سرسبز پاکستان

370

موسم برسات آتے ہی ایک طرف اگر گرمی سے کمہلائے چہرے کھل اٹھتے ہیں تو دوسری جانب سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اخبارات کی شہ سرخیاں بن جاتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی میں یہی کچھ دیکھتے اور سنتے آئے ہیں، یعنی بارانِ رحمت ہر مرتبہ ہمارے لیے زحمت کا باعث ہی بنتی آئی ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ قدرت کی یہ نعمت ہمارے نااہل حکمرانوں کی لوٹ مار اور کرپشن کے باعث عذاب بن جاتی ہے۔ خیر جب جب موسم تبدیل ہوتا ہے ہمارے دوست کاشف موسم کی مناسبت سے کچھ نہ کچھ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے بھی موسم بہار خصوصاً برسات میں ہر کسی کو پودے لگانے کا جنون ہوجاتا ہے۔

آج کل یہی کچھ ہمارے محلے میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جسے دیکھو وہ ”پودے لگاؤ ماحول بچاؤ“ جیسے نعرے مارتا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں جائیں بس یہی سننے کو ملتا ہے ”آپ نے پودے لگانے کا مشن شروع کیا کہ نہیں؟“ یعنی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سرسبز و شاداب پاکستان ہی ہے۔ کریپشن، غربت، بدامنی، بے روزگاری، معاشی بدحالی، دہشت گردی اور بدترین مہنگائی جیسے معاملات اب ہمارے ملک کا مسئلہ ہی نہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہمارے دوست کاشف ہم سے ملنے آئے، بولے ”میاں اگر دنیا میں زندہ رہنا ہے تو زیادہ سے زیادہ پودے لگاؤ۔“

میں نے کہا ”بھائی! پودے لگانے میں ایسی کون سی بات ہے جس کی وجہ سے انسان زندہ رہ سکے؟“

بولے ”میں تاریخ میں زندہ رہنے کی بات کررہا ہوں، جب آپ شجرکاری مہم میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں گے تو لازمی طور پر میڈیا کوریج ملے گی جس سے آپ کی پہچان بڑھے گی، اور اگر یہ کام این جی او کے نام سے کرو گے تو بین الاقوامی طور پر جانے پہچانے جاؤ گے، اس طرح رہتی دنیا تک نہ صرف آنے والی نسلوں کے آئیڈیل بنو گے بلکہ جب جب گرین پاکستان یا ماحول دوست اقدامات کرنے والوں کی فہرست مرتب کی جائے گی اس میں تمہارا نام بھی شامل ہوگا۔ یہی تو وہ نہ ختم ہونے والی زندگی ہے جس کی طرف میرا اشارہ ہے۔“

وہ کسی ماہرِ ماحولیات یا یونیورسٹی کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ برائے بوٹنی کی طرز پر پودوں کی افزائش اور ماحولیاتی آلودگی پر مستقل بولے جارہے تھے، انہوں نے اپنے درس کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا ”سنو، کسی بھی ملک کے طول و عرض میں پودے لگانا یا جنگلات بڑھانا اس علاقے کے درجہ حرارت کو کم اور ماحول کو صاف رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، مگر افسوس، درخت لگانے کی ہمارے معاشرے کو جتنی زیادہ ضرورت تھی، ہم اتنی ہی سُستی برت رہے ہیں۔ نہ صرف درخت لگائے نہیں جارہے، بلکہ ماضی میں درختوں کو بے دریغ کاٹا بھی گیا۔ ہمارے ملک میں جس تیزی سے درخت کاٹے گئے اور اب تک کاٹے جارہے ہیں، اس کے نتیجے میں فضا میں آکسیجن کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہورہی ہے، جو جان داروں کے لیے شدید خطرات کا باعث ہے۔ ہم درخت نہ لگا کر اپنی آنے والی نسلوں کو غیر محفوظ بنا رہے ہیں، اور اگر آج ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کا انتظام کررہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم نہ صرف نئے پودے لگائیں بلکہ ان کی نگہداشت بھی کریں۔ اور سب سے اہم بات تو یہ کہ درخت لگانا صدقہ جاریہ بھی ہے، جب تک آپ کے لگائے ہوئے درخت سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں گے، اُس وقت تک اجر بھی ملتا رہے گا۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا نام بھی رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے تو پھر میرے بتائے ہوئے راستے پر چلو۔“

میں نے دورانِ گفتگو تفریحاً انہیں چھیڑتے ہوئے کہا ”آپ کے نزدیک ہمیشہ زندہ رہنے کا اگر یہی کلیہ ہے تو پاکستان کا ہر کسان اور باغبان یقیناً تاقیامت زندہ رہے گا۔ ظاہر ہے وہ روز ہل چلاتا ہے، کھیتی باڑی کرتا ہے جس سے سرسبز فصل تیار ہوتی ہے۔ اسی طرح باغ کا مالی نہ صرف پودے لگاتا ہے بلکہ ان کی کٹائی چھٹائی بھی کرتا ہے۔ وہاں بھی ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوا کرتی ہے۔ شجرکاری مہم میں حصہ لینے والوں کے تاریخی طور پر زندہ رہنے کی نوید تو آپ سنا ہی چکے ہیں، میری طرف سے سارے ملک کے کسانوں اور باغبانوں کے لیے اضافی طور پر ایک لائف ٹائم ایوارڈ کی بھی سفارش کردیجیے۔“

میری تجویز سن کر کہنے لگے ”ایسا نہیں ہوتا۔ بات دراصل یہ ہے کہ اگر کسان ہل چلاتا ہے اور مالی باغ میں پودے لگا کر پانی وغیرہ دیتا ہے تو انہیں اس کام کی اجرت مل جاتی ہے۔ مثلاً مالی جہاں بھی کام کرتا ہے وہاں سے تنخواہ ملتی ہے، اور جہاں تک کسان کا تعلق ہے تو اسے بھی اپنی محنت کا تیسرا حصہ فصل کی کٹائی پر (اگر اس کی زمین نہیں ہے تو) مل جاتا ہے۔ اس طرح ان دونوں کو ان کی جانب سے کی جانے والی محنت کا معاوضہ ادا کردیا جاتا ہے، لہٰذا ان کا شمار فی سبیل اللہ، کسی لالچ کے بغیر شجرکاری مہم کا حصہ بننے والوں میں نہیں کیا جاسکتا۔“

قربان جاؤں میں اپنے دوست کی سادگی پر، اور ایسی بے لوث، بِنا کسی لالچ فی سبیل اللہ شجرکاری مہم چلانے والوں پر جن کا نظریہ پہلے دن سے ہی یہ ہو کہ پودے لگاؤ تاکہ اس کے نتیجے میں میڈیا کوریج ملے اور سارے زمانے میں جانے پہچانے جائیں، ہماری آنے والی نسلیں ہمیں اپنے ہیرو کے طور پر یاد رکھیں۔ یعنی ایک ایسی اداکاری جس کے پیچھے صرف اور صرف اپنی ہی تشہیر کا معاملہ ہو، اور پھر خود ہی تاریخی طور پر لازوال بننے کی خواہش بھی رکھیں۔ واہ بھئی واہ، کیا خوب منطق ہے۔

ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے حکمران پہلے خود ہی کام بگاڑ لیتے ہیں اور پھر اس کو سنوارنے کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیتے ہیں۔ بالکل یہی صورتِ حال ہمیں ہر سال موسمِ بہار کے دوران یا کبھی کبھار موسمِ برسات کے اختتام پر ملک میں چلائی جانے والی شجرکاری مہم میں بھی نظر آتی ہے۔ شجرکاری مہم کے نام سے قوم کو ٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے لگانے والوں سے عرض ہے کہ یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اور ماحولیاتی استحکام کے لیے اس کے مجموعی رقبے کا 25 فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے، اور پاکستان میں دو فی صد سے بھی کم رقبے پر جنگلات ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں امریکا میں 33فی صد اور بھارت میں 23 فی صد حصے پر جنگلات ہیں۔ ہمیں یہ بھی خبر ہے کہ پاکستان میں جنگلات کے خاتمے سے ماحولیاتی استحکام کو شدید نقصان ہورہا ہے۔ درختوں کی کٹائی میں اضافے اور جنگلات میں کمی سے مٹی کے تودے گرنے، شدید بارشیں، زیادہ تباہ کن سیلاب اور گرمی کی شدت جیسے عوامل سامنے آرہے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے زرخیز زمینیں ریگستان میں تبدیل ہورہی ہیں، اس کے ساتھ فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ درختوں کی جڑیں مٹی کو سرکنے نہیں دیتیں، اور درختوں کی تعداد میں تیزی سے ہوتی کمی کے باعث ملک بھر میں خاص کر شمالی علاقوں میں مٹی کے تودے گرنے کے عمل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ پاکستان سالانہ 67500ایکڑ جنگلات سے محروم ہورہا ہے۔ اس لیے قدرتی آفات اور تباہی سے بچنے کے لیے پاکستان میں ڈیڑھ کھرب سے دو کھرب درخت لگانے کی ضرورت ہے، تب کہیں جاکر پاکستان میں درختوں کی تعداد 1947ء سے پہلے پائے جانے والے درختوں کے مساوی ہوسکے گی۔ ہم عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ان اعداد وشمار سے بھی بخوبی واقف ہیں جن کے مطابق پاکستان کی سرزمین صرف 2.1فی صد جنگلات سے ڈھکی ہے۔ پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پر جنگلات کی کمی کے باعث زمین بنجر ہوجائے گی۔ ہم ان میڈیا رپورٹس سے بھی آگاہ ہیں جن کے مطابق جنگلات کے شعبے سے حاصل ہونے والی باضابطہ آمدن عالمی معیشت کا 0.9 فیصد ہے۔ تاہم ایندھن، تعمیراتی مواد، خوراک وغیرہ کے لیے جنگل کاٹے جاتے ہیں اور ان سے دنیا بھر کی معیشت کا ایک اعشاریہ ایک فیصد حاصل ہوتا ہے۔ جنگلات ایک کروڑ 32 لاکھ ملازمتیں تخلیق کرتے ہیں اور اندازاً چار کروڑ دس لاکھ مویشی اس شعبے پر انحصار کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ دنیا کی آبادی کا ایک تہائی اب بھی لکڑی کے ایندھن پر انحصار کرتا ہے۔ اور جنگلات انسانیت کے فائدے اور بقا کے لیے بنیادی ضرورت بھی ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ سیلاب ہوں یا زلزلہ یا کوئی اور قدرتی آفت.. ہر مشکل گھڑی میں پوری قوم نے نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے ہم وطنوں کی مالی مدد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جب جب وطنِ عزیز کو ضرورت پڑی ہم نے عملی طور پر پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔ ہم یہ بھی نہیں بھول سکتے کہ عدلیہ کے اہم منصب پر فائز شخص نے جب ڈیم بنانے کے لیے آواز لگائی تو حب الوطنی سے سرشار قوم نے اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے جس سے جو بن سکا کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے لے کر اندرونِ ملک رہنے والے بچے، بزرگ، خواتین، طلبہ، مزدور، کاروبار سے منسلک افراد، یہاں تک کہ خواجہ سراوں نے بھی نہ صرف اپنا اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا بلکہ ہر ایک کی جانب سے ڈیم کے لیے مالی معاونت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، یعنی جب بھی ملک کو ہماری ضرورت پڑی ہم سب کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوگئے۔ ہونا بھی یہی چاہیے، کیونکہ وطن پرست اور خوددار اقوام کا یہی کردار ہوا کرتا ہے، اور سب سے بڑھ کر ہمارےماضی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پانی کی کمی کے سلسلے میں ڈیم بنانے کا معاملہ ہو یا موسمی تبدیلیوں کو شکست دینے کے لیے شجرکاری مہم کا… ہر محاذ پر پاکستانی قوم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یوں ہم تو اپنی ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں اور نبھاتے رہیں گے، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کو اپنی ذمے داریوں کا احساس آخر کب ہوگا؟ بار بار عوام سے مدد مانگنے والے آخر کب عوام کی بنیادی سہولیات کا بندوبست کرنے کے لیے میدانِ عمل میں اتریں گے؟ عوام کے لیے وہ دور کب آئے گا جس کی راہ وہ گزشتہ 70 سالوں سے تک رہے ہیں؟ چونکہ میرا موضوع اس وقت ہمارے علاقے میں کاشف کی جانب سے چلائی جانے والی شجرکاری مہم ہے اس لیے صرف یہیں تک محدود رہتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ یہ صورتِ حال یک دم خراب نہیں ہوئی بلکہ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جب ہرے بھرے جنگل کاٹے جارہے تھے تو محکمہ جنگلات اور ماحولیات والے کون سا ستو پی کر سو رہے تھے؟ جب ہر روز گھنے جنگلوں سے شعلے اٹھ رہے تھے جس کی آڑ میں ٹمبر مافیا کروڑوں روپے کے درخت چوری کرنے میں مصروف تھا اُس وقت متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران کہاں اعتکاف میں جابیٹھےتھے؟ جب ڈویلپمنٹ کے نام پر شہروں میں لگے ہزاروں درختوں کو نئی ہاؤسنگ اسکیموں کی بھینٹ چڑھایا جارہا تھا اُس وقت محکمہ باغات اور محکمہ بلدیات کے اربابِ اختیار نے کس حجرے میں پناہ لے رکھی تھی؟ ادارے ریاست کے ملازم ہوا کرتے ہیں، اس لیے جب سڑکوں کے کنارے سرکاری نمبر لگے درختوں پر کلہاڑیاں برسائی جارہی تھیں تب ہائی وے پولیس کے جوانوں نے ریاست کی اس ملکیت کو کیوں نہ بچایا؟ ہر سال فائلوں تک محدود شجرکاری کے نام پر اربوں روپے کا ڈاکہ مارنے والوں نے متعلقہ اداروں کو آخر کون سی ایسی بوٹی سنگھائی ہے جس سے ہر طرف ہریالی ہی ہریالی دکھائی دینے لگی؟ جب کراچی کی گلیوں، محلوں اور مرکزی شاہراہوں کے کنارے آباد پارکوں پر لینڈ مافیا کی جانب سے چائنا کٹنگ کی جارہی تھی اُس وقت کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ٹھنڈے کمروں میں خوابِ خرگوش کے مزے کون لوٹ رہا تھا؟

اب موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہوچکی یعنی اس حکومت کا وقت پورا ہوچکا ہے، موجودہ حکمران ٹولہ کسی بھی دن رخصت ہوجائے گا، لہٰذا انتخابات کے نتیجے میں آنے والے حکمرانوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ خدارا اب بھی وقت ہے ان تلخ یادوں کو بھلاتے ہوئے آگے کی جانب بڑھیں،۔ جو ہوا اس پر مٹی ڈال کر آنے والی نسلوں کا مستقبل سنواریں، قومی دولت لوٹنے والوں سمیت نااہل افسران سے جواب طلب کریں، کرپٹ مافیا کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر قومی مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے، اُن لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے ماضی میں شجرکاری کے نام پر قوم کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگایا۔ ایسے قوانین بنانے ہوں گے جن کے تحت ٹمبر مافیا کو لگام دی جاسکے۔ ایسے قوانین جن کے تحت ادارے شجرکاری کے پابند ہوں۔ ایشیا کے سب سے بڑے صنعتی زون کورنگی انڈسٹریل ایریا سمیت تمام ہی کاروباری یونٹس کے مالکان اور انتظامیہ پر لازم ہو کہ ہر فیکٹری اپنے رقبے اور مرکزی دروازے کے سامنے والے حصے کو سرسبز کرے۔ درختوں پرنمبر لگاکر ایک ایک درخت کا ریکارڈ محفوظ کیا جائے۔ اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر ماحولیاتی آلودگی اور گرین پاکستان جیسے موضوعات کو سلیبس کا حصہ بنایا جائے۔ ریاستی جنگلات قبضہ گروپ سے آزاد کرانے کے ساتھ ساتھ قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والی حکومت اگر ایسے اقدامات کرے تو نہ صرف پاکستان کے جنگلات کا رقبہ بڑھ سکتا ہے بلکہ سرسبز پاکستان کا خواب بھی پورا ہوسکتا ہے۔

حصہ