پب جی کی بڑھتی وارداتیں اور سیما جاکھرانی کی عجب کہانی

439

اسرائیل کی جانب سے پاکستان کی سیاسی صورتِ حال یعنی تحریک انصاف کے ساتھ حکومتی رویّے پر تشویش کا اظہار سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی خوب چرچا کا باعث بنا۔ کیوں نہ بنے؟ عمران خان گزشتہ دو ہفتوں سے بین الاقوامی میڈیا کو جس طرح انٹرویوز دے رہے تھے، اس کے بعد پھر اُن سے آئی ایم ایف وفد کی ملاقات نے تو جیسے آسماں کا رنگ ہی بدل ڈالا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر پھٹنے والے لاوے سے ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان ملکی سیاست کی ایک ضرورت کے طور پر سامنے آگئے ہیں۔ یہ ضرورت کتنی اور کس حد تک ہے، یہ انتخابات تک سب کو معلوم ہوجائے گا۔ مگر آپ کچھ بھی کہیں، پیپلز پارٹی اپنے ہدف کے مطابق خاموشی سے کام کررہی ہے۔ اب جبکہ یہ بات سوشل میڈیا مباحث کی بدولت صاف طور پر واضح ہوچکی ہے کہ ملکی اقتدار کسی ووٹ وغیرہ سے نہیں بلکہ ”کسی“ طاقتور کی مرضی سے ملتا ہے تو پاکستان میں انتخابات کی سیاسی سیکوئنس یا نتائج کی ترتیب بھی خود اگلے جواب کا اشارہ دے دیتی ہے۔ سرسری طور پر بھی صرف نتائج دیکھیں تو عقدہ یوں صاف ہوتا ہے: 1988ء میں پی پی، 1990ء میں ن لیگ، 1993ء میں پی پی، 1997ء میں ن لیگ، 2008ء میں پی پی، 2013ء میں ن لیگ، 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت۔ تو اب 2023ء میں ترتیب کے مطابق پی پی کا نمبر ہے اور اس ترتیب کو ہی شاید ذہن میں رکھ کر آصف علی زرداری سے لے کر مراد علی شاہ تک سب بلاول کے حوالے سے سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔ ہاں، اِس ساری ترتیب کے درمیان اب صرف عمران کی ضد کھڑی ہوئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کب تک کھڑی رہے گی؟

سیاست سے قطع نظر سوشل میڈیا پر اِس ہفتے ہماری معاشرت کو روندتا ہوا سب سے اہم موضوع تھا ”گیم لو“ (game love)۔ بیرونِ شہر جانے والی دعا ظہیر والے کیس کی راکھ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی کہ بیرونِ ملک کے کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے۔ سیما جاکھرانی نامی شادی شدہ خاتون کا محض ایک موبائل نیٹ ورک وڈیو گیم ”پب جی“ کی بدولت ایک نامعلوم غیر مسلم شخص کی محبت میں کراچی سے بھارت چلے جانا… اکیلے نہیں بلکہ اپنے چاروں بچوں کے ساتھ.. انتہائی اہم واقعہ ہے۔ ہفتہ بھر پکتے ہوئے اس واقعے کا کئی جہتوں یعنی سوشل میڈیا رپورٹس اور انٹرویوز سے ایک نظر میں جائزہ لیتے ہیں۔ ہم دستیاب ظاہری معلومات کی روشنی میں قارئین کو تمام دائروں سے متوجہ کریں گے۔ سیما جاسوس ہو یا نہ ہو، مگر ہم مستقل جس چیز کی جانب قارئین کو توجہ دلا رہے ہیں وہ یہ حقیقت ہے کہ اپنی زندگی میں ہمیں مشینوں، اسکرینوں کے وجود اور ان کے ساتھ تعلق کو انتہائی حد تک کم کرنا ہوگا، کیونکہ کوئی مشین غیر اقداری یا value neutral نہیں ہوتی۔

بھارتی میڈیا و سوشل میڈیا پر عوام کو تو یہ ایشو خوب چٹخارے دے رہا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت میں تین ماہ سے مسلسل love jihad کو لے کرمباحث جاری ہیں۔ وہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہندوؤں کو لگتا ہے کہ مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر مسلمان کررہے ہیں۔ اس کو وہ “love jihad”کا عنوان دے رہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ 1000 سال میں استعماری دور سے قبل بلکہ استعماری دور میں ایسے ہی ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود یہ کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا، مگر اب اس صورت میں مسلسل سامنے آرہا ہے۔

کہنے کو تو سیما سندھ کے ضلع خیرپور میرس کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتی ہے، اس کا پہلا شوہر غلام حیدر جیکب آباد سے تعلق رکھتا ہے۔ شوہر کے مطابق یہ اُس کی پسند کی شادی تھی اور دونوں خاندانوں کی اجازت و پسند کے بغیر ایک حد تک خفیہ تھی۔ 2014ء میں شادی کے بعد وہ دونوں کراچی بھاگ کر آگئے تھے اور یہاں ملیر کینٹ دھانی بخش گوٹھ میں رہائش پذیر تھے۔ شادی کی جو دستاویزات رپورٹ ہوئی ہیں اُن کے مطابق سیما کی عمر شادی کے وقت 20 سال بنتی ہے، اس کے چاروں بچوں کی پیدائش کراچی کی ہے، جن میں سب سے بڑے بچے کی عمر 8 سال درج ہے۔ غلام حیدر 2019ء میں مزدوری کرنے سعودی عرب چلا گیا تھا۔ 2020ء میں دونوں کے بقول 15۔20دن پب جی گیم کی بدولت بھارت کے شہری ’’سچن مینا‘‘سے تعلق بنا اور نمبر لے لیے گئے۔ اِس کے سال بھر بعد سیما اور سچن نے ایک ہونے کا فیصلہ کیا۔ بچوں کی عمروں کے مطابق 2021ء میں سیما کی آخری بیٹی پیدا ہوئی تھی، جس کا کوئی سوال نہیں کیا گیا، مگر اس کا مطلب سمجھنا مشکل بات نہیں۔ اپنی تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ وہ مئی 2023ء میں بھارت بھاگی تھی۔ انہی چار بچوں کی حوالگی کا کیس ملیر کے متعلقہ تھانے میں اب درج ہوچکا ہے، مگر جمعہ کو اُس کے سسر امیر جان نے کیس واپس لینے کی درخواست دے دی ہے، جبکہ اُس کا شوہر جمعہ تک بھارتی ٹی وی چینلز پر سعودی عرب سے لائیو آکر اپنے بچوں کی حوالگی اور بیوی کی واپسی کا مطالبہ کررہا تھا۔ سیما صاف کہہ رہی ہے کہ مر جاؤں گی مگر پاکستان کسی صورت واپس نہیں جاؤں گی۔نیا شوہر کہہ رہا ہے کہ یہ کوئی ایجنٹ نہیں، سچی محبت کی مثال ہے۔سچن کے گھر والوں نے بھی 4بچوں کی ماں کوبچوں سمیت قبول کرلیا ہے۔

اِسی سے ملتا جلتا کیس کچھ ماہ قبل جنوری میں بھی ہوا۔ اُس میں گیم کا نام تھا’’لوڈو‘‘۔ سیما کے کیس میں ’’ پب جی‘‘ کی مشہوری ہوئی۔ جنوری والا یہ کیس حیدرآباد کی وجہ سے شاید زیادہ مشہور نہیں ہوا۔ اقرا جیوانی نامی 19سالہ غیر شادی شدہ لڑکی کو حیدرآباد کے لاکھوں اور پاکستان کے کروڑوں نوجوانوں میں سے کوئی پسند نہ آیا، اس لیے اُس نے محض ’’لوڈو‘‘ کے دوران اور اس کے بعد کی گئی گفتگو سے اپنے ’’لوڈو ماسٹر‘‘ملائم سنگھ کی محبت میں انڈیا جانے کا فیصلہ کرلیا۔ شکر ہے کہ بھارتی ویزے کا حصول 2023ء میں کوئی آسان نہیں، وگرنہ مسائل خاصے بڑھ جاتے۔ اُس کے ’’لوڈو ماسٹر‘‘ ملائم سنگھ نے اقرا کو مشورہ دیا کہ وہ نیپال آجائے، جہاں سے وہ اُس کو لے آئے گا۔ یوں وہ 19 ستمبر 2022ء کو کراچی سے کٹھمنڈو نیپال گئی، جہاں اس نے ملائم سنگھ سے شادی کرلی اور پھر وہاں سے دونوں نیپال، انڈیا بارڈر کراس کرکے بنگلور پہنچ گئے۔ اقرا نے خود کو ہندو لڑکی ظاہر کیا، مگر نامعلوم مخبری سے پکڑی گئی۔ جنوری 2023ء میں بنگلور پولیس نے اسے گرفتار کرلیا، اس سے پاکستانی پاسپورٹ برآمد کیا گیا۔ شروع میں تو لازماً وہ جاسوس کے طور پر ہی ڈیل ہوئی ہوگی، بہرحال معاملہ کھلا تو حیدرآباد سٹی اسٹیشن میں 86/22 ایف آئی آر مل گئی، چنانچہ اسے لاہور واہگہ بارڈر سے پاکستان بھیج دیا گیا۔ اب اس کا خبروں میں کوئی اتا پتا نہیں۔

اب چلتے ہیں سیما کے کیس کی طرف، جو بھارتی شہریت کے حصول اور شوہر کی خاطر دین بدلنے کا اعلان بھی کرچکی۔ ایسے اعلان کے بعد وہ ’مرتد‘ بن کر ہندوستان میں بھی بظاہر ایک مشکل زندگی جیے گی۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ٹوئٹر پر سندھ کے جاکھرانی قوم کے اسلحہ بردار ڈاکوؤں کے اعلان سامنے آئے ہیں کہ وہ پاکستان میں مقیم ہندو خواتین سے اس کا بدلہ لیں گے،فی الفور لڑکی اور اس کے بچے واپس کیے جائیں۔ان ڈاکوؤں کی وڈیوز کو ہندو بھی خوب شیئر کررہے ہیں الرٹ کرنے کے لیے۔اس طرح صورتِ حال دلچسپ ہوچکی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ سیما نے بھارتی ٹی وی پر غلام حیدر سے شادی کے عمل کو جبری قرار دیا۔ سیما نے طلاق تک کی بات ظاہر کی ہے، یہی نہیں بلکہ سیما نے چار بچوں کے باوجود شوہر کی عدم محبت، بیوی کی عزت نہ کرنے، ہر بات پر شک کرنے، گالم گلوچ، مار پیٹ کے علاوہ حیدر کی دیگر شادیوں، بیٹیوں کو بیچ دینے کا بھی حیدر کے منہ پر ٹی وی پروگرام میں الزام لگایا۔ سیما نے یہ تک کہا کہ میرے چاروں بچے حیدر کو ابو تک نہیں پکارتے۔ اس بات پر حیدر کوئی مناسب جواب نہ دے سکا۔ سیما نے اپنے والد کے انتقال اور اپنے بہن بھائیوں کی عدم دلچسپی سے پیدا ہونے والے ’’اکیلے پن‘‘ کو بھی وجہ قرار دیا۔

ان دونوں کیسز میں کئی اہم مگر سادہ سے سوالات ہیں۔ گاؤں سے بیاہ کر آئی ہوئی 29 سالہ سیما نے انتہائی فلمی انداز سے دو ملکوں کا یہ سفر چار ممالک گھوم کر طے کیا۔ بھارت میں اس کی گرفتاری پر یہ خبر عام ہوئی۔ گو کہ اس کی ضمانت ہوگئی اور اُن دونوں نے ایک اورشادی بھی کرلی۔ اس کیس پر بھارتی میڈیا جس طرح توجہ دے رہا ہے، اس میں تضادات کی وجہ سے چیزیں مزید مشکوک بن جاتی ہیں۔ سیما نے بھارتی پولیس کو بتایا کہ انڈیا کا ویزا نہ ملنے کی وجہ سے اُس نے نیپال کا ویزا لیا۔ وہ 10 مارچ کو شارجہ کے راستے کٹھمنڈو نیپال پہنچی۔ یہاں پہلی بار وہ اپنے بھارتی ’’پب جی اسٹار، سچن مینا‘‘ سے ملنے آئی اور وہاں ایک اور شادی کی۔ اِس کے بعد سیما حیدر واپس پاکستان چلی گئی۔ پھر2 ماہ بعد وہ دوبارہ سیاحتی ویزا لے کر بچوں کے ساتھ نیپال پہنچ گئی۔وہاں سے بچوں ہی کے ساتھ بارڈر پار کیااور نئی دہلی تک کا تقریباً 40 گھنٹے کا سفر بچوں کے ساتھ بس سے کیا۔یقین مانیں سفری تکلیف اپنی جگہ مگر یہ سب اخراجات معمولی نہیں ہیں، 5 مسافروں کے لیے سفر،کھانا پینا سب ملا کر اچھی خاصی رقم بنتی ہے۔6 لاکھ روپے تو سیما نے صرف ٹکٹ کے بتائے۔رشوتوں کا بھی شکوہ کیا۔ اور چار بچوں اورماں کے دو پاسپورٹ بھی یوں سستے میں نہیں بنتے،جب شوہر ملک میں ہی نہ ہو۔

ان اخراجات سے متعلق سیما نے یہ بات خود نیوز چینل پر بتائی کہ اُس نے اپنا گھر بیچ دیا۔ سیما نے کئی ٹی وی چینلز کو بتایا کہ سعودیہ میں اس کا شوہر کمانے گیا ہے مگر اُس نے شوہر کی بھیجی گئی رقم سے اپنی عقل سے پیسے بچاکر گھر خریدا۔ اس بات کی حیدر نے سختی سے تردید کی تو سیما نے کہا کہ تم باپ تھے، تمہاری ذمہ داری تھی گھر بناکر دینا۔ اِس دوران ’’پب جی اسٹار، سچن مینا‘‘ سے مستقل موبائل فون پر رابطہ، گھنٹوں گیم کھیلنا، بات کرنا، اتنی انگریزی سمجھنا سستا شوق نہیں ہے۔ یہی نہیں اِس دوران سعودی عرب میں مقیم شوہر کو ٹالتے رہنا بھی اہم کام تھا، جو بڑی ’’جفاکشی‘‘ سے انجام دیا گیا۔ چار بچوں کی پرورش کے ساتھ گھر چلانا، پھر اتنے پیسے بچانا کیسے ممکن ہوا؟ خصوصاً جب آپ کا ’’پب جی اسٹار‘‘ پرچون کی دکان پر ملازمت کرتا ہو، اور دکان پر گاہکوں کو وقت دینے کے بجائے گیم اور فون پر اتنا وقت دیتا ہو! یہی نہیں، بھارت کی اکثر ریاستوں میں ’’پب جی‘‘ پر پابندی ہے، یعنی اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا… اس صورت میں تو یہ کہانی مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ اِن سوالات نے سوشل میڈیا پر سیما کو بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کا ایجنٹ بھی کہلوا دیا، جبکہ بھارتی میڈیا نے اس کو ٹرینڈ آئی ایس آئی ایجنٹ قرار دیا، کیونکہ وہ مستقل بیان بدل رہی ہے۔ عجیب عجیب انٹرویوز… 9 سال کراچی میں رہنے والی اور 45 دن بھارت میں گزارنے والی خاتون کا موازنہ انتہائی عجیب تھا۔ ایک خاتون جو اپنے آپ کو اَن پڑھ کہے (5جماعت پاس بھی کہا گیا) اُس کا گفتگو میں بار بار انگریزی کے الفاظ کا انتہائی جامع اور بالکل لغوی انداز میں استعمال، ہر سامع کو پریشان کررہا تھا۔

بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں خاتون کےجملے نوٹ کریں: ’’بس Same ہی تھا، first time میں ایئرپورٹ جارہی تھی‘‘، ’’انہوں نے کہا کہ یہ Normal ہے جہاز اُڑے تو کان میں درد ہونا، بہت اچھی لڑکیاں تھیں جہاز میں، اُنہوں نے سمجھایا تو مجھے سب سمجھ آگیا، یہاں لکھا تھاconnected flight، دیش میں رہنا، جب میرے آئی ڈی کارڈ کا پوچھا تو میں نے کہا کہ کھو گیا ہے، ہمارے پاس 5 فون تھے ایک میرے husbandکا، میرا کارڈ originalتھا، ہم just friend تھے، بہت اچھی feeling ہوتی ہے جب کوئی دوسرے دیش کا بندہ آپ سے بات کرے۔ مجھے کسی نے کوئی pressurize نہیں کیا، ان کی محبت میں یہ دھرم میں نے سوئیکار کرلیا۔ عورت Notification بھیج سکتی ہے، میں یہاں سےdivorce بھیج سکتی ہوں“۔ اِن تھوڑے سے جملوں کو سن کر ان جملوں کے درمیان میں استعمال ہونے والی برجستہ انگریزی صاف بتا رہی ہے کہ سیما ایسی کوئی ان پڑھ قرار نہیں دی جا سکتی۔ دوسرا اہم ترین جملہ ’’18 سال سے بڑی لڑکی اپنی زندگی کا پھیصلہ خود لے سکتی ہے“۔ پھیصلہ، پھیصلہ، پھیصلہ۔ یہ ہر اُس شخص کے لیے انتہائی اہم بات ہوگی جو ہندی زبان جانتا ہے، جیسے عربی زبان میں ’پ‘ اور ’ٹ‘ نہیں ہوتے اسی طرح ہندی میں حرف ’ف‘ کا کوئی وجود نہیں۔ اب جو انسان چاہے جتنی بھارتی فلمیں دیکھ لے، کراچی میں پلے بڑھے گا، انگریزی سیکھ لے گا وہ کبھی بھی ’ف‘ بولنے میں نہیں کترائے گا۔ میں نے جیکب آباد سندھ کے مقامی افراد کو یہ وڈیو دکھا کر تجزیہ کرایا کہ کیا ایسی ان پڑھ سندھی خاتون صرف 45 دن بھارت میں گزارنے کے بعد اِس لب و لہجے کے ساتھ بات چیت کر سکتی ہے؟ سب نے یہی کہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ہندی یا انگریزی اتنی پکی کرلے جو اُس کے 29 سال پر غالب آجائے۔سیما کے شوہر غلام حیدر کی وڈیو، اس کا تلفظ اور کیفیت دیکھ لی جائے تو میری بات سمجھی جا سکتی ہے۔ ایک بھارتی ٹی وی نے تو یہ سوالات کیے کہ آپ پہلے مسلمان تھیں تو کوئی چھوٹی سی سورت، آیت، کلمہ یا نماز کی ثناء سنادیں۔ فجر کی نماز میں کتنی رکعتیں ہیں؟ پانچ نمازوں کے نام؟ حیرت انگیز طور پر سیما کوئی ایک جواب بھی نہ دے سکی، جبکہ اُس نے نماز پڑھنے سے متعلق بتایا کہ رمضان میں پڑھی تھی۔ یہی نہیں ہاٹ اسپاٹ کا استعمال، وی او آئی پی کا استعمال، تین ممالک (پاکستان، شارجہ، کٹھمنڈو نیپال ایئرپورٹ کراس کرنا)، اپنا موبائل (رینو 6 جس کی قیمت سوا لاکھ روپے ہے، اس کو) توڑنا، سم توڑنا جیسے سوالات کے جواب دینے کے بجائے اٹھ کر چلے جانا… دونوں طرف کے لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوال چھوڑ گیا۔ پھر لڑکی کے بھائی کا پاک فوج میں ہونا بھارتیوں کے لیے سونے کا ایک چمچہ بن گیا۔

بہرحال سیما ایک ایسا کیس ہے کہ حالات و واقعات کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے لیے جاسوس قرار دی جا سکتی ہے۔ ٹیلی وائزڈ رئیلٹی کا اصل میں حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بلکہ یہ حقیقت کو مستقل چھپانے اور کنفیوژ کرنے کا زبردست کام انجام دیتی ہے۔ سیما کہتی ہے کہ ”جب میں بھارتی جیل میں گئی تو وہاں مسلمان قیدیوں نے مجھے بہت طعنے دیئے مگر میں پھر بھی فیصلے پر قائم رہی“۔ بہرحال ابھی تک کے لیے اتنا ہی، لیکن کہانی میں ابھی بہت کچھ باقی ہے جسے ہم آئندہ بھی موضوع بنانے کی کوشش کریں گے۔

حصہ