ٹھنڈک

244

ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ شام ڈھلنے کو آئی تھی لیکن موسم کی حدت کم نہیں ہوئی تھی۔
صاحب اور بیگم صاحبہ بچوں کے ساتھ اندر ہوٹل میں تھے اور وہ دوسرے ڈرائیوروں کے ساتھ پارکنگ میں بیٹھا تھا۔
پانی کی بوتل جو وہ ساتھ لایا تھا‘ اس میں بہت تھوڑا پانی بچا تھا اور پیاس شدید تھی۔ دل چاہ رہا تھا ٹھنڈا ٹھار پانی یا شربت پینے کو مل جائے۔
موبائل کی گھنٹی بجی۔ صاحب اندر گیٹ پر بلا رہے تھے۔
’’چلو واپسی ہوگئی‘‘۔ اس نے اپنے آپ سے کہا اور گاڑی اندر لے گیا۔
بیگم صاحبہ اور بچے ہنستے، باتیں کرتے گاڑی میں بیٹھ گئے۔
برابر والی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے صاحب نے کولڈ ڈرنک کا ٹھنڈا کین اسے دیتے ہوئے کہا ’’یہ تمہارے لیے ہے۔‘‘
اس نے حیرت سے صاحب کو دیکھا اور کین تھام لیا۔
’’پی لو …گرمی بہت ہے۔‘‘ صاحب نے کہا۔
’’جی سر…! بہت شکریہ۔‘‘
حلق میں چبھتے کانٹے، ٹن کی ٹھنڈک کو اپنے اندر منتقل کرنے کے لیے مجبور کررہے تھے۔
ڈھکن کھول کر ہونٹوں سے لگانے کی بے تابی اسے ہی پتا تھی۔
صاحب کے گھر گاڑی کھڑی کرکے وہ ایک لمحے کو رکا۔ گھر کے دروازے پر بیٹے کی طلب گار آنکھیں اس کے سامنے آگئیں۔
اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور ٹھنڈے ٹن کو تھیلے میں ڈال کر گھر کی جانب چل دیا۔

حصہ