اڑان

260

’’ارے دادی! جلدی سے کچھ دیں، بہت بھوک لگی ہے۔‘‘ شایان نے اسکول بیگ صوفے پر گرایا اور کپڑے بدلنے کے لیے چلا گیا۔

دادی نے آیا کو آواز دی کہ جلدی سے کھانا لگا دے۔ تھوڑی دیر میں دادی اور شایان کھانا کھا رہے تھے کہ ضحی گھر میں داخل ہوئی۔

’’السلام علیکم دادی جان! میں بس ابھی آئی۔‘‘ تھوڑی دیر میں وہ بھی پلیٹ میں کھانا نکال رہی تھی۔

’’ارے واہ! سالن بہت مزے کا ہے۔‘‘ ضحی نے کہا۔

ضحی نے جلدی جلدی نوالے توڑتے ہوئے کہا ’’دادی جان! مجھے آپ سے ایک آئیڈیا چاہیے۔ کالج میں نظریۂ پاکستان کے حوالے سے ایک تقریب ہونی ہے اور ہماری کلاس کو اس کے لیے ٹیبلو تیار کرنا ہے، اس کے لیے آپ آئیڈیا دیں۔‘‘

’’سوچتے ہیں کچھ، فی الحال تم دونوں کھانا ختم کرکے نماز پڑھ لو۔‘‘ دادی نے اپنی پلیٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔

’’او کے…! ضحی نے سر ہلا دیا۔

تھوڑی دیر میں ان کے بابا بھی آفس سے آگئے اور ماما بھی۔ اب آیا دوبارہ برتن سجارہی تھی۔ ظہر پڑھ کے ضحی دادی جان کے کمرے میں بیٹھی ان سے قیامِ پاکستان کے واقعات سننے کی فرمائش کررہی تھی۔ دادی جان نے کمرے میں موجود پنجرے میں قید کبوتر کو جاکے دیکھا، پھر اسے کھڑکی کے پاس لے جا کے اُڑا دیا اور کہا

پروں کو کھول زمانہ اُڑان دیکھتا ہے
زمیں پہ بیٹھ کے کیا آسمان دیکھتا ہے

’’واہ آپ کا کبوتر ٹھیک ہوگیا دادی جان؟‘‘ ضحی نے سوال کیا۔

لیکن دادی تو ماضی کے دھندلکوں میں کھوئی ہوئی تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ بتا رہی تھیں ’’بھائی جان بتایا کرتے تھے میں اُس وقت بہت چھوٹی تھی جب بلوائیوں نے ہم مسلمانوں کے محلے پر دھاوا بولا۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ نے قیامِ پاکستان کی خاطر جو جدوجہد کی اُس میں آبادی کی منتقلی کا کوئی منصوبہ شامل نہیں تھا بلکہ صرف یہ طے پایا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل الگ ریاست قائم کی جائے گی۔ لیکن ہندوئوں، سکھوں اور انگریزوں کو پاکستان ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔ جب گلی محلوں میں مسلمان جلسہ کرتے اور نعرہ لگاتے ’’پاکستان کا مطلب کیا… لا الٰہ الااللہ! تو متعصب جنونی ہندو اس نعرے کا جواب دیتے کہ ’’جو مانگے گا پاکستان، اُس کو ملے گا قبرستان‘‘۔

جن ہندو ہمسایوں سے مسلمان اچھا سلوک کرتے تھے انھی ہمسایوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ پہلے بھی محلے کی مسجد میں نماز کے اوقات میں ڈھول لے کر کھڑے ہوجاتے تھے تاکہ نمازیوں کی عبادت میں خلل ڈال سکیں۔ عیدالاضحی پر جب مسلمان گائے کی قربانی کرتے تو ہندو مسلمانوں کی بستی پر حملہ کرکے کتنے ہی افراد کو موت کے گھاٹ اتار کے انتقام لیتے۔ وہ مسلمانوں کو ’’ملیچھ‘‘ یعنی ’’ناپاک‘‘ کہا کرتے تھے۔ اسی لیے جب مسلمانوں نے اپنے وطن کا نام ’’پاکستان‘‘ تجویز کیا تو گویا یہ ایک طمانچہ تھا جو ہندو اکثریت کے متعصب چہرے پر مارا گیا تھا۔ اس کا بدلہ انھوں نے قتل و غارت گری کرکے لیا ہمارے بزرگوں سے، ہماری نسلوں سے۔‘‘ دادی جان کی آواز درد میں ڈوبی ہوئی تھی۔

’’بہت سی مسلمان لڑکیاں اپنی عزت کی حفاظت کی خاطر چھتوں سے کود گئیں،کچھ نے کنویں میں چھلانگ مار دی۔ بے رحم، ظالم ہندوؤں نے معصوم بچوں کو بھی نہ چھوڑا اور نہ ہی بزرگوں سے حیا کھائی۔ سب کو ذبح کرتے چلے گئے۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ بابا نے مجھے بھائی جان کی گود میں دیا اور بھائی جان مجھے اٹھا کے پچھلے دروازے سے سرپٹ دوڑتے چلے گئے۔ پتا نہیں کتنے میل وہ یوں ہی دوڑتے گئے۔ یہ آگ اور خون کا سفر تھا، ہر طرف چیخ پکار تھی۔ بڑی مصیبتوں کے بعد ہم ایک قافلے میں شامل ہوکر پاکستان پہنچے۔ اس سوہنی دھرتی کو ہم نے بہت قربانیوں سے حاصل کیا ہے بیٹا۔‘‘ دادی جان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوگئیں تو وہ اپنے دوپٹے سے صاف کرنے لگیں۔

’’پھر کیا ہوا دادی جان! آپ لوگ کہاں رہے پاکستان پہنچ کر؟‘‘ضحی نے جلدی سے سوال کیا۔

’’پہلے تو ہم مہاجر کیمپ میں رہے، پھر بھائی جان نے مزدوری شروع کردی اور ایک کمرہ کرائے پر لے لیا اور ہم وہاں رہنے لگے، پھر بھائی جان پاک فوج میں بھرتی ہوگئے اور ہمارے گھر ایک بھابھی آگئی۔ مجھے میری بھابھی نے پالا ہے بیٹا!‘‘دادی جان نے تفصیل بتائی۔

’’آپ کے بھائی پاک فوج میں بھرتی ہوئے تھے، واہ، شان دار، آپ کو تو بہت فخر ہوتا ہوگا جب وہ وردی میں گھر آتے ہوں گے۔‘‘ ضحی نے پُرجوش ہوکے کہا۔

’’ہاں بہت خوشی ہوتی تھی کہ میں ایک فوجی کی بہن ہوں، محلے میں میری سہیلیاں رشک کرتی تھیں۔ میرے بھائی کی تو چال ہی شان والی تھی۔ وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ترقی پا کر کیپٹن بنے، پھر تو ان کی اُڑان دیکھنے والی تھی، ہر مشکل محاذ پر انہیں بھیجا جاتا تھا اور وہ سرحد اور دھرتی کی حفاظت اپنی ماں کی طرح کیا کرتے تھے۔ انہوں نے غلامی اور قید جیسی زندگی دیکھی تھی نا بیٹا، وہ جانتے تھے کہ یہ آزادی کس قیمت پر حاصل ہوئی ہے۔‘‘ دادی جان کی آنکھیں بھائی کے تصور سے چمکنے لگیں۔

’’دادی! کبھی آپ نے ہم کو تو ملوایا ہی نہیں اپنے بھائی سے؟‘‘ ضحی نے گلہ کیا۔

’’بیٹا! میرے بھائی نے میرے ہاتھ پیلے کیے ہی تھے کہ ستمبر 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا، میرا سوہنا بھائی اس جنگ میں شہید ہوگیا تھا، اپنی جان وار دی انھوں نے، وطن پر آنچ نہیں آنے دی۔ ان کے آفیسر نے بتایا تھا کہ بھائی جان بے جگری سے انڈین آرمی کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔‘‘ دادی جان نے دکھی لہجے میں کہا۔

’’اوہ! پھر تو آپ ایک شہید کی بہن ہیں، آئی ایم پرائوڈ آف یو۔‘‘ ضحی نے دادی جان کے ہاتھ تھام لیے جو شدتِ جذبات سے کانپ رہے تھے۔

’’اب بتائیں کہ اس تاریخی داستان کو میں ٹیبلو کی صورت کیسے دوں؟ آئی ایم سو ایکسائیٹڈ۔‘‘ضحی نے کہا۔

’’میں کیا کہوں بیٹا! سب کچھ تو بتادیا ہے، یہ کہنا بچیوں کو کہ یہ آزادی ہمیں بڑی قربانیاں دے کر ملی ہے، یہ سبز ہلالی پرچم دھرتی ماں کی چادر ہے، یہ وطن، یہ چمن ہمارے پھول جیسے بچوں کے لہو کی آبیاری سے ملا ہے، قفس توڑ کے آزاد فضا میں جو ہم اُڑانیں بھرتے پھرتے ہیں، ہر جگہ اپنی مرضی سے آتے جاتے ہیں، یہ اُڑان بڑے بازو گنوا کے ملی ہے بیٹا! اس اڑان کی قدر کرنا۔ اپنی آزاد فضا کی حفاظت کرنا ہمیشہ۔‘‘

دادی جان کہیں خلا میں دیکھتے ہوئے گویا اپنی تاریخ میں گم تھیں۔

حصہ