رضائے الہیٰ کا حصول

278

عیدالاضحی میں دنیا بھر کے مسلمان خدا کے حضور اپنے جانوروں کی قربانی کرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہیں۔ ایک بار صحابہ کرامؓ نے اس قربانی کے بارے میں نبی کریم ؐ سے پوچھا: ’’یہ قربانی کیا ہے؟‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘

حضرت ابراہیم ؑ کو پہلے آگ میں ڈال کرآزمایا گیا‘ پھر حضرت ابراہیمؑ کو ایک اور عظیم قربانی درپیش آتی ہے ، انہیں خواب آیا جس میں اللہ نے انہیں حکم دیاکہ اپنے لختِ جگر اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرو۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ سے کہا ’’اے میرے پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا میں تمہیں ذبح کررہا ہوں، تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟‘‘

اس پر حضرت اسماعیلؑ جو اپنے باپ کے انتہائی لائق فرزند تھے، کہتے ہیں کہ ’’ابا جان! آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اسے فوراً کرڈالیں، آپ اِن شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔‘‘

حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کو زمین پرلٹایا اور آنکھوں پر پٹی باندھ لی تاکہ بیٹے کی محبت اللہ کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ اور اپنے رب کے حکم پر بیٹے کو قربان کرنے کے لیے ان کی گردن پر چھری چلا دی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت و فرماں برداری کا یہ منظر دیکھ کر رحمتِ خداوندی کو جوش آیا اور ندا آئی ’’اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم وفادار بندوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں، یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔‘‘

اور پھر فرشتے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ایک مینڈھا پیش کیا تاکہ وہ اس کے گلے پر چھری پھیر کر رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے ایک مثال قائم کردیں جسے دنیا ’’سنتِ ابراہیمیؑ‘‘ کے نام سے جانتی ہے، اور دنیا بھر کے مسلمان ہر سال 10ذی الحجہ کو عیدالاضحی کے موقع پر جانور ذبح کرکے اس سنت کو دہراتے ہیں۔

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کی یہ بے مثال داستان ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ کی کامل اطاعت، مکمل سپردگی اور سچی وفاداری کا بہترین نمونہ پیش کیا، ہمیں بھی زندگی کے ہر موڑ پر اسی طرح اپنے رب العالمین کے ہر حکم پر سرِ تسلیم خم کردینا ہوگا۔

ترجمہ ’’میری قربانی، میرا مرنا اور میرا جینا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے (میں گواہی دیتا ہوں) اس کا کوئی شریک نہیں، اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں (سرتاپا) فرماں برداروں میں سے ہوں۔‘‘

گویا قربانی کی روح اور اس کا مقصد صرف اور صرف تقویٰ ہے اور ہم اللہ کی راہ میں ہر سال قربانی کرتے ہوئے قرآن کی اس آیت کو ضرور سامنے رکھیں (ترجمہ)’’اللہ کو نہ ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں، اور نہ ان کا خون۔ اسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (سورہ الحج آیت نمبر 37)

اگر ہمارے اندر قربانی کا مقصد اور اس کی روح نہ ہو اور خدا کی مکمل اطاعت اور سب کچھ اس کے حوالے کردینے کا عزم اور حوصلہ نہ ہو تو بے کار ہے اس دن جانوروں کا خون بہانا، گوشت کھانا اور اس کی تقسیم کرنا۔ اور یہاں قربانی سے مراد صرف جانور کی قربانی نہیں ہے بلکہ اس قربانی میں ہمارے نفس، جان و مال، مزاج، وقت اور صلاحیتوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ہم اپنا جائزہ لیں اور ہمیں اپنے اندر جو کمی لگے اسے دور کرنے کی کوشش کریں، اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم قرآن و حدیث کے ذریعے حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ کی زندگی کا مطالعہ کریں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔

اللہ ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر اپنی کامل اطاعت کرنے والا اور اپنی راہ میں عزیز سے عزیز شے قربان کرنے والا بنائے‘ آمین ثم آمین یارب العالمین!

حصہ