ننھے جاسوس۔ کان کن چوہے

348

جہاں انھیں لے جایا گیا وہ عمارت ان کے لیے اجنبی تھی۔ وین باہر سے تو بے شک ایسی دکھائی دیتی تھی جیسے اس میں کھڑکیاں بھی ہوں اور ان میں شیشے بھی چڑھے ہوئے ہوں لیکن جب وہ اس میں بیٹھے تو وین اندر سے بند اور کنٹینر نما تھی اس لیے انھیں گزر گاہوں کا اندازہ بھی نہ ہو سکا۔ ان کو ایک کشادہ کمرے میں لایا گیا۔ اس کمرے میں ایک بڑا سارا اسکرین تھا۔ تھوڑی دیر میں اسکرین روشن ہو گیا۔ اس میں وہ دو افراد جنھیں پکڑا گیا تھا وہ دکھائی دے رہے تھے۔ انسپکٹر حیدر علی اور کیپٹن بھی نظر آ رہے تھے۔ جمال اور کمال نے کیپٹن کو پہلے نہیں دکھا تھا۔ ایک تیسرا فرد بھی تھا اور وہ وہی تھا جس کو دیکھ کر جمال اور کمال چونک سے گئے تھے۔ یہ سارا منظر صرف دو تین منٹ تک دکھانے کے بعد اسکرین تاریک کر دیا گیا۔ کمرے کی روشنی جو کافی مدھم کردی گئی تھی، بڑھادی گئی۔ اسی اثنا میں کمرے کا ایک اور اندرونی دروازہ کھلا اور جو افسر کیپٹن کی وردی میں تھا وہ اندر داخل ہوا، اس کے ساتھ حیدر علی اور تین اور اہل کار بھی تھے۔ قریب آکر کیپٹن نے جمال اور کمال سے سوالیہ انداز میں پوچھا، “کچھ سمجھ میں آیا”۔ دونوں نے بیک وقت کہا، یس سر۔ مقصد پہچان کروانا تھا۔ بہت خوب، کیپٹن نے جواب دیا۔ کیا ان دونوں کو جانتے ہو؟، نہیں سر۔ دونوں کو ہم پہلی پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں۔ پھر کیپٹن کے کانوں کے قریب منہ لے جاکر جمال نے کیپٹن سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ تین اور افراد موجود ہیں، آپ ان پر کتنا بھروسہ کرتے ہیں۔ کیا مطلب؟، کیپٹن نے حیران گی سے پوچھا۔ ہمیں جواب چاہیے کیونکہ وقت شاید بہت ہی کم رہ گیا ہے۔ دونوں نے محسوس کیا جیسے کیپٹن کسی چٹان کی طرح مضبوط ہو گیا ہو۔ ’’مرجائیں گے مگر ملک و قوم سے غداری نہیں کریں گے، کہو کیا کہنا چاہتے ہو‘‘۔ یہ بات ہے تو پھر ایک لمحہ گزارے بغیر ہال میں موجود آپ کا ایک اور اہل کار جو موجود تھا اسے فوراً اس طرح گرفتا کریں کہ اس کی آواز تک منہ سے نہ نکل سکے۔ اس کے لباس کا ایک ایک تار تک اتار کر دوسرا لباس زیبِ تن کروائیں اور لباس کو کسی ڈارک روم میں بن کر دیں۔ جیسے کوئی بجلی سی کوند جاتی ہے، کمرے میں کیپٹن کے ساتھ آنے والے تین اہل کار اشارہ پاتے ہی کمرے سے باہر جا چکے تھے لیکن کیپٹن بہت غور سے جمال اور کمال کا جائزہ لے رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد وہ جیسے بدلی ہوئی آواز میں بولا، “یقین مانو! اب تک ساری کروائی ٹھیک تم دونوں کی ہدایت کے مطابق ہو چکی ہوگی لیکن یاد رکھو اگر ایسا سب کچھ صرف کسی کمزور سے شک پر کیا گیا ہوگا تو میں یا تم دونوں شاید اپنی اپنی زندگیاں بھی گنوا بیٹھیں اس لیے کہ جو کارروائی بھی میں نے کی ہے وہ اپنی ذاتی ذمے داری پر کی ہے کیونکہ ہمارے پاس بقول تم دونوں، “وقت شاید تھا ہی نہیں”۔

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ وہی تینوں اہلکار جو بجلی کی سی سرعت کے ساتھ حکم بجالانے کے لیے گئے تھے انھوں نے کیپٹن کو آگاہ کیا کہ سر ہر کام ہدایت کے مطابق ہو چکا ہے۔ سر! باہر کچھ مشکوک افراد دیکھے گئے ہیں جن پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے اور ایک خبر ابھی ابھی موصول ہوئی ہے کہ ملک جہانگیر کی حویلی کی مشرقی دیوار کا تقریباً 10 فٹ کا حصہ دھماکے کے ساتھ ہی منہدم ہو گیا ہے اور دھماکے والی جگہ سے بارود کی بو محسوس کی جا سکتی ہے۔

ملک جہانگیر کی حویلی کی دیوار کے منہدم ہوجانے کی خبر نے کیپٹن اور حیدر علی کو چونکا کر رکھ دیا۔ رقم تو اس کی ہدایت کے مطابق کیپسول نما کیسوں میں رکھ کر بھیج دی گئی تھی تو کیا جعلی نوٹوں کو پہچان لیا گیا، یہ کہتے ہوئے انسپکٹر حیدر علی اور کیپٹن دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اچانک حیدر علی اور کیپٹن نے دیکھا کہ آخری خبر سنتے ہی جمال اور اور کمال اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ سر ہم ہر معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں۔ کیونکہ ہم بہت ساری انفارمیشنز سے بے خبر ہیں لیکن پھر بھی رقم کے غائب ہو جانے اور دیوار کے دھماکے سے اڑ جانے کا شاید راز جان چکے ہیں۔ جس طرح آپ نے ہم پر اعتبار کرکے اپنے ایک اہل کار کو گرفتار کیا ہے، حیدر علی سے کہیں کہ وہ فوراً جدید ترین جیمرز کے ساتھ فوری طور پر ویسا ہی کرے جیسا ہم چاہتے ہیں، ذرا بھی دیر ہوئی تو ملک جہانگیر کی پوری حویلی خاک کا ڈھیر بھی بن سکتی ہے۔ اگر خفیہ کے محکمے نے ہماری سرگرمیوں پر نظر رکھی ہوئی تھی تو پھر یقیناً ہمارے پاس ایسی مستند خبریں ہیں جس پر ایک بڑی کارروائی کا فوری جواز بنتا ہے۔

اسی دوران ایک اور خبر نے کیپٹن اور حیدر علی کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ جمال اور کمال کو گلے لگالیں۔ جس ڈارک روم میں خفیہ کے اہل کار کے سارے کپڑے اتار کر مزید تحقیق کے لیے ڈارک روم منتقل کئے گئے تھے وہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے تھے۔ یار تم دونوں انسان ہو یا جن، حیدر علی اور کیپٹن نے تعریفی نگاہوں سے جمال اور کمال کو دیکھتے ہوئے کہا۔ سر یہ ان باتوں کا بالکل بھی وقت نہیں ہے۔ آپ جس سے بھی مدد لے سکتے ہیں فوری طور پر ہماری منصوبہ بندی کے مطابق کام شروع کریں کیونکہ ہمارے اندازے کے مطابق ہمارے پاس چند گھنٹوں سے زیادہ کا وقت نہیں۔ (جاری ہے)

حصہ