مکہ کلاک ٹاور

اس وقت رات کے دس بجنے والے تھے، ہم دونوں پرائیویٹ کار میں جدہ سے ڈیڑھ گھنٹے پہلے روانہ ہوئے تھے۔ مکہ اب قریب ہی تھا۔ صبح جس سفر کا آغاز کیا تھا اس کی منزل بس آنے ہی والی تھی۔ دن بھر کے سفر کی تھکن کے باوجود نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ یوں بھی اس خوف سے آنکھیں بند کرنا نہیں چاہتی تھی کہ شہرِ مقدس میں داخل ہوتے ہوئے سوتی نہ رہ جائوں۔ جدہ سے آرام دہ یخ بستہ گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے دعائوں کی کتاب کھول لی تھی تاکہ وہ ساری دعائیں سکون سے پڑھ سکوں جو اس شہرِ مقدس میں داخل ہوتے وقت پڑھنا سنت ہیں۔ میرا ذوق ہر سال کی طرح تھا، بس نہیں چلتا تھا کہ اُڑ کر مکہ پہنچ کر بیت اللہ کی زیارت کر ڈالوں۔ بار بار ڈائیور سے گاڑی کی اسپیڈ بڑھانے کے لیے کہتی تھی، وہ مسکرا کر ’لامشکل‘‘ کہہ دیتا۔ اچانک میری نظر سامنے بلندی پر پڑی، دور سے مکہ کا کلاک ٹاور چمک رہا تھا جس کو روز فجر کی نماز میں مکہ کے ٹی وی چینل پر دیکھتی تھی۔ انتہائی روشن اور بلندی پر آویزاں۔ میرے منہ سے بے ساختہ سبحان اللہ، اللہ اکبر نکلا۔

میرا اندازہ تھا کہ ابھی مکہ تقریباً سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جوں جوں ہم مکہ کے قریب پہنچ رہے تھے، کلاک ٹاور نمایاں ہوتا جارہا تھا۔ کار کے ڈرائیور نے ہم دونوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ’’ساعۃ الکبیرہ‘‘، میں نے بے ساختہ کہا ’’اللہ اکبر‘‘۔ اس وقت کلاک کا رنگ ہرا تھا۔ گھڑی کے اوپر اللہ اکبر اور کلمہ طیبہ سبز رنگ کے بیک گراؤنڈ کے ساتھ نمایاں لکھے نظر آرہے تھے۔ میں نے کلمے کا ورد شروع کردیا، اور یہ کلمہ دل کی ہر دھڑکن کے ساتھ نکل رہا تھا۔ حرمین شریفین کا تقدس ہر مسلمان کے لیے جاں فزا ہے۔ سعودی حکومت اپنے توسیعی منصوبوں سے زائرین کو بے شمار سہولتیں اور آسانیاں فراہم کررہی ہے، یہ کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔ کورونا کے دوران زائرین کے لیے حج اور عمرے کو محدود کرنے کے باوجود اس میں سیکڑوں کلومیٹر کا اضافہ ہوا ہے۔ توسیعی منصوبوں کے اضافوں سے اب ہر روز لاکھوں زائرین عمرے کی سعادت سے مستفید ہورہے ہیں۔ میں اس کلاک کے فسوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ کار کے ڈرائیور نے گاڑی روک کر اترنے کا اشارہ کیا۔ میں جیسے اچانک ہوش میں آگئی۔ خدا کا شکر ہے اِس مرتبہ رہائش انتہائی قریب ملی۔ میں نے اپنے پرس سے ہوٹل کا وائوچر نکالا اور ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ ہمارا ہوٹل مکہ ٹاور کے پیچھے اور حرم کے انتہائی قریب تھا۔ کائونٹر پر وائوچر دکھاکر کمرے کی چابی لے کر لوڈر کے حوالے کی اور سامان کمرے میں پہنچا کر سب سے پہلا کام عمرے کی ادائیگی ٹھیرا۔ ہوٹل سے وضو کرکے نکلے، لبیک اللّٰھم لبیک زبان پر تھا۔ اچانک پھر کلاک ٹاور سامنے آگیا۔ ابراج الصفا کے برابر ابراج البیت کی بلندی پر یہ اپنی پوری شان و عظمت سے اسلامی دنیا کی برتری کی داستان سنا رہا ہے۔

ابراج الصفا سعی کے لیے صفا پہاڑی پر جاتے ہوئے اور سعی سے فارغ ہوکر مروہ سے باہر نکلتے ہوئے الٹے ہاتھ پر ہے جو گزشتہ پانچ سال سے زیر تعمیر تھا، مگر گزشتہ سال اس کو زائرین کے لیے رہائش گاہ کے طور پر کھول دیا گیا ہے۔ ابراج البیت اس سے ملحق تقریباً 55 منزلہ ہوٹل ہے جس کی بلند ترین سطح پر اس کلاک کو آویزاں کیا گیا ہے۔ ہم دونوں حرم میں باب عبدالعزیز سے داخل ہوئے۔ یہ ٹاور باب عبدالعزیز سے تقریباً 50 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ میرے قدم حرم کی طرف تھے، نظر ٹاور پر اٹھتی اور جھک جاتی تھی۔ حرم میں بے انتہا رش تھا۔ ہم لوگ ڈیڑھ گھنٹے میں عمرے سے فارغ ہوئے اور مروہ سے نکلے تو پھر نظر میں کلاک ٹاور سما گیا۔ یہ دنیا کا دوسرا بڑا کلاک ٹاور ہے۔

ابراج البیت کی بلندی تقریباً 4.2 میٹر ہے اور یہ کلاک ٹاور اس کی بلند ترین سطح پر لگایا گیا ہے۔ ہم دونوں شاہ کے محل کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے باب عبدالعزیز کی طرف آئے۔ اس باب سے یہ کلاک ٹاور بہت صاف اور نمایاں نظر آتا ہے۔ اسے جرمن کمپنی نے بنایا ہے اور اس کی لمبائی چوڑائی 43×45 میٹر ہے۔ اس کلاک کو چونکہ ٹاور کے چاروں جانب نصب کیا گیا ہے اس لیے ہر طرف سے نظر آتا ہے۔ اس وقت رات کے بارہ بج چکے تھے، اس کلاک کا ہرا ڈائل چمک رہا تھا۔ اس ڈائل میں سعودی عرب کا قومی نشان دو تلوار اور کھجور کا درخت بنا ہوا ہے۔ دنیا کی اس دوسری بڑی گھڑی کا وزن 27 ٹن ہے، اس کو چلانے والی موٹر کا وزن 21 ٹن ہے۔ اتنی چوڑی گھڑی میں سوئیاں بھی بہت بڑی استعمال ہوتی ہیں۔ بڑی سوئی جو منٹ کی نشان دہی کرتی ہے 22 میٹر لمبی ہے، اس کا وزن 9 ٹن ہے، اور چھوٹی سوئی جو گھنٹے کی نشاندہی کرتی ہے 18 میٹر لمبی ہے اور اس کا وزن ساڑھے سات ٹن ہے۔ یہ کلاک ٹاور اپنی بلندی، خوب صورتی اور شان و عظمت کی وجہ سے دنیا بھر سے آئے ہوئے زائرین کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اقرار دل اور زبان سے اور زیادہ ہوجاتا ہے۔ بلندی اور حجم میں یہ کلاک دنیا کے کئی بڑے کلاک پر سبقت لے گیا ہے، مثلاً لندن کے بگ بین سے تقریباً 6 گنا زیادہ بلند ہے۔ تین ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر شدہ اس کلاک کی عظمت و شان کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ اللہ کے گھر کے قریب ایک اسلامی ملک میں اللہ کی شان و کبریائی کی عکاسی کررہا ہے۔ اللہ اس شان کو ہمیشہ قائم رکھے۔