حجاج کرام اور عمرہ زائرین کی چند مشکلات

وہ خوش نصیب لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے حج اور عمرہ کے لیے بلاتے ہیں‘ انہیں اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہیے۔ حکومتِ سعودی عرب اور برسوں سے موجود شاہی خاندان کی حرمین شریفین کے لیے خدمات ہر لحاظ سے قابل تحسین ہیں‘ عمدہ تعمیرات‘ شدید گرمی میں یخ بستہ ہوائوں کے لیے اے سی کا قابل داد انتظام‘ مطاف اور صفا و مروہ کی سعی کے دوران صفائی‘ پینے کے لیے زم زم کا اہتمام‘ مختلف نسلوں‘ قوموں اور جذبات و احساسات کے حامل لاکھوں افراد کی زیارات کا بندوبست خصوصاً حج اور رمضان کے مواقع پر لاکھوں زائرین کو سکون سے عبادات کا موقع فراہم کرنا بلاشبہ حکومت کے شاندار انتظامات کی نشاندہی کرتا ہے اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ محض ربِ کائنات کی رحمت اور نظر کرم ہے کہ مختلف قوموں کے مختلف جبات رکھنے والے لاکھوں افراد حج اور عمرہ کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں اور باہمی محبت و احترام سے یہ دن گزرتے ہیں‘ کسی گھر میں چند مہمان آجائیںتو میزبان کو چند گھنٹوں کے لیے میزبانی کے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے اور ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ یہ سعودی حکمرانوں کا حُسنِ انتظام ہے کہ سارا سال دن اور رات لاکھوں افراد کے آنے جانے کے انتظامات کے ساتھ ساتھ ان کے ٹھہرانے‘ ان کے کھانے پینے اور دیگر معاملات بھی بطریق احسن انجام پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس سلسلے کو جاری و ساری رکھنے کی توفیق اور حوصلہ دیں۔

تاہم بعض امور ایسے ہیں جن کی طرف جب بھی سعودی انتظامیہ کی توجہ دلائی گئی ہے انہوں نے اپنی حد تک اس کی اصلاح کے اقدامات کیے ہیں اسی سے حوصلہ پا کر چند امور کی طرف اصلاح کی غرض سے توجہ دلانا مقصود ہے۔

وہیل چیئر کے مسافر اور جدہ ائرپورٹ پر اُن سے سلوک:
پوری دنیا میں کمزور‘ ناتواں اور نہ چل سکنے والے مسافروں کے لیے جہاز میں وہیل چیئر کا اہتمام ہوتا ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ بینکاک اور جہاں راستہ میں جہاز رکتا (ٹرانزٹ) ہے ان مسافروںکو پوری توجہ دی جاتی ہے۔ وہیل چیئر کے لیے الگ سو ریال دینے کے باوجود جدہ میں یہ مسافر بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ زبان پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے ملازم مسافر کی بات نہیں سمجھ پاتے اور مسافر ان کا مدعا نہیں جان پاتا۔

پیدل چلنے والے لوگ جلدی سے امیگریشن کے مراحل سے گزر جاتے ہیں جب کہ یہ معذور مسافر اور ان کے ساتھ اُن کے لواحقین بے یارومددگار نظر آتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں مسافروں کو لے جانے کے لیے پہلے مسافروں کو جمع اور اکٹھا کرنے میں خاصا وقت ضائع ہوجاتا ہے‘ پھر بس میں بیٹھا کر وہیل چیئر چلانے والے اہل کاروں کا انتظار کرنا پڑتا ہے‘ وقت کے ضیاع کے علاوہ ذہنی کوفت بہت زیادہ ہوتی ہے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر مسافروں کی سہولت کا اہتمام وقت کی ضرورت ہے۔ وہیل چیئر کے لیے علیحدہ سو ریال دینے کے باوجود جب سہولت نہیں ملتی تو تکلیف ہوتی ہے۔توقع ہے کہ ائرپورٹ انتظامیہ اس شکایت کو دور کرے گی۔

اشیائے خورونوش پر سخت چیک اَپ کی ضرورت:
بلاشبہ لاکھوں افراد کے کھانے کی نگرانی بڑی مشکل ہے‘ تاہم لوگ منہ مانگی قیمت ہوٹل والوں کو ادا کرنے کے باوجود ایسے کھانے حاصل کرنے پر مجبور ہیں جو بیماریوں کا سبب ہیں۔ پہلے حکومت وقت مقامی بلدیاتی اداروں کے ذریعے کھانے کے معیار اور مقدار پر کڑی نگرانی کرتی تھی۔ اب کھانے کے معیار پر کوئی چیک اپ نہیں خصوصاً پاکستانی ہوٹل مالکان مجبور مسافروں کی کھال ادھیڑنے اور من مرضی کرتے نظر آتے ہیں۔ گرم روٹیاں اور پراٹھے پلاسٹک کے ڈبوں میں ڈھیر لگا دیے جاتے ہیں جو انتہائی غلط‘ گندے اور کوڑے پر پھینکنے کے قابل ہوتے ہیں۔ پلاسٹک کے غیر معیاری ناقص مٹیریل سے تیار کردہ ڈبے جن میں گرم سالن ڈالا جاتا ہے‘ سائنسی تحقیق کے مطابق کینسر کا ذریعہ اور سبب ہیں۔ کھانوں میں ناقص تیل استعمال کیا جاتا ہے اور چربی اور تیل کی یہ ’’تری‘‘ جو گاہک کو خوش کرنے کے لیے دی جاتی ہے‘ گلے کی خرابی‘ کھانسی اور معدے کے امراض کا سبب ہیں۔ جب ہوٹل مالکان کو کسی بھی قسم کی شکایت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں دوسرے ہوٹل پر چلے جائیں‘ اصلاح کی بجائے وہ دولت کے پجاری گاہک کی توہین اور تضحیک کو ترجییح دیتے ہیں۔ چائے‘ دہی‘ سالن کا پہلے ریٹ مقرر تھا‘ اب دکان دار کی صوابدید ہے کہ جس طرح جی چاہے گاہک کو لوٹ لے۔ سعودیہ جیسے ملک میں یہ چور بازاری حکمرانوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ سختی سے معیار‘ ریٹ اور حفطِ صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کرایا جائے اور ’’پاکستانی نما‘‘ اہل کاروں کو فارغ کیا جائے۔

زیارات کے نام پر لوٹ مار:
مکہ اور مدینے میں سادہ لوح عوام کو زیارات کے نام پر لوٹنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ بلاشبہ پہلے ایسے لوگ تھے جو زیارات کے لیے پڑھے لکھے گائیڈ مہیا کرتے تھے۔ ہوٹلوں پر سات بجے زیارات کی گاڑیوں کا اعلان کیا جاتا ہے‘ مختلف ہوٹلوں سے زائرین کو جمع کرکے 9 بجے تک لوگوں کو بسوں میں بٹھا کر روانگی ہوتی ہے۔ گائیڈ اکثر اوقات محض لوگوں کو خوش کرنے یا رلانے کے لیے ایسے من گھڑت واقعات حدیث کے حوالے دے کر بیان کرتے ہیں جو غلط ہوتے ہیں۔ بس میں بیٹھے بیٹھے دور سے بتا دیا جاتا ہے کہ یہ فلاں زیارت ہے‘ یہ فلاں زیارت ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ تفصیل میں جانے سے آپ کی نماز ظہر حرم سے رہ جائے گی بھاگم بھاگ ’’زیارات‘‘ کا یہ سلسلہ جاری ہے اور اب ستم یہ ہے کہ ان بسوں میں گائیڈ کچھ وقت کے بعد حجاج کو احمد شرعہ‘ رون ملیسان‘ مختلف عطرہ مامیرا کے نام سے بینائی لوٹانے اور سرمہ اور دیگر اشیا فروخت کرتے ہیں ان اشیا کے فوائد حدیث کے حوالے سے اس طرح بیان کیے جاتے ہیں کہ سادہ لوح عوام پانچ ریال‘ دس ریال میں یہ نعمت ’’مفت‘‘ حاصل کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ گائیڈ پڑھے لکھے‘ خوفِ خدا رکھنے والے اور تاریخ سے واقف ہوں اور بسوں میں اس ’’تجارت‘‘ پر پابندی عائد کی جائے۔

مطاف میں طواف‘ حجراسود کا بوسہ‘ حطیم میں نوافل اور ریاض الجنۃ کی زیارات۔ خصوصی توجہ کی ضرورت:

حج کرنے والا یا عمرہ کرنے والا ساری عمر کی جمع پونجی لگا کر اس اہم سفر پر روانہ ہوتا ہے‘ اس کی خواہش اور تمنا ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح حجر اسود کا بوسہ لے سکے‘ حطیم میں نوافل ادا کرسکے اور ریاض الجنۃ میں خواہ ایک مرتبہ ہی سہی‘ چکر لگا سکے۔ کوئی شک نہیں کہ سعودی حکمران جو خدمت انجام دے رہے ہیں‘ وہ قابل داد ہے اور ان ہی کی ہمت ہے کہ لاکھوں افراد کا انتظام کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف جانے والا شاید زندگی میں پہلی اور آخری دفعہ گیا ہے‘ دوبارہ آسکے یا نہ آسکے‘ مطاف میں طواف کی اجازت‘ App کے ذریعہ حجراسود کے بوسہ کے لیے جو دھکم پیل اور حج اور عمرہ کی توہین جس طرح ہوئی ہے کمزور‘ بوڑھا‘ دل کا مریض کیسے حجر اسود کا بوسہ لے سکتاس ہے‘ وہ تو دور سے بھی حجر اسود کو دیکھ بھی نہیں سکتا۔ حطیم میں داخلے کے لیے گھنٹوں قطار میں کڑے رہنے کی ہمت کہاں سے آئے‘ ریاض الجنۃ میں داخلے کے لیے App کا استعمال ہو رہا ہے جو اس فن سے واقف نہیں وہ کیا کریں؟ جو وقت دیا جاتا ہے اگر ایک کمزور بوڑھا یا خاتون جو وہیل چیئر پر ہے‘ وہ کیسے ریاض الجنۃ میں جائے؟ ہزاروں لوگ حجر اسود کو بوسہ‘ حطیم میں داخلہ کی خواش اور ریاض الجنۃ میں نوافل کی حسرت لیے واپس لوٹ آتے ہیں سعودی انتظامیہ اور حکمران کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت دی ہے کہ وہ جو کام کرنا چاہتے ہیں کر لیتے ہیں خدارعا کوئی تدبیر کیجیے کہ برسوں کی خواہش لے کر جانے والا حاجی یا عمرہ کرنے والا کم از کم ایک دفعہ سہولت کے ساتھ یہ خواہش پوری کرسکے‘ اللہ کے گھر سے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے در سے بھی حسرت لے کر آنے والا کس دروازے پر دستک دے؟ دنیا بھر کے مدبر لوگ مل کر سوچیں کہ حجراسود کا بوسہ‘ حطیم کینوافل‘ ریاض الجنۃ میں نوافل‘ کمزور‘ بوڑھے مرد و خواتین سعادت حاصل کرسکیں۔

یقین ہے کہ اگر اس سہولت کی فراہمی کا ارادہ کر لیا گیا تو خود بخود ایسی راہ نکلے گی کہ ترسے ہونٹوں کو بوسہ اور نوافل کی ادائیگی کا موق