صحافت اب صنعت بن چکی ہے،محمد صلاح الدین کا ایک یادگار انٹریو

396

(دوسرا حصہ)

طاہر مسعود: ہمارے یہاں حکومتِ وقت کے حامی اخبارات کو چمچوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ان کی اشاعت بھی کم ہوتی ہے۔ اسی طرح اپوزیشن کے اخبارات کو آزادی کا عَلم بردار کہا جاتا ہے۔ وہ ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں۔ کیا غیر جانب دارانہ صحافت کی اس ملک میںکوئی جگہ نہیں‘ صرف نفرت کی بنا پر جو صحافت کی جائے وہی مقبول ہے؟

محمد صلاح الدین: ہمارے ملک کی صحافت کا پس منظر نو آبادیاتی دور سے تعلق رکھتا ہے۔ تحریک آزادی میں اخبارات نے انگریز حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حصول آزدی کے بعد بدقسمتی سے ہمیں جن حکمرانوں سے سابقہ پیش آیا ان کا مزاج و کردار نوآبادیاتی دورسے مختلف نہ تھا۔ انہوںنے عوام کی خواہشات اور ان کے نظریات سے متصادم روش اختیار کی۔ اس نوآبادیاتی دور کی صحافتی روایات اپنی جگہ برقرار ہیں لیکن ہمیں یہ تجربہ بھی ساتھ ساتھ ہوتا رہا کہ جب بھی کسی حکمران نے عوام کی خواہشات کو پیش نظر رکھ کر ملک کے معاملات چلانے کی کوشش کی‘ اخبارات نے اس کی تائید و حمایت کی۔ آج بھی حقیقی صورت حالیہ ہے کہ جنرل ضیا کی اسلام دوستی کے باعث ملک میں چھپنے والے اخبارات کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔اگر واقعی عوام ان کے مخالفین کے ہم نوا ہوتے تو جنگ‘ نوائے وقت‘ جسارت اور دیگر دوسرے اخبارات کی اشاعت مساوات سے کم ہوتی جہاں تک غیر جانب دارانہ صحافت کا تعلق ہے‘ وہ اب بھی موجود ہے۔ ہم اپنے اخبار میں جہاں حکومت کی اچھی پالیسیوں کو سراہتے ہیں وہاں اس کی غلطیوں پر بروقت ٹوکتے بھی ہیں اس کا پورا پورا محاسبہ کرتے ہیں۔ جانب دارانہ صحافت کا شاہکار اس وقت صرف اخبار ’’مساوات‘‘ ہے جس نے قتل جیسے قبیح فعل کے مرتکب مجرم کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی نئی روایت قائم کی اور جسے بھٹو کے ساڑھے چھ سالہ عہد ستم کے کسی ایک واقعے پر بھی نکتہ چینی یا اعتراف حقیقت کی توفیق نہیں ہوئی۔

طاہر مسعود: آپ کا اخبار معروضیت(Objectivity) کا کس حد تک پابند ہے؟

محمد صلاح الدین: معروضیت کی اصطلاح حقائق و واقعات کو اصل رنگ میں پیش کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ معروضیت ہم خبروں کی حد تک ملحوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تبصروں میں معروضیت کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔ ایک واقعے کے تمام گوشے سامنے لا کر اس کے اثرات و نتائج پر اپنے نقطۂ نظر سے بحث کی جاتی ہے۔ بات استدلال سے کی جاتی ہے۔ ہم نتائج اخذ کرنے میں غلطی کر سکتے ہیںلیکن ہم پر حقائق کو مسخ کرنے کا الزام عائد نہیںکیا جاسکتا۔

طاہر مسعود: آپ نے خبروںکی حد تک معروضیت کو ملحوظ رکھنے کی بات کی مگر عموماً آپ کے اخبار میںخبروں کی معروضیت بہت مجروح ہوتی ہے۔

محمد صلاح الدین: مثلاً؟

طاہر مسعود: مثلاً کوثر نیازی نے بھٹو پر اپنے قتل کے سلسلے میں جو الزام عائد کیا تھا اس خبر کے اوپر جو سرخی لگی تھی وہ کچھ یوں تھی کہ ’’پیپلزپارٹی کا انتشار کھل کر سامنے آگیا‘‘ کیا سرخیوں میں خبر پر اس طرح کے تبصرے خبر کی معروضیت کو مجروح نہیں کرتے؟

محمد صلاح الدین: ہم نے کبھی مکمل دعویٰ تو نہیں کیا لیکن ہمارے یہاں اس بات کا خاص خیال ضرور رکھا جاتا ہے۔

طاہر مسعود: ہمارے یہاں کے اخبارات بیس یا پچیس فیصد کی شہری آبادی کے مفادات کی نگرانی کرتے ہیں اور جب مختلف قسم کی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں تب بھی یہ اخبارات اپنے ہی مفادات کے لیے رائے عامہ ہموار کرتے ہیں‘ دیہی آبادی کے مفادات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا؟

محمد صلاح الدین: اخبارات جس طبقے میں پڑھے جاتے ہیں بالعموم اسی طبقے کے مسائل و معاملات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اخبارات کی اشاعت دیہی علاقوں میں ناخواندگی کی وجہ سے صرف شہروں تک محدود ہے۔ دیہات میں اگر خواندگی کی شرح بڑھ جائے اور وہاں سے اپنے علاقے کے مسائل کو پیش کرنے والے پڑھے لکھے لوگ اخبارات سے رابطہ کرنے کے لیے آئیں تو بہ تدریج دیہی مسائل کی نمائندگی اخبارات میں ہونے لگے گی۔ ویسے اب کم و بیش تمام ہی اخبارات اضلاع کی خبروں کے صفحات شائع کرتے ہیں جن میں چھوٹے چھوٹے مقامات کی خبریں اور وہاں کے مسائل جگہ پاتے ہیں۔ دیہات میں مواصلات اور تعلیم کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ مسائل پر توجہ دی جاسکتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد دیہی مسائل پر اخبارات کی توجہ بہ تدریج بڑھی ہے۔

طاہر مسعود: نیوز پرنٹ کا مسئلہ گزشتہ دنوں بہت شدت سے اٹھایا گیا تھا اب یہ مسئلہ کسی حد تک حل ہوا ہے لیکن جسارت کے اوراق تو اب تک وہی تین ہوتے ہیں؟

محمد صلاح الدین: نیوز پرنٹ کے لیے نیا طریقہ کار اس لحاظ سے اطمینان بخش ہے کہ اخبارات اپنی ضرورت کے مطابق خود کاغذ درآمد کر سکتے ہیں۔ چھوٹے اخبارات و رسائل اپنی ضروریات کے مطابق کاغذ بازار سے حاصل کر سکتے ہیں جہاں نیوز پیپر برمد کرنے والے تاجروں کو لائسنس مہیا کیے گئے ہیں۔ نیوز پرنٹ کنٹرول آرڈیننس سے پہلے بھی تمام اخبارات بازار سے کاغذ خریدتے تھے۔ اب ایک اضافی سہولت یہ دی گئی ہے کہ اخباری ادارے براہِ راست بھی نیوز پرنٹ برآمد کرسکتے ہیں۔ صفحات میں اضافے کا انحصار صرف نیوز پرنٹ پر نہیں‘ اخبار کی مجموعی لاگت پر بھی ہے جب تک آمدنی میں اتنا اضافہ نہ ہو جو اضافی اخراجات کا بار برداشت کرسکے‘ اس وقت تک صفحات میں اضافہ ممکن نہیں۔

…٭…

(ایڈیٹر ہفت روزہ تکبیر سے گفتگو)

طاہر مسعود: ابتدا میرا خیال ہے یہاںسے ہونی چاہیے کہ صحافت کے اس پیشے میں آپ کو بہت عزت و شہرت ملی‘ اب اس مرحلے پر اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ آپ اس پیشے سے مطمئن ہیںتو آپ اس کا کیا تجزیہ کریں گے؟

محمد صلاح الدین: میرا خیال ہے کہ ہر پیشے میں اطمینان کا انحصار دو باتوں پر ہے۔ ایک تو یہ کہ بجائے خود اس پیشے کی ہمارے معاشرے میں کیا اہمیت ہے اور کیا اس کا اپنا وقار اور احترام ہے اور ایک یہ کہ جس پیشے سے آدمی منسلک ہے‘ اس میں خود اس نے اپنے طور پر جو بھی خدمات انجام دی ہیں‘ اس پیشے نے ذاتی طور پر اسے کتنی عزت اور معاشرے میں اس کا کتنا احترام کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنے تمام بگاڑ اور خرابیوں کے باوجود بہرحال صحافت ہمارے ملک میں ایک ایسا پیشہ ہے جس سے ہزار شکوئوںکے باوجود معاشرے میں اس کی ایک اہمیت بھی تسلیم کی جاتی ہے اور اسے ایک عزت بھی دی جاتی ہے اور پھر اس کے اندر جو لوگ اپنی کارکردگی کے لحاظ سے معاشرے میں لوگوں کا اعتماد حاصل کرتے ہیں تو یہ ان کی ایک اضافی عزت ہوتی ہے‘ اس لحاظ سے میں یہ اطمینان محسوس کرتا ہوںکہ اس پیشے نے مجھے بہت کچھ دیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس پیشے میںایک آدمی کی کارکردگی چوں کہ کسی سے چھپی نہیں رہتی بلکہ روزانہ سامنے آجاتی ہے اس لیے کہ یہ اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور معاشرہ روزانہ ان افراد کی کارکردگی کو اخبارات کے صفحات سے جانچ لیتا ہے کہ یہ آدمی معاشرے کی کوئی خدمت انجام دے رہا ہے یا معاشرعے کو تباہ و برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ تو ہماری یومیہ کارکردگی اتنی وسیع رائے عامہ کے سامنے آتی ہے کہ اس کے ذریعے ہمیں خود اپنی حیثیت کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے کہ لوگ ہمارے بارے میںکیا کہتے ہیں اور چونکہ تمام پڑھنے والے اپنی رائے بھی کسی نہ کسی ذریعے سے زبانی گفتگو یا خطوط کے ذریعے ہم تک پہنچاتے رہتے ہیں تو ہمیں خود یہ معلوم ہوتا رہتا ہے کہ ہم اس رائے عامہ کے سامنے جس سے ہمارا تعلق ہے‘ کس حیثیت سے کھڑے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں اس پر خدا کا شکر ادا کرسکتا ہوں کہ اس پیشے نے مجھے عزت بھی دی اور اس میں ہمت سے ایسے نازک مراحل بھی آئے کہ جہاں بالکل ڈوب جانے کا احساس ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر بار بار ابھرنے کا موقع بھی دیا۔ اس لیے میں اپنے سارے تجربات کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ الحمدللہ میں اس سے مطمئن ہوں۔

طاہر مسعود: اصل میں‘ میں نے یہ سوال بہ طور خاص اس پس منظر میں کیا تھا کہ آپ عالمِ دین کی حیثیت سے بھی بہرحال ایک شہرت رکھتے ہیں۔ تصنیف و تالیف کے اعتبار سے آپ کی کتاب ’’بنیادی حقوق‘‘ بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ صحافت کے پیشے میں جتنی مصروفیت کا سامنا آپ کو ہے اسی طرح دوسرے صحافیوں کو بھی بیٹھ کر کوئی علمی کام کرنے کا موقع عام طور پر نہیں مل پاتا۔ اس حوالے سے کبھی آپ نے یہ محسوس کیا کہ آپ اگر صحافت کے پیشے سے وابستہ نہیں ہوتے تو شاید آپ کو اپنی علمی صلاحیتوں کو تصنیف و تالیف کی صورت میں پیش کرنے کا زیادہ موقع ملتا؟

محمد صلاح الدین: پہلی وضاحت تو میں یہ کرنا چاہوں گا کہ میں ہرگز کوئی عالم دین نہیں ہوں۔ البتہ دین سے قلبی و ذہنی رشتہ رکھتا ہوں۔ عام معنوں میں‘ میں کوئی عالمِ دین نہیں ہوں۔

طاہر مسعود: میری مراد یہ ہے کہ ایک دانش ور کی حیثیت سے آپ کی جو علمی حیثیت ہے۔ اصل میں یہ سوال اسی پس منظر میں‘ میں نے کیا ہے۔

محمد صلاح الدین: ہاں میرا یہ خیال ہے کہ اس میں صحافت سے زیادہ میرے اپنے سابقہ پیشے کا دخل ہے‘ آپ کو معلوم ہے کہ میں تقریباً چودہ سال معلم کی حیثیت سے ہائی اسکول اور ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں پڑھاتارہا ہوں۔ میرے مزاج کو بنانے میں اصل میںاس پیشہ کا دخل ہے اور وہاں سے میں جو ذہنی رجحانات اور مزاج لے کر آیا ہوں‘ صحافت میں اس کے بعد مجھے دونوں طرح کے تجربات ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ صحافت کا پیشہ واقعتاً آدمی کو سنجیدہ طور پر لکھنے اور پڑھنے کا موقع نہیںدیتا۔ بہت زیادہ وقت اس میں ضائع ہوتا ہے‘ لیکن میرا یہ خیال ہے کہ صحافت بجائے خود ایک ایسا مدرسہ ہے اور ایک ایسی درس گاہ ہے کہ بعض اوقات ہم تنہائی میں بیٹھ کر سینکڑوں کتابیں پڑھ کر شاید حالات کو‘ واقعات و مسائل کو اس طرح نہ سمجھ پائیں جس طرح صحافت میں رہتے ہوئے ہمیں جن بے شمار افراد سے ملنا ہوتا ہے اور معاشرے کے ساتھ ہمارا ابلاغ بہت بڑھ جاتا ہے‘ اس کی وجہ سے ہمارے مشاہدے اور ادراک میں اضافہ ہوتا ہے اور شاید خالص کتابیں وہ سب کچھ نہیں دے سکتیں جو براہِ راست مشاہدہ اور تجربہ دیتا ہے۔ ہم مختلف قسم کے لوگوں سے ملتے ہیں‘ لوگ خود ہمارے پاس آتے ہیں اور مسائل پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں‘ خود ان مسائل کے سلسلے میں ہم جہاں کہیں کسی سے ملنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو صحافت ہمیں یہ سہولت بھی فراہم کرتی ہے کہ ہماری رسائی بہت سی جگہوں پر ہو جاتی ہے‘ ہم جس سے بھی ملنا چاہتے ہیں‘ اس سے ملنے میں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوتی تو اگر کسی اطلاع کے لیے یا کسی مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہم معاشرے کے کسی بھی فرد کو موزوں سمجھتے ہیں کہ شاید اس سے گفتگو مفید ہوگی تو ہمیں اس سے گفتگو کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی سہولت ہے جو ہمیں سینکڑوںکتابوں سے ملنے والے مواد کی نسبت مسائل کو سمجھنے میں زیادہ مدد دیتی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ یہ ہے کہ معاشرے میں جو بھی مسائل کسی خاص وقت میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں اور جسے آپ کہہ سکتے ہیںکہ وہ روز مرہ کا ایک موضوع ہوتے ہیں‘ ان مسائل کے سلسلے میں بھرپور معاشرتی روابط زیادہ مدد دیتے ہیں بہ نسبت بہت زیادہ مطالعہ کے۔ اب اس میں اپنے آپ کو ایک مصنف کی حیثیت سے رکھنے کے لیے اور ساتھ ساتھ صحافت کی روز مرہ کی جو ذمہ داریاں ہیں‘ ان کو ادا کرنے کے لیے کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ان قربانیوں میں اگر آپ اپنے آرام کا کچھ حصہ دے سکتے ہیں اور اگر آپ اپنی تمام زندگی کی دوسری جو تفریحات ہو سکتی ہیں‘ ان کو ترک کرسکتے ہیں پھر خاندانی زندگی کے اندر آپ اپنے آپ کو زیادہ ملوث نہ کریں اور وہ وابستگی بھی آپ کی کم رہے اور پھر اللہ نے جو آرام کے وقفے دیے ہیں مثلاً رات۔ اگر ان پر بھی آپ قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو پھر ان دونوں کاموں میں کچھ دشواریوں کے ساتھ بہرحال کچھ سہولتیں بھی میسر آتی ہیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ میں نے چوں کہ نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے زیادہ عرصہ گزارا اور میں اخبار میں ہمیشہ رات کے بارہ‘ دو بجے اور تین بجے تک کام کرتا رہا ہوں۔ اس صورت میں کتاب لکھنا یا سنجیدہ کام کرنا جس طرح یہ ’’بنیادی حقوق‘‘ وغیرہ ہے‘ بڑا مشکل ہے لیکن میں نے اپنے آرام کے اوقات میں ظالمانہ حد تک کمی کی ہے جس کی وجہ سے میں یہ سب کام کر پاتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ عام صحافی نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ کچھ جبری فرصتیں بھی میسر آئی ہیں جیل کی وجہ سے‘ انہوں نے بھی مجھے جو وہاں کی مہلت تھی اس میں کچھ سوچنے‘ غور کرنے اور کچھ لکھنے کا کام کرنے میں مدد دی ہے۔

طاہر مسعود: آزادی سے پہلے ہماری صحافت میں جو شخصیات گزری ہیں‘ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنما کی بھی حیثیت رکھتی تھیں اور ایک علمی پس منظر بھی ان کا تھا لیکن آزادی کے بعد اس نوعیت کے بڑے مدیر ہمارے درمیان نہیں رہے جو بہ یک وقت سیاسی رہنمائی یا علمی پسِ منظر کے ساتھ موجود ہوں۔ مولانا ظفر علی خان‘ مولانا ابوالکلام آزاد یا مولانا محمد علی جوہر یا حسرت موہانی۔ یہ جو زوال کی صورت صحافت میں ہے‘ آپ کے خیال میں اس کے کیا اسباب ہیں؟

محمد صلاح الدین: اس کے اسباب تو بہت سے ہیں لیکن غالباً سب سے بڑا یہ ہے کہ اُس دور میں صحافت وسائل کے لحاظ سے کوئی ایسا پیشہ نہیں تھا جس کے لیے آدمی کا لکھ پتی یا کروڑ پتی ہونا ضروری ہو۔ تو ہمارے وہ اہلِ علم کہ جن کا ابھی آپ نے نام لیا انہوں نے بڑے معمولی وسائل سے اخبارات کا جرا کیا۔ اخبارات کے اندر اتنے بڑے پیمانے پر مشینوں کا آلات کا اتنا دخل نہیں تھا جتنا آج ہے۔ اس کی وجہ سے آزادی کے بعد جیسے جیسے صحافت کا ارتقا ہوتا گیا اس میں آدمی کے بجائے مشینوں پر انحصار زیادہ بڑھتا چلا گیا اور آج آپ دیکھتے ہیں کہ جس طرح چار رنگوں میں اخبارات چھپتے ہیں ان کے لیے طباعت کی جو جدید سہولتیں ہیں‘ یہ اتنا بڑا سلسلہ ہو گیا ہے کہ ایک کارخانہ لگانا اور ایک اخبار نکالنا تقریباً ایک ہی درجہ میں آگیا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اُس وقت صورت حال یہ تھی کہ پتھر کی سلوں پر اخبارات چھپتے تھے اور اخبار نکالنے کے لیے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا ہمارے ان تمام اکابرینِ صحافت نے جب اس پیشے کا آغاز کیا تو انہیں اس طرح کی مالی دشواریاں پیش نہیں آئیں اور جنہیں مالی دشواریاں پیش آئیں‘ ان کی مالی دشواریوں کو حل کرنے میں‘ قوم نے بہت زیادہ حصہ لیا۔ مولانا ظفر علی خان کی ہمارے سامنے مثال موجود ہ جن کا پریس بند ہوتا تھا اور اگر صبح احکامات آئے ہیں تو شام کو ان کے قارئین اگر کوئی جرمانہ ہوتا تو وہ ادا کر دیتے تھے اور اگر ان کا پریس واگزار کرنے کے لیے کوئی ضمانت جمع کرانی ہے تو وہ کر دیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا تعلق چوں کہ صحافت کے ساتھ ساتھ رہنمائی اور قیادت کا بھی تھا تو وہ سیاسی قیادت انہیں عوام کے ساتھ مربوط رکھتی تھی۔ ان کی اپنی زندگی چوں کہ سادگی اور ایثار کی زندگی تھی تو وہ اپنے قارئین کا اعتماد رکھتے تھے۔ اس لیے جب ان پر کوئی مشکل وقت پڑتا تھا تو ان کے قارئین ان کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اب یہ تعلق ایک صحافی اور عوام کے درمیان نہیں ہے کہ صحافی کا کردار جیسا کہ آپ نے کہا کہ اب ایک رہنما کا یا سیاسی قائد کا نہیں اس لیے ایک تو قارئین ان سے اس طرح کا رشتہ نہیں رکھتے جو ماضی میں تھا۔ سیاسی قیادت کا اور سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ علمی قیادت بھی وہ مہیا کرتے تھے۔ تو اب چوں کہ قارئین خود یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض ایک کاروبار ہے‘ لہٰذا کاروبار میں شراکت‘ اس طرح نہیں ہوتی جس طرح قائد کا اور اس کے پیروکاروں کا رشتہ ہوتا ہے۔ دوسرے وہی بات ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میں اگر آج ایک روزنامہ نکالنا چاہوں تو ایک روزنامہ نکالنے کے لیے کم از کم اس وقت تمام چیزیں اگر کرائے پر بھی رکھی جائیں تو کوئی چیز ملکیت میں نہ ہو تو اس کے باوجود اس کے لیے کم از کم پچاس لاکھ روپیہ درکار ہوگا۔ تو ایک عام آدمی کے لیے پچاس لاکھ روپے مہیا کرنا جب کہ اہلِ علم کے متعلق تو آپ کو معلوم ہے کہ وہ بالکل تہی دست ہوتے ہیں لہٰذا صحافت جب صنعت بن گئی تو زیادہ تر صحافی اب ملازم صحافی ہیں مالک صحافی نہیں ہیں اور مالک صحافی ہوئے بغیر ایک صحافی اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرسکتا۔ ایک ملازم صحافی اپنے خیالات کا اظہار آزادانہ طور پر اس طرح نہیں کرسکتا جس طرح ایک مالک صحافی کرسکتا ہے۔ اب اگر ہم اپنے پورے ملک میں جائزہ لیں تو جو مالک صحافی ہیں ہمارے یہاں‘ جہاں تک ان کی تحریری صلاحیتوں کا تعلق ہے‘ اس میں وہ بحیثیت صحافی اپنے قارئین کے سامنے بہت کم آتے ہیں اور جو لکھنے لکھانے والے صحافی ہیں ان کی کثیر تعداد جو ہے گویا ملازم صحافی کی ہے اور وہ ملازم اس پالیسی فریم ورک میں کام کرنے کا پابند ہے جو مالکان نے بنایا ہوا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کا‘ اپنے خیالات کا اس طرح اظہار نہیں کرسکتے جس طرح وہ آزاد رہ کر کرسکتے ہیں۔ تو وسائل اور اتنے بڑے پیمانے پر جو مشینیں پریس کے لیے درکار ہیں‘ انہوں نے ایک عام پڑھے لکھے آدمی کے لیے صحافت میں آزادانہ طور پر کام کرنے کے مواقع بہت کم کر دیے ہیں۔

طاہر مسعود: اس کا غالباً ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جو ملازم صحافی ہوتے ہیں یا جن میں واقعی صحافی بننے کے اوصاف موجود ہوتے ہیں ان میں انتظامی صلاحیتیں بھی بالعموم مفقود دیکھی گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنا الگ ادارہ بنانے میں ناکام رہے یعنی ہمارے سامنے مثال موجود ہے کہ خواہ وہ مجید لاہوری ہوں یا ابراہیم جلیس ہوں‘ جتنے لوگ صحافت کے پیشے میں رہے ان میں انتظامی صلاحیتیں نہیں تھیں۔ چناں چہ انہوں نے اپنے پرچے نکالے لیکن ناکام رہے۔ اس کی وجہ سے جو تاجر افراد تھے ان کا قبضہ اس پیشے پر تیزی کے ساتھ ہوتا گیا تو اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

محمد صلاح الدین: میں عرض کروں گا کہ آپ نے جو مثالیں دی ہیں بعض صحافی تو ایسے ہیں جو صرف ادب کی دنیا میں کوئی اونچا مقام رکھتے تھے لیکن پبلک پلیٹ فارم سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے برعکس وہ اہل قلم مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا جوہر‘ حسرت موہانی‘ مولانا ظفر علی خان وغیرہ ان کا معاملہ بالکل مختلف تھا میں سمجھتا ہوں جو آدمی سیاست میں تنظیم کا کام کرسکتا ہے وہ بڑے پیمانے پر پبلک پلیٹ فارم میں اپنے تمام تعلقات اور اپنی تمام مصروفیات کو آرگنائز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ کامیابی سے ایک ادارہ بھی چلا سکتا ہے لیکن مجید لاہوری اور اس طرح کے جو دوسرے لوگ ہیں۔ انہوں نے کبھی نہ عملاً رہنمائی کا فریضہ ادا کیا تھا نہ انہیں تنظیم سازی کا کوئی تجربہ تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گوشے میں میں بیٹھ کر افسانے لکھتے ہیں‘ تاریخ لکھتے ہیں‘ شعر و شاعری سے ان کا تعلق ہے۔ یہ ایک گوشہ میں بیٹھ کر لکھنے والے لوگ ہیں اس لیے جب یہ اپنا پرچہ نکالتے ہیں تو ناکام ہو جاتے ہیں لیکن سیاسی پلیٹ فارم سے جو آدمی اس پیشے کے اندر آتا ہے وہ ناکام نہیں رہتا۔ وہ ناکام ہوتا ہے تو بالعموم صرف وسائل کی کمی کی وجہ سے۔

طاہر مسعود: اچھا آپ کا تعلق اب تک روزنامہ صحافت سے تھا اب آپ اس سے نکل کر نیوز میگزین یا ہفت روزہ صحافت کی طرف آئے ہیں تو یہ دونوں تجربات آپ کو کیسے محسوس ہوتے ہیں یعنی کیا آپ ان دونوں میں فرق محسوس کرتے ہیں مثلاً وسائل کے اعتبار سے کس میں زیادہ وقت اور دشواریاں آپ پاتے ہیں؟

محمد صلاح الدین: میں تقریباً بائیس‘ تئیس برس تک روزنامہ صحافت سے وابستہ رہا ہوں اور اس نیوز میگزین کا تجربہ میں نے 1984ء کے آغاز سے کیا ہے۔ اخبارات کی دنیا اور خاص طور سے یہ ہفت روزہ رسائل‘ ایک تو آپ جانتے ہیں کہ ان کے شیڈول میں فرق ہے‘ وہاں ایک کام روزانہ نمٹا دیا جاتا ہے‘ یہاں پورے ایک ہفتے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ یہ بات شاید لوگوں کے علم میں نہیں ہے کہ جتنی محنت ایک نیوز ویکلی چاہتا ہے اتنی محنت ایک روزنامے میں نہیں ہوتی۔ نیوز ویکلی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے مسائل کے سلسلے میں‘ خبروں کے سلسلے میں روزنامہ اخبارات ہی کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کا مقابلہ روزنامہ سے ہے جب کہ آپ دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر ٹائم‘ نیوز ویک‘ فار ایسٹرن اکنامک ریویو ان کا دائرہ اثر وسیع بھی ہے اور جو وسائل ساری دنیا میں خبریں سمیٹنے اور رپورٹیں دینے کے ان کے پاس ہیں‘ سیٹلائٹ بھی ان کے پاس ہے‘ وہ وسائل روزناموں کے پا س نہیں ہیں۔ عام طور سے رائے سازی میں نیوز ویکلی زیادہ حصہ لیتے ہیں جب کہ اخبارات خبریں بہم پہنچانے میں زیادہ حصہ لیتے ہیں‘ رائے عامہ کو تشکیل دینے کے لیے زیادہ بہتر صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے‘ بہ نسبت رپورٹنگ کے۔ تو ہفت روزہ کا اصل کام یہ ہے کہ وہ خبر دینے کے ساتھ ساتھ خبروں کے بارے میں اس طرح سے اپنے قارئین کی مدد کرتا ہے کہ ان کو اپنی رائے تشکیل دینے میں مدد مل سکے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ زیادہ تر یومیہ اخبارات نیوز ویکلیز میں لفٹ نہیں ہوتے لیکن نیوز ویکلیز تمام یومیہ اخبارات میں لفٹ ہوتے ہیں۔ یہ ترتیب اس لیے ہے کہ ان کے یہاں جو صلاحیت کار چاہی ایک نیو ویکلی کو چلانے کے لیے وہ عام روزنامہ کے مقابلے میں زیادہ بہتر چاہیے‘ زیادہ مستحکم چاہیے۔ لکھنے کی صلاحیت بھی‘ اس لحاظ سے نیوز ویکلی چوں کہ خبروں پر تبصرہ اور ان کا تجزیہ بھی کرتا ہے اور ایک ہفتے کا وقفہ بھی اس کے اندر آتا ہے تو ایک ہفتے میں واقعات کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ روزنامہ اخبارات انہیں روز رپورٹ کرتے چلے جاتے ہیں لیکن رائے عامہ کی تشکیل کرنے اور رہنما مہیا کرنے میں ٹھیک ٹھیک تجزیہ کرنے میں‘ میں سمجھتا ہوں کہ نیوز ویکلی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ تو ایک تو میرا تجربہ ہے کہ نیوز ویکلی اپنی انتظامی دشواریوں کے باعث بہت زیادہ محنت طلب ہے‘ بہت زیادہ توجہ چاہتا ہے اور لکھنے کی بہت زیادہ صلاحیت بھی چاہتا ہے جو عام طور پر روزناموں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہاں اگر ایک اچھا اداریہ نویس موجود ہے اور اگر ایک اچھا نیوز ایڈیٹر ہے تو باقی پورے عملہ کی خامیاں اس کے تحت چھپ جاتی ہیں اور ان کا پتا نہیں چلتا لیکن یہاں ایک آدمی بھی اگر کسی جگہ کم زور پڑ جائے تو اس کی کم زوری آئینے کی طرح سامنے آجاتی ہے۔ تو زیادہ بہتر ٹیم‘ زیادہ محنت اور زیادہ علمی اور لکھنے لکھانے کے لحاظ سے بہتر صلاحیت اس کے لیے درکار ہوتی ہے۔ (جاری ہے)

حصہ