ہمت والے ججز اور سوشل میڈیا

349

اس ہفتہ پاکستان کے سوشل میڈیا پر عمران خان کے علاوہ دو پاکستانی جج کی ہمت کے چرچے رہے۔ ایک تھے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوںدلاور، جنہوں نے ایک تاریخی فیصلہ دیا، عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں جرم ثابت ہونے پر سزا سناکر۔ لندن سے الطاف حسین نے زبردست وڈیو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’’تحریک انصاف کے رہنما کو جھوٹے مقدمے میں جج ہمایوں سزا سنا کر، اگلے ہی دن جوڈیشل ٹریننگ کا کہہ کر لندن بھاگ گیا۔‘‘

اَصلا ً وہ5 تا 13 اگست تک برطانیہ میں ’’انسانی حقوق‘‘ کے عنوان سے ایک تربیتی جوڈیشل کانفرنس میں شرکت کے لیے چلے گئے۔ چیف جسٹس کی جانب سے اُن کی اس طرح لندن میں ٹریننگ کے لیے نامزدگی 4 اگست کو شاید ٹائمنگ میچ کر کے ہی کی گئی تھی۔ پاکستان میں تو عمران خان کی گرفتاری پر اِس بار ایک شیشہ بھی نہیں ٹوٹا البتہ بیرون ملک خاصا شور نظر آیا کیوں کہ عدالتی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے نوٹیفیکیشن جاری کر کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو سزا ملنے کے بعد 5 سال کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔ اب جیسے ہی وہ جج صاحب برطانیہ میںمتعلقہ یونیورسٹی پہنچے تو اُس کے باہر عمران خان کے چاہنے والے اپنا وقت اور کام کاج قربان کرکے جمع تھے۔

ایک 14‘15سالہ پاکستانی لڑکی شہر بانو نے بھی اپنے ٹوئٹر اکائونٹ کو عمران خان کے لیے وقف کر ڈالا۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے طور پر اُن کے ویری فائڈ اکائونٹ پر کوئی 3 لاکھ کے قریب فالوورز ہیں۔ وہ تو بہت جذباتی بیانیے کے ساتھ اُتریں کہ ’’خواتین و حضرات ہم وہ ٹی وی چینل نہیں دیکھیں گے جس پر خان کو نہیں دکھایا جائے گا‘ نہ ہی وہ یوٹیوب چینل جس کے اوپر خان صاحب کے خلاف بات ہوگی۔‘‘

ان کے علاوہ ایک خاتون سارا (برطانیہ سے) اس کے ساتھ ایک اور تحریک انصاف کے شایان علی بھی جج کا پیچھا کرنے میںخاصا مقبول رہے۔ شاید اُنہی خاتون نے جج ہمایوں کو جب وہ گاڑی سے پہنچے تو وہیں سے چیخ چیخ کر خوب سوال پوچھے کہ بتائو تم نے کتنے میں پاکستان بیچا۔ یہ سب وہ وڈیو بناتے ہوئے کیا گیا، مگر مجال ہے جو جج صاحب نے کوئی ایک رد عمل بھی دیا ہو۔ اُن کے حفاظتی گارڈ نے ہی سارا معاملہ سنبھال کر رکھا۔

یہی نہیں ہل یونیورسٹی کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا۔ کچھ لوگ تو عبرت کے لیے مشہور امریکی کیپریو جو سات ماہ قبل ریٹائر ہوا تھا، اُس کی پرانی وڈیوز ڈالتے رہے کہ دیکھو اگر جج ایمان دار اور انسان دوست ہو تو عوام کیسے اُس کا پُرتپاک استقبال کرتے ہیں۔ متذکرہ جج کی کیس کارروائی کی کئی وڈیوز سوشل میڈیا پر اکثر وائرل رہتی ہیں۔ بہرحال تحریک انصاف نے ان سب بہانوں سے وڈیوز بنا بنا کر اپنی موجودگی سوشل میڈیا پر ظاہر رکھی، جس کی وجہ سے وہ ٹوئٹر، ٹک ٹاک، انسٹا گرام پر تین دن تک نظر آتے رہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس تحرک کے پیچھے پشاور کی تحصیل متھرا کے ضمنی انتخاب کا بھی اہم عنصر ہو۔ خیبر پختونخوا کی تحصیل کونسل متھرا کے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار نے میدان مار لیا، انعام اللہ 20 ہزار 333 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار رفیع اللہ 13 ہزار 564 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔یہ سیٹ جے یو آئی (ف) کے چیئرمین فرید اللہ کی وفات پر خالی ہوئی تھی۔اِسی طرح ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں میں تحصیل چیئرمین کے لیے آزاد امیدوار عزیر شیر خان 21 ہزار 464 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، مگر پی ٹی آئی کے افتخار خان 18 ہزار 527 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ یہ نشست تحصیل چیئرمین عاطف منصف خان کے قتل کے بعد خالی ہوئی تھی، جو آزاد حیثیت میںکامیاب ہوا تھا۔ تحریک انصاف کے ساتھ اس وقت جیسی صورت حال ہے اس میں تحریک انصاف کے ایسے نتائج اُن سب کے لیے الارمنگ ہیں جو یہ نہیں چاہتے۔ بہرحال توشہ خانہ کیس کے فیصلے میں جماعت اسلامی کا یہ بیانیہ سب سے معقول نظر آیا کہ جس جرم میں ایک کو سزا دی ہے تو باقیوں کو کیوں چھوڑا جا رہا ہے؟ کیا وہ سب توشہ خانے سے فوائد سمیٹنے میں ایسے ہی ملوث نہیں تھے؟ کیا انہوں نے اِس مد میں سارے اندراج کرائے ہوئے ہیں؟ بالکل یہی بیانیہ پانامہ کیس کے وقت بھی جماعت اسلامی نے پیش کیا مگر تھا……

اس کے علاوہ ایک اور جج نے بڑی ہمت دکھائی ، اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج فرخ فرید نے گھریلو ملازمہ پر تشدد کرنے والی ایک جج کی بیوی (ملزمہ )کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے گرفتاری کا حکم دیا۔ سوشل میڈیا پر مستقل اُس معصوم بچی کے سر کے زخم دکھا کر ہمدردیاں سمیٹی گئیں۔ اس بار ایک جج کے گھر میں یہ واردات ہوئی تھی، بچی کی موت کی افواہیں بھی سوشل میڈیا پر چلیں۔ بچی زیر علاج ہے اور اِس کے علاج کے اخراجات حکومت برداشت کر رہی ہے۔ اِس بچی رضوانہ کے حق میںسوشل میڈیا پر ہمیشہ کی طرح خاصی آواز بلند ہوئی، معاملہ بھی ایسا تھا۔ لوگ سوچتے تھے کہ جج کی بیوی ہے بچ جائے گی مگر جج فرخ فرید نے ہمت دکھا دی۔ اس کیس کی جوائنٹ انویسٹی گیشن بھی ہو چکی تھی جس میں ملزمہ تشدد کے الزام سے صاف مکر گئی اور کہا کہ بچی کے سر پر الرجی تھی،کسی نے اسے نہیں مارا۔ میڈیکل رپورٹس کے مطابق اسلام آباد کے تھانہ ہمک میں درج مقدمے میں اقدام قتل اور جسم کی بیشتر ہڈیوں کو توڑنے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ بچی کے سر سمیت جسم کے 15 مقامات پر زخموں کے نشانات ہیں۔ بروقت علاج نہ ہونے کے باعث یہ زخم خراب اور ان میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔ جب کہ کئی اندرونی چوٹیں بھی آئی ہیں۔ کیس کی سماعت کا سلسلہ چلے گا تعلقات ، بھی چلیں گے دبائو بھی، پیسہ بھی، دیکھتے ہیں کیا سچ سامنے آتا ہے۔ بہرحال بات تو جج کی ہمت کی ہو رہی تھی، اُس پر سوشل میڈیا خاصا گرم رہا۔

شہباز شریف کی حکومت جا نے پر متفقہ طور پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جان بوجھ کر وقت سے پہلے اسمبلی ختم کرنے کا مقصد یہی لگ رہا ہے کہ اب 90 دن میں انتخابات نہیںہونے والے۔ میں 168 روپے کلو آٹا خریدکر جب گھر پہنچا تو نوٹیفیکیشن میں پبلک نیوز معروف کرنٹ افیئر ز اینکر فہد شہباز کی زبردست ٹوئیٹ نظر آئی۔ وہ قومی اسمبلی کے آخری سیشن کی کوریج کر رہے تھے اور مستقل ٹوئیٹس کر کے اَپ ڈیٹ کر رہے تھے۔ فوٹو سیشن والی وڈیو کے بعد اُنہوں نے اراکین قومی اسمبلی کے لیے عشائیے کا مینیو ٹوئیٹر پر شیئر کیا۔ یقین مانیں بہت سادہ اور لذیذ تھا۔ قومی اسمبلی کے جاری کردی مینیو نوٹیفیکیشن کے مطابق اس میں ’’ترکش ریشمی کباب، چیز ریشمی کباب، ملتانی مٹن کنہ، لبنانی بون لیس بوٹی، مٹن را ن روسٹ، میاں جی کی دیسی گھی والی دال، چکن بون لیس ہانڈی، مٹن بخارا پلائو، بھنڈی مصالحہ، فریش شیلڈ، رشین سیلیڈ اور فروٹ سیلڈ، نان کی مختلف اقسام رکھی گئی ہیں ، جن میں سادہ، روغنی، گارلک، کلونجی نان شامل ہیں جب کہ میٹھے میں  کیریمل کرنچ جو لذت کی معراج کہا جاتا ہے، شاہی ٹکڑے اور فروٹ ٹرائفل۔‘‘ بس یہ سادہ کھانا کوئی 500 سے زائد افراد کے لیے رکھا گیا ہے۔اس پر ایک اور صحافی نے تبصرہ کیا کہ ’’غریب عوام کی جانب سے کھربوں پتی کابینہ اراکین کے لیے دعوت ، مینیو میں ایسی ڈشز بھی ہیں جو غریب عوام پہلی بار سن رہے ہوں گے۔‘‘

دوسری جانب حکومت کی تبدیلی پر لوگ سوشل میڈیا پر معصوم عوام کو یہ مسنون دعا پڑھنے کے لیے مشورے دیتے نظر آئے ’’اے اللہ! ہم پر ایسے حکمران مسلط نہ فرما جو ہم پر رحم نہ کر یں۔‘‘ اپنے الفاظ و معانی کے اعتبار سے انتہائی جامع دعا ہے۔ مسنون ہے اس لیے میرے عقیدے کے مطابق تواتر سے پوری قوم پڑھے تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ پاک ہمیں دُعا کے مطابق ہی حکمران عطا کردے۔ مگر اس کا تواتر سے کثرت سے پڑھنا شرط ہے کیوں کہ ترمذی شریف کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی ہر مجلس کے خاتمے پر یہ دعا مانگتے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر نے بھی ظالم حکومت کے از خود خاتمے پر دو رکعت شکرانے کی نفل پڑھنے کی تلقین کی ہے۔ مگر یہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ظالم کا صرف چہرہ بدلنے جا رہا ہے۔ پاکستان کے قیام کا 76 واں سال پورا ہوا ہے۔ اس میں مستقل حکمرانوں ہی کی بد اعمالیاں سامنے آتی رہی ہیں عوام کے لیے شامت اعمال بن کر۔

آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانا اب کوئی غیر معمولی بات پاکستان میں نہیں رہی۔ خان صاحب کی گرفتاری پر میرے محتاط اندازے کے مطابق بھارت کی مدد سے ایسے ہی ٹرینڈ چلائے جا سکتے ہیں۔ حکومت جانے والی رات 11 بجتے ہی ’’عاصم منیر‘‘ کا ہیش ٹیگ ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ پر اُبھرا۔ اُس میں شامل مواد دیکھ کر مجھے تو صاف بھارتی مدد محسوس ہوئی کیوں کہ میں نے پوسٹ کرنے والے کئی لوگوں کے اکائونٹ چیک کیے، مواد کا تجزیہ کیا تو یہ جاننے میں کچھ دیر نہ لگی کہ یہ سب پلانٹڈ اکائونٹس ہیں، ان کے علاوہ زیادہ تر بیرون ملک، برطانیہ، امریکہ ، کینیڈا وغیرہ کے لوگ ہیں۔ یہی نہیں بلکہ لندن ہی سے الطاف حسین تو مستقل ہی عمران خان کی حمایت میں فوجی جرنیلوں کے خلاف کمر بستہ ہیں کیوں کہ وہ بھی ایسی ہی غیر اعلانیہ پابندی کا شکار ہیں۔

الطاف حسین نے وڈیو پیغام ٹوئیٹ کیا کہ ’’کیا پاکستان کے عوام آزاد ہیں؟ ایسے وقت میں جب ہم آزاد ہی نہیں، ہم جلسے جلوس نہیں کرسکتے۔ میری تحریر اور تقریر پر پابندی ہے۔ عمران خان پر پابندی ہے تو پھر کیسا جشن آزادی؟‘‘

لندن ہی میں مقیم سابق میجر عادل راجا بھی پیچھے نہیں رہا۔ وہ تو اپنے 11 لاکھ فالوورز کو عاصم منیر کے خلاف راغب کر رہا تھا۔ اِس نے الگ سے ٹوئیٹ کی کہ مجھے ایسا کرنے پر فخر ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ ابھی پچھلے ہی ہفتے پاک فوج کی تضحیک پر ایسا کوئی سخت قانون منظور ہوا ہے۔ افسوس کہ حکومت ایسے قوانین منظور کر کے بھی بے بس نظر آئی۔ بات یہاں تک ہی نہیں بلکہ کسی نے ’’اللہ الحق‘‘ کے نعرے کے ساتھ امریکی دھمکی (سائفر) کا تحریری عکس بھی جاری کردیا۔ عمران خان جس معاملے پر جھوٹ بولنے (کھو جانے) پر قوم سے معافی مانگ چکا ہو، اُس کو دوبارہ زندہ کرنے کا کیا مقصد ہوگا؟ اس پر سائفر ایک حقیقت کا ٹرینڈ بنا کر ایک نئی سمت کہانی کو موڑدیا گیا۔

ویسے آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ امریکا کا قصہ کیوں بار بار آجاتا ہے؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایوب خان ہو یا ذوالفقار علی بھٹو، ضیا الحق ہو یا بے نظیر بھٹو، مشرف ہو یا نواز شریف یا عمران خان سب کی جان امریکا میں پھنسی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ملک کا 76 واں جشن آزادی منایا جا رہا ہے اور ہم آزادی کی کیفیت کا بہ خوبی ادراک کر سکتے ہیں۔ حکومت نے اس ضمن میں باجوں پر پابندی لگا کر اچھا کام کیا مگر اس قانون پر بالکل ویسے ہی عمل ہو رہا ہے جیسا پاک فوج کی توہین والے قانون کے ذیل میں عمل ہوتا نظر آرہا ہے۔

جس کو سائفر کی اصطلاح استعمال کرکے ایسا پیش کیا جا رہا ہے وہ تو مقامی دفتر خارجہ کے الفاظ ہیں جو اس نے سمجھا بیان کیا ہے۔ اس کو سوشل میڈیا پر ایسے پیش کرنا کس حد تک ملک کے لیے فائدہ مند ہوگا‘ یہ خود اہم سوال ہے۔

حصہ