ماہ محرم اور ہم

333

ماہِ محرم اپنے ساتھ کئی پیغام اور بہت سی یادیں لیے طلوع ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدینہ ہجرت کے سارے مراحل ذہنوں میں تازہ ہوجاتے ہیں۔ یکم محرم کو اس عظیم ہستی کی یادیں دلوں کو تڑپاتی ہیں کہ جن کے قبول اسلام کے لیے خودآپؐ دُعاگو رہتے تھے۔ جن کی کئی آرا کو رب کائنات نے اپنی وحی اور قرآن کریم کی آیات میں بدل دیا۔ ۱۰ محرم نواسۂ رسولؐ کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے کہ انھوں نے اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے سر تو کٹوا لیے لیکن اُس اقتدار کی حمایت و تائید نہیں کی جو آپؐ اور خلفاے راشدین کی راہ سے انحراف کرگیا تھا۔ یومِ عاشورا ءحضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملنے کی یاد بھی تازہ کرتا ہے کہ جس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے آپؐ نے ۱۰ محرم کو خود بھی روزہ رکھا اور اُمت کو بھی ترغیب دیتے ہوئے اسے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا۔

ہجرتِ رسولؐ: تاریخ اسلامی کا یہ اہم ترین واقعہ شہر یثرب کے شہرِ روشن (مدینہ منورہ) میں بدلنے کا آغازہے۔ آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے اپنا گھر بار، عزیز و اقارب، حتیٰ کہ خود بیت اللہ سے دُوری بھی صرف اس ایک عظیم مقصد کی خاطر قبول کرلی کہ اللہ کے حکم کی پیروی کرنا ہے۔

سفر ہجرت کا آغاز ایک ایسے عالم میں ہوا تھا کہ سب قبائل، مکہ کے چنیدہ جنگجو قتل کے ارادے سے آپؐ کے گھر کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے۔ خطرہ تھا کہ مکہ سے نکل جانے کے بعد بھی اطمینان سے سفر نہیں کرنے دیا جائے گا، اور ایسا ہی ہوا۔ بھاری انعام کی خبر سفر کی ہر منزل پر پیچھا کررہی تھی۔ لیکن اس عالم میں بھی آپؐ نے اور رفیق سفر نے سفر کی وہ بے مثال تیاری کی تھی کہ اُس دور میں جس کی مثال نہیں ملتی۔تین روز تک مکہ کے جنوب مغرب میں واقع غار ثور میں قیام کیا تاکہ دشمن تھک ہار کرنامراد ہوجائے۔ اس دوران مکہ کی ایک ایک خبر سے آگاہ رہنے کا انتظام بھی کیا اور خوراک پہنچتے رہنے کا بھی۔ نہ صرف یہ بلکہ ان دو کاموں کے لیے آنے والے عبدالرحمن بن ابی بکر اور اسماء بنت ابی بکر الصدیق کے قدموں کے نشان تک مٹا دینے کا انتظام کیا گیا۔ صدیق اکبر کا غلام ان کے پیچھے پیچھے بکریوں کا ریوڑ لے آتا کہ معزز ہستیوں کو تازہ دودھ بھی میسر آجائے اور آنے والوں کے قدموں کے نشان بھی مٹ جائیں۔ سرِراہ مل جانے والے بدوؤں سے گفتگو کرتے ہوئے خصوصی احتیاط برتی کہ بلاضرورت تعارف کسی دشمن تک نہ پہنچ جائے۔ اس دور میں کہ جب کوئی لفظ لکھنے کے لیے کئی جتن کرنا پڑتے تھے، سفر تو کجا حضر میں بھی لکھنے پڑھنے کے لوازمات فراہم کرنا، جوے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ آپ نے سامان کتابت زاد راہ میں شامل رکھا۔ سراقہ بن مالک نے جب سنا کہ چند کوس سے دو مسافر گزرے ہیں تو فوراً اندازہ لگالیا کہ وہی قریشی سردار ہوسکتے ہیں، جن کی گرفتاری پر سردارانِ مکہ نے بھاری انعام رکھا ہے۔ پیچھا کرنے، زمین میں دھنس جانے، اور قیصر و کسریٰ کے کنگن ملنے کی خوش خبری ملنے پر تقاضا کردیا کہ یہ بشارت مجھے لکھ کر عنایت فرما دیجیے۔ یارِ غارؓ نے اس عالم میں بھی عبارت لکھ کرنبی أمّیؐ کی مہر ثبت کردی۔

سوچنے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ رب کائنات اشارہ کرتا تو یہاں بھی کوئی بُراق پلک جھپکنے میں ساری منزلیں طے کروادیتا۔ مگر ارادۂ الٰہی یہ تھا کہ دنیا کو ہر ممکن انسانی اسباب فراہم کرنے کا درس و سلیقہ عطا کیا جائے۔

مکہ میں اہل ایمان کے لیے جینا محال ہوگیا تو آپؐ نے طائف کا رخ کیا، وہاں لہولہان کردیے گئے تو مکہ آنے والے ایک ایک قافلے کے پاس جاکر دعوت پیش کی۔ بالآخر بیعت عقبہ ہوئی، اور پھر چھے خوش نصیب افراد نے یثرب کی قسمت بدل دی۔ دعوت دین اور بندوں کو رب کی طرف بلانے کا یہ فریضہ آپؐ نے اس طور ادا کیا کہ سفر ہجرت کے دوران بھی اس کا اہتمام کیا۔ حضرت بُریدۃ الاسلمیؓ نے اسلام قبول کیا اور اپنے پورے قبیلے کی ہدایت کا ذریعہ بن گئے۔ سفر ہجرت سے اللہ تعالیٰ نے قائد اور کارکنان کے لیے بھی اسوۂ حسنہ کا انتظام کرنا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قائد بھی سفر کی مشقت اور خطرات کی انھی منزلوں سے گزرے کہ جن سے کارکنان اور اُمتی گزررہے تھے۔ سفر ہجرت نے اپنے رب کی نصرت پر کامل یقین و اعتماد کی اعلیٰ ترین مثال بھی پیش کرنا تھی۔ غار ثور میں دشمن سر پر پہنچ گئے۔ یارِ غارؓ نے سرگوشی کی: ’’یارسولؐ اللہ! ان میں سے کسی کی نگاہ اپنے پاؤں کی طرف پڑگئی تو ہم گرفتار ہوجائیں گے۔ رسولِؐ حق نے کامل وثوق سے فرمایا: مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنٍ اللہُ ثَالِثُہُمَا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا’’ابوبکر! ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ غم نہ کریں اللہ ہمارے ساتھ ہے“۔ رب کائنات نے اس پورے مکالمے کو بھی نہ صرف قرآن کی وحی بنا دیا، بلکہ تاقیامت یہ اعلان بھی فرمادیا کہ رسولؐ کا ساتھ دے کر اور ان کے راستے پر نہ چل کر خود ہی محروم رہو گے۔ انھیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکو گے۔ان کے لیے اللہ کافی ہے۔

ہجرت کی یاد سے شروع ہونے والا نیا سال ہر سال یہ منادی بھی کرتا ہے کہ اے بندگانِ خدا تمھیں ملنے والی مہلتِ زندگی کا ایک سال مزید کم ہو گیا۔ سال گذشتہ میں روپذیر ہر کوتاہی پر استغفار کرتے ہوئے، نئے سال کو بندگی کے نئے عزم سے شروع کیجیے۔ نئے سال کا پورا دفتر خالی ہے، اسے گناہوں سے بچانا ہی اصل کامیابی ہوگی۔ گذشتہ ساری زندگی جو اجر و منزلت اور کامیابیاں حاصل نہیں کرسکے، اب پھر موقع مل رہا ہے اسے غنیمت جانو۔

ارشادِ نبویؐ ہے: پانچ چیزیں، پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو: lبڑھاپے سے پہلے جوانی بیماری سے پہلے صحت lفقر سے پہلے مال داری مصروفیت سے پہلے فراغت اور موت سے پہلے زندگی۔ نہ جانے کب ان نعمتوں میں سے کون سی واپس لے لی جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دُعاگو رہتے: اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ،’’ اے اللہ آپ کی عطا کردہ نعمتوں کے زوال سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں‘‘۔

شہادتِ عمر فاروقؓ: حضرت عمر بن الخطابؓ جنھیں اللہ نے حق و باطل کا فرق واضح کرنے کا ذریعہ اس طرح بنایا کہ لقب ہی ’الفاروق‘ ہوگیا۔

سیرتِ فاروقؓ بھی سیرتِ رسولؐ کا جزو لازم ہے۔ آپ کے قبول اسلام سے اہل ایمان کو وہ ہیبت و عزت عطا ہوئی کہ اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نہ تو بیت اللہ کا طواف کرسکتے تھے نہ وہاں جاکر نماز ہی پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ عمر بن الخطابؓ نے اسلام قبول کرلیا‘‘۔ وہی اہل مکہ جو کسی کے قبول اسلام کی بھنک پڑجانے پر اس پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑ دیتے تھے، اُن میں سے ایک ایک کے دروازے پر خود جاکر بتایا: سنو! مَیں مسلمان ہوگیا ہوں۔ یہ صدمہ خیز خبر سن کر بس اتنا کہ کر دروازہ بند کرلیتے ’’نہیں … ایسا نہ کرو‘‘۔ مکہ کے اس تاریخی دن سے لے کر مدینہ میں شہادت کے آخری لمحے تک اس عظیم شخصیت نے اہل اسلام اور اسلامی ریاست کی تعمیر و ترقی کی خاطر ایک سے بڑھ کر ایک سنہری باب رقم کیا۔ ہجری تاریخ کا آغاز بھی آپ ہی کے دورِ امارت میں ہوا۔ ایک بار ایک تحریر آئی جس پر ’شعبان‘ لکھا تھا۔ آپ نے صحابہ کرام کو جمع کرکے مشورہ کیا کہ یہاں ’شعبان‘ سے مراد گذشتہ شعبان ہے یا آیندہ؟ پھر فرمایا کہ ہمیں سالانہ تاریخ، یعنی کیلنڈر کا تعین کرنا چاہیے۔ مختلف تجاویز آئیں۔ حضرت علی بن طالبؓ نے ہجرتِ نبویؐ کا مشورہ دیا۔ آپؐ نے اس کی تحسین کی اور اسی پر سب کا اجماع ہوگیا۔

۱۴۳۸ہجری شروع ہونے پر جائزہ لیں تو جدید سے جدید فلاحی ریاستوں کے بہت سارے اقدام وہ ہیں جو اس عبقری شخصیت نے شروع کیے تھے۔ ان تمام اقدامات کے پیچھے اصل قوت محرکہ بھی اللہ کے عذاب کا خوف اور اس کی جنت کی طلب کے سوا کچھ نہ تھا۔

شام ڈھلے ایک قافلہ مدینہ اُترا تو سربراہ ریاست نے عبدالرحمٰن بن عوف سے کہا کہ اجنبی قافلہ ہے، ان کی دیکھ بھال اور پہرے کی خاطر آج رات ہم ڈیوٹی دیں گے۔ کچھ رات ڈھلے ایک بچہ شدت سے رونے لگا۔ فاروق اعظمؓ نے قریب جا کر ماں سے مخاطب ہوتے ہوئے پکارا: ’’اللہ سے ڈرو، بچے کا دھیان رکھو، اسے کچھ کھلاؤ پلاؤ‘‘۔ اگلے پہر اسی بچے کی آواز دوبارہ آئی تو پھر جاکر ماں کو متوجہ کیا: ’’کیسی ماں ہو؟ بچے کو چپ نہیں کرواتی؟‘‘ ماں نے افسردہ آواز میں کہا: ’’اس کا دودھ چھڑوایا ہے لیکن یہ کچھ اور کھا پی نہیں رہا‘‘ کتنی عمر ہے بچے کی؟ ابن الخطاب نے دریافت کیا۔ اتنے ماہ، ماں نے بتایا۔ اتنی چھوٹی عمر میں دودھ کیوں چھڑوارہی ہو؟ ماں نے تڑپ کرکہا: کیوں کہ عمر بن الخطاب نے بچوں کا دودھ چھڑوانے پر ہی ان کے لیے وظیفہ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ رات گزر گئی۔ فجر کی جماعت کرواتے ہوئے امیر المؤمنین کی تلاوت بار بار ہچکیوں میں ڈوب جاتی تھی۔ نماز پڑھائی اور پھر پکار کر کہا: عمر تو تباہ ہوگیا۔ نہ جانے اس نے کتنے بچے مار ڈالے ہوں گے۔ آیندہ ہر بچے کی پیدایش ہی سے اس کا وظیفہ بیت المال سے جاری ہو جائے گا۔ مائیں اپنے بچوں کو پورا عرصۂ رضاعت دودھ پلایا کریں۔

ایک ایک قافلے اور ایک ایک بچے کی خبرگیری سے لے کر قیصر ، روم اور کسری فارس کے تاج و تخت فتح کرنے تک وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ساڑھے دس سالہ دور خلافت میں اسلامی ریاست سب سے مضبوط عالمی قوت بن گئی۔

آخری حج کیا تو بے اختیار یہ دُعا بھی کی کہ پروردگار موت آئے تو شہادت کی موت آئے اور اپنے نبی کے شہر میں مرنا نصیب فرما۔ سننے والوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ شہادت کے لیے تو میدان جہاد کی طرف جانا ہوگا۔ آپ اپنے حبیب کے شہر میں شہید ہونا چاہتے ہیں..؟ ذی الحج کے چند ہی روز باقی تھے کہ محراب نبیؐ میں امامت کرواتے ہوئے امیر المومنین پر ایک مجوسی ابولولوہ فیروز نے دو دھاری خنجر سے حملہ کرتے ہوئے شدید زخمی کردیا۔ ۱۳ مزید نمازی بھی زخمی کردیے جن میں سے سات شہید ہوگئے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے بعد میں قاتل کے بارے میں پوچھا کہ کون تھا؟ جواب سننے پر بے اختیار فرمایا: الحمدللہ کسی مسلمان نے اس جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔ شہادت کی دہلیز پر بیٹھے امیر المؤمنین کے یہ چند الفاظ مسلمانوں کے مابین قتل و غارت کی سنگینی واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہما دنیا سے رخصت ہوئے تو تینوں کی عمر۶۳ برس تھی۔

عاشورا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو ایک روز یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ آج ۱۰محرم الحرام ہے اور آج کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ اور اس کے ظلم سے نجات دی تھی۔ ہم اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اپنے بھائی موسٰی سے اظہار وفا و محبت کے لیے مَیں تم سے زیادہ حق دار ہوں۔ آپؐ نے بھی روزہ رکھا اور فرمایا کہ زندگی رہی تو یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لیے آیندہ سال اس کے ساتھ ایک اور دن ملا کر روزہ رکھوں گا (آئیے ہم بھی اپنے حبیب کی اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے عاشوراء کے دو روزے ضرور رکھیں)۔ سبحان اللہ آپؐ عبادات میں بھی قوم یہود کی مشابہت سے اتنے محتاط و خبردار تھے، لیکن آج ہم اُمتی گناہوں اور اللہ کی نافرمانی میں یہودیوں، ہندوؤں اور تمام باغیانِ رب العالمین کی پیروی کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔

شہادت جگر گوشۂ رسولؐ:یہ المیہ اور سانحہ بھی ہماری تاریخ کا بدنما داغ بننا تھا کہ شخصی اقتدار کی خاطر نواسۂ رسولؐ اور ان کے پورے خانوادے سمیت صحابہ کرامؓ کو شہید کردیا گیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت جب بھی یاد آئے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہر صاحب ِایمان اس پر غمگین ہوتے ہوئے سوچتا ہے کہ نواسۂ رسولؐ کو شہید کرنے والے اپنے نبیؐ کا سامنا کس منہ سے کر پائیں گے! ۱۰ محرم کو نانا اور نواسوں کے مابین شفقت ومحبت کے وہ تمام مناظر بھی نگاہوں میں تازہ ہوجاتے ہیں،جو تمام صحابہ کرامؓ کے لیے راحت ومسرت کا سبب بنا کرتے تھے۔ لیکن یہ بھی ایک دردناک حقیقت ہے کہ ہم تاریخ کے اس تلخ باب سے سبق حاصل کرنے اور مزید ہلاکت وتباہی سے بچنے کے بجاے انھی اختلافات کو مزید ہوا دیتے ہیں کہ جن کا نتیجہ اُمت نبیؐ کی مزید تقسیم اور مزید خوں ریزی ہی میں نکل سکتا ہے۔انتہائی بدقسمتی ہے کہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا پورا باب بھی لایعنی خرافات اور خود ساختہ قصہ گوئی کی نذر کر دیا گیا ہے۔

حضرت امام حسینؓ اور ان سے پہلے حضرت امام حسنؓ نے آخری لمحے تک مسلمانوں کے مابین فتنہ واختلاف ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ خط بھیج بھیج کر بلانے والے اہل کوفہ بھی جب بے وفائی کا عنوان بن گئے تو آپ نے مدینہ واپس لوٹ جانے سمیت ان کے سامنے وہ تمام ممکنہ صورتیں تجویز کردیں کہ جن کے نتیجے میں قتل وغارت سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن فتنہ جُو عناصر نے ان میں سے کوئی کوشش کامیاب نہ ہونے دی۔ ان کی اکلوتی شرط یہ تھی کہ نواسۂ رسولؐ اور دیگر صحابہ کرامؓ آمرانہ اقتدار کی بیعت کرلیں، امام ذی شان نے جسے یکسر مسترد کردیا۔ جامِ شہادت نوش کرلیا لیکن صفحۂ تاریخ پر یہ بھی ثبت کردیا کہ ؎

قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد

حصہ