کراچی کا ایک تناظر

861

کراچی کی آبادی 3کروڑ بیان کی جاتی ہے‘ جو بلوچستان اور آزاد کشمیر کی مشترکہ آبادی سے زائد اور صوبہ خیبر پختون خوا سے کچھ ہی کم ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک کی آبادی سے زیادہ لوگوں کو سمو لینے کے باوجود یہ شہر اپنی حیثیت سے بہت کم توجہ پاتا ہے۔ ملک بھر کی اور خصوصاً سیاسی بساط کے بڑے کھلاڑیوں کی توجہ اسے اُس وقت ملتی ہے جب درجنوں کے حساب سے لاشیں گرنے لگیں۔ لاشوں کی سینچری کبھی ہفتے میں پوری ہوتی ہے اور کبھی اس سے کم دنوں میں۔ تب ملک کے حکمراں کراچی کو اس لائق سمجھتے ہیں کہ اسے گفتگو کا موضوع بنائیں یا کراچی یاترا فرمائیں۔ اپوزیشن کی لیڈرشپ ہو یا برسر اقتدار گروہ کے قائدین‘ ان کا کراچی آنا اس سے بھی کم ہوتا ہے جتنا دبئی اور لندن کے دورے کرلیتے ہیں۔ سیاست کے بڑے کھلاڑیوں کے سیاسی کینوس پر‘ عام حالات میں اور بھونچال کے بغیر‘ کراچی کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں‘ یا شاید وہ اسے بدستور کسی کو ’’ٹھیکے‘‘ پر دیے رہنے کے قائل ہیں۔

سندھ اور خصوصاً کراچی کے پیچیدہ‘ تہ در تہ اور ہمہ پہلو بحران کا جائزہ چند صفحات میں ممکن نہیں۔ ’’کراچی بحران‘‘ کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ کچھ امور نمایاں ہوکر سامنے آجاتے ہیں اور کچھ معاملات تہ میں ہی موجود‘ لیکن فعال رہتے ہیں۔ جس طرح آتش فشاں سے نکلنے والا مواد (دھواں‘ گیس‘ گرمی‘ دھماکے‘ پتھر‘ لاوا وغیرہ) تو سب کو دکھائی دیتا ہے‘ مگر آتش فشاں کے اندر کی صورتِ حال‘ آتش فشانی کے اسباب اور اس کی حرکیات پر عموماً نظر نہیں ہوتی۔ یہی معاملہ کراچی کا بھی ہے۔ اس کی آتش فشانی پر ہاہاکار مچ جاتی ہے۔ میدانِ سیاست کے کوہِ سکوت بھی زبان کھولنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کو بھی ایک سالم روز و شب کراچی آنے کے لیے قربان کرنا پڑ جاتا ہے۔ کالم نویس‘ تجزیہ نگار‘ اینکر پرسنز اور سیاست کار واویلا کرنے لگتے ہیں۔ تو آیئے‘ ہم بھی کراچی کا مسئلہ‘ اس کا صحیح تاریخی تناظر‘ یہاں کی سماجی و سیاسی حرکیات اور شہر کے مستقبل کے نقش و نگار کو معروضی انداز میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ کراچی کے ابلتے لاوے کے پس منظر‘ پیش منظر اور مستقبل کے ممکنہ نقشے پر یہاں چند معروضی اشارے کیے اور چند نکات دیے جا رہے ہیں۔ کراچی سے باہر اور دور رہنے والے قارئین ان کی مدد سے حالات کی سنگینی‘ گہرائی اور گیرائی کا اندازہ کرسکیں گے:

-1 جنوبی ایشیا کے تیسرے چوتھے درجے کے شہروں میں شامل رہنے والا کراچی‘ برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم الشان جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والے نئے ملک کا 1947ء میں دارالحکومت بنا تو تین لاکھ کی آبادی کا یہ شہر‘ ساری دنیا کی نظروں میں آگیا۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے آزاد ملک کا دارالحکومت ہونے کے سبب کراچی برصغیر جنوبی ایشیا ہی کا نہیں ساری مسلم دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے مسلم کش فسادات‘ کانگریس کی مسلم بے زار پالیسیوں اور مستقبل کے خدشات و خطرات کے علاوہ نئے ملک میں دستیاب امکانات کے پیش نظر بھی لاکھوں کی تعداد میں پاکستان ہجرت کی۔ تقریباً چھ ملین انسان بھارت سے نکل کر موجودہ پاکستان میں آبسے۔ مہاجرین کی نصف سے زائد تعداد پاکستانی پنجاب میں آباد ہوئی۔ ان میں سے بیشتر پنجابی بولنے والے تھے مگر اردو بولنے والے بھی خاصی بڑی تعداد میں پنجاب کے شہروں اور قصبوں میں جا بسے، جب کہ مہاجروں کی بقیہ تعداد سندھ میں آباد ہوئی اور ان میں سے بھی اکثر کراچی و حیدرآباد اور سندھ کے جنوبی شہروں میں۔ ان مہاجروں کی نوّے فیصد تعداد اردو‘ گجراتی‘ میمنی اور رانگڑی بولنے والی تھی۔ 1971ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان سے پہلے اور بعد‘ مزید چار‘ پانچ لاکھ ’’مہاجرین‘‘ سابق مشرقی پاکستان سے موجودہ پاکستان آنے پر مجبور ہوئے۔ ان کی پچانوے فیصد تعداد کراچی میں آباد ہوئی۔

-2 یوں تو سارے پاکستان نے ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے‘ مگر خصوصیت کے ساتھ صوبۂ سندھ کے پرانے باسیوں نے سندھی نہ بولنے والے مہاجروں کا کھلے بازوئوں سے خیرمقدم کیا۔ اگر باہر سے آنے والے ’’مہاجر‘‘ تھے تو سندھ کے پرانے باشندے اُن کے لیے ’’انصار‘‘ بن گئے تھے۔ یہی سبب تھا کہ یوپی‘ سی پی‘ بہار‘ حیدرآباد دکن اور دہلی وغیرہ سے اردو بولنے والے مہاجر آسانی کے ساتھ سکھر‘ خیرپور‘ نواب شاہ‘ میرپور خاص اور حیدرآباد میں آکر آباد ہوگئے۔ لاڑکانہ‘ شکارپور اور جیکب آباد جیسے اندرونی شہروں میں بھی انہیں آباد ہوجانے میں کوئی خاص دشواری پیش نہیںآئی۔ 1972ء کے لسانی فسادات سے قبل لاکھوں ’’مہاجر‘‘ اندرون سندھ کے شہروں اور قصبوں میں سکون و عافیت سے زندگی گزار رہے تھے۔ البتہ اس کے بعد ان کی بڑی تعداد کراچی اور حیدرآباد آگئی۔ اس کے باوجود اب بھی ہزارہا مہاجر گھرانے سندھی آبادیوں کے درمیان رہ بس رہے ہیں۔

سندھ کی سماجی و سیاسی فضا اوّلین دور میں اخوت اور اپنائیت پر مبنی تھی۔ بعد میں اس کی جگہ اگر مغائرت اور مخاصمت نے لے لی ہے تو اس کے لیے ’’سندھی قوم پرستوں‘‘ نے بڑی محنت کی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی ان کے دبائو میں رہتی ہے۔ البتہ محترمہ بے نظیر بھٹو ذاتی طور پر قوم پرستانہ طرزِ فکر کی مریضہ نہیں تھیں‘ مگر اُن کی پارٹی کے سندھ کے اہلکار اس کے جراثیم سے پاک نہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر پیپلزپارٹی نہ ہو تو سندھ میں انتہا پسند‘ پاکستان مخالف‘ اسلام بے زار بلکہ ہر ایک سے بے زار ’’قوم پرستوں‘‘ کو کوئی لگام دینے والا نہ ہوگا۔

-3 پاکستان میں نئے آباد ہونے والے مہاجروں میں سے جو لوگ سندھ میں آباد ہوئے (تین نسلیں گزار کر بھی) وہ مقامی آبادی میں ضم نہ ہوسکے۔ آزادی کے بعد سات عشرے گزار کر بھی ’’مہاجر‘‘ بوجوہ ’’مہاجر‘‘ ہی ہیں۔ وہ سندھی نہ بن سکے اور سندھ کے پرانے باشندے انہیں ’’سندھی‘‘ نہ سمجھ سکے۔ ’’مہاجروں‘‘ نے خود کو ’’پاکستانی‘‘ سمجھا، لیکن ملک میں ان کے سوا ’’پاکستانی‘‘ کہیں نہیں پائے جاتے۔ یہاں سندھی‘ پنجابی‘ پختون‘ بلوچ (اور اب ’’سرائیکی‘‘ اور ’’ہزارے وال وغیرہ) رہتے ہیں۔ ایسے میں ’’مہاجر‘‘ کیا کہلائیں گے؟ یہ بڑا تلخ سوال ہے‘ جس کا جواب کسی قوم پرست کے پاس نہیں۔ اگر سندھ کے قدیم باشندوں نے نئے باشندوں (مہاجرین) کو دل سے اپنا لیا ہوتا اور انہیں سندھ کا ویسا ہی سپوت مان لیتے جیسے عرب سیدوں‘ درانیوں‘ پٹھانوں اور اَن گنت بلوچ خاندانوں کو ’’سندھی‘‘ شمار کرچکے ہیں تو تین چار نسلوں کے بعد سندھ میں کوئی ’’مہاجر‘‘ نہ ہوتا، سبھی ’’سندھی‘‘ اور ’’پاکستانی‘‘ ہوتے۔ بہرحال ’’مہاجروں‘‘ کی آبادی سندھ کی مجموعی آبادی کے پینتیس‘ چالیس فیصد کے قریب ہے۔ اگر سندھ کے پنجابی آباد کاروں اور بعد میں آنے والے پختونوں اور سرائیکیوں کو ملا لیا جائے تو یہ تعداد سندھی و بلوچی آبادی کے تقریباً برابر ہوجاتی ہے۔ سندھی قوم پرست اس تناسب کا انکار کرتے ہیں‘ مگر وہ بھی اسے چالیس فیصد سے کم نہیں کہہ سکتے۔

-4 کراچی کی آبادی‘ ہندوستان سے آنے والے ’’مہاجروں کی سیاسی حمایت‘‘ (ایم کیو ایم سے قبل) کسی واحد سیاسی پارٹی کی جھولی میںکبھی نہیں گری۔ تاہم مسلم لیگ کے زوال کے بعد‘ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کو مہاجروں کی سب سے زیادہ حمایت حاصل تھی۔ یہ دونوں جماعتیں کراچی میں مہاجر چہرہ‘ مہاجر شناخت اور مہاجر سماجی کلچر کی حامل تھیں اور اب بھی ہیں۔ ان کے علاوہ مسلم لیگ‘ پیپلزپارٹی اور بعض دوسری سیاسی جماعتیں بھی چند فیصد مہاجر سپورٹ رکھتی تھیں۔ 1962ء کے دستور کے تحت 1965ء کے بالواسطہ صدارتی انتخابات ہوں یا 1970ء میں ہونے والے پہلے عام انتخابات، یا 1977ء کے دوسرے عام انتخابات‘ کراچی نے ملک بھر سے بالکل مختلف انتخابی نتائج دے کر اپنے منفرد اور مختلف ہونے کا برملا اور بار بار اظہارکیا۔ ایسا اس وجہ سے ہوا کہ یہ شہر جاگیردارانہ کلچر کی گرفت سے آزاد تھا، اور اس وجہ سے بھی کہ اس کی نظریاتی اساس قدرے گہری اور مضبوط تھی۔

-5 نئی مملکتِ پاکستان کو 1947ء میں جو اہلکار ملے، اُن میں سب سے بڑی تعداد بھارت کا حصہ بننے والے صوبوں کے مسلمانوں کی تھی‘ جو عرفِ عام میں ’’مہاجر‘‘ کہلاتے ہیں۔ ’’مہاجر‘‘ سرکاری افسروں اور ملازمین کی تعداد کا ایک نئے ریاستی سیٹ اَپ میں غیر معمولی اور غیر متناسب طور پر زیادہ ہونا بالکل فطری بات تھی۔ بعد میں ’’مہاجر‘‘ افسروں اور اہلکاروں کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی گئی‘ تو یہ بھی ایک فطری عمل تھا۔ لیکن جس طرح ابتدا میں ’’مہاجروں‘‘ کا اتنی بڑی تعداد میں ریاستی اداروں میں براجمان ہونا، دیگر علاقوں کے افسروں اور سیاست کاروں کو کَھلتا اور اُن میں ردعمل پیدا کرتا تھا‘ اُسی طرح بعد کے برسوں میں ’’مہاجر‘‘ افسروں کی گھٹتی تعداد ’’مہاجروں‘‘ کو ناگوار محسوس ہونے لگی۔ وہ ذہناً یہ قبول نہ کرسکے کہ نئے ملکی سیٹ اَپ میں پہلے جو ان کا تناسب غیر معمولی اور غیر متوازن طور پر زیادہ تھا‘ اسے کم ہونا ہی تھا اور ایسا ہونا فطری عمل تھا۔ ’’مہاجر‘‘ اشرافیہ اس بات کو بھی نظرانداز کر گئی کہ ان کے لوگ اعلیٰ تعلیم تک رسائی، شہری علاقوں سے تعلق اور تیزی سے ابھرتی کاروباری دنیا سے قربت کے نتیجے میں ہمیشہ سماج کی اوپری سیڑھیوں پر رہیں گے۔ یہ بات ان کی تسلی کے لیے کافی ہونی چاہیے تھی۔ دور اندیشی کا بھی یہی تقاضا تھا کہ وہ بے قراری اور ردعمل کی منفی نفسیات سے پرہیز کرتے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ ایسا نہ ہوسکنے میں ان کے اپنے طرزِ فکر و احساس کی خامی کے علاوہ دوسروں کی عجلت پسندی‘ ادنیٰ سیاست بازی اور منفی طرزِعمل نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ ابتدا میں کراچی ملک کا دارالحکومت بھی تھا اور سب سے زیادہ تجارتی‘ مالیاتی‘ صنعتی‘ معاشرتی اور سیاسی فعالیت کا مظہر بھی۔ چنانچہ یہاں کے یہ نئے باسی اپنی آبادی کے تناسب سے زیادہ حصہ لینے کے خواہش مند رہے، اور ایسا نہ ہو سکنے پر احساسِ محرومی میں مبتلا اور شکوہ کناں ہوگئے۔

یاد رہے کہ ملک کے دیگر لوگوں کے گائوں‘ گوٹھ‘ زمینیں‘ کھیت کھلیان‘ دیگر اثاثے اور دوسرے ذرائع آمدنی بھی تھے۔ جب کہ ’’مہاجروں‘‘ کے لیے نوکریوں اور تجارتی سرگرمیوں کے سوا کوئی اور معاشی ضمانت نہیں تھی۔ نہ ان کے پاس زمینیں تھیں اور نہ ہی آمدنی کے دیگر وسائل۔ نوکریوں میں پیچھے ہونے یا کیے جانے کا مطلب‘ اس پوری کمیونٹی نے اپنا معاشی استحصال سمجھا۔

-6 پہلے ملک گیر مارشل لا (1958-1962ء) میں جنرل محمد ایوب خان نے ملک کا دارالحکومت کراچی سے اٹھا کر اپنے گھر (ہری پور) کے قریب‘ پوٹھوہار کے شہر راولپنڈی سے متصل‘ کوہِ مرگلہ کے دامن میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کا منفی اثر اُس وقت کے مشرقی پاکستان کے علاوہ خود کراچی پر بھی پڑا۔ اہلِ کراچی نے عموماً اور اُن کی اشرافیہ نے خصوصاً یہ محسوس کیا کہ نئی مملکت کا اختیار و اقتدار ان کی گرفت سے اسی طرح نکلتا جارہا ہے جیسے مٹھی میں دبی ریت پھسلتی جاتی ہے۔ اس فیصلے سے ملکی دارالحکومت ہونے کا اعزاز کراچی نے کھو دیا۔ جب کہ اس سے تین چار سال قبل وہ ’’ون یونٹ صوبہ‘‘ مغربی پاکستان کا بھی دارالحکومت نہیں بن سکا تھا۔ یہ اعزاز لاہور کو حاصل ہوا تھا۔ یوں کراچی کی مرکزی حیثیت تحلیل ہوکر رہ گئی۔ نتیجتاً یہ ملکی سیاست‘ کاروبارِ سیاست اور ہیئتِ اجتماعیہ میں ایک کم تر درجے پر آگیا‘ تاآں کہ دوسرے مارشل لا دور میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے مارشل لا آرڈر کے تحت یکم جولائی 1969ء کو مغربی پاکستان کا ’’ون یونٹ صوبہ‘‘ ختم کردیا، اور یوں یہاں پہلی بار چار صوبے (پنجاب‘ سندھ‘ شمال مغربی سرحدی صوبہ اور بلوچستان کے نام سے) بنادیے گئے۔ یہ چاروں صوبے ون یونٹ بننے سے پہلے کی شکل و صورت میں نہیں‘ بلکہ نئے انداز اور نئی حد بندیوں کے ساتھ تشکیل پائے تھے۔ کراچی کو پہلے کی طرح وفاق کے ماتحت بھی نہیں رہنے دیا گیا۔ اس کے بجائے سندھ کی تحویل میں دے کر اسے صوبائی دارالحکومت بنا دیا گیا‘ جو سندھی قوم پرستوں کی ابتدائی رائے کے بھی برعکس تھا۔ وہ کراچی کے بجائے حیدرآباد کو صوبائی دارالحکومت دیکھنا چاہتے تھے۔ بلکہ ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ سائیں جی ایم سید اور اُن کے پیروکار ’’مہاجر کراچی‘‘ کو صوبہ سندھ میں شامل ہی نہیں کرنا چاہتے تھے‘ کیوں کہ اس سے سندھ میں لسانی اکائیوں کا تناسب بگڑ جاتا تھا۔

-7 ملک کی تقسیم (1971ء) کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آنے والے ’’سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘‘ اور بعد میں 1972ء کے عبوری آئین کے ہمہ مقتدر صدرِ پاکستان اور پھر 1973ء کے آئین کے تحت ہمہ مقتدر وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سندھ اسمبلی میں ’’صوبائی لسانی بل‘‘ پیش ہوا‘ جس کے نتیجے میں سندھ گیر لسانی فسادات ہوئے۔ سندھ کی آبادی‘ سندھی اور غیر سندھی گروہوں میں واضح طور پر تقسیم ہوگئی۔ واضح رہے کہ اُسی دور میں صوبہ بلوچستان اور اُس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ صوبہ خیبر پختون خوا) میں قائم جناب عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی (NAP) اور مفتی محمود صاحب کی جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومتوں نے اپنی صوبائی اسمبلیوں سے قراردادیں پاس کراکے اردو کو ’’صوبائی سرکاری زبان‘‘ بنا لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اسی طرح صوبہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی بھاری اکثریت والی اسمبلی نے بھی اردو کو ’’صوبائی سرکاری زبان‘‘ قرار دے دیا تھا۔ جب کہ سندھ میں پیپلزپارٹی ہی کی حکومت میں‘ وزیراعلیٰ سندھ کی ایما پر صوبائی اسمبلی میں جو ’’سندھ لسانی بل‘‘ پیش کیا گیا‘ اس میں (سندھی اور اردو‘ دونوں کے بجائے) صرف سندھی کو ’’صوبائی سرکاری زبان‘‘ بنانے کی کوشش کی گئی۔ ’’سندھ لسانی بل‘‘ کی لگائی ہوئی آگ بجھانے کے لیے صدرِ پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کو مداخلت کرنا پڑی۔ طویل مذاکرات ہوئے‘ جس کے نتیجے میں ایک متفقہ حل نکالا گیا۔ صوبہ سندھ ’’دو لسانی‘‘ صوبہ قرار دیا گیا یعنی سندھی اور اردو‘ دونوں بیک وقت ’’صوبائی سرکاری زبانیں‘‘ قرار پائیں۔ یہ بھی طے ہوا کہ سندھ کے گورنر اور وزیراعلیٰ میںسے ایک اگر دیہی سندھ سے ہوگا تودوسرا شہری سندھ سے۔ اس معاہدے سے یہ آگ وقتی طور پر بجھ تو گئی‘ مگر سندھ کے لسانی مسئلے کو غلط طریقے سے طے کرنے کے اس حکیمانہ اقدام نے صوبہ سندھ میں لسانی تعصب کی ایسی شجر کاری کی جس کے کڑوے کسیلے پھل آج بھی تمام اہلِ سندھ کو بدمزا کیے ہوئے ہیں۔

-8 جناب ذوالفقار علی بھٹو ہی کے دورِ حکومت میںکیا جانے والا ایک دوسرا ایسا ہی کام بھی سندھ کی لسانی تقسیم میں مسلسل اضافے کا سبب بنا۔ پہلے سے چلے آرہے ملک گیر ’’کوٹا سسٹم‘‘ کو غیر منصفانہ اور غیر متوازن شکل دے کر صوبہ سندھ میں نافذ کیا گیا۔ بظاہر اس کی غرض پسماندہ اضلاع کو سہارا دینا تھا۔ مگر اسے بہتر اور متوازن صورت دینی چاہیے تھی۔ نیز اگر یہ اتنا ہی اچھا نظام تھا تو ہر صوبے میں اسے اسی طرح نافذ کرنا چاہیے تھا‘ لیکن تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں مخصوص طرز کا ’’کوٹا سسٹم‘‘ صرف صوبہ سندھ کا مقدر ٹھیرا‘ جو شہری اور دیہی تقسیم کا ایک مستقل عنوان بن گیا۔ یہ نیا ’’کوٹا سسٹم‘‘ پسماندہ اضلاع کو اوپر اٹھانے کے بجائے خود بھی ایک نئی قسم کے استحصال کا ہتھکنڈا بن کر رہ گیا۔ یہ دراصل معاملات کو درست کرنے کی سعی نہیں‘ الٹ دینے کا عمل تھا۔ اس خاص انداز کے ’’کوٹا سسٹم‘‘ نے کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر کی شہری آبادی کو احساسِ عدم تحفظ میں مبتلا کردیا۔ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے خوف زدہ اور خود کو استحصال کا شکار سمجھنے پر مجبور ہوگئی۔ انیس سو ستّر اور اسّی کی دہائی میں صوبائی (اور خصوصاً طلبہ) سیاست کا مرکز و محور یہی ’’کوٹا سسٹم‘‘ بنتا رہا۔ یہ ایسا چھچھوندر تھا جو ملک گیر اور قومی سیاست کی خوگر سیاسی جماعتوں کے گلے میں بری طرح پھنسا دیا گیا تھا کہ وہ کھل کر نہ اس کی مخالفت کرسکتی تھیں اور نہ حمایت۔ اندرون سندھ اپنا کام متاثر ہوجانے کا خوف انہیں ’’کوٹا سسٹم‘‘ کی مخالفت سے روکتا تھا، اور اس کی حمایت وہ اس لیے نہیں کرسکتی تھیں کہ ایک طرف وہ اسے نافذ شدہ شکل میں غیر متوازن اور غیر منصفانہ سمجھتی تھیں تو دوسری طرف ان کے کام کی بنیاد ہی شہری آبادی تھی۔ گومگو کی یہ کیفیت قومی و نظریاتی سیاست کی خوگر جماعتوں کو سندھ میں تو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکی‘ البتہ شہری علاقے اُن کے ہاتھ سے نکلنے کا ایک اہم سبب ضرور بن گئی۔

-9 سندھ کی سیاسی زندگی کا ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اس کی سندھی اور بلوچی بولنے والی آبادی نے جناب ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پیپلزپارٹی کو اپنے لیے نجات دہندہ‘ مشکل کشا اور اپنی تمام محبت و عقیدت اور وفاداریوں کا محور بنا لیا ہے، جب کہ اس کے برعکس ’’مہاجرین‘‘ اور دوسرے ’’غیر سندھی‘‘ آبادکاروں کی نظر میں بھٹو صاحب ایک ولن (Villain) سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔ ان کے خیال میں بھٹو صاحب کے طرزِ سیاست نے مشرقی پاکستان کی اکثریتی آبادی کو برہم کرکے پاکستان سے علیحدگی کے راستے پر ڈال دیا تھا۔ یوں وہ ملک توڑنے کے جرم کا نمایاں کردار تھے۔ بلوچستان میں سب سے بڑا اور نفرت انگیز ملٹری آپریشن بھی بھٹو دور میں ہوا اور مسلسل جاری رہا‘ تاآں کہ جنرل ضیا الحق کا مارشل لا آگیا۔ سندھ کی شہری آبادی اسے بھی بھٹو صاحب کے جرم میں شمار کرتی ہے۔

یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دیگر صوبوں کے برعکس‘ سندھ میں پیپلزپارٹی ایک ’’سندھی قوم پرست جماعت‘‘ کا روپ دھار لیتی ہے‘ جس کی جیب میں ہر وقت ’’سندھ کارڈ‘‘ دھرا ہوا ہے اور حسبِ موقع و ضرورت وہ اس کی نمائش بھی کرتی رہتی ہے۔ گو کہ پیپلزپارٹی کی ’’سندھی قوم پرستی‘‘ قدرے ہلکی اور نرم (Mid & Soft) ہے۔ مگر پھر بھی اس کے ہاں ’’غیر سندھی‘‘ آبادی کے لیے نرم گوشہ یا مثبت ایجنڈا نظر نہیں آتا۔ اُس نے ’’غیر سندھیوں‘‘ اور خصوصاً ’’مہاجروں‘‘ کی دل جوئی اور ان کی نمائندہ بننے کے لیے مخلصانہ اور سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ یہ ایک سیاسی حقیقت ہے کہ اندرون سندھ کوئی سیاسی کامیابی بھٹو صاحب کا وظیفہ پڑھے بغیر ممکن ہی نہیں۔ جب کہ ’’غیر سندھی‘‘ آبادی میں یہ نام ناپسندیدہ اور لائقِ احتراز ہے ۔ 1977ء کے عام انتخابات میں بھٹو حکومت کی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف چلنے والی ملک گیر عوامی تحریک میں ’’غیر سندھیوں‘‘ کے جوش و خروش نے سندھ کی اس سماجی و سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کردیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اہلِ سندھ کی یہ ایسی دائمی تقسیم ہے جو تاحال ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

-10 جنرل ضیا الحق کے مارشل لا دور (1977ء تا 1985ء) کے دو اہم واقعات نے کراچی کی کایا کلپ میں عمل انگیز (Catalyst) کا کردار ادا کیا۔ فقہ جعفریہ کے پیروکاروں نے اسلامی حدود اور نظامِ زکوٰۃ کے نفاذ کی مخالفت کی اور تحریک چلائی۔ انہوں نے کراچی کے ایم اے جناح روڈ سے اسلام آباد کے مرکزی سیکرٹریٹ تک‘ بڑے بڑے دھرنے دیے اور قبضے کیے۔ یہاں تک کہ اُس وقت کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور نظامِ زکوٰۃ میں اہلِ تشیع کے مطالبے کے مطابق ترامیم کرنا پڑیں۔ اس تحریک اور ان دھرنوں میں ایک پڑوسی ملک کی فعال شمولیت نہ صرف موجود‘ بلکہ عیاں تھی۔ وہاں کی انقلابی لہریں پاکستان کی شیعہ آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھیں۔ ردعمل میں ملک بھر میں سپاہ صحابہ جیسی تنظیمیں کھڑی ہوگئیں یا کی گئیں اور کراچی میں سوادِ اعظم اہلِ سنت کا ظہور ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے ابتدائی عرصے میں شیعہ سنی تنازع اتنا بڑھا کہ کراچی میں فرقہ وارانہ فساد بھی ہوا۔ متعدد امام بارگارہیں نذرِ آتش ہوئیں۔ شیعہ مسلک کے حکمت کاروں نے شیعہ سنی تقسیم کے بجائے معاشرے کی کسی اور تقسیم (Polarization) میں اپنی سلامتی دیکھی اور وہ حالات کا رخ موڑنے کے لیے فعال ہوگئے۔ دو سال ہی گزرے تھے کہ کراچی لسانی فسادات کی آگ میں جلنے لگا۔ 1986ء میں ایم کیو ایم کے بنتے ہی شیعہ آبادی تقریباً صد فیصد اس کے ساتھ ہوگئی۔ ایم کیو ایم کے قائدین کے اوّلین اساتذۂ سیاست و خطابت بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ بعد کے برسوں میں مجالسِ اعزا اور ماتمی جلوسوں کے تحفظ کی ذمہ داری ایم کیو ایم نے اپنے ذمہ لی اور بڑی دل جمعی سے یہ فریضہ انجام دیتی رہی۔

دوسرا اہم واقعہ سندھ میں بحالیِ جمہوریت کی تحریک (جو ایم آر ڈی کے نام سے معروف ہے) کا پُرتشدد راستے پر چل پڑنا تھا۔ سندھ میں ریلوے لائنیں اکھاڑی گئیں‘ سرکاری املاک کو لوٹا گیا اور پاکستان کے روایتی حمایتی گروہوں اور جماعتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ واضح رہے کہ اُس وقت جنرل محمد ضیا الحق کا مارشل لا نافذ تھا اور پیپلزپارٹی‘ ایم آر ڈی کی تحریک کی روحِ رواں اور سرخیل تھی۔ اس پُرتشدد تحریک میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ (RAW) کے کُھرے بھی پائے گئے تھے۔

-11 ملک کی نادیدہ ہیئتِ مقتدرہ (Invisible Establishment) ان دونوں واقعات سے دہل کر رہ گئی۔ اس نے صورتِ حال کو بدلنے اور خوف ناک امکانات اور مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کچھ فرقہ وارانہ اور کچھ لسانی منصوبہ بندی کی۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر نئے چہرے اور نئے پلیٹ فارم سامنے آئے۔ اُن ہی میں سے ایک ’’سوادِ اعظم اہلِ سنت‘‘ کا پلیٹ فارم بھی تھا‘ جو مکمل طور پر دیوبندی مکتبِ فکر پر مشتمل تھا۔ 1985ء کے (غیر جماعتی) عام انتخابات میں اس نے کراچی بھر سے اپنے امیدوار کھڑے کیے یا کسی نہ کسی کی حمایت کی۔ تاہم کسی بھی حلقہ میں اس نے جماعت اسلامی کے امیدوار کی حمایت نہیںکی، بلکہ جماعت کے امیدواروں کو ہرانے کے لیے ہر ممکن کام کیا۔ اسی دوران ’’حق پرست‘‘ کے نام سے ایک پوسٹر شہر بھر میں لگا پایا گیا‘ جس میں جماعت کے مخالف امیدواروں کی نام بہ نام حمایت کا اعلان کیا گیا تھا۔

ایک دل چسپ مگر ریکارڈ کی بات ہے کہ 1985ء کے (غیر جماعتی) عام انتخابات میں گلبہار‘ ناظم آباد‘ نارتھ ناظم آباد وغیرہ کے حلقۂ انتخاب سے وہاں کے سابق ایم این اے جناب محمود اعظم فاروقی کو ہرانے کے لیے رضویہ سوسائٹی سمیت پوری شیعہ آبادی نے شاہ بلیغ الدین صاحب کو ووٹ دیا اور کامیاب کروایا‘ انہی شاہ بلیغ الدین کو جنہیں فقہ جعفریہ کے پیروکار ’’یزیدی‘‘ کہا کرتے تھے۔ ایک ’’یزیدی‘‘ کو ’’فاروقی‘‘ پر ترجیح دی گئی تو یہ بلاسبب نہیں تھا۔ بہرحال کچھ دیدہ اور کچھ نادیدہ دست کاریوں کا حاصل عملاً یہ ہوا کہ قومی اسمبلی کے لیے کراچی سے جماعت اسلامی کے صرف وہ دو امیدوار جیت سکے جن کی جیت کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ جماعت کے نامی گرامی اصحاب کو شکست ہوئی۔ اس الیکشن میں علامہ شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان نے حصہ نہیں لیا تھا، جس کے سبب وہ اسمبلیوں سے باہر رہی۔ البتہ اس کا ایک باغی گروہ سامنے آیا اور انتخابات میں شریک ہوا۔ اُس نے چند منتخب ارکانِ اسمبلی کو جمع کرکے اپنا ایک پارلیمانی دھڑا بھی بنا لیا اور مرکزی و صوبائی وزارتوں میں گراں قدر حصہ بھی وصول کیا۔ اس ’’غیر جماعتی‘‘ الیکشن کے نتیجے میں کراچی اور حیدرآباد سے نئے سیاسی چہرے کسی مضبوط عوامی بنیاد اور مستحکم سیاسی پلیٹ فارم کے بغیر اسمبلیوں میں آ بیٹھے۔ یہ لوگ نئی سول گورنمنٹ کا حصہ بھی بنے۔ جب کہ جماعت اسلامی اپوزیشن میں رہی۔ جنرل ضیا الحق کی مرکزی اور جسٹس (ریٹائرڈ) غوث علی شاہ کی صوبائی حکومتوں نے جماعت اسلامی کا اپوزیشن کا کردار پسند نہیںکیا۔ اس سے جان چھڑانے اور اسے سبق سکھانے کے لیے حکمتِ عملی بنی اور روبہ عمل لائی گئی۔ جماعت اسلامی کی ’’کربلائی اپوزیشن‘‘ سے تنگ ’’سول ملٹری کھچڑی‘‘ حکومت نے بعد کے برسوں میں کراچی کو جماعت اسلامی کے لیے واقعتاً کربلا بنا دیا۔

-12 ملک کی نادیدہ ہیئت ِ مقتدرہ نے سندھ میں کسی ’’سندھی قوم پرستانہ تحریک‘‘ کا مداوا کرنے کے لیے ’’مہاجروں‘‘ اور ’’پنجابی آبادکاروں‘‘ کی تنظیمیں کھڑی کرنے کی کوششیں کیں۔ 1980ء کی دہائی میں پنجابی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی فعالیت اور مہاجر قومی موومنٹ کا ظہور اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا۔ پی ایس اے تو پھل پھول نہ سکی مگر ایم کیو ایم نے خوب ترقی کی۔ کراچی اور حیدرآباد کے مربوط‘ منظم اور منصوبہ بند لسانی فسادات میں بہنے والا ہر قطرۂ خون اس کے لیے توانائی کا انجکشن بنتا رہا۔ جوں جوں ایم کیو ایم توانا ہوتی گئی‘ مہاجروں کی روایتی سیاسی جماعتیں‘ عوامی حمایت اور سیاسی اثر رسوخ سے محروم ہوتی گئیں۔ جے یو پی کے وابستگان تو (مسلکاً بریلوی رہتے ہوئے بھی) سیاسی طور پر تقریباً پورے کے پورے ایم کیو ایم کا حصہ بن گئے، جب کہ جماعت اسلامی اپنے فکری و نظریاتی کام کی وجہ سے اپنی تنظیم‘ کارکنوں اور متفقین کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی مگر عوامی حمایت برقرار نہ رکھ سکی۔

یہ بھی امرِ واقع ہے کہ جماعت اسلامی اس گہری‘ دوررس اور لہو رنگ تبدیلیِ حالات کا پورا اِدراک کرنے اور اس کے مطابق خود بھی دوررس اور طویل المیعاد حکمتِ عملی بنانے اور اقدام کرنے سے قاصر رہی۔ وہ ایم کیو ایم کی تحریک اور اس کی بے پناہ عوامی پذیرائی کو وقتی‘ جذباتی اور سطحی تبدیلی یا عارضی سیاسی جھکڑ سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تھی۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ جماعت نے ایم کیو ایم کے تمام ظلم و تشدد اور جبر و ستم کو صبر و ثبات سے جھیلا‘ اپنے کارکنوں کی لاشیں اٹھا کر بھی اسلحہ نہیں اٹھایا اور نہ میدانِ کار زار سے راہِ فرار اختیار کی۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ’’مہاجر نفسیات اور طرزِ فکر‘‘ (Psyche & Mind Set) میں آنے والی اس گہری تبدیلی اور دوررس سماجی انقلاب کو اس کی پوری شدت و وسعت اور گہرائی سے سمجھے بغیر‘ اس طوفانِ بلا خیز کا رُخ موڑنا اور اس کی تباہ کاریوں کا سدباب کرنا کسی کے لیے بھی امرِ محال ہے۔ (جاری ہے)

حصہ