حج پر جانے والی بیٹی کے نام!

381

میری لختِ جگر! تم کتنے دنوں سے حج کے سفر کی تیاریوں میں مصروف ہو۔ بیگ کھلے رکھے ہیں، ہر دن اِن میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں جو لوگ حج کا فریضہ ادا کر کے آئے ہیں وہ بھی تمہیں مشورے دے رہے ہیں۔ اپنی مشکلات سے آگاہ کر رہے ہیں کہ زادِ سفر میں یہ چیزیں کبھی ساتھ ہوں گی تو تم ان پریشانیوں سے بچ جائو گی۔

حج کا ارادہ باندھنے سے قرعہ اندازی میں نام نکل آنے تک پھر کچھ اچھا نہیں لگتا، بس حج کی دھن سوار ہوجاتی ہے!!

تم کتنا خوش ہو۔ ہر ایک سے مشورے طلب کر رہی ہوں۔ بازار سے ؑضروری اشیا کی خریداری بھی کر رہی ہو جو حج کے سفر میں تمہارے کام آئیں۔

ایک مسلمان ساری زندگی جتنے سفر کرتا ہے ان میں سب سے مبارک سفر ہی حرم کا سفر ہے۔ اس سفر کے وقت جو جذبات ہوتے ہیں وہ دنیا میں کہیں بھی جاتے وقت نہیں ہوتے!!

اس میں کیا شک ہے کہ اس در پر بلائے جاتے ہیں۔ حاضری کا پروانہ ملے بغیر وہاں کوئی نہیں جاسکتا۔ وہاں پہنچنے والے ’’فیوض الرحمن‘‘ ہوتے ہیں۔ اللہ کے بہت خاص مہمان۔ جب ہم اپنے مہمانوں کے اکرام کا خیال رکھتے ہیں پھر وہ تو رب العالمین ہے، سارے جہانوں کا رب۔ تنہا پوری کائنات اور ہر مخلوق کی میزبانی کرنے والا۔ وہ چن کر بلاتا ہے۔ لوگ خالی جھولی جاتے ہیں اور جھولیاں بھر بھر کر واپس آتے ہیں۔ کہیں بھی جانے کے لیے تیاری تو کی جاتی ہے، زادِ سفر درکار ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے بھی حاجیوں کا زادِ سفر تیار کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ ’’بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے‘‘ (البقرہ)

یہ زادِ راہ کسی بازار سے نہیں خریدا جا سکتا۔ یہ ایک دن یا ایک مہینے میں تیار نہیں ہوسکتا۔ اپنے نفس کو اطاعت کا خوگر بنانا ایک مسلسل مشقت کا کام ہے۔ روزے کا مقصد بھی ’’لقلکم تتقون‘‘ بیان کیا گیا اور حج کے موقع پر بھی یہی یاددہانی کرائی گئی کہ جب تم حج کے لیے نکلو تو جو زادِ سفر تمہارے پاس ہو اُس میں سب سے قیمتی چیز تقویٰ ہے جس کا کسی ائرپورٹ پر وزن نہیں کیا جا سکتا، جو کسی ’’لگیج کائونٹر‘‘ سے نہیں گزرے گا۔ اس کی اسکیننگ مشین کسی ائرپورٹ پر نہیں۔ تمہارا ضمیر ہی اس کو اسکین کرسکتا ہے۔

مثال کے طور پر جب موبائل تمہارے ہاتھ میں ہوتا ہے تو سوائے اللہ کے اور کوئی تمہارے قریب نہیں ہوتا۔ کیا دیکھنا ہے، کتنا دیکھنا ہے، کہاں تک جانا ہے اور کہاں سے پلٹ آنا ہے؟ کس دیکھے ہوئے پر استغفار کرنا ہے؟ کس چیز کو آئندہ نہ دیکھنے کا عہد کرنا ہے۔ یہ زندہ ضمیر ہی وہ اسکینر ہے جس سے تمہارا تقویٰ بار بار گزرے گا۔

زادِ راہ میں کتنا تقویٰ شامل ہے؟ یہ جاننے کے لیے تم دیکھ سکتی ہو کہ تمہارا نمازوں میں کتنا دل لگ رہا ہے؟ کیا تمہارے قرآن سے رجوع میں اضافہ ہوا ہے؟ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے تمہیں اتنی لذت محسوس ہوتی ہے جتنی اپنی کسی عزیز دوست سے گفتگو کرتے وقت؟

زادِ سفر میں اور کسی چیز کی کمی کی تلافی تو ہو سکتی ہے، یہاں نہیں تو حرم کے قریب کسی بازار سے مل جائے گی مگر… تقویٰ دنیا کے کسی بازار میں دستیاب نہ ہوگا؟

ان شاء اللہ جب تم حرم کی سرزمین پر قدم رکھو گی تو اپنے نصیب پر رشک کرو گی۔ تم سے پہلے لاکھوں، کروڑوں مسلمان یہ خواب لیے لحد میں اتر چکے ہیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ نفوس جن کو حاضری کا بلاوا نصیب ہوا ہے۔

وہاں جاکر خود کو ’’بچانا‘‘ تقویٰ کی جانچ کا ایک پیمانہ ہے۔ تم دیکھو گی کہ لدے پھندے بازار خریداروں کو پکار رہے ہیں‘ سجی سنوری دکانیں کیسے دعوتِ نظارہ دیتی ہیں۔ دل کہے گا کہ خریدنا مت، ایک نظر دیکھ لینے میں کیا حرج ہے؟

پھر دکانوں کا مقناطیس اپنے ساتھ یوں چپکا لیتا ہے کہ کئی گھنٹے گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا۔ پھر دل کہتا ہے کہ آج تو تشنگی رہ گئی کل پھر آنا پڑے گا۔ پھر روز کے معمولات کا ایک حصہ ان بازاروں کی نذر ہو جاتا ہے۔ کتنے لوگوں نے بتایا ہوتا کہ وہاں یہ سستا ملتا ہے، یہ ضرور لے کر آنا۔ تمہاری ضرورتیں بھی بار بار چٹکیاں لیں گی، مگر یاد رکھنا کہ اللہ کے نبیؐ نے بازار کو ’’بری گزر گاہ‘‘ فرمایا ہے۔

جس دنیا کو تم چھوڑ کر گئی ہو اپنے پیچھے، وہاں بازاروں میں سب کچھ بھرا پڑا ہے۔ مگر یہاں سے تو نیکیاں خریدنا ہیں۔ یہاں کے شب و روز اسی ’’بیع‘‘ کے لیے ہیں۔ تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو مختلف ’’ذائقوں‘‘ کا ذکر کریں گے۔ فلاں کا برگر ‘ فلاں کا پیزا، فلاں کی آئس کریم اور فلاں فلاں چیز اگر وہاں جا کر نہیں کھائی تو سمجھو سفر کی لذت ہی مکمل نہ ہو سکی۔ چاہے ان فوڈ سینٹرز کے سامنے لمبی لائنوں میں کتنے ہی گھنٹے برباد ہو جائیں۔

یاد رکھنا بیٹی! وہاں جب سب سے زیادہ سنبھال کر رکھنے والی جو چیز ہے وہ تمہارا وقت ہے۔ دنیا کے بہت سے مقامات غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں کسی خاص پہچان کے باعث پہاڑ، دریا اور سمندر تو بہت سے ملکوں میں مل جائیں گے مگر ’’اللہ کا گھر‘‘ دنیا بھر میں بس ایک ہی مقام پر ہے۔ اسی گھر کی زیارت مقدس عبادت ہے۔ اس کو صرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ مسجدِ حرام کے مختلف مقامات کو اپنے سجدوں کا گواہ بنانا۔

وہاں سب کچھ مانگنا، بس مانگنا اور مانگتے چلے جانا۔ وہ مانگنے والوں کا ٹھکانا ہے۔ دنیا بھر کے لوگ وہاں مانگنے جاتے ہیں، ٹوٹے ہوئے دل لے کر جاتے ہیں۔ وہاں ہر درد کا درماں ہے۔

ہاں سنو! جب جب طواف کرو تو یاد کرنا کہ اس عظیم گھر کو بنانے والی دنیا کی عظیم ہستی کو اللہ نے ’’خلیل اللہ‘‘ کا پیارا لقب دیا ہے۔ دنیا میں کتنی اربوں، کھربوں تعمیرات ہیں مگر صرف ایک ہی تعمیر کو یہ مقام بخشا ہے کہ اسے ’’اپنا گھر‘‘ کہا گیا ہے، حقیقت میں اللہ کا گھر تو کائنات کا چپہ چپہ ہے، یہ تو اللہ کا اپنے دوست سے اظہار محبت تھا کہ ان کی بنائے ہوئے سادہ سی چار دیواری کو بیت اللہ یعنی ’’اپنا گھر‘‘ کہا اور حضرت ابراہیمؑ کی دعا یوں قبول ہوئی کہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے دلوں کو اس کا ’’مشتاق‘‘ بنا دیا۔

کیسا آباد رکھا ہوا ہے اپنے دوست کے بنائے ہوئے گھر کو۔ صدیاں بیت گئیں اسی طرح دن رات اس کا طواف ہوتا رہتا ہے زمین پر بھی اور آسمانوں پر بھی فرشتے اس کے گرد طواف میں رہتے ہیں۔

مقامِ ابراہیمؑ پر دو رکعت نفل نماز پڑھ کر طواف کا عمل جب مکمل کرو تو حضرت ابراہیمؑ کی محبت اور حضرت اسماعیلؑ کی اطاعت و فرماں برداری کو دل کی گہرائی سے محسوس کرنا۔ حضرت ابراہیمؑ کی سیرت کو تفصیل سے جاننا، دوستی کرنے کے لیے کسی کو جاننا پڑتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ اللہ کے دوست ہیں، اللہ کے دوست سے محبت اور دوستی کتنی سعادت کی بات ہے۔

طواف کے بعد صفا اور مروہ تمہاری راہ دیکھ رہے ہوں گے، وہاں حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی خوشبو بسی ہوئی ہے۔ اب تو وہاں ٹائلز لگے ہوئے فرش ہیں۔ ائر کنڈیشن کی ٹھنڈک ہے، سوچنا لمحہ بھر کو کہ مکے کی تپتی ہوئی پہاڑیوں پر جب پائنچے چڑھائے حضرت ہاجرہؑ دوڑتے دورٹے ہانپ جاتی تھیں تو بے بسی سے آسمان کی طرف دیکھتی تھیں۔ آسمان والے سے لو لگائی تھیں۔ اور تب، عرش پر کیسی سنی گئی ان کی فریاد۔

ان کا وہ دوڑنا کیسا محبوب ہوا رب کو کہ رہتی دنیا تک مسلمان مرد ایک عورت کے قدموں پر دوڑتے رہیں گے۔ کیا صفا اور مروہ کے بیچ یہ سعی اس لیے ہے کہ یہ ایک رسم ہے حج کی؟ یا اس سعی کا مقصد ہر مسلمان کو یہ یاد دہانی کرانا ہے کہ زندگی ’’سعی‘‘ اور جہد کا نام ہے۔ بظاہر تمہارے پاس وسائل نہ بھی ہوں، زندگی مشکلات و مصائب کا شکار ہو تب بھی پائنچے چڑھائے دوڑتے جانا ہے، بس دوڑتے رہنا ہے۔ مومن مایوس ہوتا ہے نہ کاہل، نہ ہی اسباب دنیا پر بھروسہ کرتا ہے۔ تمہارے پاس کچھ بھی نہ ہو تب بھی عرش والے کے پاس سب کچھ ہے۔ بس دوڑنا شرط ہے۔ پھر وہ دنیا کو دکھاتا ہے کہ ایڑیوں سے بھی چشمہ جاری ہو سکتا ہے۔ چھاگل بھر پانی کی طلب ہو مگر پانی کا چشمہ عطا کر دیا جاتا ہے۔ پھر پانی سنبھالتے دو نسوانی ہاتھ تھک کر کہتے ہیں ’’زم زم‘‘ یعنی ٹھہر جا ٹھہر جا۔

میری بیٹی! خوب جی بھر کر آبِ زم زم پینا اور جب زم زم سے زبان تر ہو تو حضرت ہاجرہؑ کی خوشبو محسوس کرنا۔ حضرت اسماعیلؑ کی ایڑیوں کو تصور میں لانا کہ آج تک امتِ مسلمہ کو میسر یہ مطہر آبِ شفا اُن کی ننھی ایڑیوں کی برکت کے طفیل ہے۔

حجرِ اسود کا بوسہ، رکن یمانی تک پہنچنا، غلافِ کعبہ کو چھونا، لاکھوں افراد کے جم غفیر میں یہ سب ممکن نہیں ہوتا۔ نہ اس کی حسرت دل میں رکھنا، کہ اس کے بغیر ارکانِ حج کی تکمیل کچھ متاثر ہوئی ہے۔ لوگ خوشی سے ذکر کرتے ہیں کہ دوران طواف اتنی بار غلاف کعبہ کو چھونے کی سعادت ملی یا حجرِ اسود کے قریب جا کر بوسہ دینے کا موقع ملا۔ مقامِ حطیم میں بار بار جانے اور نوافل کی توفیق ملی۔ ان میں سے کوئی بھی عمل بجائے خود مطلوب نہیں ہے۔

لاکھوں کے مجمع میں دھکم پیل کر کے لوگوں کو کچلتے چلے جانا کہ غلاف کعبہ تک پہنچ جائیں، ہلڑ بازی کے باعث زائرین گر جاتے ہیں، کچلے جاتے ہیں، سخت چوٹیں لگتی ہیں، صرف ہماری اس خواہش کے باعث کہ ہم فلاں مقام تک پہنچ جائیں، یاد رکھو اہم تر مقام یہ مسجدِ حرم ہے جہاں اللہ اپنی خاص رحمت سے آپ کو لے آیا ہے۔

ایک انسانی جان کو کعبہ سے محترم قرار دییے جانے کا یہی مطلب ہے کہ انسان سب سے قابلِ احترام ہے۔ انسانوں کو تکلیف پہنچا کر کوئی بھی عمل قابلِ قبول نہیں۔

زائرین وہاں کی انتظامیہ کے لیے وہ مشکلات پیدا کرتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ غلافِ کعبہ کو چھونے کا جذبہ جب جنون کی صورت اختیار کر جاتا ہے تو وہ دھکم پیل شروع ہو جاتی ہے جو اسلام کی باوقار تعلیمات سے جوڑ نہیں کھاتی۔ دھکے دے کر، افراتفری پیدا کر کے، اللہ کے قابلِ احترام مہمانوں کو کچل دینا محض اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے کہ فلاں مقام کا بوسہ دے لیں یا زیارت کرلیں‘ پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ کہیں یہ آپ کی باقی عبادات کا اجر بھی ضائع کرنے کا باعث نہ بن جائے۔ فلاں مقام کو بوسہ دینے یا نوافل کی ادائی کی آپ خواہش کیجیے، دعا کیجیے، اگر توفیق مل گئی تو اللہ کا شکر ادا کریں اور موقع نہ مل سکا تو اس تاسف کو خود پر سوار مت کریں۔ جو توفیق ملی اس کی قبولیت کی دعا کیجیے۔

ایک بات یہ بھی کہ جو توفیق اللہ نے آپ کو دی اس کا بار بار دیگر زائرین کے سامنے ذکر مت کیجیے کہ دوسرے دکھ میں مبتلا ہو جائیں۔

آپ کو کس جگہ کتنے نوافل کی توفیق ملی۔ کتنی بار طواف کے چکر مکمل کرنے کی آپ کو سعادت ملی، آپ نے کتنے عمرے کیے،روزے رکھنے کی توفیق ملی، ریاض الجنتہ (مدینہ الرسولؐ) میں حاضری کی توفیق ملی، فلاں جگہ یہ اور یہ عمل کیے۔ اس کا بار بار ہر ایک کے سامنے بیان مت کیجیے، جس کو یہ مواقع نہیں ملے وہ حسرت و یاس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، کسی کو حسرت و یاس میں مبتلا کرنا نیکی کا کام نہیں۔ دوسرے یہ کہ کیا عمل قبول ہوا اس کی کوئی سند ابھی نہیں ملی ہے۔

کسی زائرِ حرم کو دس بار حجرِ اسود چھونے کی سعادت ملی، کوئی طواف کے ہر چکر میں غلافِ کعبہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا جب کہ ایک دوسرا اللہ کا مہمان بوسے کے لیے کسی مقام تک نہ پہنچ سکا، دور سے بیٹھ کر بیت اللہ کو دیکھتا رہا، روتا رہا، اللہ سے گریہ و زاری کرتا رہا ممکن ہے اللہ کو اس کی یہ ادا زیادہ پسند آئی ہو۔

اسلام کی ایک تہذیب ہے اس تہذیب کا اظہار حج کے موقع پر بدرجہ اولیٰ ہونا چاہیے، کسی خاص مقام تک پہنچنے یا وہاں نوافل ادا کرنے کا سوشل میڈیا پر چرچا کرنا کوئی قبولیت کی دلیل نہیں۔ یہاں اصل مقام جس تک پہنچنے کی سعی کرنا حج کا یہ پورا عمل دعوت دیتا ہے وہ رضائے الٰہی کی طلب کا دل میں پیدا ہونا ہے، وہ ’’لبیک‘‘ کو اپنے شعور کا حصہ بنانے کی دعوت ہے۔ یہ تلبیہ صرف حج کے مخصوص ایام کی ورد نہ رہے بلکہ ایک مسلمان کی شعوری زندگی کا حصہ بن جائے۔ میں ہر وقت حاضر ہوں۔ ایک دیکھنے والا ہر وقت میری ہر ہر ادا کو دیکھ رہا ہے، میرا ہر عمل دنیا کی عظیم ہستی کی نظر میں ہے جو سمیع و بصیر و خبیر ہے۔

ایک اہم ترین بات یہ کہ جتنا ہو سکے موبائل فون سے خود کو دور کھیں، یہ موبائل اسکرین وقت کی سب سے بڑی قاتل ہے۔ خاندان والوں کو ’’لائیو‘‘ دکھانا کہ ہم اس وقت یہاں ہیں، یہ کر رہے ہیں، ہر وقت گھر والوں سے رابطے میں رہنا حج کی روح کے منافی ہے۔ گھر والوں سے رابطے بعد میں بھی ہو جائیں گے اس وقت ’’اس گھر‘‘ کے رب سے جڑنے کی فکر کریں جس نے آپ کو یہاں بلایا ہے۔

غلافِ کعبہ، رکنِ یمانی، حجرِ اسود، مقامً ابراہیمؑ، صفا اور مروہ کی تصاویر لاکھوں کے حساب سے یوٹیوب پر موجود ہیں، آپ وہاں تصاویر بنانے نہیں گئے ہیں کہ ایک پروفیشنل فوٹو گرافر کی طرح آپ کا ذہن ہر مقام پر تصاویر کا سوچتا رہتا ہے، آپ کہاں کہاں موجود ہیں یہ زمانے کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

لاکھوں، کروڑوں لوگ ان مقامات سے جو دُعا کے مقامات ہیں، گریہ و زاری کے مقامات ہیں وہاں اصل کام کرنے کے بجائے تصاویر اور ویڈیوز بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ اللہ یہ موقع آپ کو بار بار دے۔ اس موقع کو آخری موقع جانتے ہوئے اس کی قدر کیجیے۔ تصاویر بنانا اسلام کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں، یہ ضرورت کی حد تک بہتر ہے۔ اپنی تصاویر اور سیلفی کا شوق، پھر صرف اپنے خاندان تک نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو دکھانا یہ پسندیدہ عمل نہیں۔

وہاں صرف اور صرف وہ کام کریں جو آپ کی ’’حسنات‘‘ میں اضافے کا باعث بنے، اپنی تصویر بنانا کوئی حسنِ عمل نہیں ہے، اللہ کے گھر میں کسی ناپسندیدہ عمل سے بچیے۔ اپنے گھر والوں کو بھی ہدایت کر کے جائیں کہ بہت رابطوں اور ہر وقت کی تفصیلی معلومات لینے سے گریز کریں۔

صبح سے شام تک کیا کھایا اور کہاں کتنا وقت گزارا؟ یہ معلومات کئی اہل خانہ کو فرداً فرداً دینے میں آپ کو کتنا وقت لگتا ہے کیا اس وقت کا اس سے بہتر کوئی دوسرا استعمال ہوسکتا تھا؟ اس کا فیصلہ صرف اور صرف آپ خود کرسکتے ہیں۔

میری پیاری بیٹی! اللہ تمہیں اپنے شریک زندگی کے ساتھ یہ حج مبارک کرے، تمہاری سعی مشکور اور حج مبرور ہو، وہاں دسیوں بار تمہیں انتظامیہ سے یعنی ذمہ داری پر مامور شرطوں سے ایک لفظ سنے کو ملے گا وہ لفظ ’’حاجی‘‘ ہوگا۔ بدنظمی، بے ترتیبی، صفیں بنانے کی طرف توجہ دلانا، وہ لفظ ’’حاجی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، وہ صرف ’’حاجی‘‘ کہہ کر آپ کو مخاطب کرکے خاموش ہوجاتے ہیں کہ باقی کام آپ کا ہے، وہ لاکھوں کے مجمع کو نظم و ضبط سکھا رہے ہوتے ہیں۔ جب ان کا جھٹکے کے ساتھ کہا ہوا لفظ ’’حاجی‘‘ سماعت سے ٹکراتا تھا تو میں سوچتی تھی کہ اللہ کی گھر کی یہ زیارت یہ آپ کا ’’حاجی‘‘ کا لفظ بار بار سننا خود پوری زندگی سے تقاضا رکھتا ہے کہ اب آپ کا ہر عمل زیادہ خوفِ خدا کے ساتھ ہو کیوںکہ ’’اب آپ حاجی ہیں!!‘‘

حصہ