اختر سعیدی کے لئے تقریب پزیرائی اور مشاعرہ

332

بسمل آرٹس کونسل کورنگی میں اختر سعیدی کے لیے پزیرائی اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ ظفر محمد خان نے اس تقریب کی صدارت کی۔ توقیر اے خان ایڈووکیٹ مہمان خصوصی تھے۔ مہمانانِ اعزازی میں افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ شامل تھے۔ تنویر سخن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ رستم علی قادری نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ زیقرین صابر نے حمد باری تعالیٰ اور عزیز الدین خاکی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ تنویر سخن نے نظامتی فرائض کے ساتھ ساتھ اختر سعیدی کے بارے میں کہا کہ وہ عہدِ نو کے ایک تازہ کار شاعر ہونے کے علاوہ قدر آور صحافی بھی ہیں۔ انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنائی ہے وہ کم از کم پچاس برس سے شاعری کر رہے ہیں۔ شاہد اقبال نے کہا کہ اختر سعیدی ایک خاموش طبع‘ ملنسار انسان ہیں‘ وہ کئی ادبی تنظیموں کے سربراہ ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ سماجی خدمات کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔ ان کی شاعری میں معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ غمِ جاناں بھی موجو دہے انہوں نے جدید استعاروں اور جدید لفظیات سے اپنی شاعری کو سجایا ہے۔ ریحانہ احسان نے کہا کہ نور احمد میرٹھی کے سچے جانشین اختر سعیدی ہیں‘ وہ ادرۂ فکرِ نو کے روح رواں ہیں اور نور احمد میرٹھی کے کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے شاعری اور صحافت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ان کا شمار استاد شعرا میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی صحافتی حیثیت کو کیش نہیں کرایا بلکہ وہ انسانیت کے فروغ میں خلوص دل سے مصعروف عمل ہیں انہوں نے بہت سے شعرا کو پروموٹ کیا۔ ان کی شاعری تہذیب و ترتیب کی عکاس ہے۔ انہوں نے اظہارِ ذات کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کو بھی شاعری کا حصہ بنایا ہے‘ وہ ایک باشعور شاعر ہیں۔ انور انصاری نے کہا کہ اختر سعیدی کے خون میں شاعری رچی بسی ہے۔ ان کے والد‘ چچا اور بھائی اردو کے بہترین شاعر تھے۔ بے شمار شاندار پروگرام ان کے کریڈٹ پر موجود ہیں‘ وہ کراچی کے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت رکھتے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے بیرون ممالک میں بھی مشاعرے پڑھے ہیں ان کے تین شعری مجموعے اور ایک نثری کتاب ارو ادب کا حصہ ہے۔ وہ شاعری کے بلند مقام پر فائز ہیں‘ ان کے یہاں شعری لطافت اور نزاکت پوری توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ راقم الحروف نے اختر سعیدی کو منظوم خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ:

سخن پرور ہیں اختر اور نقادِ سخن بھی ہیں
دبستانِ صحافت میں صداقت کا چلن بھی ہیں
غزل گوئی میں ان کی حسن ہے منظر نگاری ہے
زباں شیریں ہے اسلوب و بیاں میں تازہ کاری ہے

عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اختر سعیدی ایک بہادر انسان ہیں اور کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں‘ وہ ادبی محفلوں کی جان ہیں‘ انہوں نے بے شمار پروگرام بھی ترتیب دیے ہیں جن میں ان کی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کی شاعری اور صحافت دونوں بے مثال ہیں۔ وہ سہل ممتنع کے علاوہ مشکل ردیف قافیوں میں بھی شاعری کرتے ہیں۔ ان کے اشعار ہمارے ذہن و دل میں اتر جاتے ہیں۔

افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ اختر سعیدی ایک قادر الکلام شاعر ہیں ان کی ادبی اور سماجی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ ان کی شاعری قدیم اور جدید خیالات کا حسین سنگم ہے۔ ان کا شعری اسلوب و آہنگ ان معنوں میں بھی قابلِ تعریف ہے کہ انہوں نے شعری روایات سے بغاوت نہیں کی۔ ان کے یہاں ندرتِ فکر اور تازہ کاری پائی جاتی ہے‘ وہ پوری شعری لطافت کے ساتھ میدانِ سخن میں نام کما رہے ہیں۔

توقیر اے خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اختری سعیدی ایک قابل فخر سینئر شاعر ہیں‘ صحافت کے میدان میں بھی انہوں نے نمایاں کام کیا ہے۔ ظفر محمد خان نے کہا کہ اختر سعیدی ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ وہ شاعر‘ ادیب‘ نقادِ فن اور صحافی ہیں۔ وہ دن بہ دن ترقی کر رہے ہیں۔ ان کے اشعار میں قنوطیت اور بوجھل پن نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری زندہ شاعری ہے۔ آج کی کامیاب تقریب ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اختر سعیدی نے کہا کہ وہ اردو ادب کے خدمت گزار ہیں‘ انہوں نے زندگی بھر پرورش لوح و قلم کی ہے وہ آج کی تقریب کے منتظمین کے شکر گزر ہیں۔ ابراہیم بسمل نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ان کا ادارہ ادب کی پروموشن میں اپنا حصہ شامل کر رہا ہے ہم اردو ادب کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ پروگرام کے دوسرے دور میں ظفر محمد خان‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ توقیر اے خان ایڈووکیٹ‘ اختر سعیدی‘ انورانصاری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ یوسف چشتی‘ افضل ہزاروی‘ حامد علی سید‘ شاہد اقبال‘ مرزا عاصی اختر‘ ریحانہ احسان‘ صفدر علی انشاء عارف شیخ‘ آئیرین فرحت‘ تاج علی رانا‘ کاوش کاظمی‘ سرور چوہان‘ کشور عروج‘ زبیر صدیقی‘ زعیم ارشد اور ذوالفقار علی پرواز نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ