ننھے جا سوس۔ پُر اسرار عمارت

495

جب بچے تمام جائزہ لینے کے بعد واپس آئے تو انھوں نے کہا کہ اب وہ شام سے پہلے پہلے سامنے نظر آنے والی عمارت کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ عمارت بظاہر تو یہاں سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر تھی لیکن وہاں تک جانے کا راستہ ایک کلو میٹر سے بھی کہیں زیادہ طویل تھا کیونکہ بیچ میں ایک برساتی نالہ پڑتا تھا جس کی وجہ سے ہر گاڑی کو چکر کاٹ کر عمارت تک جانا پڑتا تھا البتہ پیدل جانے والے نالے سے گزر کر مختصر راستے سے عمارت تک جا سکتے تھے۔ عمارت کے قریب بھی کار پارکنگ اور بیٹھنے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ گاڑی پارک کردی گئی لیکن اس مرتبہ ان کے والدین نے بھی عمارت دیکھنے کا ارداہ باندھ لیا تھا۔ ابھی وہ گاڑی سے باہر بھی نہیں نکلے تھے کہ انھوں نے پولیس کی گاڑیوں کو آتے دیکھا۔ گاڑیوں پر دور سے نظر پڑتے ہی بے اختیار جمال اور کمال کے منہ سے نکلا ’’انکل انسپکٹر حیدر علی‘‘۔ پھر دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا یہ ادھر کہاں۔ اگر کوئی معاملہ پولیس کا ہے بھی تب بھی یہ علاقہ ان کے تھانے کی حدود میں تو نہیں آتا۔ پولیس کی گاڑیاں ان کی گاڑی کے قریب ہی آکر رکی تھیں۔ جیسے ہی انسپیکٹر حیدر علی کی نظر جمال، کمال اور ان کے والد پر پڑی، جمال اور کمال نے ایک لمحے کے لیے ان کی آنکھوں میں حیرت دیکھی، لیکن جس انداز میں انھوں نے ان سے نظریں چراکر دوسری جانب دیکھا، جمال اور کمال سمجھ گئے کہ وہ بالکل بھی یہ نہیں چاہتے کہ ان سے کسی قسم کی شناسائی ظاہر کی جائے۔ یہ بات سمجھتے ہی انھوں نے بہت سختی سے اپنے والد کے ہاتھ دبائے اور آنکھوں آنکھوں میں کہا “ریلکس بابا”۔ والد صاحب ان کا مقصد سمجھے یا نہیں لیکن لگا جیسے انھوں نے فوراً ہی اپنے آپ کو نارمل کر لیا ورنہ وہ انسپکٹر حیدر علی کی جانب بڑھنا ہی چاہ رہے تھے۔
حیدر علی اپنی ٹیم کے ساتھ عمارت کی جانب بڑھ گئے۔ جمال اور کمال نے سوچا کہ ابھی عمارت کی جانب جانا مناسب بھی ہے کہ نہیں۔ بہتر ہے کہ حیدر علی کی واپسی کا انتظار کیا جائے۔ زیادہ دیر اگر انھیں وہاں ہو گئی تو پھر کوئی اور راہ نکالی جائے گی۔ وہ اپنے والد اور والدہ کے ساتھ وہیں ٹھہر گئے۔ والد صاحب نے جمال سے پوچھا کہ انھوں نے ان کا ہاتھ کیوں دبا یا تھا تو جمال نے کہا کہ حیدر علی نے جو اشارہ کیا تھا اس کا مطلب ہی یہ تھا کہ ان سے شناسائی کا اظہار نہ کیا جائے۔ ممکن ہے کہ وہ عملے اور اس عملے میں شامل ایک انسپکٹر جن کا تعلق حیدر علی کے تھانے سے نہیں تھا، نہ چاہتے ہوں کہ ہم ان کی نظروں میں آئیں۔ کوئی آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد وہ سارے واپس آتے دکھائی دیئے۔ قریب آکر انھوں نے دو سپاہیوں کو ہدایت دی کہ وہ ان کی دوبارہ واپسی تک وہیں پہرہ دیں ساتھ ہی ساتھ دونوں کو آنکھوں آنکھوں میں کچھ سمجھایا اور اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔ جن سپاہیوں کو ٹھہرنے کی ہدایت کی تھی وہ دوبارہ عمارت کی جانب بڑھ گئے اور صدر دروازے کے باہر ڈیوٹی دینے کے سے انداز میں بتوں کی طرح جم کر کھڑے ہو گئے۔ جمال اور کمال نے کچھ دیر توقف کے بعد اپنے والدین سے کہا کہ چلیں ہم کوشش کرتے ہیں کہ عمارت کو اندر سے دیکھ سکیں۔ اگر ہمیں اجازت مل گئی تو ہم لازماً اندر سے اسے غور سے دیکھیں گے ورنہ اگلے دن کا انتظار کریں گے شاید اس وقت تک پہرہ ہٹا لیا جائے۔ چلتے چلتے جمال نے کمال سے کہا کہ حیدر علی کا پوری ٹیم کے ساتھ یہاں آنا اور عمارت کا اندر سے جائزہ لینا کسی صورت بے معنی تو نہیں ہو سکتا جبکہ حیدر علی نے دو پہرے داروں کو بھی نگرانی کے لیے روکا ہوا ہے۔ معاملہ کچھ اہم لگتا ہے لیکن جب تک ہم انکل حیدر علی سے نہیں ملیں گے اس وقت تک یہ بات ایک معما ہی رہے گی۔ وہ عمارت کے صدر دروازے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے پہرہ دینے والے سپاہیوں سے اندر جانے کی اجازت چاہی تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فوراً ہی مل گئی۔ ممکن ہے حیدر علی نے آنکھوں آنکھوں میں جو بات ان دونوں سے کہی تھی وہ شاید یہی تھی کہ ہمارے جانے کے بعد اگر ہم لوگ عمارت میں داخل ہونا چاہیں تو انھیں مت روکا جائے۔ اس بات کی مزید تصدیق اس وقت ہو گئی جب ہم نے دیکھا کہ ہماری واپسی پر کچھ اور وزیٹرز عمارت کو اندر سے دیکھنے کے لیے جانا چاہتے تھے لیکن سپاہیوں نے ان سے معذرت کر لی تھی اور انھیں اندر جانے سے روک دیا تھا لیکن اس وقت تک ہم سب واپسی کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے اس طرح ان وزیٹرز کو اس بات کا علم نہیں ہو سکا تھا کہ ہم اندر سے ہو کر آ چکے ہیں۔ جمال اور کمال عمارت میں داخل ہونے سے قبل راستے کے کئی مقامات کی تصویریں بھی اتارتے جا رہے تھے۔ جب وہ عمارت میں داخل ہوئے تو اصل رہائشی عمارت سے قبل ایک بہت وسیع باغیچہ بھی تھا جو اس وقت ایک جنگل کی شکل اختیار کئے ہوئے تھا۔ عمارت اندر سے دو صحن پر مشتمل تھی ایک صحن کے اختتام پر دو برآمدے آگے پیچھے بنے ہوئے تھے دونوں کے بیچ تین در تھے اور ان دونوں کے بعد دوسری جانب ایک صحن تھا۔ جب وہ دوسرے صحن میں داخل ہوئے تو صحن کے بیچوں بیچ انھیں ویسا ہی ایک بہت بڑا سنگِ مرمر کا پتھر نظر آیا جو ایک ہی پیس پر مشتمل تھا گو کہ پورا صحن ہی سنگِ مرمر کے پتھروں سے بنا ہوا تھا لیکن باقی سارے پتھر سنگِ مرمر کے چھوٹے چھوٹے ٹائلوں سے بنے ہوئے تھے۔ بیچ کے ایک اتنے بڑے پتھر نے جس پر بڑی سائز کی کوئی بھی گاڑی آ سکتی ہو فرش کی خوبصورتی میں بلا کا اضافہ کر دیا تھا۔ ویران ہونے کے باوجود بھی عمارت کے کسی مقام پر بھی دھول مٹی کے ذرا بھی آثار نہیں تھے جس کا مطلب تھا کہ یہاں کی انتظامیہ اس عمارت کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھتی تھی لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ انھیں اب تک قرب و جوار میں انتظامیہ کی جانب سے کوئی اہل کار دکھائی نہیں دیا تھا۔ نہ جانے کیا محسوس کرکے جمال اور کمال تیزی سے صحن کے بیچ میں لگے سنگِ مرمر کے اس پتھر کی جانب بڑھے اور اس کی سطح کو غور سے دیکھنے لگے۔ ان کے والدین نے ان کے چہروں پر کچھ حیرت کے آثار بھی دیکھے لیکن ان سے کچھ پوچھا نہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ اپنے خاص انداز میں چند تصاویر بھی اتار رہے ہیں لیکن ان کے چہرے کے تاثرات سے صاف پتا چل رہا تھا کہ انھیں ان تصاویر سے شاید ہی کچھ حاصل ہو کیونکہ ان کے پاس جو کیمرہ تھے وہ بہت خاص قسم کے تو نہیں تھے پھر بھی عام کیمروں کے مقابلے میں کسی حد تک غیر معمولی ضرور تھے۔ بہر حال وہ بہت احتیاط اور غور سے پتھر کا جائزہ لیتے رہے یہاں تک کہ وہ اپنے قدم تک اس احتیاط سے رکھ رہے تھے جیسے وہ کسی خاص جگہ پر اپنے پاؤں رکھنے سے اعتراض کر رہے ہوں۔ ان کی یہ ساری حرکات و سکنات شاید والد صاحب کے لیے بہت چونکا دینے والی نہ رہی ہوں کیونکہ وہ ان کی عادات سے واقف تھے لیکن ان کی والدہ یہ سب کچھ بہت ہی زیادہ حیرانی سے دیکھ رہی تھیں۔ (جاری ہے)

حصہ