نیاز مندان کراچی کا منظر ایوبی کی یاد میں پروگرام

280

آرٹس کونسل کراچی کے تعاون سے ادبی تنظیم نیاز مندان کراچی نے پروفیسر منظر ایوبی کی یاد میں ایک پروگرام مرتب کیا گیا جس کے دو حصے تھے۔ پروگرام کی صدارت خواجہ رضی حیدر نے کی۔ گلنار آفرین مہمان خصوصی تھیں۔ تلاوت کلام مجید اور نعت رسولؐ کی سعادت محمد ابرار حسین نے حاصل کی۔ احمد سعید خان نے اس پہلے دور کی نظامت کے فرائض انجام دیے جس میں پروفیسر منظر ایوبی کے فن اور شخصیت پر گفتگو کی گئی بشیر احمد سدوزئی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے علم و ادب اور فنون لطیفہ کی دیگر شاخوں کی پروموشن کے لیے ڈسٹرکٹ سینٹرل میں آرٹس کونسل کی ایک شاخ قائم کی جہاں تواتر کے ساتھ تقریبات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ ہمارا یہ مقصد ہے کہ اردو ادب کی ترقی کے ساتھ ساتھ علاقائی زبان کی بھی ترویج و ترقی ہو۔ صاحبزادی ارباب منظر نے کہا کہ ان کے والد ایک سایہ دار شجر کی مانند تھے‘ انہوں نے ہمیں زندگی کی تمام سہولیات فراہم کیں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ ہماری پرورش کی۔ پروفیسر منظر ایوبی کے داماد محمد راشد نے کہا کہ ان خسر قادرالکلام شاعر تھے‘ وہ نثر اور نظم دونوں پر دسترس رکھتے تھے‘ وہ ایک چلتی پھرتی یونیورسٹی تھے ان کے بے شمار شاگرد ہیں۔ انہوں نے زندگی بھر علم و ادب کی خدمت کی۔ ریحانہ احسان نے کہا کہ پروفیسر منظر ایوبی باوقار شخصیت کے مالک تھے‘ وہ تعلیم کے شعبے سے منسلک تھے۔ وہ اندرون سندھ مختلف کالجوں میں پرنسپل رہے لیکن کورنگی کالج سے بہ طور پرنسپل ریٹائرڈ ہوئے وہ اپنے شاگردوں کے بہترین رہنما تھے۔پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ پروفیسر منظر ایوبی دبستان کراچی کی پہچان تھے‘ ان کی 9 کتابیں شائع ہوئی ہیں وہ ہمہ جہت شخصت تھے۔ وہ شاعر‘ ادیب‘ تنقید نگار اور ماہر تعلیم تھے۔ انہوں نے نعت نگاری بھی کی اور بچوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ پروفیسر منظر ایوبی نے نہایت بے خوفی سے اپنے تجربات لکھے اور زمانے کے مسائل بھی اجاگر کیے‘ ان کی غزلوں میں زندگی رواں دواں ہے ان کی نظمیں ان کی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے۔ ان کے انتقال کے بعد بھی ان کی تحریریں زندہ ہیں ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ خواجہ رضی حیدر نے کہا کہ پروفیسر منظر ایوبی پر سیمینار ہونا چاہیے کراچی کی ادبی تنظیمیں یہ کام کرسکتی ہیں ان کی شخصیت کے ہر پہلو پر سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے وہ زندگی بھر ادب کے لیے کام کرتے رہے ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی موجود ہے۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جس کی نظامت یاسر صدیقی نے کی مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظمین مشاعرہ کے علاوہ محسن اسرار‘ سلمان صدیقی‘ فیاض علی فیاض‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ نزہت عباسی‘ مقبول زیدی‘ ریحانہ احسان‘ علی اوسط جعفری‘ احمد سعید خان‘ سخاوت علی نادر‘ سلمان عزمی‘ شاہد اقبال‘ عتیق الرحمن‘ یوسف چشتی‘ نورالدین نور‘ شائق شہاب‘ کاوش کاظمی‘ صفدر علی انشا‘ آسی سلطانی‘ فخرالدین شاد‘ تنویر سخن‘ گل افشاں‘ کشور عروج‘ سرور چوہان‘ چاند علی‘ عفت مسعود‘ اعجاز خان‘ ذوالفقار حیدر پرواز اور ہما ساریہ نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ مسعود وصی نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔

ادبی تنظیم زینۂ پاکستان کا مشاعرہ
ادبی و ثقافتی تنظیم زینۂ پاکستان کے تحت زاہد حسین جوہری کی رہائش گاہ پر مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس کی اختر علیم سید نے صدارت کی۔ احمد امتیاز مہمان خصوصی اور صفدر صدیقی رضی مہمان اعزازی تھے۔ احمد سعید خان اور عتیق الرحمن عتیق نے نظام کے فرائض انجام دیے۔ محمد علی عمر نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ زاہد علی جوہری نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ادبی و ثقافتی تنظیم زینۂ پاکستانی کا قیام گجرانوالہ میں 1954ء کو عمل میں آیا اس کی ایک شاخ حیدرآباد اور ایک کراچی میں قائم کی گئی۔ ہم آج اس ادارے کے مشاعرے میں شریک ہیں۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظمین مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا و شاعرات نے کلام پیش کیا ان میں ساجد رضوی‘ اختر سعیدی‘ ریحانہ روحی‘ سلمان صدیقی‘ فیاض علی فیاض‘ زاہد حسین جوہری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ فیروز برہان پوری‘ حیدر حسنین جلیسی‘ مقبول زیدی‘ نسیم شیخ‘ تنویر سخن‘ یاسر سعید صدیقی‘ شائق شہاب‘ فخراللہ شاد‘ سرور چوہان‘ نشاط زیدی‘ چاند علی‘ رئیس عنصر زیدی‘ تاجور شکیل اور ہما ساریہ شامل تھیں۔ ساجد رضوی نے کہا کہ وہ زینۂ پاکستان کی ترویج و اشاعت میں اپنا حصہ شامل کر رہے ہیں ہم اردو زبان کے خدمت گزار ہیں اور اردو مشاعرے ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔ اختر علیم سید نے کہا کہ دبستان کراچی میں ہر روز مشاعرے ہو رہے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی والے صاحبِ ذوق ہیں اور شاعری کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ پاکستان سے باہر آباد ہیں لیکن ان کا دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ امریکا اور کینیڈا میں اردو بولنے والوںکی بڑی تعداد آباد ہے وہاں پر اردو مشاعرے ہوتے ہیں جن میں سامعین بھی ہوتے ہیں جب کہ کراچی میں سامعین کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس طرف توجہ دینی ہوگی اور کتب بینی کو بھی فروغ دینا ہوگا آج کے مشاعرے میں ہر شاعر نے اپنا منتخب کلام پیش کیا اور خوب داد و تحسین حاصل کی۔

حصہ