جشن آزادی،کھلے گٹر اور سوشل میڈیا

263

یہ ہفتہ سوشل میڈیا پر دل دہلانے والی ویڈیوز کا رہا۔ جشنِ آزادی کے دن کراچی اور ٹنڈوالہیار میں دو معصوم بچوں کی کھلے گٹر میں گر کر جاں بحق ہونے کی ویڈیوز نے عجیب حالت کردی۔ ٹنڈوالہیار میں تو بچہ ماں کی گود میں تھا جو چنگ چی پر جارہی تھی، اس دوران ایسا اسپیڈ بریکر آیا کہ جھٹکے سے بچہ اچھل کر نیچے کھلے گٹر میں گرگیا۔ مظلوم ماں اس اچانک حادثے کو سمجھ بھی نہ سکی۔ وہ اپنے معصوم جگر گوشے کو بچانے کے لیے خود اُس نالے میں کود گئی مگر بچے کو نہیں بچا سکی۔ ملیر کراچی کے علاقے میمن گوٹھ میں ایک اور معصوم بچہ جشنِ آزادی مناتا ہوا، ایسے ہی کھلے گٹر میں جا گرا۔ سوشل میڈیا پر اُس کی لاش نکالنے اور ماں کی گٹر میں بچے کی لاش تلاش کرتی ویڈیوز 15 سالوں سے سندھ میں حکومت کرتی پیپلز پارٹی پر شدید طعن وطنز کرتی رہیں۔ کراچی والا کیس تو اُس یوسی کا تھا جہاں سے خود کراچی کا موجودہ پی پی کا ڈپٹی میئر سلمان مراد منتخب ہوا۔ یہ دو بچے تو تھے ہی، اس کے ساتھ پھر خیرپور کے علاقے رانی پور کے ایک گھر میں کام کرنے والی 10سالہ فاطمہ کی موت کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ یہ ویڈیو گھر کے سی سی ٹی وی کیمرےسے نکالی گئی۔ اِس میں تو باقاعدہ بچی کے آخری لمحات بھی محفوظ ہوگئے۔ ابھی اسلام آباد کی ایک عدالت کے جج کی اہلیہ پر ایسی ہی بچی پر تشدد کا کیس بھی زندہ ہے۔ جج کی بیوی کو ضمانت نہیں دی گئی۔تواتر سے کم سن ملازماؤں پر بدترین تشددکے واقعات پر سوشل میڈیا صارفین نے بھرپور ردعمل دیا۔ جب سے سوشل میڈیا نے ویڈیوز کے ویوز کے پیسے دینا شروع کیے ہیں تب سے سفاکی مزید بڑھی ہے۔بہرحال جشنِ آزادی کے تناظر میں اس ہفتے سوشل میڈیا پر یہ واقعات جس طرح گردش کرتے رہے، اس کے ردعمل میں حکمرانوں یعنی پیپلز پارٹی کے خلاف جتنا محاذ بننا چاہیے تھا ویسا بنا نہیں۔

ایک ایشو نجم سیٹھی کے گلوکار بیٹے کی اپنے مرد دوست کے ساتھ شادی کا خوب چلا۔ بعد ازاں تردید آگئی تو بظاہر معاملہ دب گیا۔ اس موضوع پر خاصی لے دے ہوئی، ہم بھی کریں گے مگر ذرا تحقیق مکمل ہونے کے بعد۔

اچھا اب وہ دوسرا موضوع بھی سُن لیں، جو کسی غیر ملکی ادارے کا تھا: “Diploma in Care Giving” اس کاسلیس ترجمہ ہے: ”خدمت کرنے کا ڈپلومہ“۔ یہ خدمت کس کی ہے؟ اس میں دو ترتبیت ہیں، ایک معذوروں کی خدمت کی، دوسرا بوڑھوں کی خدمت کی۔ دنیا بھر میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، مغرب میں بچہ بھی ریاست کا ہوتا ہے اور بوڑھا بھی ریاست کا ہوتا ہے۔ تو ایسے بوڑھوں کی خدمت، حفاظت، نگہداشت کے لیے ادارے بنائے جاتے ہیں جہاں ملازمین بھرتی کیے جاتے ہیں۔ اِن ملازمین کو خدمت کرنی آتی ہے یا نہیں اس کا ڈپلومہ، سرٹیفکیٹ یا ڈگری بنادی گئی ہے۔ سوال ہے کہ وہاں بوڑھے کیوں بڑھ رہے ہیں؟ اس لیے کہ وہاں بچے پیدا ہی نہیں ہورہے۔ جب وہاں ہم جنس پرستی عام ہوگی تو نہ ماں ہوگی نہ بیٹی، نہ بیٹا نہ باپ۔ زندگی صرف مزے کا نام ہوگا، اولاد ایک بوجھ کی مانند ہوگی، تو پھر وہاں ایسے کورسز، ورکشاپس اور ٹریننگ کی ضرورت ازخود پیدا ہوگی، کیونکہ وہ چیز وہاں سے ختم ہوتی جائے گی۔ براہِ کرم درج بالا سطروں کا یہ مطلب مت لیجیے گا کہ وہاں یکسر سب ختم ہوگیا ہے، البتہ اب اس کی اتنی کمی ہے کہ ایسے کورسز، ایسی ورکشاپس کرائی جائیں۔ تسلی و تشفی کے لیے صرف امریکا کے اعداد و شمار پیش کررہا ہوں، جس کے مطابق امریکہ میں بچوں کی دیکھ بھال کی صنعت کی مالیت 61بلین ڈالر ہے۔امریکہ میں صرف 37 فیصد بچے والدین کے ہاتھوں پرورش پا رہے ہیں۔ 27فیصد خاندان ایسے ہیں جن کو بچوں کی دیکھ بھال تک رسائی میں دشواری ہوتی ہے، مطلب یہ کہ ان کو ڈے کیئر خالی نہیں مل رہے کہ اپنا بچہ وہاں دے سکیں۔ 2020ء کی ایک تحقیق کے مطابق ملک بھر کی 25 ریاستوں کا تجزیہ ہوا تو پتا چلا کہ پانچ سال سے کم عمر کے 9 ملین بچوں کو دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ تاہم صرف 6 ملین چائلڈ کیئر سلاٹس دستیاب تھے۔ اب ان اعداد کے بعد مزید کچھ سمجھانے کی ضرورت تو نہیں۔ ہوا یہ کہ ہم نے انسان کو اخلاقی، سماجی، روحانی وجود سے کاٹ کر، تمام رشتوں، خاندانوں، قبیلوں، مذہبیات سے نکال کر جب محض ایک مجرد ”فرد“ کے طور پر مان لیا، تو تباہی کا یہ سفر دنیا بھر میں شروع ہوا۔ جب ہم نے ”اشرف المخلوقات“ یعنی ”عبد“ کی تعریف سے ”انسان“ کو نکال کر ایک ”ہیومن بینگ“ میں بدل ڈالا تو پھر جو ”ہیومن بینگ“ ہوتا ہے، وہ تو ہر قسم کے الہامی و غیر الہامی، مقدس و غیر مقدس، اخلاقی و سماجی دائرے سے باہر ہوجاتا ہے۔ انسان کا کوئی ترجمہ ”ہیومن بینگ“ نہیں ہے۔ یقین نہ آئے تو گوگل کرکے خود چیک کرلیں۔ اب ایسا کرنے کے لیے الگ سے کوئی سازش وغیرہ نہیں کرنی پڑتی، یہ ”ڈیفی نیشن“ پوری علمیت کے ساتھ ایک ”فکر“ کے طور پرشعور میں سرایت کرائی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میرے یہ جملے پڑھتے ہوئے بھی آپ کو کچھ عجیب لگے۔ پریشان مت ہوں، کسی بچے یا خود کو ہیومن بینگ کی ڈیفی نیشن نکال کر دیکھ لیں، بات سمجھ میں آجائے گی۔ جب آپ کے وجود کو بندر یا گوریلا کی نسل سے تعبیر کرکے پیش کیا جائے گا جو مستقل ارتقا پذیر ہے تو پھر یہ نتائج نکلیں گے۔

حصہ