اجنبیت سے آشنائی تک

433

یوم شہادت جمال طاہر شہید و اسلم مجاہد شہید

’’فرحان بھائی! جھنڈے تو ہٹوا دو، پھٹ گئے ہیں‘ سال سے زیادہ ہو رہا ہے انہیں لگے ہوئے‘ برے لگ رہے ہیں۔‘‘

میں نے کہا ’’نہیں بھائی! بہت اچھے لگ رہے ہیںاب کس نے کہا برے لگ رہے ہیں؟‘‘

کہنے لگا یار کیسی بات کر رہے ہو‘ پھٹ پھٹ کر لٹک رہے ہیں آپ کہہ رہے ہو ا چھے لگ رہے ہیں۔‘‘

میں اسے کیا بتاتا کہ جماعت اسلامی کے کارکن کو یہ پھٹے ہوئے جھنڈے بھی کس قدر خوشی دیتے ہیں، وہ علاقے جہاں جھنڈا لگانا مشکل تھا‘ لگا دیتے تو گھنٹے گنتے کہ کتنی دیر لگا رہا‘ دنوں کا تو سوال نہیں تھا۔ اب سال بھر سے لگے ہوئے ہیں تو کہیں مسرت حاصل ہوتی ہے۔ یہ دورِ ابتلا میں کھڑے اور ڈٹے رہنے والے ہی جانتے ہیں… خدا کا شکر ہے کہ وقت کا دھارا کروٹ لے چکا ہے، قربانیوں کا ثمر مل رہا ہے۔ وہ محلے جہاں ہم پیدا ہوئے اور ساری زندگی گزاری تھی وہیں اجنبی بنا دیے گئے تھے۔ کوئی ہماری بات سننے والا نہ تھا۔ کوئی دعوت پر لبیک کہنے والا نہ تھا۔

یہ مئی کا مہینہ تھا اور سال 2005۔ جمال طاہر بھائی مظلومانہ طریقے سے شہید کردیے گئے تھے۔ قاتلوں کو تسلی پھر بھی نہیں تھی۔ جنازہ اٹھنے کے بعد ان کے گھر پر پھر فائرنگ کی گئی تھی۔ جلوس جنازہ پر فائرنگ کی گئی تھی اور اتنی شدید کہ اپنے شہید بھائی کے جسد خاکی کو کاندھوں پر ہی قبرستان لے جانے کا ارادہ رکھنے والوں کو جنازہ بس میں رکھ کر اور شرکائے جنازہ کی جانیں بچا کر بہ مشکل نکلنا پڑا تھا۔ پھر اسی جنازے سے واپسی پر اسلم مجاہد صاحب کو اغوا کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر انہیں بھی شہید کردیا گیا۔

اس سب صورت حال میں واپس لانڈھی آنا اس حال میںہوا تھا کہ کلاشن کوف بردار استقبال کے لیے موجود تھے۔ ایک ہفتے تک رات میں ہمارے اور دیگر کئی کارکنان کے گھروں کے باہر فائرنگ ہوتی رہی۔ جمال بھائی کے جنازے میں بھی محمد شاہد صاحب کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی تھی بعد میں بھی انہیں کورنگی نمبر 4 پر ٹارگٹ کیا گیا۔ اللہ نے ان کی زندگی رکھی تھی جو گولی بازو میں لگی اور جان بچ گئی ورنہ قاتل تو اپنے طور پر کام پورا کرکے گئے تھے۔

حالات یہ ہوگئے تھے کہ خوف کے عالم میں عام آدمی سر راہ گلی اور محلے مں چند لمحے کھڑے ہونے اور بات کرنے سے کتراتا تھا۔ مکمل طور پر غنڈوں کا راج تھا۔ تھانے ان کے سیکٹر آفس بنے ہوئے تھے۔

اسی زمانے میں ایم کیو ایم حقیقی کے کارکنوں کی تلاش میں پولیس نے غلط فہمی میں جماعت کے ایک کارکن کے بیٹے کو گرفتار کرلیا۔ وہ کارکن ایک دوسرے رکن کے ساتھ اسے چھڑوانے تھانے گئے اور بتایا کہ ہمارا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ یہ سننا تھا کہ انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

جمال بھائی کی شہادت کو غالباً دو تین سال گزر گئے تھے مگر حالات حسب سابق تھے۔ ہم ایک صاحب کے گھر گئے وہ جماعت کے ہمدرد تھے مرزا لقمان بیگ شہد کے عقیدت مند تھے۔ ان سے ملاقات کے لیے گئے‘ گھر پر بیٹھے۔ چائے پی‘ درس قرآن کی دعوت دی اور ماہانہ اعانت طے کی۔ انہوں نے دونوں کے لیے ہامی بھر لی۔ کچھ دن بعد جن کارکن کے ساتھ ان کے گھر گیا تھا کہ وہ اسٹاپ پر ملے تھے کہہ رہے تھے کہ آپ لوگوں کے جانے کے بعد پارٹی کے لڑکے گھر آئے تھے پوچھ رہے تھے فرحان بیگ تمہارے گھر پر کیوں آیا تھا ؟ تم جماعت اسلامی مں شامل ہورہے ہو ؟ انہوں نے کہا فرحان کو کہہ دیجیے گا اعانت ہر مہینے میں دکان پر دے جایا کروں گا اور درس کے لیے معذرت ہے اور میرے گھر مت آیئے گا۔ کوئی خاص بات ہو تو دکان والے کو پیغام دے دیجیے گا۔

عام آدمی تو عام آدمی جماعت کے اپنے جلو میں چلنے والے لوگ بھی اس سے کچھ کم کیفیت کا شکار نہ تھے، کسی پروگرام میں آنا تو دور کی بات ملنے جلنے سے گریز ہی میں عافیت جان رہے تھے۔ عشرہ ڈیڑھ عشرہ عملاً مکمل لا تعلق ہوگئے بس چند سر پھرے لوگ ہی رہ گئے تھے جو گویا جان ہتھیلی پر رکھ کر تحریک کا پرچم سربلند کیے موجِ حوادث کے سامنے سینہ سپر تھے۔

لوگ دعا کرتے تھے اے اللہ اگر ہماری زندگیوں میں حالات بہتر ہوتے نہیں لگتے تو ہماری اولاد کو ان ظالموں کا زوال دکھا۔

خدا کی مشیت شاید کچھ اور ہی تھی چند ہی سال میں دنیا کے دستور کے مطابق حالات کا دھارا گھومنے لگا‘ صورت حال تبدیل ہونا شروع ہوئی اور آج یکسر حالات تبدیل ہوچکے ہیں، وہ سب جو دبک کر بیٹھ گئے تھے‘ نکلنے کی ہمت نہیں پاتے تھے۔ اگلی صفوں میں نظر آتے ہیں، عوام کی بے اعتنائی پسندیدگی سے تبدیل ہورہی ہے۔ وہ نوجوان جو 90 کی دہائی کے آخر اور 2000 کے آغاز میں پیدا ہوئے تھے اور جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کے نام سے بھی آشنا نہیں تھے‘ اُن کی زبان پر بھی ’’حل صرف جماعت اسلامی‘‘ سنائی دے رہا ہے۔ وہ علاقے بھی جہاں کوئی نام لیوا نہ تھا‘ پوری پوری یوسی اور وارڈ میں درجن بھر لوگ بھی ہمدرد نہ تھے بلدیاتی انتخابات کے نتائج وہاں بھی حق میں آئے ہیں، جہاں مخالفت کے سیلاب کے آگے ناتواں بند باندھنے کی کوشش ہوتی تھی وہاں ہزاروں ووٹ ڈبوں سے برآمد ہوئے ہیں۔ ہم نے تو اس فتح کو جمال طاہر شہید کے نام کیا ہے۔

مرزا لقمان بیگ بھی اسی بستی میں شہید کیے گئے تھے مگر ان کی قربانی کے محض دو سال بعد شہر میں جماعت اسلامی کامیاب قرار پائی تھی نہ صرف نعمت اللہ خان صاحب ناظم شہر بنے بلکہ لانڈھی اور کورنگی ٹاؤن بھی جماعت اسلامی کے حصے میں آگئے تھے۔ جمال طاہر شہید کی قربانی کے بعد سخت مشکل حالات کا پورا ڈیڑھ عشرہ گزرا اور پھر گویا خدا کی رحمت جوش میں آئی۔ شہر میں یہ پیش قدمی جمال طاہر، پرویز محمود ، اسلم مجاہد اور درجنوں شہدا کی جدوجہد اور تن من دھن قربان کر دینے کا ثمر ہے مگر یہ منزل نہیں‘ ابھی ہیں دور منزلیں‘ ابھی سفر طویل ہے۔ بس اس پیش قدمی کو برق رفتاری سے آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ دامن کو وسعت کیا جائے۔ ہر اپنے پرائے کو ساتھ لیا جائے۔۔ اور آگے ہی آگے بڑھتے چلا جائے۔

حصہ