قیصروکسریٰ قسط(116)

228

دست گرد کے قید خانے کے داروغہ کو جس سے عاصم کو کسی بھلائی کی امید ہوسکتی تھی، ان سپاہیوں کی نگرانی سونپ دی گئی تھی جو شاہی خزانہ نکال کر مدائن لے جارہے تھے۔ عاصم نے اپنے مستقبل کے اُفق پر اُمید کی جو روشنی دیکھی تھی اُسے پھر ایک بار مایوسی کی گھٹائیں اپنے آغوش میں لے چکی تھیں۔

اس قلعے میں اُسے یہ معلوم نہ تھا کہ باہر کیا ہورہا ہے۔ پہریداروں کو قیدیوں سے ہمکلام ہونے کی اجازت نہ تھی۔ وہ کئی دن انتہائی کرب و اضطراب کی حالت میں رومیوں کا انتظار کرتا رہا۔ لیکن وہ نہ آئے۔ وہ اکثر یہ سوچا کرتا تھا۔ ’’کیا یہ ہوسکتا ہے کہ قیصر دست گرد سے آگے بڑھنے کا ارادہ ترک کرکے واپس چلا گیا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اسے کسی جنگ میں شکست ہوگئی ہو۔ اور کیا یہ ممکن نہیں کہ مدائن میں اپنے جھنڈے گاڑنے کے بعد اس کے تھکے ہوئے سپاہیوں نے اس غیر اہم قلعے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ہو؟‘‘

قلعے کے محافظ نے قیدیوں کو گری ہوئی دیواریں مرمت کرنے اور خندقیں گہری کرنے کے کام پر لگادیا تھا۔ اور پہریدار ہاتھوں میں کوڑے لیے ہر وقت ان پر مسلط رہتے تھے۔ اگر کوئی بھوک، پیاس یا تھکاوٹ سے نڈھال ہو کر گر پڑتا تو اس پر بے تحاشا کوڑے برسائے جاتے تھے۔ غذا کی کمی اور کام کی زیادتی، اور پہریداروں کے وحشیانہ سلوک کے باعث کئی قیدی طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوچکے تھے۔ اور ہر ہفتے مرنے والوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا تھا۔

ایک رات چند قیدیوں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن پہریداروں کو بروقت پتا چل گیا۔ چنانچہ انہوں نے بھاگنے والوں کا پیچھا کیا۔ دو قیدی جنہوں نے مزاحمت کی کوشش کی مسلح سواروں کے ہاتھوں مارے گئے، چار گرفتار کرلیے گئے اور صرف دو ایسے تھے جو دریائے دجلہ عبور کرنے کے بعد کہیں روپوش ہوگئے تھے۔

گرفتار ہونے والے چار آدمیوں کو قلعے کے دروازے کے عین سامنے پھانسی دے دی گئی۔ اور کئی دن تک ان کی لاشیں وہیں لٹکتی رہیں۔ پھر ایک دن جب یہ لاشیں ہڈیوں کے ڈھانچوں میں تبدیل ہوچکی تھیں، سرپٹ سواروں کا ایک دستہ قلعے کے دروازے کے سامنے رُکا۔ ایک عمر رسیدہ آدمی نے جو اپنے لباس سے کوئی بڑا افسر معلوم ہوتا تھا، فصیل پر سے نیچے جھانکنے والے پہریداروں کی طرف دیکھا۔ اور بلند آواز میں کہا۔ ’’دروازہ کھولو ہمیں شہنشاہ نے بھیجا ہے‘‘۔

تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور قلعے کا محافظ چند سپاہیوں کے ساتھ باہر نکل آیا۔

’’مجھے پہچانتے ہو؟‘‘ عمر رسیدہ آدمی نے کسی توقف کے بغیر پوچھا۔

’’چند ثانیے قلعے کے محافظ کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔ بالآخر اس نے کہا۔ ’’تم ساسان ہو۔

تم اس قلعے سے فرار ہوگئے تھے‘‘۔

ساسان نے کہا۔ ’’اگر چند دنوں میں تمہارا حافظہ بہت زیادہ کمزور نہیں ہوگیا تو میرے دو اور ساتھی اس جگہ موجود ہیں‘‘۔

قلعے کے محافظ نے باقی سواروں کی طرف دیکھا۔ اور اس کی نگاہیں دو آدمیوں پر مرکوز ہو کر رہ گئیں پھر ہو اپنے سپاہیوں کی طرف متوجہ ہو کر چلایا۔ ’’انہیں گرفتار کرلو‘‘۔

ساسان نے کہا۔ ’’نہیں تمہارے آدمی شہنشاہ کے سپاہیوں پر ہاتھ اُٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ اب میں اس قلعے کا محافظ ہوں اور میں تمہاری گرفتاری کا حکم دیتا ہوں‘‘۔

قلعے کا محافظ غصے اور اضطراب کی حالت میں کبھی اپنے آدمیوں اور کبھی ان سواروں کی طرف دیکھ رہا تھا۔

ساسان نے مڑ کر ایک فوجی افسر کی طرف دیکھا اور اس نے اپنا گھوڑا آگے بڑھا کر قلعے کے محافظ کو ایک مراسلہ پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ درست کہتے ہیں۔ تم ایران کے نئے شہنشاہ کا حکم نامہ دیکھ سکتے ہو‘‘۔

مہران نے مراسلہ لے کر کھولا، پڑھا اور اس کے چہرے پر موت کی زردی چھا گئی۔

ساسان نے قلعے کے سپاہیوں سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’ایران سے پرویز کی حکومت ختم ہوچکی ہے۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم اپنے نئے حکمران کی اطاعت کرو۔ مدائن یہاں سے زیادہ دور نہیں۔ اگر تم میں سے کسی کو میری باتوں پر شبہ ہے تو میں اسے وہاں بھیجنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔

مہران نے کہا۔ ’’میں کسی اور کو بھیجنے کی بجائے خود مدائن جانا چاہتا ہوں‘‘۔

’’نہیں ہم تمہیں کسی اور جگہ بھیجنا چاہتے ہیں‘‘۔ ساسان نے یہ کہہ کر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ چار آدمی گھوڑوں سے اُترے اور انہوں نے مہران کے ہاتھ باندھ دیے۔ تھوڑی دیر بعد قلعے کے دروازے کے سامنے ہڈیوں کے چار بوسیدہ ڈھانچوں کے ساتھ ایک تازہ لاش لٹک رہی تھی۔

اگلے دن وہ پہریدار جو قیدیوں کو بدترین اذیتیں پہنچانے میں ایک راحت محسوس کیا کرتے تھے، فصیل مرمت کرنے اور خندق کھودنے کے کام پر لگے ہوئے تھے اور چند قیدی جن کے ہاتھ میں بیلچوں اور ٹوکریوں کی بجائے کوڑے دے دیے گئے تھے، ان کی نگرانی پر مامور تھے۔

اب ایران کے انقلاب کی خبر کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔ چار دن بعد مدائن سے ایک ایلچی آیا اور اس نے یہ خبر دی کہ پرویز کو مدائن کے قید خانے میں قتل کردیا گیا ہے۔ ساسان جس نے اپنی زندگی کے دس سال پرویز کی قید میں گزارے تھے، شمالی ایران کے ایک بااثر قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اور وہ شیرویہ سے ان قیدیوں کی رہائی کے مکمل اختیارات لے کر آیا تھا۔ جن کے قبیلوں اور خاندانوں کی دوستی اس کے لیے سود مند ثابت ہوسکتی تھی۔ چنانچہ ایک ہفتہ کے اندر اندر قریباً ڈیڑھ سو قیدی جنہوں نے ایران کے نئے حکمران کی اطاعت کا حلف اٹھایا تھا، اپنے اپنے گھروں کو جاچکے تھے۔ اور ان کی جگہ لینے کے لیے مدائن سے آئے دن نئے قیدیوں کی ٹولیاں پہنچ رہی تھیں۔ پرانے قیدیوں میں صرف وہ لوگ رہ گئے تھے جو دور دراز کے صوبوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اور جنہیں رہا کرنے سے قبل ان کے سرکش عزیزوں اور رشتہ داری سے اطاعت اور فرمانبرداری کی ضمانت لینے کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔

عاصم کا معاملہ عام قیدیوں سے مختلف تھا۔ دست گرد سے اس قلعے میں منتقل ہونے والے قیدیوں کے جرائم اور سزائوں کے متعلق یادداشت کی کتاب میں اس کے نام کے ساتھ ’’رومی جاسوس‘‘ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے اور اس کی رہائی کا حکم دینا ساسان کے دائرہ اختیار سے باہر تھا۔

کئی دن انتظار کے بعد عاصم کو ساسان کے سامنے پیش کیا گیا اور ساسان نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’تم میرے لیے اجنبی نہیں ہو۔ میں تمہارے حالات سے پوری واقفیت حاصل کرچکا ہوں۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ شیرویہ کی اجازت کے بغیر میں تمہیں رہا نہیں کرسکتا۔ قیدیوں کی کتاب میں تمہارے متعلق یہ لکھا ہوا ہے کہ تم رومیوں کے جاسوس ہو۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ الزام غلط ہے لیکن جب تک مدائن پر رومیوں کے حملے کا خطرہ موجود ہے کسی کو تمہاری حمایت میں آواز بلند کرنے کی جرأت نہیں ہوگی۔ میں تمہیں یہ خوش خبری دے سکتا ہوں کہ ایران کا نیا حکمران ہر قیمت پر رومیوں کے ساتھ صلح کرنا چاہتا ہے اور مدائن کے اکابر کا ایک وفد تبریز کی طرف روانہ ہوچکا ہے۔ قیصر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یروشلم کی صلیب بھی رومیوں کو واپس دی جارہی ہے۔ اگر ہمارے وفد کو کامیابی ہوئی تو ایران کی نئی حکومت اس شخص کے دوست اور ساتھی کو فراموش نہیں کرے گی۔ جس نے اپنی جان پر کھیل کر ایران کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے کی کوشش کی تھی۔ پھر اگر تمہارے رومی دوست تمہیں بھول نہیں گئے تو مجھے یقین ہے کہ وہ مصالحت کی گفتگو شروع کرنے سے پہلے تمہاری رہائی کا مطالبہ کریں گے‘‘۔

عاصم نے مغموم لہجے میں کہا۔ ’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ روم اور ایران کی مصالحت کے بغیر میری رہائی کی کوئی صورت نہیں‘‘۔

’’نہیں میرا یہ مطلب نہیں۔ لیکن تمہیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ شیرویہ نے انتہائی ناسازگار حالات میں ایک حکمران کی ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔ میں تمہارے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ جب اُسے اپنے گردوپیش سے اطمینان نصیب ہوگا تو میں بذاتِ خود اس کی خدمت میں حاضر ہو کر تمہارا مسئلہ پیش کروں گا‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’میری سب سے بڑی اُمید تھی کہ تورج مجھے فراموش نہیں کرے گا۔ اُسے یہ معلوم تھا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ کیا آپ اسے یہ پیغام نہیں پہنچا سکتے کہ میں ابھی تک زندہ ہوں۔ جب میں سین کے ساتھ دست گرد پہنچا تھا تو وہ وہاں کی افواج کا سپہ سالار تھا‘‘۔

ساسان نے کہا۔ ’’تورج مرچکا ہے جب رومی نینوا کی طرف بڑھ رہے تھے تو وہ کمک لے کر گیا تھا اور جنگ میں ہلاک ہوگیا تھا‘‘۔

ساسان کے ساتھ اس ملاقات کے بعد عاصم کی حالت اس مسافر کی سی تھی جو ایک لق و دق صحرا کے بے نشان راستوں پر سفر کررہا ہو۔ سین جس نے اسے اُفق کی دھندلی لکیروں کے پیچھے دوڑنا سکھایا تھا اس کا ساتھ چھوڑ چکا تھا۔ فسطینہ نے اسے زندگی کی تڑپ اور ولولے عطا کیے تھے۔ لیکن اب اُسے یہ بھی یقین نہیں تھا کہ وہ زندہ ہے۔ وہ اکثر اپنے دل سے یہ سوال کیا کرتا تھا کہ اس قلعے سے باہر وہ کون سی جگہ ہے جہاں مجھے امن اور راحت نصیب ہوسکتی ہے۔ اگر فسطینہ اس دنیا میں نہیں تو میں آزاد ہو کر کہاں جاسکتا ہوں‘‘۔

اڑھائی مہینے اور گزر گئے۔ پھر ایک شام ساسان کے پاس کوئی ایلچی آیا اور وہ رات کے پچھلے پہر مدائن کی طرف روانہ ہوگیا۔ دس دن بعد ایک صبح عاصم اپنے کمرے سے باہر چہل قدمی کررہا تھا کہ ایک سپاہی نے اس کے قریب آکر اطلاع دی۔ ’’ساسان نے آپ کو یاد فرمایا ہے‘‘۔

’’وہ مدائن سے واپس آگئے ہیں؟‘‘

’’جی ہاں‘‘

’’کب؟‘‘

’’وہ آدھی رات کے قریب یہاں پہنچ گئے تھے‘‘

تھوڑی دیر بعد عاصم ایک کشادہ کمرے میں داخل ہوا۔ ساسان کے ساتھ ایک اور ضعیف العمر آدمی جس کی بھویں تک سفید ہوچکی تھیں، بیٹھا ہوا تھا۔

’’تم انہیں جانتے ہو؟‘‘ ساسان نے عاصم کو دیکھتے ہی سوال کیا۔

(جاری ہے)

حصہ