سوشل میڈیا پر باربی کی چیخیں

566

میں کہتا رہا ہوں کہ یہ سب ایک بڑ ا ایجنڈا ہے، کوئی سازش نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک قدر و نظریئے کے طور پر معاشرے میں اپنی جاہلانہ اقدار کے ساتھ نفوذ ہر گزرتے دن ظاہر کر رہا ہے۔ کوئی مانے یا نا مانے۔ اس کو تقدیر مان کر خاموش رہ لے یا ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرے۔ فریڈم آف اسپیچ صرف اسپیچ تک نہیں، ایکسپریشن اور اس سے آگے جا چکا ہے۔ عید الاضحی پر سوئیڈن کے شہر اسٹاک ہوم میںقرآن مجید کے مصحف کو جلانے کا دل خراش واقعہ پہلا نہیں تھا۔ سا ل کا تیسرا تھا، مگر اب ایک ماہ میں ساتویں واقعے تک پہنچ چکا ہے اور اس میں ڈنمارک بھی داخل ہوگیا ہے۔ دعوے تو سب کے ہیں کہ قرآن ہماری جان سے بڑھ کر ہے… مگر معاملہ یہ ہے کہ اب کسی کے کان پر جوں تک رینگتی نظر نہیں آتی۔

اب ذرا غور کریں کہ ایک جانب سی این این کی سرخی ہے کہ’’سوئیڈن اور ڈنمارک میں قرآن مجید کے مصحف کی بے حرمتی نے مسلم اکثریت ممالک میں غصے بھرے احتجاج پیدا کیے، اس عمل نے اپنے ملک میں حفاظتی خوف کو بڑھا دیا اور دونوں اسکینڈے نیویئن ممالک کو سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا اِن کو اپنے آزادیِ اظہارِ رائے کے متعلق لبرل قوانین کا جائزہ لینا چاہیے۔‘‘ دوسری جانب سوئیڈن کے وزیر اعظم کا موقف ہے کہ ،’’سوئیڈن کی حکومت کے پاس آزادیِ اظہارِ رائے کے قوانین میں اصلاح کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، لیکن اگر بار بار ہونے سے کوئی نیشنل سیکیورٹی کوصاف خطرہ ہو تو پولیس کو اجازت دی جائے گی کہ عوام کے سامنے مقدس کتب کو جلانے سے روکا جائے۔ہم سوئیڈش آزادیِ اظہارِ رائے کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘یوں وزیر اعظم نے پورے لبرل نظریات کو صاف الفاظ میں بتا دیا کہ یہ کام صرف ’’اْس وقت روکا جائے گا جب قومی سلامتی کو خطرہ ہوگا۔ ‘‘تو جناب ، یہ کوئی پہیلی تو ہے نہیں ، سب کو سمجھ آتا ہے کہ قومی سلامتی کو خطرہ سے کیا مطلب ہے۔یہ خطرہ سوئیڈن کی کسی سڑک پر پوسٹر پکڑے اور نعرے لگاتے چند لوگوں سے تو قطعاً نہیں ممکن ہو سکتا۔50 اسلامی ممالک کے اتحاد والی او آئی سی بار بار زبانی تنبیہات لکھ لکھ کر بھی بھیج رہا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہی خط جاتا ہے اگلے دن حکومت یہ ناپاک عمل کروا دیتی ہے۔ تو پہلا سوال اُن مسلمانوں سے ہوگا ناں کہ اگر کسی وجہ سے یہ جھوٹ مان لیا جائے کہ آپ کمزور ہو، تو وہ کون سی محبت ہے جو تمہیں قرآن مجید سے لے کر نبی مہربانؐ کی ایسی توہین برداشت کروا رہی ہے؟ جس تواتر سے یہ کام ہو رہے ہیں ، اِس کا کوئی حل ’’اسلام کی دعوت ‘‘ پہنچانے کی آڑ میں ہو ہی نہیں سکتا۔ شعائر اللہ کی تعظیم ایک صریح قرآنی نص سے ایسا ثابت حکم ہے جو خوف خدا سمیت، دائرہ اسلام کی شرائط میںداخل ہے۔

افسوس تو یہ ہے کہ فریڈم کے اِس دھوکے نے اُن کلمہ گو اہل ایمان کو بھی اپنے شکنجے میں لے لیا جنہوں نے کلمہ پڑھا ہوا ہے۔ ہمارے دیرینہ مربی سید شاہد ہاشمی کے ساتھ ایک نشست میں کلمہ طیبہ بطور عقیدہ پر بات کر رہا تھا تو انہوں نے جماعت اسلامی کے دستور سے اِس کی یہ تشریح بتائی کہ ’’انسان اپنی آزادی و خود مختاری سے دست بردار ہو جائے، اپنی خواہشاتِ نفس کی بندگی چھوڑ دے اور اللہ کا بندہ بن کر رہے جس کو اس نے الٰہ تسلیم کیا ہے۔ اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک و مختار نہ سمجھے بلکہ ہر چیز حتیٰ کہ اپنی جان، اپنے اعضا اور اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو بھی اللہ کی مِلک اور اس کی طرف سے امانت سمجھے۔ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے ذمہ دار اور جواب دہ سمجھے اور اپنی قوتوں کے استعمال اور اپنے برتائو اور تصرفات میں ہمیشہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھے کہ اسے قیامت کے روز اللہ کو ان سب چیزوں کا حساب دینا ہے۔ اپنی پسند کا معیار اللہ کی پسند کو اور اپنی ناپسندیدگی کا معیار اللہ کی ناپسندیدگی کو بنائے۔ اللہ کی رضا اور اس کے قرب کو اپنی تمام سعی و جہد کا مقصود اور اپنی پوری زندگی کا محور ٹھہرائے۔ اپنے لیے اِخلاق میں، برتائو میں، معاشرت اور تمدن میں، معیشت اور سیاست میں غرض زندگی کے ہر معاملے میں صرف اللہ کی ہدایت کو ہدایت تسلیم کرے اور ہر اس طریقے اور ضابطے کو رد کردے جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو۔‘‘

یہ سب جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے دستور میں اپنے بنیادی عقیدہ کے ذیل میں لکھا ہوا ہے۔ شاہد ہاشمی نے بتایا کہ یہ جماعت اسلامی کا بنیادی عقیدہ ہے۔ تو میں نے سوال کیا کہ باوجود اس کے کہ یہ تو کلمہ کی کوئی الگ تشریح نہیں لگتی، یہ تو کلمہ پڑھتے ہی لازمی عقیدہ از خود ہونا چاہیے مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ ناں کہ 1941 میں سید مودودیؒ کی نگاہوں نے اُن کے وژن نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ سرمایہ دارانہ عقلیت جن نعروں کے ساتھ استعمار کی صورت برصغیر پر مسلط ہوچکی ہے اُس میں ’’تصورآزادی‘‘ کو مسخ کرنا، اُس کی شناخت پیش کرنا ، ہر کلمہ گو کے ایمان کو بچانے کے لیے کتنا ضروری ہے؟ ایک جانب یہ لبرل اقدار انسان کو اُس کے نفس کی غلامی کے لبادے میں’کامل زادی‘کا پورا پورا نظام زندگی اور اِس کافریم ورک دے رہی ہیں۔ دوسری جانب یہ7 لفظ کا ’کلمہ طیبہ ‘ہے جو اِنسان کو اُس کے نفس کا رد کرتے ہوئے ’’خالق کی مکمل غلامی‘‘ کا درس دے رہا ہے۔ غلامی بھی ایسی کہ انسان ہر قسم کی آزادی سے خود دست بردار ہو جائے، یہی نہیں بلکہ اپنی جان، جسمانی اعضاء سمیت بلکہ ذہنی و جسمانی قوتیں بھی، پسند نا پسند کا معیار بھی، ہر قسم کی سعی و جدوجہد بھی، اخلاق بھی، برتائو بھی، معیشت بھی سیاست بھی، ہر دائرے میں اطاعتِ رب۔ بس یہ ہے بندگی اور کلمہ کا حقیقی تقاضا۔ اس عقیدے میں ’لا‘ کا تقاضا ہے کہ مسلمان ہر اُس طریقے اور ضابطے کو رد کر دے جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو۔ تو جناب؎! مسئلہ یہی ہے کہ یہ ’رد‘ ہمیں معاشرے میں نظر نہیں آرہا۔ نہ علمی سطح پر نہ عملی سطح پر۔ تاتاریوں کے دور میں ہم پڑھتے ہیںکہ کسی ایک خطے میں کسی تاتاری کمانڈر کو جوش چڑھا اور اُس نے مسلم معاشرت میں داخل ہوکر شریعت میں چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی۔ مسلمان بہ حیثیت مجموعی اُن کی طاقت کے زیر اثر تھے مگر امام ابن تیمیہؒ نے تلوار اٹھائی اور جس پا مردی سے اُس کا دروازہ بند کیا وہ دوبار ہ کوئی نہ کھول سکا۔

’’باربی‘‘ دوسرا اہم ایشو تھا سوشل میڈیا پر، پورے امریکہ میں اس پر خاصا شور ہوا۔ یہ فلم جولائی کے اختتام پر امریکہ میںہوئی تھی۔ مگر پاکستان پہنچی تو پنجاب میں بھی اس کی نمائش پر پابندی لگی، یہ پابندی اس کے شدید متنازع مواد کی وجہ سے تھی جسے سنسر بورڈ تک نے محسوس کرلیا (جیسا وہ اس سے قبل جوائے لینڈ میں کر چکا تھا) مگر چوں کہ ہماری وزیر اطلاعات سنیما انڈسٹری کی کامیابی و ترقی کے لیے دعائیں کرتی ہیں تو اس میں پابندی کیسے چل سکتی ہے وہ بھی کسی امریکی فلم کی۔ تو 23 جولائی کی پابندی 2 اگست کو ختم کر دی گئی۔ اہم اور اندر کی بات یہ ہے کہ یہ پابندی کا ڈراما صرف محرم الحرام کی وجہ سے تھا ، مواد پر جو اعتراضات تھے وہ تو کسی کا باپ بھی دور نہیں کر سکتا۔ بھارت تو ٹرینڈ ہی نہیں پورا کا پوراس فلم کے رنگ میں رنگ گیا یعنی گلابی ہو گیا تھا۔ کہنے کو تو ’باربی‘ ایک معروف گڑیا کی برینڈ ہے۔ اس کے ساتھ اِس عنوان پر فلم بنا کر جو کام کیا گیا وہ انتہائی لبرل فیمنسٹ بیانیہ تھا۔ یہی نہیں اس میں ہم جنس پرستی کی تحریک کو جگہ دی گئی۔ اس فلم کی جو ٹارگٹ آڈینس تھی وہ چھے سے گیارہ سال کی بچیاں اور ان کی والدہ تھیں۔ اخبارات، رسائل اور فلموں پرتجزیے کرنے والے مغربی ماہرین نے صاف طور پر اس فلم کو انٹرٹینمنٹ کے بجائے جینڈر کی تدریس کا ایک ملغوبہ قرار دیا۔ اس فلم کو دیکھنے کے لیے جو مائیں یا جو ناظرین جا رہے ہیں وہ مزید یورپ کے بچے کھچے خاندانی نظا م کو تباہ کردینے کے متراد ف ہوگا۔ کھلونے کی کمپنی گذشتہ دو تین دہائیوں سے ایک ہی عنوان سے گڑیا بنا رہی تھی جو دنیا بھر میں بچوں میں جگہ بنا چکی تھی۔ اب اِس مقبولیت سے اپنا کام لینے کے لیے ایک خاص ایجنڈا فلم کے ذریعہ منتقل کیا گیا۔ وومن ایمپاورمنٹ کے جعلی نعرے کواس گڑیا کی آڑ میں ٹھونسا گیا، ایک معصوم سی فرضی گڑیا کو حقیقی کردار کی صورت پیش کیا گیا۔یہی نہیں اس پر پوری کہانی کھڑی کرکے آس کو زندہ کردار کی صورت الحادی فکر کے بیانیے ٹھونسے گئے۔ان میں شادی سے نفرت، خاندان بنانے سے نفرت، بچوں کی پیدائش سے نفرت، مردوں کی حاکمیت کا انکار،سر فہرست تھے۔یہی نہیں بلکہ، امریکہ میں ری پبلکنز نے تو اس میں سیاسی ایشوز بھی ڈھونڈ نکالے۔ مارشا بلیک برن اور ٹیڈ کروز جیسے سینیٹرز کا دعویٰ ہے کہ اس فلم میں دکھائے گئے ایک نقشے کے منظر میں ’’نائن ڈیش لائن‘‘ کو دکھایا گیا ہے، جسے چین جنوبی چین کے سمندر پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ فلم میں لائن کو شامل کرنا چین کی پوزیشن کو جائز بناتا ہے، جو اسے اسٹریٹجک طور پر اہم پانیوں پر زیادہ طاقت دیتا ہے۔ یہی نہیں جنوبی کوریا کی خواتین کے حقوق کی کارکن ہیں، شیم نے کہا کہ ’’فلم کے موضوعات نے سنیما دیکھنے والوں کو بند کر دیا ہے۔‘‘ میرے خیال میں باربی بلاشبہ اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ فیمن ازم کے متنازع موضوع کے ساتھ بنائی گئی فلم کو ممنوع موضوع کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔

بہرحال ایک جانب بہاولپور یونیورسٹی معاملہ مستقل پاکستان میں ڈسکس ہو رہا ہے۔ لیک شدہ وڈیوز اب سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ وہ بار بار خواتین کو دی گئی اس آزادی پر سوال اٹھا رہی ہیں۔ ہمارا پورا تعلیمی نظام عددی بنیادوں پر یعنی نمبروں کے حصول پر کھڑا ہے۔ اچھے نمبر و ڈگری معیار بن جائے تو پھر ہر قیمت پر لیے جا سکتے ہیں، باپ دن رات ہر قسم کی محنت کرکے اسکول، کالج و جامعات میں پڑھواتا، داخلہ کراتا ہے‘ اچھے نمبروں کا پریشر دے کر رکھتا ہے۔ تو اگر کسی نے جامعات کی سطح تک پہنچتے پہنچتے اچھے نمبروں کا حصول ہر قیمت پر پانے کا ارادہ کرلیا تو اس میں جانتے ہیں کہ اب مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ صرف یہ ہے کہ یہ بات لیک نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے پہلے عورت کو باہر نکالا گیا، پھر اس کو باہر نکلنے کے حقوق یاد دلائے گئے، اس کو برابری کا لالی پاپ دیا گیا، تو ہم نے دیکھا کہ پہلے سائیکل، پھرگاڑی پھر اب موٹر سائیکل چلاتی خواتین کی صورت یہ فیمن ازم کی جڑ میں پورے معاشرے میں انڈیلی جارہی ہیں۔ طلاق اور خلع کی شرح پر دینی گھرانے ہوں یا لادینی کہیں کوئی ماتھے پر شکن نہیں۔ یقین جانیں یہ سب باربی جیسے موضوعات والی فلموں، ڈراموں، کہانیوں، ناولوں اور ابلاغیات سے جڑی معاشرت کے شاخسانے ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ بہاولپور یونیورسٹی کے معاملات تو سامنے آگئے ، لوگ کیوں کامسیٹ پرچے والا کیس بھول گئے، جامعہ کراچی و دیگر کا بم بھی کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔ اس لیے کہ ایسی خفیہ وڈیوز کی قیمت بہت ہوتی ہے۔ کراچی میں خواتین کو چھیڑ چھاڑ والی سی سی ٹی وی کی ویڈیوز کی ریٹنگ دیکھ لیں اندازہ ہوجائے گا۔

ہو سکتا ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ پاکستان میں بدترین مہنگائی ہے، پیٹرول دوبارہ 20 روپے بڑھ گیا، آٹا 160 کراس کر گیا، بم دھماکے ہو رہے ہیں، ملک کا محبوب ترین لیڈر عجیب عدالتی ٹرائل میں ہے، کراچی باوجود ٹیکس دینے کے آج بھی شہری انفرا اسٹرکچر کی تباہی کا شکار ہے، ڈیم بھر گیا ہے مگر لوگ نل میں پانی کو ترس رہے ہیں۔ تو ایسے حالات میں مجھے سوشل میڈیا پر یہی موضوعات کیوں اہم لگتے ہیں۔ اِس کا ایک ہی سادہ جواب ہے کہ پیٹرول، بجلی، سڑک ، پانی و دیگر سے کہیں قیمتی چیز تو ایمان ہے، ہمارا کلمہ ہے، ہمارا عقیدہ ہے، کلمے کا تقاضا ہے کہ ’’ہر اُس طریقے اور ضابطے کو رد کردے جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو۔‘‘

حصہ