دعوت دین کے چار ناگزیر تقاضے

اُمت وسط ہونے کی حیثیت سے فریضہ اقامت دین اور شہادتِ حق اُمت مسلمہ کا بنیادی فریضہ ہے جو جماعت دعوتِ دین اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے اُٹھے‘ اسے کن ناگزیر صفات سے متصف ہونا چاہیے؟

صبر کا وسیع مفہوم
سب سے پہلی صفت جس پر زور دیا گیا ہے‘ صبر ہے۔ صبر کے بغیر خدا کی راہ میں کیا کسی راہ میں بھی مجاہدہ نہیں ہو سکتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خدا کی راہ میں اور قسم کا صبر مطلوب ہے اور دنیا کے لیے مجاہدہ کرتے ہوئے اور قسم کا صبر درکار ہے‘ مگر بہرحال صبر ہے ناگزیر۔ صبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ جلدبازی سے شدید اجتناب کیا جائے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے دشواریوں اور مخالفتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی جائے اور قدم پیچھے نہ ہٹایا جائے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ کوششوں کا کوئی نتیجہ اگر جلدی حاصل نہ ہو‘ تب بھی ہمت نہ ہاری جائے اور پیہم سعی جاری رکھی جائے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ مقصد کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرات‘ نقصانات اور خوف و طمع کے مواقع بھی اگر پیش آجائیں تو قدم کو لغزش نہ ہونے پائے۔ اور یہ بھی صبر ہی کا ایک شعبہ ہے کہ اشتعال انگیز جذبات کے سخت سے سخت مواقع پر بھی آدمی اپنے ذہن کا توازن نہ کھوئے‘ جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی قدم نہ اٹھائے‘ ہمیشہ سکون‘ صحت‘ عقل اور ٹھنڈی قوتِ فیصلہ کے ساتھ کام کرے۔

پھر حکم صرف صبر ہی کا نہیں مصابرت کا بھی ہے‘ یعنی مخالف طاقتیں اپنے باطل مقاصد کے لیے جس صبر کے ساتھ ڈٹ کر سعی کر رہی ہیں‘ اسی صبر کے ساتھ آپ بھی ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں۔ اسی لیے اصبروا کے ساتھ وصابروا کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے مقابلے میں آپ حق کی علم برداری کے لیے اٹھنے کا داعیہ رکھتے ہیں ان کے صبر کا اپنے صبر سے موازنہ کیجیے اور سوچیے کہ آپ کے صبر کا کیاتناسب ہے؟ شاید ہم ان کے مقابلے میں ۱۰ فی صدی کا دعویٰ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ باطل کے غلبے کے لیے جو صبر وہ دکھا رہے ہیں اس کا اندازہ کرنے کے لیے موجودہ جنگ [جنگ عظیم دوم] کے حالات پر نظر ڈالیے۔ کس طرح وقت آپڑنے پر ان لوگوں نے اپنے ان کارخانوں‘ شہروں اور ریلوے اسٹیشنوں کو اپنے ہاتھوں سے پھونک ڈالا جن کی تعمیر و تیاری میں سالوں کی محنتیں اور بے شمار روپیہ صرف کیا گیا تھا۔ یہ ان ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں جو فوجوں کو اپنے آہنی پہیوں تلے کچل ڈالتے ہیں۔ یہ دشمن کے ان بم بار طیاروں کے سائے میں استقامت سے کھڑے رہتے ہیں جو موت کے پر لگا کر اُڑتے ہیں۔ جب تک ان کے مقابلے میں ہمارا صبر ۱۰۵ فی صدی کے تناسب پر نہ پہنچ جائے ان سے کوئی ٹکر لینے کی جرأت نہیں کی جا سکتی۔ جب سروسامان کے لحاظ سے ہم ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو پھر سروسامان کی کمی کو صبر ہی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔

جذبۂ ایثار
دوسری چیز جو مجاہدہ کا لازمہ ہے ‘ ایثار کی صفت ہے۔ وقت کا ایثار‘ محنتوں کا ایثار اور مال کا ایثار۔ ایثار کے اعتبار سے بھی باطل کا جھنڈا اٹھانے والی طاقتوں کے مقابلے میں ہم بہت ہی پیچھے ہیں۔ حالانکہ بے سروسامانی کی تلافی کے لیے ہمیں ایثار میں بھی ان سے میلوں آگے ہونا چاہیے۔ مگر یہاں صورت واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص بیس‘ پچاس‘ سو اورہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے عوض اپنی پوری صلاحیتیں خود اپنے دشمن کے ہاتھ بیچ دیتا ہے اور اس طرح ہماری قوم کا کارآمد جوہر بیکار ہوجاتا ہے۔ یہ دماغی صلاحیتیں رکھنے والا طبقہ اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ ایک بڑی آمدنی کو چھوڑ کریہاں محض بقدر ضرورت قلیل معاوضے پر اپنی خدمات پیش کر دے۔ پھر فرمایئے کہ اگر یہ لوگ اتنا ایثار بھی نہ کریں گے اور اس راہ میں پتہ مار کر کام نہ کریں گے تو پھر اسلامی تحریک کیسے پھل پھول سکتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی تحریک محض والنٹیروں کے بَل پر نہیں چل سکتی۔

جماعتی نظم میں والنٹیروں کو اُسی درجے کی اہمیت حاصل ہے جیسی ایک آدمی کے نظامِ جسمانی میں ہاتھ اور پائوں کو ہے۔ یہ ہاتھ اور پائوں اور دوسرے اعضا کس کام کے ہوسکتے ہیں‘ اگر ان سے کام لینے کے لیے دھڑکنے والے دل اور سوچنے والے دماغ موجود نہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں والنٹیروں سے کام لینے کے لیے اعلیٰ درجے کے جنرل چاہییں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ جن کے پاس دل اور دماغ کی قوتیں ہیں وہ دنیوی ترقیوں کے دل دادہ ہیں اور مارکیٹ میں اسی کی طرف جاتے ہیں جوزیادہ قیمت پیش کرے۔ نصب العین سے ہماری قوم کے بہترین افراد کی وابستگی ابھی اس درجے کی نہیں ہے کہ وہ اس کی خاطر اپنے منافع کو بلکہ منافع کے امکانات تک کو قربان کرسکیں۔ اس ایثار کو لے کر اگر آپ یہ توقع کریں کہ وہ مفسدین عالم جو روزانہ کروڑوں روپیہ اور لاکھوں جانوں کا ایثار کر رہے ہیں‘ ہم سے کبھی شکست کھاسکتے ہیں تو یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔

دل کی لگن
مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے تیسری صفت دل کی لگن ہے۔ محض دماغی طور پر ہی کسی شخص کا اس تحریک کو سمجھ لینا اور اس پر صرف عقلاً مطمئن ہوجانا‘ یہ اس راہ میں اقدام کے لیے صرف ایک ابتدائی قدم ہے۔ لیکن اتنے سے تاثر سے کام چل نہیں سکتا۔ یہاں تو اس کی ضرورت ہے کہ دل میں ایک آگ بھڑک اُٹھے۔ زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی آگ تو شعلہ زن ہو جانی چاہیے جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر ہوجاتی ہے اور آپ کو کھینچ کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے‘ یا اتنی جتنی گھر میں غلہ نہ پاکر بھڑکتی ہے اور آدمی کو تگ و دو پر مجبور کر دیتی ہے اور چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ سینوں میں وہ جذبہ ہونا چاہیے جو ہر وقت آپ کو اپنے نصب العین کی دُھن میں لگائے رکھے‘ دل و دماغ کو یکسو کر دے اور توجہات کو اس کام پر ایسا مرکوز کردے کہ اگر ذاتی یا خانگی یا دوسرے غیرمتعلق معاملات کبھی آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچیں بھی تو آپ سخت ناگواری کے ساتھ ان کی طرف کھینچیں۔ کوشش کیجیے کہ اپنی ذات کے لیے آپ قوت اور وقت کا کم سے کم حصہ صرف کریں اور آپ کی زیادہ سے زیادہ جدوجہد اپنے مقصدحیات کے لیے ہو۔

جب تک یہ دل کی لگن نہ ہوگی اور آپ ہمہ تن اپنے آپ کو اس کام میں جھونک نہ دیں گے‘ محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ بنے گا۔ بیش تر لوگ دماغی طور پر ہمارا ساتھ دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں لیکن کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو دل کی لگن کے ساتھ تن من دھن سے اس کام میں شریک ہوں۔ میرے ایک قریبی رفیق نے جن سے میرے ذاتی اور جماعتی تعلقات بہت گہرے ہیں‘حال ہی میں دو برس کی رفاقت کے بعد مجھ سے یہ اعتراف کیا کہ اب تک میں محض دماغی اطمینان کی بنا پر شریکِ جماعت تھا مگر اب یہ چیز دل میں اُتر گئی ہے اور اس نے نہاں خانۂ روح پر قبضہ جما لیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اسی طرح اپنے اُوپر خود تنقید کر کے دیکھے کہ کیا ابھی تک وہ اس جماعت کا محض ایک دماغی رکن ہے یا اس کے دل میں مقصد کے عشق کی آگ مشتعل ہوچکی ہے۔ پھر اگر دل کی لگن اپنے اندر نہ محسوس ہو تو اسے پیدا کرنے کی فکر کی جائے۔ جہاں دل کی لگن ہوتی ہے وہاں کسی ٹھیلنے اور اُکسانے والے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس وقت کے ہوتے ہوئے یہ صورت حال کبھی پیدا نہیں ہو سکتی کہ اگر کہیں جماعت کا ایک رکن پیچھے ہٹ گیا یا نقل مقام پر مجبور ہوگیا تو وہاں کا سارا کام ہی چوپٹ ہوگیا۔ بخلاف اس کے پھر تو ہر شخص اس طرح کام کرے گا جس طرح وہ اپنے کو بیمار پاکر کیا کرتا ہے۔

خدانخواستہ اگر آپ کا بچہ بیمار ہو تو آپ اس کی زندگی و موت کے سوال کو بالکلیہ کسی دوسرے پر ہرگز نہیں چھوڑ سکتے۔ ممکن نہیں کہ آپ یہ عذر کر کے اس کے حال پر چھوڑ بیٹھیں کہ کوئی تیماردار نہیں‘ کوئی دوا لانے والا نہیں‘ کوئی ڈاکٹر کے پاس جانے والا نہیں۔ اگر کوئی نہ ہو تو آپ خود سب کچھ بنیں گے کیونکہ بچہ کسی دوسرے کا نہیں آپ کا اپنا ہے۔ سوتیلا باپ تو بچے کو مرنے کے لیے چھوڑ بھی سکتا ہے مگر حقیقی باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کیسے چھوڑ دے گا۔ اس کے تو دل میں آگ لگی ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کام سے بھی اگر آپ کا قلبی تعلق ہو تو اس کو آپ دوسروں پر نہیں چھوڑ سکتے اور نہ یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے کی نااہلی‘ یا غلط روی یا بے توجہی کو بہانہ بناکر آپ اسے مر جانے دیں اور اپنے دوسرے مشاغل میں جاکر منہمک ہوجائیں۔ یہ سب باتیں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ خدا کے دین اور اس کی اقامت و سربلندی کے مقصد سے آپ کا رشتہ محض ایک سوتیلا رشتہ ہے۔ حقیقی رشتہ ہو تو آپ میں سے ہر شخص اس راہ میں اپنی جان لڑا کر کام کرے۔ میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اگر آپ اس راہ میں کم از کم اتنے قلبی لگائو کے بغیر قدم بڑھائیں گے جتنا آپ اپنے بیوی بچوں سے رکھتے ہیں توا نجام پسپائی کے سوا کچھ نہ ہوگا اور یہ ایسی بری پسپائی ہوگی کہ مدتوں تک ہماری نسلیں اس تحریک کا نام لینے کی جرأت بھی نہ کرسکیں گی۔ بڑے بڑے اقدامات کا نام لینے سے پہلے اپنی قوتِ قلب کا اور اپنی اخلاقی طاقت کا جائزہ لیجیے اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے جس دل گردے کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر پیدا کیجیے۔

منظم اور پیہم سعی
چوتھی ضروری صفت اس راہ میں یہ ہے کہ ہمیں مسلسل اور پیہم سعی اور منضبط (systematic) طریقے سے کام کرنے کی عادت ہو۔ ایک مدت دراز سے ہماری قوم اس طریق کار کی عادی رہی ہے کہ جو کام ہو‘ کم سے کم وقت میں ہوجائے۔ جو قدم اٹھایا جائے‘ ہنگامہ آرائی اس میں ضرور ہو‘ چاہے مہینہ دو مہینہ میں سب کیا کرایا غارت ہوکے رہ جائے۔ اس عادت کو ہمیں بدلنا ہے۔ اس کی جگہ بتدریج اور بے ہنگامہ کام کرنے کی مشق ہونی چاہیے۔ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی‘ جو بجاے خود ضروری ہو‘ اگر آپ کے سپرد کر دیا جائے تو بغیر کسی نمایاں اور معجل نتیجہ کے اور بغیر کسی داد کے آپ اپنی پوری عمرصبر کے ساتھ اسی کام میں کھپا دیں۔ مجاہدہ فی سبیل اللہ میں ہر وقت میدان گرم ہی نہیں رہا کرتا ہے اور نہ ہر شخص اگلی ہی صفوں میں لڑسکتا ہے۔ ایک وقت کی میدان آرائی کے لیے بسااوقات پچیس پچیس سال تک لگاتار خاموش تیاری کرنی پڑتی ہے اور اگلی صفوں میں اگر ہزاروں آدمی لڑتے ہیں تو ان کے پیچھے لاکھوں آدمی جنگی ضروریات کے ان چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگے رہتے ہیں جو ظاہر بین نظر میں بہت حقیر ہوتے ہیں۔
(رُوداد جماعت اسلامی‘ دوم‘ ص ۳۲-۳۶)

حصہ