چھٹیاں کار آمد مگرکیسے۔۔۔؟

301

موسم گرما کی ایک بڑی خوب صورتی چھ سے آٹھ ہفتوں کی وہ چھٹیاں ہیں جو سال کے وسط میں اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے طالب علموں کو شدتِ گرمی کے سبب دی جاتی ہیں اور جن کا انتظار کئی ہفتوں پہلے سے شروع ہوجاتا ہے۔ گھومنے پھرنے کے بہت سے پروگرام انھی چھٹیوں کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ کہیں خاندان میں شادی بیاہ کی پلاننگ میں ان چھٹیوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے، کہیں نانی دادی کے گھر ان چھٹیوں میں آباد ہونے کی تیاری میں ہوتے ہیں۔ گویا یہ چھٹیاں طالب علموں کے لیے موج مستی کا باعث ہوتی ہیں۔

یہ طویل چھٹیاں تر و تازہ کرنے کا کام بھی کرتی ہیں۔ ایک سے دو ماہ کے اس وقفے سے بچے تازہ دم ہوکر جب اپنی اپنی درس گاہوں میں واپس جاتے ہیں تو نئے عزم سے اپنے محاذوں پر پھر سے ڈٹ جاتے ہیں۔

یہ چھٹیاں جہاں طلبہ کے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہیں وہیں ان کی مائیں چھٹیاں شروع ہوتے ہی پریشان ہوجاتی ہیں اور بیشتر مائیں تو ساری چھٹیاں سر پکڑے بچوں کے پیچھے ہلکان گزار دیتی ہیں۔

دن چڑھے دیر تک چلنے والے ناشتے، بچوں کی دھما چوکڑیاں، کاموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ… یہ سب عوامل مل کر ایسی صورت حال پیدا کرتے ہیں کہ مائیں دعا کرتی ہیں کہ چھٹیاں ختم ہوں اور زندگی پھر سے ایک لگی بندھی روٹین پر چلنے لگے۔

یہاں ذیل میں چند مشورے دیے جارہے ہیں جو بچوں کی ان چھٹیوں کو بہت حد تک کارآمد بھی بنا سکتے ہیں اور ان کی ماؤں کی پریشانی بھی کسی حد تک دور کرسکتے ہیں۔

-1صبح کی سیر :
عام دنوں میں بچوں کے اسکول و کالج اور شوہر حضرات کے آفس جانے کی روٹین اتنی سخت ہوتی ہے کہ چاہنے کے باوجود بھی صبح سویرے سیر کو جانے کا وقت ہی نہیں نکل پاتا۔ ایسے میں ان چھٹیوں کو غنیمت جانتے ہوئے علی الصبح نماز کے بعد بچوں کے ساتھ سیر پر جانے کی روٹین بنائیے، قریبی پارک یا گراؤنڈ جایا جا سکتا ہے یا پھر کسی سڑک پر لمبی واک بھی کی جا سکتی ہے۔ صبح سویرے دکانیں اور بازار بند ہونے کی وجہ سے سڑکیں قدرے خالی ملتی ہیں اور صرف سیر کے شوقین لوگ ہی واک پر نکلتے ہیں۔ اپنے علاقے اور گرد و پیش کو جاننے کے لیے بھی یہ مناسب وقت ہوتا ہے، اور پھر صبح کی سیر سے بچے سارا دن تازہ دم بھی رہتے ہیں۔

-2 ناشتے اور کھانے کی ذمہ داری:
بچوں پر اُن کی عمر کے مطابق چھوٹی چھوٹی ذمے داریاں ڈالیے جیسے ناشتے کے لیے لسی، جوس یا چائے بنانا، اپنے لیے خود سے انڈا بنانا، لنچ اور ڈنر پر سلاد بنانا، دستر خوان سجانا، چائے پر اسنیکس اور سینڈوچ بنانا ، ہلکی پھلکی سویٹ ڈشز بنانا۔

ایسا نہیں ہے کہ گھر کے کام صرف لڑکیوں کو ہی سیکھنے چاہئیں، لڑکوں کو بھی اپنے چھوٹے چھوٹے کام خود سے کرنے چاہئیں مثلاً اپنے کپڑے استری کرنا، جوتے پالش کرنا، الماری صاف کرنا اور اس کے ساتھ باہر کے چھوٹے موٹے کام کرنا۔

-3 مطالعے کے لیے وقت مقرر کرنا:
ایک اچھی کتاب بجائے خود بہت اچھی دوست ہے۔ کتابوں کے ذریعے ہم دنیا جہاں کی سیر کرسکتے ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی کے بارے میں جان سکتے ہیں، اپنے اسلاف کے قصے کہانیاں پڑھ کر پرانے وقتوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ سو خود بھی کتاب، اخبار یا میگزین پڑھیے اور اپنے بچوں کو بھی وہ ماحول فراہم کیجیے۔ بہت سی مائیں موبائل پر مصروف رہتی ہیں اور بچوں کو ڈانٹتی ہیں کہ وہ پڑھتے نہیں۔ بچوں کو پڑھنے لکھنے والا ماحول فراہم کرنا پڑتا ہے، اگر انہیں کتب بینی کی عادت نہیں ہے تو آپ خود چھوٹی چھوٹی کہانیاں انہیں سنا کر ان کی رائے لے سکتی ہیں کہ انہیں کہانی کیسی لگی؟ حالاتِ حاضرہ سے انہیں آگاہ رکھیے، انہیں بتایئے کیا ٹھیک اور کیا غلط ہورہا ہے، انہیں سوچنے کی عادت ہمیں خود ڈالنی ہوگی۔ دن بھر میں ایک وقت مقرر کرلیجیے جب سب گھر والے صرف مطالعہ کریں۔

-4صلاحیت کے مطابق کورسز:
چھٹیوں کا یہ وقت بہترین ہے جب ہم اپنی صلاحیتوں کو باہر نکالیں۔ کچھ کورسز یا کلاسز لیں جن سے ہماری خوبیاں مزید نکھر جائیں۔ بیوٹی کورسز، کچن کورسز، سلائی کورسز، کمپیوٹر کورسز کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی دل چسپیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں آؤٹ ڈور گیمز جیسے کرکٹ، فٹ بال کھیلنے کے مواقع دینے چاہئیں تاکہ ان کی صحت اچھی رہے اور دماغ بہترین کام کرے۔ اس کے علاوہ ان کی عمر کے مطابق کمپیوٹر کورسز، وڈ کرافٹ، پیپر کرافٹ، پرانی چیزوں کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے جیسی سرگرمیاں بڑے اور بچے سبھی شوق و دل جمعی سے کرتے ہیں اور پھر دوسروں کو دکھا کر داد بھی وصول کرتے ہیں۔

الغرض موسم گرما کی یہ چھٹیاں خاندان کی مضبوطی، لطف اندوزی اور ہنرمندی کا باعث بن سکتی ہیں۔ بہت سے لوگ ان چھٹیوں میں سوائے نیند پوری کرنے کے کچھ بھی نہیں کر پاتے، اور جب ان کی یہ چھٹیاں بے کار گزر جاتی ہیں تو پھر افسوس کرتے نظر آتے ہیں۔ گزرا ہوا اچھا وقت ہماری یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے اور ہم اسے یاد کرکے بارہا خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں۔ کوشش کیجیے اس نادر موقع کو کارآمد بنائیں۔

حصہ