانون کی وجہ سے بھی کشمیری مسلمانوں میں شدید اضطراب تھا اور وہ آزادی کے لیے مستعد نظر آتے تھے۔ کشمیر کی یہ وہ صورت حال تھی جس کی موجودگی میں آپریشن جبرالٹر کے نتائج خاصے خطرناک نکلے۔

ستمبر 1965ء میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ شروع ہو گئی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ستمبر کی 7 تاریخ کو ہمیں فوج کی طرف سے اسکول میں پیغام ملا کہ بندر روڈ (جناح روڈ ) پر بتائے گئے ایک میدان میں سب جمع ہو جائیں۔

یہاں بہت ہی قابل ذکر اور یادگار بات یہ بتاتا چلوں کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں مجاہد بننے کا حوصلہ اور شوق کراچی کے تعلیمی اداروں بشمول یونیورسٹی، کالجوں اور اسکولوں میں صرف اور صرف گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول جیکب لائنز تھا کہ جس کے طلبہ اس مجاہد فورس میں شریک تھے۔ باقی شہر سے دیگر لوگ بھی تھے اور اس طرح غالباً 40 کے قریب مجاہد فورس میں شامل ہوں گے۔ (اچھا تو نہیں لگ رہا پر ہمت کر کے لکھ رہوں کہ بہادری کے قصہ پڑھنا اور بہادری پر بڑے بڑے مضامین لکھ لینا تو آسان ہے لیکن جب جان دینے کی با ت آ جائے تو عملی طور پر میدان میں اترنے کا حوصلہ کرنا نہایت دشوار ہوجاتا ہے۔ اس وقت کراچی کی آبادی تقریباً 50 لاکھ ہوگی اور ان میں سے صرف 40 افراد کا ملک و قوم پر نچھاور ہوجانے کا عزم سوالیہ نشان ضرور بنتا ہے۔)

فوج کی جانب سے ریڈیو کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ شروع ہو چکی ہے بعدازاں فوج کی جانب سے ہمارے اسکول میں اطلاع دی گی کہ رجسٹرڈ مجاہدین اپنے اپنے گھر اطلاع دے کر دو گھنٹے کے اندر بتائے گئے گراؤنڈ میں جمع ہو جائیں۔

جنگ کی اطلاع تو ہمیں صدر پاکستان ایوب خان کی 6 ستمبر کی ولولہ انگیز تاریخی تقریر سے مل ہی چکی تھی۔ ہماری عمر کم تھی اس کے باوجود جذبہ و جوش دیدنی تھا۔ ہم پاکستان کے لیے جذبۂ شہادت سے سرشار فوراً گھر آئے، والد گھر پر نہیں تھے۔ ایک کاغذ کے ٹکڑے پر والد صاحب کے نام چٹھی چھوڑ کر واپس بتائے گئے گراونڈ پہنچ گئے ۔ خط میں ’’آگاہ‘‘ کر دیا کہ پاکستان اور ہندوستان میں جنگ شروع ہو چکی ہے۔ ہمیں پاک فوج نے بلا لیا ہے اور میں نامعلوم جگہ جا رہا ہوں۔

ہمارے اس خط نے ہمارے والد اور خصوصاً والدہ پر کیا اثرات مرتب کیے ہوں گے، اس کے بارے میں اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل قدرے طویل ہیں لیکن یہ بتاتا چلوں کہ ہمیں جان سے زیادہ حفاظت کرنے کی شرط پر بندوقیں اور گولیاں سپرد کردی گئی تھیں۔ فوج کی معاونت اور کراچی کے نہایت ہی حساس علاقوں کی حفاظت بھی مجاہد فورس کا ذمہ قرار دے دی گئی تھی۔یہ وہ علاقے تھے جو کسی بھی دشمن کے عمومی اہداف ہوا کرتے ہیں۔ گویا اس طرح ہماری زندگی خطرات میں گھری رہتی تھی۔

کراچی میں رہنے کے باوجود ہمارے گھر والے ہمارے بارے میں لاعلم تھے۔ تقریباً ایک ماہ کے بعد گھر جانے کی اجازت مل سکی وہ بھی چند گھنٹوں کے لیے۔

جنگ بندی کے بعد بھی ہم فوج کی نگرانی اور اس کے ساتھ رہے۔ مجموعی طور پر ڈھائی ماہ بعد ہم چند مجاہدوں کو فوج نے کم عمری کا نوٹس لیتے ہوئے فوجی سرٹیفکیٹ کے ساتھ رخصت کردیا۔ اس فوجی مجاہد کیمپ میں ہمیں صرف ایک ریڈیو مہیا کیا گیا تھا۔ اس پر ہم تازہ خبروں سے باخبر رہتے اور عزم و حوصلہ بڑھانے والے قومی گیتوں سے اپنے جذباتوں کو گرمایا کرتے تھے۔

ستمبر 1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران میں سمجھتا ہوں کہ ریڈیو پاکستان کا کردار بہت ہی اہم رہا خصوصاً ان کا خبروں کا شعبہ اور ان سے منسلک نیوز ریڈر شکیل احمد نے زمانۂ جنگ میں جس انداز میں خبریں پڑھیں وہ ہمیشہ یادگار رہیں گی۔ میرے کانوں میں ان کی آواز اور خبروں کا خصوصی انداز ابھی تک گونجتا ہے۔ جنگ کے دوران اور جنگ بندی تک ہم لوگ خصوصاً خبروں کے وقت کوشش کرتے کہ ریڈیو کے پاس ہی رہیں کہ شکیل احمد کی آواز میں تازہ صورت حال سنیں گے۔ جنگ کے دوران وقفے وقفے سے جنگ سے متعلق گیت بھی نشر ہوتے رہتے تھے ان میں یہ گیت بڑے پسندیدہ تھے خاص طور پر روزانہ رات 10 بجے عالم لوہار کا ستمبر 1965ء کے حوالے سے یادگار نغمہ ریڈیو پاکستان کراچی سے فضاؤں کی نذر کیا جاتا تھا، جس کے بول تھے :

اج ہندیاں جنگ دی گل چھیڑی
اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی
مہاراج ایہہ کھیڈ تلوار دی ایہہ
جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی

اس لاثانی نغمے کے شاعر ڈاکٹر رشید انور تھے۔ اس نغمے کا ایک مصرع ’’جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی‘‘ تو اتنا زباں زدعام ہوا کہ آج بھی ضرب المثل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دلوں کو گرما دینے والے لاتعداد ترانے تھے جو آج بھی سماعتوں سے ٹکراتے ہیں تو اسی جذبہ حب الوطنی کو بیدار کردیتے ہیں جو کم سنی میں خون کی طرح ہماری رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ ایسے ہی کچھ ترانوں میں یہ ترانہ بھی شامل تھا:

اللہ کی رحمت کا سایہ، توحید کا پرچم لہرایا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہادت ہے آیا
ایک اور ترانے کے بول تھے :
اے دشمنِ دیں تو نے
کس قوم کو للکارا ہے
لے ہم بھی ہیں صف آرا
٭٭٭
ساتھیو! مجاہدو!
جاگ اٹھا ہے سارا وطن
ساتھیو! مجاہدو!
٭٭٭
اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
٭٭٭
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
توں لبنی پھریں بزار کڑے
ایہہ دین وے میرے داتا دی
نہ ایویں ٹکراں مار کڑے
٭٭٭
لائی ہوں میں تمہارے لیے پیار کا پیام
اے پھول سے مجاہدو تم کو مرا سلام
٭٭٭
اے وطن کے سجیلے جوانو
میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
٭٭٭
اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

یہ چند ایک نغمے ہیں، ایسے خون گرما دینے والے بے شمار ترانے اور بھی ہیں۔

پاک فوج کی زیر نگرانی حفاظت وطن میں گزرے وہ چند روز میری زندگی کا انمول اثاثہ ہیں۔ ان ایام کا ایک ایک لمحہ مجھے آج بھی ازبر ہے۔ میں وہ باتیں، وہ یادیں لکھنے بیٹھوں تو دفاتر قرطاس رقم کردوں۔ یہاں اپنی تحریر یہ کہہ کر ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے نیز میری سعی اور میرے والدین کا ان دنوں اپنے بیٹے کے لیے صبر والے لمحات کو قبول فرمائے‘ آمین۔

حصہ