پاکستان کی بگڑتی معاشی صورتحال اور افرادی قوت و ذہانت کا انخلا

588

جنگ میں سب سے پہلا حملہ سچ پر کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اپنی نفسیاتی برتری کو قائم کرنا اور دشمن کو نفسیاتی طور پر دباؤ میں لانا ہوتا ہے۔ کاش کہ یہ معاملہ محض جنگ تک ہی محدود ہوتا، لیکن اب تو ہم اس گلوبل ویلیج میں ایک ایسی دنیا میں موجود ہیں جہاں سچ اور جھوٹ اس طرح خلط ملط کردیے گئے ہیں کہ عام آدمی تو کجا خود پڑھے لکھے اور سوچ سمجھ رکھنے والے بھی اس دجل و فریب کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہ معاملہ کوئی زیادہ پرانا نہیں جب جنگِ عظیم میں وار انفارمیشن بیورو بناکر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کے روپ میں پیش کیا جاتا تھا۔ پھر پاکستان میں بھی اس کا بار بار اہتمام کیا جاتا رہا، حتیٰ کہ 2014ء کے بعد سے ہم بحیثیت قوم ایک ایسی راہ پر چل پڑے جہاں ہر سیاست دان چور، ہر الیکشن فراڈ اور صرف ریاست کا سب سے بڑا ادارہ ہی معتبر رہا۔ پہلے الیکشن میں 25 پنکچر کا جھوٹ، اس کے بعد دوبارہ الیکشن کا مطالبہ، تاریخی دھرنے اور بار بار چینی سربراہِ حکومت کی آمد پر دھرنے، کبھی لاک ڈاؤن، تو کبھی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ… اور اس سب میں رنگ بھرنے کے لیے خود کینیڈا سے لیڈرز کو امپورٹ کیا گیا جنہوں نے آکر بتایا کہ پاکستان رہنے کے قابل ملک نہیں، میرے بچے اور خاندان تو کینیڈا میں آباد ہے لیکن میں پاکستان آکر خود پاکستانی سیاست دانوں کی چوری بیان کروں گا۔

اس کا جو بھی سیاسی نتیجہ نکلنا تھا وہ تو نکل آیا، لیکن اس دوران پروپیگنڈے کا جو طوفان چہار جانب سے برپا کیا گیا کہ جہاں سوشل میڈیا مہمات سے لے کر آئی ایس پی آر کے تعاون سے بننے والی فلمیں اور ڈرامے بھی شامل تھے جن کا ہدف محض سیاست دانوں کو چور و کرپٹ ثابت کرنا تھا۔ اس کا ایک منطقی نتیجہ تو 25 جولائی 2018ء کی رات انتخابی نتائج کی صورت میں حاصل کیا گیا، اور اگلی صبح کے اخبارات میں سرورق پر آرمی چیف کا بیان موجود تھا کہ ہم نے ووٹ کی طاقت سے دشمن کو شکست دی۔ اس کے ساتھ ہی بدزبان ترین ڈی جی آئی ایس پی آر کا ٹویٹ جس میں انہوں نے قرآن کی آیت کو ٹویٹ کرکے کہا تھا کہ اللہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے۔ یہ وہ بیانیہ تھا کہ جس میں جنرل فیض حمید، جنرل باجوہ، جسٹس ثاقب نثار اور دیگر کرداروں کی کوششوں سے ایک محب وطن حکومت بنائی گئی جس نے وطن پر مسلط ملک دشمنوں کو شکستِ فاش دی اور اس کے بعد ملک میں ایک پیج وجود میں آیا۔

جنرل آصف غفور نے جو کہ اُس وقت ڈی جی آئی ایس پی آر تھے بار بار ففتھ جنریشن وار کا حوالہ دیا کہ کس طرح قوموں کو اندر سے شکست دی جاتی ہے، لیکن شومیِ قسمت، وہ بھی یہی کام کرتے رہے۔

اس پوری مہم کا تجزیہ ایک کتاب کا متقاضی ہے، لیکن میںچند نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس کے سماجی و معاشی اثرات پر کچھ بات کروں گا۔ پہلی بات یہ کہ جب سب سیاست دان چور ہیں اور ڈراموں و فلموں میں پیش کیے گئے نظریات کے مطابق یہ سب ناقابلِ اصلاح ہیں تو لامحالہ عوام ان کو سیاسی طور پر کرپٹ تسلیم کریں گے، اور خاص طور پر نوجوان نسل کو یہ باور کروایا گیا کہ ہمارے سیاست دان ہی ہمارے مسائل کی جڑ ہیں۔ اس کے بعد ایک نجات دہندہ کے روپ میں ان ہی کرپٹ سیاست دانوں کو اکٹھا کرکے گویا ان کو عسکری لانڈری میں دھو دیا گیا اور اس کے بعد ان پر مزید تڑکا سپریم کورٹ آف پاکستان نے صادق و امین کی سند دے کر بھی لگادیا۔

اب قوم کی امیدوں کا محور و مرکز وہ واحد حکومت تھی جس کو اپریل 2022ء میں مبینہ امریکی اور باجوہ سازش سے برطرف کردیا گیا۔ یہ بیانیہ گھڑا گیا اور اس کے بعد ایک شدید مایوس قسم کے جذبات کا طوفان امڈ آیا۔ یعنی اگر سابقہ پروپیگنڈے کو سامنے لایا جائے تو امید کی کرن دم توڑ گئی۔ اب دوبارہ چور مسلط ہیں لہٰذا اس ملک میں کچھ نہیں ہونا۔ اس بیانیے کے اثرات تاحال آپ نوجوان میں دیکھ سکتے ہیں۔

چند دن قبل ایک کافی شاپ میں دو نوجوان ڈاکٹرز سے ملاقات ہوئی، وہ ایک دن قبل ہی برطانیہ آئے تھے۔ دونوں نے ملتان کے ایک نجی میڈیکل کالج سے تعلیم مکمل کی ہے۔ اب ایک ماہ برطانیہ میں قیام کریں گے جہاں وہ برطانیہ میں میڈیکل پریکٹس کا امتحان دیں گے۔ ان کے ساتھ ان کے کئی اور احباب بھی آئیں گے۔ ان سے استفسار پر یہ بات واضح ہوئی کہ وہ پاکستان سے مکمل مایوس ہیں۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جس سے آج ہم بحیثیتِ مجموعی دوچار ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں صورت حال یہ ہے کہ سرکاری طور پر ایک ٹرینڈ ڈاکٹر برطانوی سرکار کو ڈھائی لاکھ پاؤنڈ کا پڑتا ہے، جبکہ ہم اپنے قیمتی انسانی وسائل کو نہ صرف مفت میں بلکہ ایک بڑی رقم فیس اور امیگریشن کی مد میں ادا کرکے ان کے حوالے کررہے ہیں۔

معاشی مسائل سے زیادہ اس وقت پاکستان کا مسئلہ سیاسی اور نفسیاتی ہے۔ اب ذرا اعداد و شمار پر غور کریں کہ سالِ گزشتہ 2022ء میں 765000 پاکستانی ملازمت کے حصول کے لیے بیرونِ ملک گئے ہیں۔ اس سے قبل سال 2021ء میں 225000، اور سال 2020، میں 288000 پاکستانی بیرونِ ملک گئے تھے۔ گوکہ سال 2020ء اور 2021ء میں کورونا پابندیوں کے باعث سفری مشکلات و پابندیاں تھیں لہٰذا یہ شرح بہت کم رہی، لیکن حیرت انگیز طور پر اِس سال یعنی 2023ء کے پہلے 6 ماہ میں آٹھ لاکھ سے زائد پاکستانی وطن کو چھوڑ کر قانونی طور پر جاچکے ہیں۔ ان میں اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور آئی ٹی ماہرین کی ہے۔ بیورو آف امیگریشن کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سال 2022ء میں بیرونِ ملک جانے والے افراد میں 92000 گریجویٹس، 350000 اعلیٰ تربیت یافتہ ماہرین، 5534 انجینئرز، 2500 ڈاکٹرز، 2000 آئی ٹی ماہرین، 6500 اکاؤنٹس کے شعبے کے ماہرین، 2600 زرعی ماہرین، 900 اساتذہ، اور 1600 نرسیں بھی شامل ہیں۔

اس کے علاؤہ صرف چھ ماہ میں 13ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی راستے سے یورپ کے لیے روانہ ہوچکے ہیں، اور اس بات کا انکشاف بھی تب ہوا جب یونان میں پاکستانی تارکین وطن سے بھری کشتی سمندر میں ڈوب گئی جس میں کم از کم 300 پاکستانی سوار تھے جوکہ یورپ جانا چاہتے تھے۔ اس المیے کا دردناک پہلو یہ ہے کہ 130 پاکستانی اس سانحے میں جاں بحق ہوئے اور اس کشتی میں سوار غیر قانونی تارکین وطن میں 15 سال تک کے نوعمر بچے بھی شامل تھے۔ المیہ در المیہ یہ کہ سارا کھیل پاکستانی پنجاب کے شمالی اضلاع میں زیادہ کھیلا جارہا ہے جہاں اس طریقے سے یورپ جانے والوں کو کم از کم 22 لاکھ روپے فی کس ادا کرکے اس خطرناک سفر پر روانہ کیا جاتا ہے، اور اس میں اکثریت 15 سے 24 سال تک کے نوجوانوں کی ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان میں چند دن گزارے تو میرے ہر طالب علم اور نوجوان کا سوال یہی تھا کہ پاکستان سے باہر جانے کا طریقہ بتائیں۔ یہ وہ عمومی رجحان ہے جو کہ آج پاکستان کے نوجوانوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بدترین معاشی حالات ہیں کہ جہاں ایک خاندان کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن ہوگیا ہے، تو دوسری جانب قوم کے لاشعور میں بٹھائی گئی مایوسی، ناامیدی، اور قنوطیت نے اس ملک کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کر مایوس کردیا ہے۔ یہ کام کسی اور نے نہیں خود ہمارے اداروں اور میڈیا نے کیا ہے۔ اب چاہے آرمی چیف لاکھ بیان دیں کہ اللہ تعالیٰ بھوک اور خوف سے آزماتا ہے، کوئی اُن کے بات پر کان نہیں دھرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو بھی ظلم قرار دیتا ہے، اور اُن کے پیش رو جنرل باجوہ کے ڈی جی آئی ایس پی آر تو بار بار فلموں اور ڈراموں سے بتاتے رہے کہ قوم اس وجہ سے مفلوک الحال ہے کیونکہ حکمران چور ہیں۔ اب سوال تو پیدا ہوگیا کہ اصل حکمران کون ہے جو اس ملک کو چلارہا ہے؟

اس ملک و قوم کو ففتھ جنریشن وار کا سامنا ہے، اور یہ جنگ خود دشمن نے نہیں ہم نے اپنے اوپر مسلط کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا مستقبل قیمتی ترین افراد یعنی ملک کا سرمایہ اس ملک میں رہنے کے بجائے اب اس ملک کو جلد از جلد چھوڑنا چاہتا ہے۔ قومی نفسیات میں نہ تو کوئی بات چند لمحوں میں پیوست ہوتی ہے اور نہ ہی ان رجحانات سے جلد چھٹکارا ممکن ہوتا ہے، لہٰذا ہم بحیثیتِ مجموعی اپنوں ہی کی سازشوں کا شکار ہوئے۔ وار انفارمیشن بیورو دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا درس دیتے دیتے اپنے ملک کے مستقبل یعنی نوجوانوں کو اپنے ہی ملک سے مایوس کرگیا۔ یہ یقیناً سانحہ 9 مئی سے بڑا سانحہ ہے، کیونکہ مایوس قوم کو کسی بیرونی حملے سے فتح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آج ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ کاش کہ کوئی عدالت اس پر بھی قائم کی جائے کہ جہاں نوجوانوں کو ملک سے مایوس کرنے والوں کو قرار واقعی سزا مل سکے۔ اگر یہ نہ ہوسکا تو خاکم بدہن اس ملک میں مایوسی مزید یلغار کرے گی اور ہمیں کسی اور بیرونی دشمن کی یلغار کی ضرورت پھر شاید نہ رہے۔

حصہ