پاکستان سے محبت کا جرم دلاور حسین سعیدی کی شہادت

354

ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے
ناصحو، پند گرو راہ گزر تو دیکھو
وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو

فیض کی یہ نظم اگر موجودہ حالات میں کہیں صادق آتی ہے تو وہ بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) میں اپنے نظریے کی خاطر ثابت قدم رہنے والوں پر آتی ہے۔ اکیسویں صدی کی تاریخ بنگلہ دیش میں اپنے نظریے کی خاطر قربانی دینے والوں کے بغیر نامکمل رہے گی۔ ایک ایسی جاں گسل جدوجہد، ایسی عظیم قربانیاں، اور اس پر ثابت قدمی… اس کی مثال تاریخ میں تلاش کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم جدوجہد کے دوران شعب ابی طالب میں محصور مسلمانوں اور آج بنگلہ دیش کی جیلوں میں قید تحریکِ اسلامی کے کارکنان میں قدرِ مشترک موجود ہے۔ کفارانِ قریش کے خباب بن الارتؓ اور بلال حبشیؓ پر روا مظالم، مصعب بن عمیرؓ کی ایمان لانے کی پاداش میں عظیم قربانی، پہلی ہجرتِ حبشہ اور اس کے بعد ہجرتِ مدینہ کہ جہاں رفیقِ رسول حضرت ابوبکر صدیقؓکے ساتھ غارِ ثور میں پناہ، سراقہ بن مالکؓکو غارِ ثور کے دہانے پر عظیم خوشخبری کہ سراقہ میں تو تمھارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں، رسولِ رحمت، ہادیِ برحق، محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات اُس وقت کہہ رہے ہیں جب خود انؐ پر اپنے شہر مکہ کی زمین تنگ کردی گئی، طرح طرح سے ستایا گیا، حتیٰ کہ ہجرت پر مجبور ہوئے۔ آپؐ وقت کی سپر پاور کسریٰ کو نہ صرف چیلنج کررہے ہیں بلکہ اپنے تعاقب میں آنے والے سراقہ بن مالکؓ کو اس عظیم بادشاہ کے کنگن کا وارث قرار دے رہے ہیں۔ بظاہر عالمِ اسباب میں دیکھا جائے تو اس کو ناممکن قرار دیا جاسکتا ہے۔

بنگلہ دیش میں آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا اعادہ ہے، پوری تحریکِ اسلامی کی قیادت کو نام نہاد جنگی جرائم ٹریبونل سے سزائیں سنائی گئیں، اس کے بعد ان کو اجتماعی اور انفرادی طور پر یہ پیش کش کی گئی کہ معافی مانگ لیں تو تمام جرائم سے بری کردیا جائے گا، اپنے نظریے کو چھوڑ دیں اور شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا ساتھ دیں تو نہ صرف اقتدار میں حصہ ملے گا بلکہ جماعت اسلامی کو آزادی سے کام کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جائے گا۔

بنگلہ دیش کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بنگال کی تقسیم اور 1971ء میں بھارتی مداخلت سے بنگلہ دیش کے قیام سے لے کر آج تک بھارت کا بنگال پر قبضے کا منصوبہ گوکہ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے لیکن اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اِس وقت بھی جماعت اسلامی ہے۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا بیان کہ آج نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈوب گیا، دراصل اس بھارتی عزم کا اعادہ تھا کہ پاکستان کے قیام کی بنیاد دو قومی نظریہ دراصل ایک فریب تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی قومیت کے نظریے کی بنیاد پر ہی برصغیر پر مسلم حکمرانوں نے ایک طویل عرصے تک اقلیت میں رہتے ہوئے بھی اکثریتی مذہب کے لوگوں پر اس طرح حکومت کی کہ خود ہندو اکثریت ان کی گرویدہ ہوگئی۔ برصغیر کے مسلم حکمرانوں میں لاکھ خامیاں سہی، اس کے باوجود بحیثیتِ مجموعی ان کی رواداری اور مساوات نے ہندو مذہب کی بنیادوں کو ہلا ڈالا۔ کہاں ذات پات کا مذہب اور کہاں آقا و غلام کو ایک صف میں کھڑا کرنے والا مذہب اسلام۔ برصغیر سے انگریز کے جانے کے بعد ہندوئوں میں ایک نئی رمق پیدا ہوئی کہ وہ اب متحدہ ہندوستان پر مکمل قبضہ کرنے کے قابل ہوں گے، حالانکہ تاریخ میں کبھی بھی برصغیر پاک و ہند پر کوئی ایک ہندو راجا بھی حکمران نہیں رہ سکا، ہر علاقے کے راجے مہاراجے تھے، اور اگر کوئی مکمل یا برصغیر پر حکمرانی کے قابل ہوسکے تو وہ صرف مغل تھے۔

آزادیِ ہند کی جدوجہد میں بھی مسلمانوں کا جذبہ قومی کام آیا اور اقبال جیسے عظیم مفکر اور محمد علی جناح جیسے عظیم قائد نے مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا خواب نہ صرف شرمندئہ تعبیر کردیا بلکہ ہندوئوں کا برصغیر پر مکمل حکمرانی کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔ ریڈکلف باؤنڈری کمیشن کی ناانصافیوں، مہاجرین کی آبادکاری، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور مسلم اکثریتی ریاستوں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، مانو ودر، اور کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے کے باوجود بھی دو قومی نظریے کی حرارت نے اس مملکت کو نہ صرف قائم کردیا بلکہ انصارِ مدینہ جیسے ایثار سے اس ریاست کی بنیادوں کو مستحکم بھی کردیا۔ لیکن محض 24 سال بعد اپنوں کی غلطیوں اور بھارت کے برصغیر پر مکمل قبضے کے عزائم نے وہ موقع فراہم کردیا جس کو ہم سقوطِ ڈھاکہ کے نام سے جانتے ہیں۔

اندرا گاندھی کا سقوطِ ڈھاکہ پر دیا گیا بیان بھی ان ہی عزائم کا اظہار تھا، لیکن بھارت کی بدقسمتی کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے باوجود بھی وہاں اسلام سے محبت کرنے والوں کی نمائندگی کرنے والے اسی دوقومی نظریے سے سرشار تھے۔ وہ جنگی قیدی بنے، سیاست پر پابندی اور مظالم کے پہاڑ توڑے جانے کے باوجود وہ جواں ہمت اپنے اس عزم سے باز نہ آئے۔ پروفیسر غلام اعظم امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو ایک طویل جلا وطنی گزارنے، قید و بند، اور قومیت سے محروم کرنے کے باوجود بھی جب سیاست میں آنے کا موقع ملا تو جنرل ارشاد کے مارشل لا کے بعد ہونے والے انتخابات میں جماعت اسلامی کی کارکردگی نے سب کو حیران کردیا، خالدہ ضیاء کے ساتھ جماعت اسلامی شریکِ اقتدار ہوئی تو گویا بھارت کی راتوں کی نیندیں اڑ گئیں۔ وہ دو قومی نظریہ جس کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا کہہ دیا گیا تھا اب وہ ڈھاکہ میں برسراقتدار ہے۔ ایک جانب سیاست، دوسری جانب سماجی خدمات اور تیسری جانب دعوتِ قرآن کی وجہ سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے دو قومی نظریے کا احیاء کردیا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر بار بار اپنی حیثیت کو منوا رہی تھی اور قریب تھا کہ وہ پہلی پوزیشن پر براجمان ہو، اس پورے تناظر میں خطے پر بھارتی بالادستی کا خواب جو کہ اصل میں بھارت کا اس خطے میں امریکی پولیس مین کا کردار ہے، خطرے میں پڑتا نظر آتا تھا۔

الیکشن میں بیرونی سرمائے اور دھاندلی سے ایک بار پھر شیخ حسینہ کو اقتدار اس شرط پر دیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کو نہ صرف آزاد جمہوریہ کے بجائے بھارت کی باج گزار ریاست بنائے گی بلکہ دو قومی نظریے کے حامیوں کو بھی ٹھکانے لگائے گی۔ اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا اور شیخ حسینہ نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے سابق حکمران جماعت، جماعت اسلامی کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔

جماعت اسلامی کا کوئی وزیر، مشیر بھرپور چھان بین کے باوجود بھی کسی کرپشن میں ملوث نظر نہیں آیا تو 40 سال کے بعد نام نہاد جنگی جرائم ٹریبونل قائم کیا گیا۔ سرکاری گواہ، سرکاری وکیل اور سرکاری ججوں کے تحت سزائیں سنائی جانے لگیں۔ جماعت اسلامی تو خیر ہدف تھی ہی، لیکن اس کے ساتھ متحدہ پاکستان سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے والوں کو بھی چاہے اُن کا تعلق جماعت اسلامی سے نہ بھی ہو، شامل کیا گیا تاکہ ملت ِاسلامیہ کی بنیاد پر دو قومی نظریے کے حامل افراد کو سبق سکھایا جائے۔ جماعت اسلامی کی پوری قیادت پروفیسر غلام اعظم ، مطیع الرحمان نظامی، علی احسن مجاہد، عبدالقادر ملا، میر قاسم علی، عبدالکلام آزاد، محمد قمر الزماں سمیت ہزاروں کارکنوں کو ان جعلی مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں، دوسری اپوزیشن جماعت کے چنیدہ افراد اور پاکستان سے محبت رکھنے والوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما صلاح الدین قادر چودھری اور عبد الامین کو بھی سزا سنائی گئی۔ صلاح الدین قادر چودھری کو جس جرم میں سزا سنائی گئی وہ اُس وقت رونما ہوا جبکہ وہ لاہور کی جامعہ پنجاب میں تعلیم حاصل کررہے تھے اور وہیں مقیم تھے۔ ان کو سزا سنانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ متحدہ پاکستان کے سابق اسپیکر قومی اسمبلی فضل القادر چودھری کے بیٹے تھے۔ ایک شاندار سیاسی کیرئیر رکھنے والے صلاح الدین قادر چھ بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور دوبار وفاقی وزیر بھی رہے۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے زیادہ قریب تھے، لہٰذا جھوٹے مقدمے میں ان کو بھی پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

بھارتی ایماء پر ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری شیخ حسینہ کی انتقامی کارروائیوں میں جماعت اسلامی کی تمام قیادت پھانسی کے پھندوں پر جھول چکی ہے، پروفیسر غلام اعظم اور اب مفسر قرآن علامہ دلاور سعیدی اپنی پیرانہ سالی میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے امام احمد بن حنبلؒ کی مثل قید خانوں سے ہی اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ علامہ دلاور سعیدی مفسر قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ خطیب تھے، ان کی تقریروں کی گرج پورے بنگلہ دیش میں محسوس کی جاتی تھی، ان کا ایک بہت بڑا حلقہ عقیدت جماعت اسلامی کے کارکنان کے علاؤہ بھی موجود ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں اپنے عقیدت مند رکھنے والے علامہ دلاور سعیدی صرف نام کے دلاور نہیں تھے بلکہ حقیقت میں وہ دلوں پر راج کرتے تھے اور یہی ان کا جرم تھا۔ 82 سالہ علامہ دلاور سعیدی کو پہلے سزائے موت سنائی گئی، اور پھر ان کے عقیدت مندوں کی جانب سے ردعمل کو بھانپ کر شیخ حسینہ کی عدالت نے اس سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ علامہ کو دل کی تکلیف میں اسپتال لے جاتے ہوئے بھی مسکراتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ کیا اطمینان اور کیسا سکون اس شخص پر طاری ہے جو ایک دہائی سے زائد عرصے سے قید ہے اور بظاہر رہائی کی کوئی سبیل بھی نظر نہیں آتی۔ علامہ دلاور سعیدی سے لے کر عبدالقادر ملا تک تحریکِ اسلامی کے ہر فرد نے بنگلہ دیش میں ایسی شاندار داستانِ عزیمت رقم کی ہے جس کی حرارت آج ان کے جنازوں میں بھی محسوس کی جارہی ہے۔ ایک سیاسی جماعت جس کا ناطقہ ڈیڑھ دہائی سے بند کیا جاچکا ہے، جس کی پوری قیادت پھانسی کے پھندوں پر جھول گئی ہے، وہ آج بھی ایسی توانا ہے کہ شیخ حسینہ اور بھارت کی نیندیں اڑتی نظر آتی ہیں۔ علامہ دلاور سعیدی کو بلامبالغہ لاکھوں افراد نے سپردِ خاک کیا۔

یہ شعب ابی طالب کے محصور، یہ غارِ ثور میں پناہ گزین، مصعب بن عمیرؓ اور خباب بن الارتؓ کی طرح قربانیاں دینے والے بخدا انسان نہیں شاید فرشتے ہیں اور جلد ہی ان کی نصرت کے لیے ابابیلیں اور فرشتے اتریں گے، ان کے دشمنوں کے جتھوں سے سراقہ بن مالک جنم لیں گے اور خلیج بنگال میں دوقومی نظریے کو ڈبونے کے فریب کا پردہ چاک کریں گے۔ یہ دوبارہ ڈھاکہ میں مسندِ اقتدار پر براجمان ہوں گے اور اس خطے میں بھارتی بالادستی کے خواب کو چکناچور کردیں گے۔ بظاہر یہ دیوانے کی بڑ محسوس ہوتی ہے لیکن یہی سنت ِرسولؐ ہے اور یہی آزمائشوں کا سبق ہے کہ اللہ کبھی اپنے راستے میں دی جانے والی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیتا، اور مایوس تو وہ ہوتا ہے جو اللہ کے وعدے پر یقین نہیں رکھتا۔ میں ہندوتوا کا نظریہ اب خلیجِ بنگال میں ڈوبتے دیکھ رہا ہوں۔

اب ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں

حصہ