واقترب واسجد

446

قرب دراصل قربانی سے نکلا ہے۔اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔اللہ تو ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے ۔ لیکن ہم رب العالمین سے دور ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ والسجد وقترب جھک جاؤ اور اللہ کا قرب پاؤ ۔ کیونکہ نماز جنت کی کنجی ہے ۔ پھر کنجی کے بغیر جنت میں کیسے داخل ہو سکیں گے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! صبر اور نماز سے مدد لو ۔اللہ کا قرب تہجد پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ اپنی نیند کی قربانی دے کر ۔جیسے اخلاق اخلاص کے بغیر ادھورا ہے ۔ پردے کیلئے حیا اور حیا کیلئے پردہ لازم و ملزوم ہیں جیسے جسم کیلئے پانی ، ہوا ،اور غذا کی ضرورت ہے ۔ روح کیلئے ایمان ضروری ہے اور ایمان کو برقرار رکھنے کیلئے قرآن و سنت پر عمل ضروری ہے ۔ اسی طرح قربانی دے کر ہی اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔ دین کی ابتداء بھی قربانی اور انتہا بھی قربانی مانگتی ہے ۔ یہ اللہ کا قانون ہے۔ آزمائشوں سے گزر کر ہی کھرے کھوٹے کی چھانٹ ہوتی ہے ۔ بعض لوگوں کو ڈھیل دے کر بھی آزمایا جاتا ہے ۔ جو غور فکر ہی نہیں کرتے ۔ اور دنیا کی لگن میں مگن ہیں ۔ کہ جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ التکاثر میں کیا ہے ۔ دنیا میں آنے کا مقصد بس دنیا کی کامیابی کو ہی سمجھتے ہیں ۔ اصل میں تو ایسے لوگوں کی ذیادہ سخت آزمائش ہے ۔ کہ جو جانتے ہی نہیں ہیں کہ یہ دنیا تو دارالامتحان ہے ۔ سب ہی آزمائش سے گزر رہے ہیں ۔ دنیا کا بھی یہی دستور ہے امتحان سے گزر کر ہی کامیابی اور ناکامی کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ کامیاب ہونے پر ہی اعلیٰ عہدے ملتے ہیں درجات بلند ہوتے ہیں ۔ اسلامی تاریخ دیکھیں تو تمام نبیوں کی زندگیاں قربانیوں اور آزمائشوں اور دین کی جدو جہد میں گزری ۔ تب جاکر دنیا میں بھی کامیابی ہے اور آخرت کی بھی کامیابی ہے تب جاکر جنت کے اعلیٰ درجات کا حصول ممکن ہے ۔ معیاری زندگی کی بھی قیمت چکانی پڑتی ہے ۔جنت اتنی سستی نہیں ہے ۔ اعلیٰ معیار کی قیمت بھی اعلیٰ ہی ہوتی ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے دنیا میں بھیج کر آزمایا گیا ۔ دنیا کی سب سے پہلی قربانی ہابیل نے دی ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اقامت دین کیلئے نو سو (900) سال جدوجہد کی طوفان نوح میں اپنے بیٹے کی محبت کی قربانی دی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اقامت دین کیلئے حضرت ہود علیہ السلام کو قوم عاد کی طرف بھیجا ۔ پھر ان کے بھائی حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف بھیجے گئے ۔ ایکہ والوں اور اہل مدین کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا ۔ حضرت یونس علیہ السلام چالیس دن مچھلی کے پیٹ میں رہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے پورے خاندان کی قربانیاں جو اطاعت و فرمانبرداری میں سمعنا و اطعنا کی عملی تفسیر تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں ہم ہر سال قربانی کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اکیلے تن تنہا وتوالصو بالحق کیلئے وقت کے حاکم کے سامنے ڈٹ گئے ۔کسی دباؤ میں آئے بغیر آگ میں کودنے سے بھی نہیں ہچکچائے ۔ پوری دنیا میں وتوالصو بالصبر کی اعلیٰ مثال بن گئے ۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

اللہ رب العزت نے کتنا باعزت کر دیا کہ آگ گل و گلزار ہوگئی ۔ ان کی زوجہ حضرت ہاجرہ رضہ نے اپنی پوری زندگی کا آرام و آسائش اور سکون و راحت قربان کی ۔ صحرا میں تن تنہا ایک شیر خوار بچے کے ساتھ دن میں دھوپ کی تپش اور رات میں گھپ اندھیرے میں رہنا ۔ جو آج کی عورت تو کیا مرد بھی تصور نہیں کرسکتے اس طرح رہنے کا سوچ کر بھی روح کانپ جائے ۔ اسی حال میں بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی کیسی تربیت کی۔ یہ کیسی قربانی اور کیسا قرب الٰہی تھا۔

یہ فیضان کرم تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

ایسی فیوچر پلاننگ کی کہ جو جنت کی منزل تک پہنچا دے ۔ اگر حضرت ہاجرہ رضہ اپنی پر سکون زندگی کی قربانی نہ دیتیں تو وہ بستی کیسے آباد ہوتی کہ جسے کوئی جانتا تک نہ تھا ۔ یہ حضرت ہاجرہ رضہ کا صبر ، مستقبل مزاجی ، محنت اور تربیت ہی تھا کہ آج ان کی یاد میں ہزاروں لاکھوں لوگ حج میں صفا و مروہ کی سعی کرتے ہیں ۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام بے حیائی کے خاتمے کیلئے ڈٹ گئے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام بچپن سے جوانی تک کتنی آزمائشوں سے گزرے ۔ پھر جب یوسف علیہ السلام کو اقتدار ملا تو انہوں نے سر زمین مصر پر دین اسلام کو نافذ کرنے میں اپنی پوری قوت لگادی اور اسلام کا ایک ایسا نقش چھوڑا کہ صدیوں تک کسی سے مٹائے نہ مٹ سکا ۔اسکے اثرات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے بعد تک رہے ۔ فرعون اور اہل فرعون کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دین کی دعوت پہچانے کا ذریعہ بنایا ۔ پھر مشرکین عرب کیلئے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ ان کی تو پوری زندگی دین کیلئے قربانیوں آزمائشوں اور جدوجہد میں گزری ۔ پیدائش سے پہلے ہی باپ کے سائے سے محروم ہوگئے۔ چھ سال کی عمر میں ماں بھی رب کے حضور پیش ہو گئیں ۔ آٹھ سال کی کمسن عمر میں دادا بھی وفات پا گئے ۔ جس عمر میں بچے والدین سے فرمائشیں کرتے ہیں لاڈ اٹھواتے ہیں ۔ پھر دین کی دعوت کیلئے ہر طرح کی قربانی دی اپنی نیند ، جان و مال ، صلاحیتیں اور وقت سب قربان کر دیا ۔ اپنی اولادوں کو اپنے ہاتھ سے لحد میں اتارا ۔ بیٹی کی طلاق کا صدمہ ۔ شیعب ابی طالب کی گھاٹی میں ہر طرح کی سختیاں بڑے صبر وتحمل سے برداشت کیں اپنی پیاری زوجہ حضرت خدیجہ رضہ اور چچا ابو طالب کی وفات پر جدائی کا غم غرض کوئی دکھ ایسا نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ دیکھا ہو ۔ پیٹ پر پتھر باندھے ، خندقیں کھودیں ، رشتہ داروں کی بے رخی برداشت کی پھر بھی رحمت ہی رحمت تھے ۔ کیونکہ رب العالمین نے انہیں رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ۔ مکہ فتح کیا اور مدینہ جیسی مثالی ریاست قائم کی ۔ اپنے صحابہ اور صحابیات کی ایسی تربیت کی ۔ کہ حق کی خاطر نہ گرم ریت پر کھسیٹے جانے پر اور نہ آروں سے کٹنے میں آر محسوس کیا۔ اسلام کا ایسا نقش چھوڑا ۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد بھی ان کا مشن کو جاری رکھا ۔ پھر خلفائے راشدین ، تابعین ، تبع تابعین کی قربانیوں اور جدوجہد سے دین اسلام ہم تک پہنچا۔ اب اپنے ملک کی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد اسلام کے نام پر حاصل کیا ۔ لیکن یہاں دین مسجدوں اور مدرسوں کی حدود تک محدود ہو گیا ۔ تو اب یہ ہماری زمہ داری ہے کہ اپنے اسلاف کی قربانیوں کو ضائع نہ ہونے دینا اور اپنے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دین کے نفاذ کیلئے جدوجہد اور قربانیاں دینے کیلئے اپنا تن من دھن ، نیند علم ، وقت اور تمام صلاحیتیں سب لگا کر اپنے اسلاف کی قربانیوں اور جدوجہد کو ضائع ہونے سے بچانا ہے ۔ تاکہ یہاں بھی معاشرت ، معیشت ، عدالت ، تجارت اور ایوانوں میں اللّٰہ کے قانون کی پاسداری ہو ۔اللہ کریم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنائے ۔ آمین یا رب العالمین

حصہ