کسان کے بیٹے کی کسان گری

165

کسی گاؤں میں ایک کسان اور ایک جادوگر رہا کرتے تھے۔ ان کی آپس میں بہت دوستی تھی لیکن پھر کسی وجہ سے ان کی دوستی دشمنی میں بدل گئی اور جادوگر نے ایک حد بنا کر کسان کو دھمکی دی کہ اگر کسان یا اس کے گھر میں سے کوئی بھی اس حد سے گزر کر اس کے علاقے میں آیا تو جادوگر اس کو مار ڈالے گا۔

اتفاق سے ایک دن کسان کی بیٹی کھیلتے کھیلتے اس حد سے گزر کر جادوگر کے علاقے میں چلی گئی۔ جادوگر نے اسے قید کرلیا۔ کسان کو جب اپنی بیٹی کے اس طرف جاکر لاپتا ہوجانے کا پتا چلا تو وہ سب بہت روئے پیٹے۔ رونے کے علاوہ انہیں کوئی چارہ نظر نہیں آرہا تھا۔ کسان کا بیٹا جو خود بھی اپنی بہن کی یوں گمشدگی پر پریشان ہوگیا تھا وہ بہن کو اس ظالم جادوگر سے چھڑوانے کے لیے جادوگر کے علاقے میں چلاگیا۔ جہاں پر جادوگر نے کسان کے بیٹے کو بھی لے جاکر اس کی بہن کے ساتھ قید کردیا۔ قید میں روتی ہوئی بہن کو جہاں بھائی کو سامنے دیکھ کر حوصلہ ملا وہیں پہ بہن کو زندہ سلامت دیکھ کر بھائی کو بھی اطمینان ہوا۔ روتی ہوئی بہن کو تسلی اور دلاسے دے کر چپ کروا کے کسان کے بیٹے نے اپنے اردگرد کا جائزہ لیا۔ تو اسے پتا چلا کہ وہ ایک خالی میدان ہے جس کے چاروں طرف دیواریں بنی ہوئی ہیں اور اس میدان میں وہ دونوں بہن بھائی قید تھے۔ اس قید سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ بھی اسے نہیں ملا۔

کسان کا بیٹا چونکہ ایک بہادر اور محنت کش لڑکا تھا اسی لیے اس قید سے گھبرا کر ہاتھ پاؤں چھوڑ دینے کے بجائے وہ اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اس قید سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ترکیب سوچنے لگا۔ آخرکار اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی جس کے لیے اسے ایک ڈیڑھ دن صبر سے اس قید میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گزارنے تھے۔ جادوگر صبح کے وقت ان کے پاس آتا اور انہیں ڈرا دھمکا کے چلا جاتا۔ باقی کا وقت اپنے جادوئی محل میں بیٹھ کر جادوئی گولے میں نظر آتی ان کی کارروائی دیکھتا رہتا۔ تیسرے دن حسب معمول صبح کے ٹائم جب جادوگر ان دونوں کو ڈرانے دھمکانے آیا تو کسان کے بیٹے نے بڑی بہادری اور بےخوفی سے اس سے کہا: چاچا جادوگر مجھے پتا ہے آپ ہمیں صرف ڈرانے آتے ہیں ورنہ آپ ہمیں ماریں گے نہیں۔

میں ایک محنت کش کسان کا بیٹا ہوں اس لیے میں یوں ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتا ہوں سو یا تو ہمیں مارنے کی اپنی دھمکی پہ عمل کریں یا میرا ایک کام کریں۔

’’کون سا کام؟‘‘ دوست کے بیٹے کی بہادری اور بےخوفی دیکھ کر جادوگر چونک پڑا۔

’’میں اس میدان میں کچھ نہ کچھ کاشت کرنا چاہتا ہوں خاص طور پہ چاول۔ سو آپ مجھے کچھ سامان لادیں۔‘‘ لڑکے کی اس فرمائش پہ جادوگر نے اسے غور سے دیکھا پھر جادو سے وہیں پر کھڑے کھڑے ہی اس کا مطلوبہ سامان لاکر اس کے سامنے رکھ دیا۔ سامان سامنے دیکھ کر لڑکے کی آنکھوں میں چمک آگئی اور اس نے اسی وقت اللہ کا نام لے کر خوشی خوشی اپنا کام شروع کردیا اور میدان کے ایک بڑے حصے پر الگ الگ کچھ نہ کچھ کاشت کرنا شروع کردیا لیکن چاول اس نے خاص طور پہ دیوار کے ساتھ کاشت کیے کیونکہ اس کی ترکیب کے مطابق چونکہ چاولوں کی فصل کو بہت زیادہ پانی دیا جاتا ہے سو دیوار کے ساتھ چاولوں کی فصل میں بہت زیادہ کھڑا پانی یقیناً دیوار کو اندر سے کمزور کرکے گرا دیتا یوں دیوار کے گرنے سے ان کو اس قید سے نجات مل سکتی تھی۔ وہ چاہتا تو کدال سے دیوار کو توڑنے کی کوشش بھی کرسکتا تھا لیکن اسے اندازہ تھا کہ جادوگر کہیں نہ کہیں سے ان پر نظر رکھے ہوئے ہوگا سو ایسا کرنے سے وہ پکڑے جاتے پھر یقیناً وہ مارے جاتے جبکہ اس آئیڈیے کی طرف جادوگر کا دھیان بھی نہ جاتا۔ ادھر جادوگر واقعی اپنے جادو کے گولے سے ان پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اور اپنے علاقے کے گرد جادو کا ایک حفاظتی جال بھی بچھا دیا تھا۔

کسان کا تو کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ بیج بونے سے کھیت کے پکنے تک صبر سے کام اور انتظار کرتا ہے سو کسان کا بیٹا بھی نہایت صبر اور محنت سے کام کرتا رہا اور دیوار کے گرنے کا انتظار کرتا رہا۔ کچھ وقت کے بعد اللہ نے ان کو خود پر بھروسہ رکھنے اور ان کی محنت کا پھل ان کو دے دیا۔ رات کے پہر دیوار دھڑام سے گر پڑی اور مٹی دھول کے ہٹ جانے کے بعد ان بہن بھائی کو سامنے ہی جادوگر کا محل نظر آیا۔ وہ دونوں بہن بھائی اللہ کا شکر ادا کرتے ایک دوسرے کو خوشی سے دیکھتے ہوئے وہاں سے بھاگے۔ جادوگر کےبچھائے حفاظتی جادوئی جال کی وجہ سے ادھر ادھر بھاگنے کے بعد بھی جب انہیں گھر کا راستہ نہ ملا تو کچھ سوچتے ہوئے ان دونوں کے قدم جادوگر کے محل کی طرف دوڑے۔ چونکہ جادوگر اور ان کے باپ کی گہری دوستی کے دوران ان کا محل میں آنا جانا معمول تھا سو محل کے اندر کے ہر راستے اور ان پر بچھائی ہر جادوئی رکاوٹ کے توڑ کا بھی انہیں بخوبی علم تھا سو وہ دونوں نہایت آسانی سے محل کے اندر داخل ہوکر ایک تیز دھار چھری حاصل کرکے جادوگر کے لاڈلے بیٹے اور پھر جادوگر کے سر پر پہنچ گئے۔ جادوگر جو اپنے حفاظتی جادوئی جال کے زعم میں بےخبر سورہا تھا یوں اچانک سے ان دونوں بہن بھائی اور اپنے لاڈلے بیٹے کی گردن کو تیز دھار چھری تلے دیکھا تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اپنے لاڈلے بیٹے کی جان خطرے میں دیکھ کر اسے اپنی ساری جادوگری بھول گئی۔ یاد رہا تو صرف اپنا لاڈلا بیٹا یاد رہا۔

’’میرے بیٹے کو مت مارو۔ چھوڑ دو اسے۔ میرے بیٹے پر رحم کرو۔ مجھ پر رحم کرو۔‘‘ جادوگر نے روتے ہوئے کسان کے بیٹے سے فریاد کی۔

’’کیوں چھوڑ دیں اسے؟ اور آپ کو ہم معصوموں پر رحم آیا تھا۔ ہمارے ماں باپ بھی تو ہماری گمشدگی پہ پریشان ہوں گے۔ وہ بھی تو ہمارے لیے روتے ہوں گے۔ جب آپ کو دوسروں کے بچوں اور ان کے ماں باپ پر رحم نہیں آیا تو ہم آپ پر اور آپ کے بچے پر رحم کیوں کریں؟دیکھو مجھے معاف کردو۔ میرے بیٹے کو چھوڑ دو‘‘

’’ٹھیک ہے لیکن ہماری اک شرط ہے۔ کون سی شرط؟ مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے۔‘‘ بیٹے کی زندگی کی نوید سن کر جادوگر بےتابی سے بولا۔’’پھر ہمیں ہمارے گھر تک پہنچادیں اور وعدہ کریں کہ آئندہ غلطی سے بھی ہم سب کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کریں گے۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘ یوں وہ دونوں بہن بھائی بخیریت گھر پہنچ گئے۔ کسان اور اس کی بیوی جو اپنے بیٹے اور بیٹی کی طرف سے مایوس ہوگئے تھے ان دونوں کو بخیریت اپنے سامنے دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہوئے اور اس واقعے نے ان کو یہ بھی سمجھادیا کہ دوستی اور دشمنی صرف اپنے جیسے لوگوں سے ہی کرنی چاہیے۔nn

حصہ