قیصروکسریٰ قسط(115)

258

پرویز سے عوام کے جذبات پوشیدہ نہ تھے، وہ جانتا تھا کہ اب اُس کی تباہ حال رعایا اُسے نفرت اور حقارت کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ اپنے حال کے متعلق اُس کی پریشانی اور مستقبل کے متعلق مایوسی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اُس کے ذہنی اور جسمانی قویٰ مفلوج ہوچکے تھے۔ اب اُسے شراب کے نشے میں بھی اُن لوگوں کی چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ جو اُس کے حکم سے تختہ دار پر کھینچے گئے تھے۔

بالآخر ایک دن اُس نے اپنے اُمراء کو بلایا اور اُن کے سامنے اپنے عزیز ترین بیٹے مردزا کے سر پر تاج رکھنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن اُمراء کے نزدیک ایک شکست خوردہ بادشاہ کے حکم کی ہر خواہش بے معنی تھی۔ اُن کے ایک بااثر گروہ نے پرویز کے ایک اور بیٹے شیرویہ کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرلیا۔ یہ نوجوان جو اپنے باپ سے کہیں زیادہ سفاک تھا ایران کے تخت و تاج کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا۔ اُس نے اُمراء کو انعامات اور سپاہیوں کو زیادہ تنخواہوں کا لالچ دیا اور ایک طویل جنگ کے آلام و مصائب سے دلبرداشتہ عوام کو یہ مژدہ سنایا کہ میں تمہیں امن دوں گا۔ کسریٰ کو اُس وقت ہوش آیا جب شیرویہ کی سازش کامیاب ہوچکی تھی اور مدائن کے سپاہی، امراء اور عوام اُسے اپنا بادشاہ تسلیم کرچکے تھے۔ پرویز نے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن سپاہیوں نے اُسے مدائن کے دروازے سے باہر نکلنے کا موقع نہ دیا اور پکڑ کر شیرویہ کے سامنے لے آئے۔

شیرویہ نے اپنے باپ کی آنکھوں کے سامنے یکے بعد دیگرے اپنے اٹھارہ (بعض روایات کے مطابق شیرویہ کے ہاتھوں پرویز کے قتل ہونے والے بیٹوں کی تعداد پندرہ تھی) بھائیوں کے سر قلم کروا دیئے اور اس کے بعد اُسے مدائن کے قید خانے کی ایک تاریک کوٹھڑی میں بند کردیا اور اِس تاریک کوٹھڑی میں کجلاہِ ایران کی حالت اُس شخص کی سی تھی جسے جیتے جی قبر میں اُتار دیا گیا ہو۔ اپنی زندگی میں ہزاروں بے گناہ انسانوں کو جو اذیتیں اُس نے پہنچائی تھیں وہ اُسے اپنے بیٹے کے ہاتھوں پہنچ رہی تھیں۔ بھوک اور پیاس کی حالت میں اُسے اپنی التجائوں، چیخوں اور سسکیوں کے جواب میں صرف اپنی آواز سنائی دیتی تھی۔ رُوئے زمین کا انتہائی بااختیار، انتہائی مغرور اور انتہائی ظالم انسان اب اپنی بے بسی، عجز اور مظلومیت کی انتہا دیکھ رہا تھا۔

شیرویہ نے اپنے باپ کو زندگی کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے پانچ دن کسی موزوں قاتل کی تلاش میں گزار دیئے، بالآخر اُسے ہرمز نامی ایک نوجوان نے جس کے باپ کو پرویز نے قتل کروایا تھا اپنی خدمت پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’ایک بیٹے کے لیے اپنے باپ کے قاتل سے انتقام لینا جائز اور درست ہے‘‘۔

شیرویہ نے جواب دیا۔ ’’تم اپنے باپ کا انتقام لے سکتے ہو‘‘۔

ہرمز قید خانے میں داخل ہوا اور تھوڑی دیر بعدایک کوٹھڑی سے ایران کے تاجدار کی آخری چیخ سنائی دی۔ پھر تھوڑی دیر بعد قاتل اپنی خون آلود قبا تبدیل کیے بغیر شیرویہ کے سامنے کھڑا یہ کہہ رہا تھا۔ ’’عالیجاہ! آپ کے حکم کی تعمیل ہوچکی ہے، میں اپنے باپ کا انتقام لے چکا ہوں‘‘۔

شیرویہ کے چہرے پر ایک خوفناک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اُس نے کہا۔ ’’تم اپنے باپ کے قاتل سے انتقام لے چکے ہو، لیکن میں نے ابھی تک اپنے باپ کے قاتل سے انتقام نہیں لیا‘‘۔

ہرمز کے چہرے پر اچانک موت کی زردی چھا گئی۔ اور وہ چلایا۔ ’’عالیجاہ! میں نے صرف آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے‘‘۔

شیرویہ نے مسلح پہرہ داروں کی طرف اشارہ کیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر ہرمز کو گھیرے میں لے لیا پھر چار آدمیوں کی تلواریں بلند ہوئیں۔ ایک چیخ سنائی دی اور اِس کے بعد ایک لاش شیرویہ کے قدموں میں تڑپنے لگی۔

دست گرد کے قید خانے میں دو سال گزارنے کے بعد عاصم نے اپنی اسیری کے دنوں، ہفتوں کا حساب رکھنا چھوڑ دیا تھا۔ قید کے ابتدائی ایام میں اس کے ساتھ تورج اور مہرداد کی ملاقات کا یہ اثر ہوا تھا کہ قید خانے کا داروغہ اسے پہلے سے بہتر سلوک کا مستحق سمجھنے لگ گیا تھا۔ اس کے بعد سین کے ساتھ عقیدت رکھنے والے چند اور فوجی افسروں نے بھی داروغہ کی وساطت سے اس کے ساتھ درپردہ ملاقاتیں کی تھیں اور ان کے طرزِ عمل نے داروغہ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ اگر کبھی حالات نے پلٹا کھایا تو فوجی سرداروں کا ایک بااثر گروہ جو سین کو مظلوم سمجھتا ہے اس شخص کو فراموش نہیں کرے گا جو سین کا وفادار دوست یا ساتھی ہونے کے جرم کی سزا بھگت رہا ہے۔ چناں چہ وہ عاصم کے ساتھ عام قیدیوں کی نسبت زیادہ دلچسپی لینے لگا۔ اور چند ملاقاتوں کے بعد اس کی دلچسپی ایک گہرے انس میں تبدیل ہونے لگی۔

ابتداء میں وہ دست گرد کے عوام کی طرح سین کی المناک موت کو ایک غدار کی موت سمجھتا تھا۔ لیکن عاصم کی باتیں سننے کے بعد اس کے خیالات یکسر تبدیل ہوچکے تھے اور وہ عاصم پر اور زیادہ مہربان ہوچکا تھا۔ تاہم اس کا نیک سلوک عاصم کے آلام و مصائب کا علاج نہ تھا۔ ماضی کی تمام یادوں سے کنارہ کش ہو کر اور مستقبل کی تمام امیدوں سے زندگی کے رشتے توڑ کر ایک قیدی کے حال پر قانع ہوجانے کا تصور بھی اسے ناقابل برداشت محسوس ہوتا تھا۔ ایک دن اس کی کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور قید خانے کے داروغہ نے اندر داخل ہو کر کہا۔ ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے دو دن سے کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا‘‘۔

عاصم نے بے اعتبائی سے اس کی طرف دیکھا اور جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔

داروغہ نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری صحت خراب ہورہی ہے۔ اور میں نے آئندہ تمہیں اپنے گھر سے کھانا بھجوانے کا انتظام کیا ہے‘‘۔

عاصم نے داروغہ کی طرف گھور کر دیکھا اور کہا۔ ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ جیسا بدنصیب اگر چند مہینے یا چند برس اور اس کوٹھڑی میں ایڑیاں رگڑتا رہے تو آپ کو اس سے کیا حاصل ہوگا؟‘‘

داروغہ نے جواب دیا۔ ’’یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں تمہاری صحت کا خیال رکھوں۔ آج سے تمہیں صبح و شام قید خانے کی چاردیواری کے اندر کھلے بندوں گھومنے پھرنے کی اجازت ہوگی‘‘۔

عاصم کی آنکھوں میں اچانک اُمید کی روشنی جھلکنے لگی۔ لیکن داروغہ نے اچانک
اپنا لہجہ بدلتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں اس رعایت سے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اس قید خانے میں تین سو آدمی ایسے ہیں جو شہنشاہ کے حکم سے یہاں لائے گئے ہیں اور جنہیں صرف کسریٰ کے حکم سے رہا کیا جاسکتا ہے۔ ان قیدیوں کی اکثریت ایران کے ان بااثر خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے جن سے حکم عدولی یا بغاوت کا خدشہ ہوسکتا تھا۔ شہنشاہ کو اس بات کا یقین ہے کہ جب تک یہ لوگ قید میں ہیں اور جب تک ان کے دوستوں، عزیزوں یا رشتہ داروں کو یہ خوف دلایا جاسکتا ہے کہ ان کی قید کو ہر وقت موت کی سزا میں تبدیل کیا جاسکتا ہے وہ بغاوت کی جرأت نہیں کریں گے۔ مجھے ان قیدیوں کی صحت اور سلامتی کے علاوہ یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے کہ جب کسریٰ انہیں یاد فرمائے گا تو میں انہیں حاضر کردوں اور اگر مجھے اس ذمہ داری کے قابل سمجھا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے پانچ بچے ہیں اور مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اگر میری غفلت یا کوتاہی کے باعث کوئی قیدی فرار ہوجائے تو ان پانچ بچوں کو میری آنکھوں کے سامنے ذبح کردیا جائے گا۔ اور ان کے علاوہ میرے تمام عزیزوں اور دوستوں کو بھی بدترین سزائوں کا مستحق سمجھا جائے گا۔ میں اگر تمہیں اس قید خانے میں گھومنے پھرنے کی رعایت دے رہا ہوں تو اس کی وجہ میرا یہ اطمینان ہے کہ تم اپنی آزادی کے بدلے میرے بال بچوں اور عزیزوں کی زندگی خطرے میں ڈالنا پسند نہیں کرو گے۔ پھر مجھے یہ اطمینان بھی ہے کہ اگر تم فرار ہونے کی کوشش بھی کرو تو بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ عاصم! تمہیں اپنے مستقبل کے متعلق اس قدر ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ کسریٰ نے پہلی بار میدانِ جنگ میں چند ناکامیوں کا سامنا کیا ہے۔ ممکن ہے کہ رومیوں کی مزید کامیابیوں سے وہ ایسی شرائط پر صلح کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے جو ان کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اس صورت میں اگر رومیوں نے تمہاری خدمات کا لحاظ کیا تو ان کے لیے تمہاری رہائی کا مطالبہ منوانا مشکل نہیں ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جنگ کی طوالت سے تھکے ہوئے سپاہیوں کے اضطراب کے باعث ایران کو کسی اندرونی انقلاب کا سامنا کرنا پڑے اور سین کا کوئی دوست تمہارے لیے اس قید خانے کا دروازہ کھول دے۔ تم نے ایک دن عرب کے کسی نبی کی پیش گوئی کا ذکر کیا تھا۔ اور ارمیاہ کی تباہی کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا زمانہ قریب آرہا ہے۔ تمہیں حوصلے سے کام لینا چاہیے۔ میں تمہارے لیے کھانا بھیجتا ہوں‘‘۔

داروغہ یہ کہہ کر باہر نکل گیا اور عاصم کو پھر ایک بار دست گرد کے قید خانے سے کوسوں دور نئے راستوں اور نئی منزلوں کے چراغ دکھائی دینے لگے۔

’’فسطینہ! فسطینہ!!‘‘ اس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’کیا تم میرا انتظار کرسکو گی…؟ اور پھر یکایک اس کے تصورات کی دنیا میں فسطینہ کی مسکراہٹیں پھیل گئیں۔

اس شام وہ قید خانے کی وسیع چار دیواری کے اندر گھوم رہا تھا۔ اور چند دن بعد کئی قیدیوں سے باتیں کرنے کے بعد وہ یہ محسوس کررہا تھا کہ جبر اور ظلم کی اس بستی میں وہ اکیلا نہیں۔ یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس سے زیادہ مظلوم ہیں۔

چند ماہ اور گزر گئے۔ پھر ایک دن عاصم کو یہ معلوم ہوا کہ رومی لشکر، نینوا کے میدان میں ایرانیوں کو شکست دینے کے بعد دست گرد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے بعد کسریٰ نے دست گرد سے راہِ فرار اختیار کی۔ تو عاصم یہ محسوس کرنے لگا کہ اس کی مصیبت کا دور ختم ہونے والا ہے۔ قید خانہ کا داروغہ بھی اُسے یہ اطمینان دِلا چکا تھا کہ جب رومی شہر کے قریب پہنچ جائیں گے تو میرے لیے قید خانے کے دروازے کھول دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

لیکن کسریٰ کو مدائن میں اطمینان کا سانس لیتے ہی اپنی فوج اور کنیزانِ حرم کے علاوہ ان قیدیوں کی فکر ہوئی جو دشمن کے ساتھ مل کر اس کے لیے بدترین خطرات پیدا کرسکتے تھے۔ چنانچہ ہرقل کی آمد سے تین دن قبل ان لوگوں کو پانچ سو سپاہیوں کی ننگی تلواروں کی حفاظت میں قید خانے سے نکال کر مدائن سے چند میل دور ایک پرانے قلعے کے اندر منتقل کردیا گیا۔ اس قلعے کے محافظ کا نام مہران تھا اور وہ ان سنگدل لوگوں میں سے تھا جو اپنے حکمران کے انتہائی ظالمانہ احکام کی تعمیل میں بھی ایک لذت محسوس کیا کرتے تھے۔ اور کسریٰ اُسے یہ حکم دے چکا تھا کہ اگر مدائن کو کوئی خطرہ پیش آیا تو ان قیدیوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے تمہیں ہماری طرف سے کسی نئی ہدایت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ (جاری ہے)

حصہ