پاکستان کی تخلیق اور لازوال قربانیوں کی داستانوں کی عزیمت

469

مجھ کو تو ابھی تک وہ زمانہ یاد ہے
قافلے جب لٹ رہے تھے رہبروں کے درمیاں
قریہ قریہ چیخ تھی ماتم بپا تھا کو بہ کو
بیٹیاں جب جل رہی تھیں چلمنوں کے درمیاں

برصغیر میں مغلوں کی سلطنت کا خاتمہ اور برطانوی سامراج کی حکومت ایک ایسی داستانِ غفلت ولاپروائی ہے جس کی تاریخ الم ناک بھی ہے اور سزائے قدرت بھی۔ جب کوئی قوم بگاڑ کی تمام حدیں پار کرلیتی ہے تو اللہ اُس سے دنیا کی حکمرانی کا حق چھین لیتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’جب تم اللہ کے دین کے راستے میں نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو عذابِ الیم میں مبتلا کردے گا اور تم پر کسی اور کو مسلط کردے گا، تم اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘ (سورۃ التوبہ)

یوں تو اسلام مسلمان عرب تاجروں کے ذریعے جنوبی ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں ابتدائی وقتوں میں پھیل چکا تھا۔ اس کے بعد محمد بن قاسم کی عسکری فتوحات کے بعد سندھ کے طول وعرض میں پھیلنا شروع ہوگیا۔

ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر کے عبرت ناک انجام کے بعد پورے ہندوستان میں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی، مگر مسلمانوں کی مزاحمتی تحریک مختلف صورتوں میں جاری رہی۔ میرٹھ کی چھاؤنی سے اٹھنے والی 1857ء کی بغاوت کے شعلے نے لال قلعہ کے دروازے پر اُس وقت دم توڑ دیا جب بہادر شاہ ظفر جیسے آرام طلب اور بزدل بادشاہ نے مجاہدین کی حمایت سے انکار کردیا۔ پھر کیا تھا، دہلی کے گلی کوچوں میں انگریزوں نے قتلِ عام شروع کردیا، تین دن تک رقصِ ابلیس جاری رہا۔ ہزاروں علما کی لاشیں درختوں سے لٹکا دی گئیں اور ہندوستان کے مسلمانوں کا سب کچھ تباہ کردیا گیا۔ اس تباہی میں ہندو مہاسبھا کے لوگ کھلے عام انگریزوں کے ساتھ تھے۔ لیکن اس انقلاب کی چنگاری دبی نہیں، تیتو میر اور دودو بھائی کی عسکری مزاحمت شروع ہوگئی۔ علما کی ریشمی رومال تحریک جو مولانا محمودالحسن اسیرِ مالٹا کی سربراہی میں چلائی گئی‘ بے مثال قربانیوں کی لازوال داستان ہے جس میں ہزاروں علما نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ 1914ء میں پہلی عالمی جنگ کی شروعات میں جرمنی کے اتحادی ممالک کی شکست نے ترکی کی خلافت کا خاتمہ کردیا جو 1923ء میں ہوا۔ یہاں بھی برصغیر کے مسلمانوں نے مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں خلافت کی بحالی کی تحریک ’’تحریکِ خلافت‘‘ چلائی اور ہزاروں مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرکے افغانستان گئے اور صعوبتیں برداشت کیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کانگریس بھی تحریکِ آزادیِ ہند شروع کرچکی تھی اور مسلمان اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی بھی مکارانہ طور پر مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے تحریکِ خلافت کی حمایت کررہا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراج کی چولیں ڈھیلی ہوچکی تھیں اور ’’انگریزو! انڈیا چھوڑو‘‘ کا نعرہ گلی گلی گونج رہا تھا، اور مسلمان بھرپور قوت کے ساتھ قربانی دے رہے تھے۔ اُس وقت بھی ہندو مہاسبھا کے مسلمان دشمن، انگریزوں کا ساتھ دے رہے تھے۔

1906ء تک انگریزوں کے خلاف تحریکِ آزادی کی جدوجہد میں ہندوئوں اور مسلمانوں کا مشترکہ پلیٹ فارم کانگریس ہی تھا، مگر ہندو قیادت نے جو بنیادی طور پر کٹّر مسلم دشمن تھی‘ بظاہر سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، ان کی مکاری واضح ہوگئی اور 1906ء میں ڈھاکا کے اندر آغا خان کی صدارت میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ الٰہ آباد میں 1930ء میں علامہ اقبال کے صدارتی خطبے میں یہ واضح اعلان ہوگیا کہ ہندو مسلم الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی ثقافت، تہذیب، مذہب، کھانا پینا، شادی بیاہ سب الگ شناخت رکھتے ہیں وہ کبھی ایک ساتھ مساویانہ حقوق کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ حب کہ ہندوستان کے اکثر جیّد علمائے دیوبند اور ابوالکلام آزاد تقسیم ہند کی مخالفت کررہے تھے، مگر مسلم لیگ کے علیحدہ وطن کے مطالبے نے ایسا جادو کیا کہ چترال کی وادی سے لے کر خلیج بنگال تک‘ بولان کے صحرا سے راس کماری کے ساحلوں تک صرف ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا… لاالٰہ الا اللہ‘‘، حالانکہ ہندوستان کے وہ علاقے جو تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں شامل نہیں ہوسکتے تھے وہاں کے مسلمانوں نے تحریکِ پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا، جس کی بھاری قیمت انہیں مسلم کُش فسادات کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔ 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں قراردادِ پاکستان کی منظوری نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا، اور سات سال بعد مدینہ کی پرتو ریاست معجزاتی طور پر وجود میں آگئی۔

اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحرِ فرنگیانہ
تعمیرِ آشیاں سے پایا یہ راز ہم نے
اہلِ نواں کے حق میں بجلی ہے آشیانہ

قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور ملک کے کونے کونے میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ شمالی ہندوستان کے ہر قصبے اور شہر میں ہندو بلوائیوں نے مسلمانوں کے گھروں اور جائدادوں پر حملے شروع کردیے جن کی پشت پناہی فوج اور پولیس کررہی تھی۔ مسلمان اپنا دفاع کرنے سے بھی قاصر تھے۔ جوں جوں تحریک زور پکڑ رہی تھی‘ فسادات کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا تھا۔

1946ء میں کلکتہ میں تین دن تک مسلسل فسادات ہوئے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ 1946ء میں ہی پٹنہ کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی جس میں دس ہزار سے زائد مرد و خواتین، بچے اور بوڑھے شہید ہوئے۔ سیکڑوں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے کنووں میں چھلانگ لگاکر اپنی عزتیں بچائیں۔

جیسے جیسے آزادی کے دن قریب آرہے تھے‘ فسادات بڑھتے جا رہے تھے۔ 1947ء میں اگست کے مہینے میں مشرقی پنجاب کے ہر شہر اور قصبے میں سکھوں اور ہندوئوں نے مل کر مسلمانوں پر حملے شروع کردیے۔ ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے قافلوں پر آتشیں اسلحے سے لیس سکھوں کے جتھے حملہ آور ہوتے اور لاشوں سے بھری ریل گاڑیاں جب لاہور پہنچتیں تو ڈبوں میں برہنہ خواتین کی کٹی ہوئی لاشیں دل دہلا دیتی تھیں۔ دہلی میں مہرولی اور قطب مینار کی مسلم آبادی مکمل طور پر تہِ تیغ کردی گئی، سبزی باغ کی نکاسی کے نالوں میں مسلمانوں کا لہو بہہ رہا تھا۔ شاہی مسجد میں پناہ لینے والے ہزاروں مسلمانوں پر حملے ہورہے تھے۔ سیکڑوں بیٹیوں کو لال قلعے کے برجوں سے نیچے پھینک دیا گیا تھا۔ دہلی کے ایک بزرگ نے مجھے بتایا کہ جب سبزی باغ میں ہندوؤں نے حملہ کیا تو ایک مسلمان نانبائی کی دو جوان بیٹیوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے خود کو جلتے ہوئے تنور میں بند کرکے جان دے دی۔

آج بھی مشرقی پنجاب میں ہزاروں مسلمان رضیائیں رنجیتا کور بن کر کسی محمد بن قاسم کی منتظر ہیں۔ مشرقی یوپی، بہار اور کلکتہ کے لٹے پٹے مسلمانوں نے مشرقی پاکستان ہجرت کی، جبکہ مغربی یوپی، مشرقی پنجاب، دہلی، راجستھان، مہاراشٹر کے مسلمان ہجرت کرکے مغربی پاکستان آئے۔ ہجرت کرنے والوں کے پاس تن پر لباس کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ اپنا گھربار چھوڑا، عزیز و اقارب کو اپنی نظروں کے سامنے بے دردی سے قتل ہوتے دیکھا، مائوں کی گودوں سے بچوں کو چھین کر سکھ اور ہندو بلوائیوں نے نیزے پہ اچھالا… خون کا دریا اور آگ کی سرحد عبور کرکے جب یہ لٹے پٹے قافلے پاکستان میں داخل ہوتے تو سارا غم بھول کر سجدہ ریز ہوجاتے۔ ایک اندازے کے مطابق 50 لاکھ مسلمانوں نے پاکستان بنانے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پاکستان کی تخلیق میں مسلمانوں کے ہر طبقے نے قربانی دی۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بردبار اور زیرک قیادت میں پاکستان قائم ہوا مگر بقول اُن کے ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘۔ ان کی جیب کے کھوٹے سکے اور ان کی نسل گزشتہ 75 سال سے اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کررہی ہے اور ان کی ملکِ ہوس گیری نے 1971ء میں پاکستان کیو دو ٹکڑے کردیے۔

یہ بات سو فیصد درست ہے کہ آزادی حاصل کرنا جتنا مشکل ہے اس کی حفاظت کرنا اُس سے زیادہ مشکل ہے۔ انہی حالات کو دیکھ کر عامر عثمانیؒ نے کہا تھا:۔

کتنے شاہیں بسیرے کو ترسا کیے
چھا گئے باغ پر کتنے زاغ و زغن
کتنے اہلِ وفا، دار پر چڑھ گئے
کتنے اہلِ ہوس بن گئے نورتن
کتنی قبروں پر چڑھتی رہیں چادریں
کتنے لاشے پڑے رہ گئے بے کفن
اک شہرِ سیاست کا ماتم نہیں
ہر نگر ہر ڈگر یہی حال ہے

آغاز کا شعر پاکستان کے موجودہ حالات کے لیے حسبِ حال ہے۔

وقت کی گردشوں کا بھروسہ ہی کیا
مطمئن ہو کے بیٹھیں نہ اہلِ چمن
ہم نے دیکھے ہیں ایسے بھی کچھ حادثے
کھو گئے راہ نما لٹ گئے راہزن

ہم 14 اگست کو 76واں یوم آزادی اس حالت میں منانے جا رہے ہیں کہ جب ملک دیوالیہ ہونے سے بال بال بچا ہے مگر آئندہ کئی نسلوں کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دے کر۔ بھارت 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا ایک صوبہ قرار دے چکا اور پاکستان کی سالمیت اور شہ رگ پر اپنا تسلط قائم کرلیا، اور ہم پھسپھسے احتجاج کرکے کشمیری مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کا صلہ نہ دے سکے جو آج بھی بھارتی جبر و استبداد کے سائے میں 14 اگست کو یوم آزادی مناتے ہیں اور پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔ بھارت کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں۔ پاکستان شدید اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ ہماری فوج اندرونی اور بیرونی محاذ پر حالتِ جنگ میں ہے۔ ایسے میں ہر محب وطن پاکستانی کو ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے سینہ سپر ہونا پڑے گا۔ ملک کے دشمنوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔

اے اہلِ وطن سوچو تو ذرا یہ کیسا عالم طاری ہے
کب رات ڈھلی کب صبح ہوئی یہ خواب ہے یا بیداری ہے
اس گلشن کی بربادی میں کچھ برق و خزاں کا ہاتھ نہیں
تم جس کو سمجھتے ہو مالی، یہ پھولوں کا بیوپاری ہے
14اگست یومِ آزادی کو عہدِ وفا اور یوم دفاع کے طور پر منانا ہے۔

حصہ