جماعت اسلامی کراچی کے زیر اہتمام روایتی ”دعوت ِ آم“ کا انعقاد

391

صحافیوں کی بڑی تعداد میں شرکت،صحافت کے مسائل اور ملک میں آزادیِ اظہار ِرائے کے حوالے سے قرار داد پیش کی گئی جسے تمام صحافیوں نے منظور کیا

جماعت اسلامی کراچی کی دیرینہ روایات میں سے ایک ”آم پارٹی“ بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پروفیسر غفور احمد کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ درمیان میں کئی بار ایسا بھی ہوا کہ بوجوہ نہ ہوسکی تو صحافیوں کو ایسا لگا جیسے اِس سال کا کوئی اہم پروگرام رہ گیا ہے۔

امسال بھی گزشتہ دنوں شعبہ نشرو اشاعت کی جانب سے صحافیوں کے لیے اس اہم روایتی ”دعوت ِ آم“ کا اہتمام کیا گیا۔ یہ اپنی روایات کے ساتھ انتہائی منظم پروگرام تھا، اور صحافیوں کی بہت بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی جس میں کلیدی خطاب امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا تھا۔ آپ جب وسیع و عریض ہال میں داخل ہوئے تو ایک ایک ٹیبل پر جاکر صحافیوں سے ملاقات کی، ان کا حال احوال پوچھا۔ دعوتِ آم میں کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی، جنرل سیکریٹری شعیب احمد، مظہر عباس اور ڈاکٹر توصیف احمد سمیت سینئر صحافیوں و کالم نگاروں، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ڈائریکٹرنیوز، نیوز کنٹرولر، بیورو چیف، اسائنمنٹ ایڈیٹرز، اخبارات کے ایڈیٹرز، کیمرہ مینوں، رپورٹرز کے علاوہ خواتین صحافیوں،میڈیا ورکرز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی اور روایتی دعوتِ آم کے انعقاد پر اظہارِ مسرت کیا۔

پروگرام میں حافظ نعیم الرحمٰن کے علاوہ جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر و انچارج میڈیا سیل ڈاکٹر اسامہ رضی، کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی اور جماعت اسلامی کراچی کے سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری نے بھی خطاب کیا۔ زاہد عسکری نے صحافت و اہلِ صحافت کے مسائل اور ملک میں آزادیِ اظہارِ رائے کے حوالے سے ایک قرارداد پیش کی جسے تمام صحافیوں نے ہاتھ اٹھا کر منظور کیا۔ تلاوتِ قرآن کے بعد سینئر صحافی واجد انصاری نے نعتِ رسولِ مقبول ؐ پیش کی۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”کراچی منی پاکستان، ہر زبان بولنے اور ملک کے تمام علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کا شہر ہے، جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک کراچی کے ہر شہری کی تحریک ہے، ہم سب کو مل کر کراچی کو وڈیروں اور جاگیرداروں کے تسلط میں جانے سے روکنا ہے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ کراچی کو کھانے، کمانے اور مال بنانے کا ذریعہ سمجھا ہے، پیپلز پارٹی اور سلیکٹڈ میئر کے لیے شرم کا مقام ہے کہ کراچی رہائش کے لیے دنیا کے بدترین شہروں میں سرفہرست ہے، ملک میں صحافت، صحافی برادری اور آزادیِ اظہار کے حوالے سے صورت حال انتہائی تشویشناک ہے، حکومتی سطح پر اشتہارات کے ذریعے بھی صحافت پر قدغن لگائی جاتی ہے، آزادیِ اظہار کے حوالے سے ضابطہ قانون، آئین اور دستور میں موجود ہے، آئین و دستور سے ماورا قانون سازی اور من پسند ترامیم کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔“ حافظ نعیم الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ ”کراچی پریس کلب پوری صحافی برادری کا ایک نمائندہ پلیٹ فارم ہے اور آزادیِ صحافت کی جدوجہد کا مرکز و محور ہے۔ اُمید ہے کہ اس کا یہ کلیدی کردار آئندہ بھی جاری رہے گا۔“ ان کا کہنا تھا کہ ”پیپلز پارٹی کراچی کے وسائل اور اختیارات پر قبضہ کرکے اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے، مردم شماری میں کراچی کی گنتی بھی اسی لیے کم کی جاتی ہے تاکہ کراچی کی حقیقی نمائندگی سامنے نہ آسکے، اگر کراچی کی درست آبادی شمار کرلی جائے تو وڈیروں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔“ انہوں نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے پس منظر میں کہا کہ ”کراچی میں بڑی مشکل سے 15جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور 15جون کو میئر کا انتخاب عمل میں آیا، لیکن پیپلز پارٹی نے منتخب بلدیاتی نمائندوں، ٹاؤن و یوسیز چیئرمینوں کو تاحال چارج منتقل نہیں کیا اور ایک ٹرانزیکشن مدت کے نام پر کرپشن کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم کراچی کی تعمیر و ترقی چاہتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کو کسی صورت میں بھی اپنی من مانی اور کرپشن نہیں کرنے دیں گے۔“

صحافیوں کے ساتھ دیرینہ تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اسامہ رضی نے کہا کہ ”جماعت اسلامی کی صحافیوں کے اعزاز میں دعوتِ آم کی روایت سالہا سال سے جاری ہے اور صحافیوں کو اس کا انتظار رہتا ہے۔“ انہوں نے کہا کہ ”سیاست اور صحافت کے ماحول میں شدید حبس پیدا ہوگیا ہے۔ سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج نہ سیاست ہورہی ہے اور نہ ہی صحافت۔ صحافت کا کوئی والی وارث اور تحفظ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی صحافی برادری کے ساتھ ہے۔ ہم نے سیاسی میدان میں ہمیشہ سے آزادیِ صحافت کے حوالے سے آواز اٹھائی ہے۔ جماعت اسلامی تمام صحافیوں کو پلیٹ فارم دے گی جس میں صحافیوں کو متحد کیا جائے گا۔“ انہوں نے کہا کہ ”المیہ ہے کہ 9لاکھ ووٹ لینے والوں کو 3 لاکھ ووٹ لینے والے فرعون کہہ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے فرعونیت کا تصور بھی تبدیل کردیا ہے۔“

آم پارٹی کے شرکاء سے کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی نے خطاب میں کہا کہ ”جماعت اسلامی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے آم پارٹی کی روایت کو برقرار رکھاہے۔ آزادیِ صحافت کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرارداد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ کراچی پریس کلب صحافت پر قدغن اور صحافت کا گلا گھونٹنے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ آئندہ ہفتے کراچی کے مسائل پر پریس کلب میں سیمینار منعقد کریں گے جس میں کراچی کی اسٹیک ہولڈر جماعتوں کے نمائندوں کو مدعو کیا جائے گا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کو اس کی پیشگی دعوت دے رہے ہیں۔“

بحیثیتِ مجموعی آم پارٹی کا پروگرام عمدہ سرگرمی کے طور پر ہونے کے ساتھ صحافیوں کی اس امید پر اختتام پذیر ہوا کہ اس کا اہتمام ہر سال باقاعدہ ہوتا رہے گا۔

حصہ