صبح نو

211

کھڑکی کے بلائنڈز ہٹا کر رمیز نے باہر جھانکا۔ سفید روئی کے گالے جیسے اولے اب بھی تواتر سے برستے ہوئے زمین پر برف کی تہہ میں مزید دو انچ کا اضافہ کرچکے تھے۔ وہی نظارہ جسے چند دن پہلے نظریں حسین ترین منظر قرار دے رہی تھیں، آج کوفت کا باعث بن رہا تھا۔ اسے سگریٹ کی طلب نے بے چین کیا ہوا تھا۔ رمیز نے کمرہ شیئر کرنے والے دونوں سوئے ہوئے غیر ملکیوں کی جانب دیکھا، جن کی موجودگی میں سگریٹ سلگانا ممکن نہ تھا، جب کہ باہر یخ بستہ ہواؤں کا راج تھا۔ بے بسی کے عالم میں وہ بستر پر لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔

صبح اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا، گہرے بادلوں نے سورج کی کرنوں کو قید کررکھا تھا، البتہ برف باری تھم چکی تھی۔ رمیز اوور کوٹ اپنے گرد اچھی طرح لپیٹے باہر نکل گیا۔

آنکھوں میں روشن مستقبل کے حسین خواب سجائے وہ کچھ دن پہلے ہی وزٹ ویزے پر پاکستان سے یہاں پہنچا تھا۔ آج تقریباً ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا لیکن اب تک مناسب ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ اسی پریشانی کے عالم میں وہ سڑک پار کرتے ہوئے ایک گاڑی کی زد میں آتے آتے بچا۔

’’او یو فول‘‘ ڈرائیور غصے اور حقارت سے اسے نازیبا القابات سے نوازتا آگے نکل گیا۔

ہتک عزت کے احساس سے رمیز کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ سر جھکائے وہ خاموشی سے آگے بڑھ کر ایک چھوٹی سی کافی شاپ میں داخل ہوگیا۔ اس نے حساب لگایا، پاکستان سے لائی گئی رقم سے بہ مشکل مزید دو دن کا گزارا ہوسکتا تھا، اسے لازماً جلد ہی کسی بھی طرح کی نوکری تلاش کرنی تھی۔

سگریٹ کا آخری کش لگاتے ہوئے اس نے سوچا اور عادتاً اَدھ جلے سگریٹ کا ٹکڑا نیچے فرش پر پھینک کر جوتے سے مسلا۔ برابر میز پر بیٹھے شخص نے عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے ایش ٹرے اس کے آگے کھسکائی تو وہ ایک بار پھر شرمندہ ہوگیا۔ بل ادا کرکے اس نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ آج جمعہ تھا، اس کے اندازے کے مطابق نماز میں ابھی دو، ڈھائی گھنٹے باقی تھے۔ رمیز نماز کا تو ایسا پابند نہ تھا، لیکن جمعہ کی نماز کے لیے وہ اذان سنتے ہی مسجد روانہ ہوجاتا۔

گوگل میپ پر قریب ترین مسجد بھی کم از کم دو گھنٹے کی مسافت ظاہر کررہی تھی۔ ریسٹورنٹ سے باہر نکلتے ہی ہلکی برف باری شروع ہوچکی تھی لیکن کافی سے ملنے والی حرارت نے تھوڑی ہمت پیدا کردی تھی۔

رمیز نے ایک دو جگہ اور ملازمت کے لیے قست آزمائی کی لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اندر کی اداسی اور باہر کے موسم، دونوں نے ہی شدت اختیار کرلی تھی۔ یخ بستہ ہوائیں جسم کو چیرتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ مجبوراً مسجد جانے کا ارادہ ترک کرکے اس نے واپس فلیٹ کی طرف رخ کیا۔ اندر داخل ہوتے ہی بھوک کے احساس پر اماں کے ہاتھ کی بریانی شدت سے یاد آرہی تھی۔ یہاں تو حلال کے لالے ہی پڑے رہتے۔ ناچار انڈے اور ڈبل روٹی پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔

بہت دیر تک وہ ملازمت کے اشتہارات دیکھ کر دوسرے دن کا پلان بناتا رہا۔ اسے کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرنی ہی پڑے گی۔ رنج اس بات کا تھا کہ اپنے ملک میں ایسی بے شمار نوکریاں اس کی شان کے خلاف تھیں۔ ابا نے کئی جگہ اس کے لیے بات بھی کی، پَر اس کی آنکھوں میں بسے اونچے اونچے خوابوں کی تعبیر وہاں ممکن نہ تھی۔ منتشر خیالات نے اسے رات بھر بے چین رکھا۔

رات کسی پہر دروازہ زور زور سے پیٹنے کی آواز پر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ دروازہ کھولنے پر دو سارجنٹ اندر داخل ہوئے۔ کمرے کی تلاشی لینے پر الماری سے کچھ مشتبہ پیکٹ نکلے جن میں سے چرس برآمد ہوئی۔کمرے میں رہائش پذیر دونوں غیر ملکیوں سمیت رمیز کو بھی حراست میں لے کر تھانے لے جایا گیا جہاں انہیں سیل میں بند کردیا گیا۔ رمیز اس اچانک افتاد پر بدحواس ہوگیا تھا۔

سلاخوں کے پیچھے رمیز سر پکڑے اُس دن کو کوس رہا تھا جب اپنے پیارے وطن پاکستان کو چھوڑ کر بہتر مستقبل کے لیے یہاں آیا تھا۔ پردیس میں تو کوئی بھی اپنا نہ تھا جو اس کی ضمانت کراتا۔ بس ایک اللہ ہی کا سہارا تھا۔ اس قید نے اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ ایک آزاد ملک کا باسی ہونے کے باوجود اس نے یہاں آکر بہ خوشی دوسروں کی غلامی قبول کی تھی۔ ایک دن کی قید نے اسے آزادی کے مطلب سے روشناس کرا دیا تھا۔ اس نے صدقِ دل سے عزم کیا کہ اپنے وطن لوٹ کر اس کی تعمیر وترقی کے لیے کمربستہ ہوگا۔

رمیز کے خلاف ثبوت نہ ملنے پر اسے رہا کردیا گیا۔ وہ باہر نکلا تو اس پر پڑتی سورج کی نرم گرم کرنوں نے کالے بادلوں کی قید سے آزادی کا مژدہ سنایا۔

حصہ