پاکستان ہماری پہچان

182

14اگست کا دن جیسے جیسے قریب آرہا تھا، ملک بھر کی رونقیں بڑھتی جا رہی تھیں، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہر گھر میں ہر یالی ہی ہریالی ہو،عبداللہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر رات بارہ بجے تک اپنی گلی کو سبز و سفید چھنڈیوں سے سجاتا رہا تھا، اور جشن آزادی منانے کی خوشی میں وہ زیادہ دیر تک سو بھی نہیں سکا تھا، عبداللہ جب دالان میں داخل ہوا تو دادا جان اخبار پڑھنے میں اتنے محو تھے کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوا کہ میں آیا ہوا ہوں، عبداللہ نے دادا جان کو السلام وعلیکم کیا تو دادا جان نے جواب میں وعلیکم السلام کہا، پھر دادا جان نے عبداللہ کو اپنے پاس بیٹھا لیا، عبداللہ نے دادا جان سے پوچھا کہ دادا جان آپ اخبار میں کیا پڑھ رہے تھے تو دادا جان نے کہا کہ جب بھی 14 اگست کا دن آتا ہے تو 1947ء کے دردناک واقعات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، اور یہ زخم پھر سے ہرے ہو جاتے ہیں، اور دادا جان نے اپنے بچپن کی بات بتائی کہ جب ہم بھی تمہاری طرح بچے تھے تو وطن عزیز کی محبت کا جوش و خروش کا جذبہ اس عروج پر پہنچ جاتا تھا کہ سارا دن بھوک و پیاس کی پرواہ کیے بغیر بس گھر اور محلے کو سجانے کی امنگ میں لگے رہتے تھے۔
آج موسم بہت خوشگوار ہے اور 14 اگست کا دن ہے اور سبز ہلالی پرچم کی بہار ہے پاکستان کے چپے چپے اور گوشے گوشے میں ہر طرف گھر کی چھت پر سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے، تو پھر عبداللہ نے دادا جان سے شام میں قیام پاکستان کی کہانی سننے کی فرمائش کی پھر شام ہوئی تو عبداللہ نے کہانی سننے کےلیے اپنے سب دوستوں کو اپنے گھر بلا لیا، اور قیام پاکستان کی کہانی سننے کے لیے دادا جان کے اردگرد گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے، اور پھر دادا جان نے قیام پاکستان کی کہانی سنانا شروع کی۔
14 اگست 1947ء ہماری تاریخ کا روشن اور سنہری دن ہے آزادی کی نعمت اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ یہ نعمت آگ اورخون کے سمندر سے گزر کر حاصل کی گئی ہے، لاکھوںمسلمانوں کی جانیں اس نعمت کے حصول کےلیے کی گئیں،کروڑوں عوام نے قربانیاں دیں اور آج بھی کروڑوں اس کی قیمت ادا کررہے ہیں، آزادی ایک عطیہ ہے ایک ذمہ داری بھی اور ایک انعام بھی ہے۔آج پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے 76 برس کا عرصہ ہو چکا ہے دل سے اپنے پوچھیے تو آواز آئے گی نہیں، میرے پاکستان میں کوئی کمی نہیں ہے، میں بھی پاکستان ہوں، اور مجھے فخر ہے اپنے پاکستان ہونے پر۔
گویا! مملکت خداداد اور اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت جو کچھ بھی ہے جیسا بھی ہے دو چار برس کی بات نہیں بلکہ پوری صدی کا قصہ ہے ، پوری قوم جشن آزادی منا رہی ہے اور آج بھی جشن آزادی عروج پر ہے، پاکستان نے ہمیں بہت کچھ دیا ہمیں پہچان دی ہماری پہچان پاکستان ہے پھر دادا جان ایک جذبے کے ساتھ بولے کہ بیٹا! آپ خوش قسمت ہیں کہ آزاد وطن کی آزاد ہوائوں اور پر کیف فضائوں میں آنکھ کھولی ہے، ہمارا المیہ ہے کہ پاکستانی قومی ایک بہترین قوم لیکن اس کے حکمران بہترین چھوڑ بہتر بھی نصیب نہیں ہوئے پھر دادا جان نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی اور کہا کہ پاکستان کو غنیمت جانو اس کی خیر منائو اور اس کی قدر کرو پاکستان ہے ہمارا ہے اور تم ہی اس کے رکھوالے ہو، پاسباں ہو تم جوان ہو۔
دادا جان پھر بولے کہ ہم تو اپنا وقت گزار چکے اور اب تو لوگوں نے اس سالمیت اور آزادی کا خیال رکھنا ہے، تم ہی اپنے کردار خلوص عزم و وقار کی شرافت و شجاعت کی بے لوث کی خوشبو ہو، اور اس وقت گوشے گوشے کو معطر کرنا ہے رات دن کی محنت سے سائنس و ٹیکنالوجی کا علم حاصل کر کے کائنات کو تسخیر کرنا ہے علم کی سیڑھی چڑھ کر چاند تاروں کی خبر لانا ہے اور دکھی انسانیت کی مانگ میں چاند تارے بھر نا ہے اور ہم امید لگا لیتے ہیں کہ کوئی خوف وخدا رکھنے والا حکمران آئے گا اور پاکستان کا جو مقصد ہے اس کا نعرہ ’’لا الہ الا للہ ‘‘ کی تعبیرمل جائے گی اور اللہ کرے ایسا ہی ہو۔عبداللہ اور عبداللہ کے سب دوستوں کا چہرہ ایک نئے عزم اور نئے جذبے سے چمک رہے تھے، اور باآواز بلند ہو کر کہا کہ وطن عزیز کی خاطر تن من دھن سب قربان کر دیں گے اور پاکستان کا نام روشن کریں گے اور ہمیں (ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی) کا پیغام عام کرنا ہے، آمین یوم آزادی کے موقع پر پوری قوم اپنے اپنے طریقوں سے آزادی کی جوش و خروش اور جذبے کے ساتھ مناتی ہے، اور ایک جھنڈے تلے جمع ہو کر اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کیونکہ وطن عزیز لاکھوں سلمانوں کی قربانی کا ثمر ہے۔
ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان ہم سب کا پاکستان
پاکستان پاکستان پاکستان

حصہ