روشن کل

380

گھر کا دروازہ بند کرکے میں گلی میں نکل آیا، مگر الجھنوں اور پریشانیوں کے جو دروازے میرے اندر کھلے تھے، وہ بند نہ ہوسکے۔ میں نے اپنی زندگی میں ہر مشکل کا سامنا صبر اور سکون سے کیا تھا، لیکن ساٹھ کو پہنچنے سے پہلے ہی یا تو میں سٹھیا گیا تھا، یا پھر یہ دور ہی پاگل کردینے والا تھا۔ نفسا نفسی کے اس دور میں بقا کی جنگ لڑنا مشکل ترین ہوگیا تھا۔ گھر کا کرایہ، کچن کا خرچا، بچوں کی فیسیں، عید تہوار میں لینا دینا… آخر انسان کہاں کہاں، کس کس چیز کو روئے!

کبھی کبھی مجھے اپنا آپ اُس گدھے جیسا لگتا تھا جس سے بندھی گاڑی پر بوجھ مسلسل لادا جارہا ہو اور وہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اس بوجھ کو ڈھوئے جارہا ہو۔ انہی سوچوں میں گھرا میں بس اسٹاپ آپہنچا تھا، مجھ سے پہلے وہاں دو مرد اور دو عورتیں موجود تھیں۔ بے زار صورت لیے میں بھی ان میں جا کھڑا ہوا۔ حکومت کی مہربانی سے جگہ جگہ بس اسٹاپ پر دو سیٹیں ضرور لگا دی گئی تھیں، پر کسی پر شیڈ تھا کسی پر نہیں، اوپر سے گرمی الامان الحفیظ۔ ساحلِ سمندر پر ہونے کے باوجود پچھلے کچھ سال سے ہم شدید گرمی کا عذاب جھیل رہے تھے۔ دو منٹ میں ہی میری قمیص پسینے سے تر ہوگئی اور میرا روم روم خدا کے حضور التجا کررہا تھا کہ یا اللہ بس جلدی سے آجائے۔ پانچ منٹ بعد ہی میری مطلوبہ بس آگئی، لیکن اس پر چھت تک چڑھے لوگوں کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ میں تھوڑا آگے ہوا لیکن دھکم پیل دیکھ کر بس پر چڑھنے کی ہمت نہ کرسکا اور پلٹ آیا۔ بس میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئی۔ چند لمحوں کو جوانی کے وہ دن یاد آئے جب دھکم پیل اور رش کی پروا کیے بغیر بس کے دروازے پر لٹک جایا کرتے تھے، مگر اب جب سے میں صاحبِ کار ہوا تھا شاذونادر ہی بس کا سفر ہوتا تھا، اور میں تو اب بھی نہ کرتا مگر پیٹرول اور سی این جی کی ہوشربا قیمتوں نے میرے ہوش اُڑا دیے تھے اور اس پر بچوں کی من مانیوں نے دماغ کی دہی بنادی تھی۔ دو گلی چھوڑ کر سبزی والے کی دکان پر بھی انہیں گاڑی پر ہی جانا ہوتا ہے ورنہ شان میں فرق آجائے گا۔ اسی بات پر کل رات کی چیخ پکار کے بعد میں نے فیصلہ کیا تھا کہ گاڑی کی چابی گھر میں چھپا دوں گا اور خود بھی کام پر آنے جانے کے لیے بس کا سفر اختیار کروں گا۔ مگر اب اسٹاپ پر کھڑے کھڑے سوچ رہا تھا کہ کیا زیادہ دیر تک اس فیصلے پر قائم رہا جاسکتا ہے؟ اسی اثناء میں میرے برابر کھڑی عورت بولی ’’تھوڑا انتظار کرلو، مر نہیں جاؤ گے۔‘‘

میں نے انتہائی تعجب سے اسے دیکھا اور پوچھنے ہی والا تھا کہ محترمہ اس بے تکلفی کا مطلب؟ مگر تبھی مجھے احساس ہوا کہ وہ فون پر کسی سے بات کررہی ہے۔ اب میرے آس پاس کھڑے لوگ بدل گئے تھے، عورت کے برابر دو لڑکیاں کھڑی تھیں۔ ایک کے ہاتھ میں موٹی سی کتاب کھلی تھی اور دونوں کی ڈسکشن زور شور سے جاری تھی۔ میرے دوسری طرف بھی تین لڑکے آگئے تھے اور یقینا ان کی منزل بھی کوئی کالج یا یونیورسٹی ہی تھی۔ لمحہ بہ لمحہ میری کوفت میں اضافہ ہورہا تھا اور گرمی کی شدت میں بھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سورج سوا نیزے پر آگیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹریفک اور پھیری والوں کا شور بھی دماغ خراب کررہا تھا، اور یہ جو فقیر بچہ مسلسل میرے سائیڈ میں ہاتھ پھیلائے کھڑا یک ٹک میرا چہرہ تکتا چلا جا رہا تھا، دل تو چاہ رہا تھا کہ اسے اٹھا کر پٹخ دوں۔ ان ماہر بھکاریوں کے میں سخت خلاف تھا۔

اسی وقت میرے پڑوسی بشیر صاحب بھی وہاں آگئے۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی ان کا چہرہ کھل سا گیا، کیوں کہ اکثر گلی میں نکلتے ہماری اچھی سلام دعا رہتی تھی لیکن میں انہیں بس کے انتظار اور گرمی سے بے حال ہونے کی وجہ سے زیادہ اچھا تاثر نہیں دے سکا۔ میری حالتِ زار دیکھ کر وہ بولے ’’لگتا ہے خاصی دیر سے کھڑے ہیں آپ اسٹاپ پر۔‘‘

مجھے کچھ کچھ شرمندگی نے آن لیا، وہ روز مجھے ذاتی گاڑی میں آتا جاتا دیکھتے تھے۔ ’’جی بس… وہ… گاڑی کچھ خراب تھی تو سوچا آج بس کا سفر ہی کرلیا جائے۔‘‘ میں نے سہولت سے بات بنائی۔

’’شکر کیجیے جناب! اتنے بڑے شہر میں آپ کو ذاتی گاڑی میسر ہے، ورنہ کراچی جیسے شہر میں بسوں کا سفر کسی عذاب سے کم نہیں، اوپر سے یہ انتہائی گرمی دوہرا عذاب ہے۔‘‘

میں نے ان کی بات سن کر سر ہلا دیا، مگر وہ تو شاید بھرے بیٹھے تھے، میرا سر ہلانا ان کے لیے اجازت نامہ ہوگیا۔

’’اجی عظیم صاحب! اس سب کی ذمہ دار ہماری گورنمنٹ ہے، عوام کا تو کچھ خیال ہی نہیں۔ دن بہ دن ٹریفک کا نظام بد سے بدتر ہوتا چلا جارہا ہے، ہر شہری اپنی جان ہتھیلی پر لے کر سڑک پر نکلتا ہے لیکن ان حکمرانوں کو صرف اپنی جیبیں بھرنے کی پروا ہے، لوگوں کو کوئی سہولت ملے نہ ملے ان کی بلا سے۔ اب یہی دیکھ لیجیے اس بس اسٹاپ کے اطراف میں دور دور تک کوئی درخت نہیں، پانی کا کوئی کولر یا نلکا نہیں۔ کراچی سے تو جیسے سبزہ اجڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اب اگر اس سڑک کے کنارے درختوں کی قطار ہوتی تو کسی غریب کو سایہ مل جاتا۔ اگر ہر بس اسٹاپ کے ساتھ ٹھنڈے پانی کا ایک کولر لگا دیا جائے تو کتنی ہی پیاسی خلقت کے حلق تر ہو جائیں… مگر کہاں جناب! عوام مرتے ہیں تو مریں… ہمارے صاحب لوگ اپنے سینٹرل اے سی محلوں اور لگژری گاڑیوں سے باہر نہیں نکلیں گے۔‘‘

بشیر صاحب کا جوش و خروش دیدنی تھا، میرے ساتھ ساتھ وہاں کھڑے نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی اُن کی بلند آہنگ، مگر مبنی بر حق تقریر غور سے سن رہے تھے۔ میرا ارادہ تھا کہ وہ رکیں تو میں بھی مہنگائی کو موضوعِ بحث بنا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالوں، مگر اسی وقت میری بس آگئی، گو کہ اس میں بھی تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی مگر میں کام سے پہلے ہی لیٹ ہو چکا تھا، سو ہر حال میں اس بس کو پکڑنا تھا۔ میں نے جلدی جلدی بشیر صاحب کے شانے پر دو چار تھپکیاں دیں، پھر بس کی طرف بڑھ گیا۔ بھلا ہو ’’ٹور، ٹور، ٹور‘‘ ( ٹاور ٹاور ٹاور ) کی گردان کرتے کنڈیکٹر کا، جس نے ایک ہاتھ سے مجھے اوپر کھینچ لیا۔‘ لوگوں سے ٹکراتے، ڈگمگاتے، جھومتے، گھومتے میں کسی نہ کسی طرح اپنے کام پر پہنچ گیا۔ واپس بھی بس پر آیا مگر رات میں بس آسانی سے مل گئی اور رش بھی نہیں تھا، اس کے باوجود گھر پہنچنے پر احساس ہوا کہ بدن کا جوڑ جوڑ کراہ رہا ہے، مگر میں خوش تھا کہ فیول کی مد میں، میں نے ہزار سے ڈیڑھ ہزار روپے بچا لیے تھے، یہی بات میں کھانا کھاتے اپنی بیوی نعیمہ اور بچوں کو بتا رہا تھا، لیکن مجھے حیرت ہوئی جب میں نے ان سب کو اپنی طرف تاسف سے تکتے ہوئے پایا۔

اگلی صبح نعیمہ مجھے بہت دیر تک سمجھاتی رہی کہ پیسے کی نہیں اپنے آرام اور سکون کی فکر کریں، مگر میں سوچ چکا تھا کہ آسمان کو چھوتی مہنگائی کے اس دور میں ہاتھ کھینچ کر چلے بغیر گزارا نہیں ہوسکتا، اس لیے میں اُسے اپنے پیچھے بولتا بکتا چھوڑ کر پھر سے بس اسٹاپ کی طرف بڑھتا چلا گیا، لیکن آج اسٹاپ کا رنگ دیکھ کر پہلے میری آنکھیں حیرت سے پھیلیں اور پھر بھیگنا شروع ہوگئیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ٹینشن سے بھرے اس ماحول میں زندگی اتنے خوب صورت پہلو سے بھی سامنے آسکتی ہے، ہمارے منہ سے نکلی باتیں اس طرح سے بھی دلوں پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ یہ حسین منظر دیکھ کر مجھے لگا امید کی کرن ابھی بجھی نہیں ہے، شاید ہم آج بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ وہی لڑکے لڑکیاں جو کل بشیر صاحب کی تقریر سن رہے تھے آج ایک بڑے سے ڈرم میں برف اور ٹھنڈا پانی بھر کر لے آئے تھے جس میں چھوٹی چھوٹی ڈھیر ساری پانی کی ڈسپوزایبل بوتلیں تھیں۔ لڑکیاں غریب اور پیاسے لوگوں کو وہ دیتی جا رہی تھیں اور لڑکے پیدل اور موٹر سائیکل سوار لوگوں پر ائر گنوں سے ٹھنڈے پانی کا چھڑکاؤ کررہے تھے… ایک بڑی سی چادر چار ڈنڈوں سے باندھ کر بس اسٹاپ پر تان دی گئی تھی جس سے وہاں موجود لوگوں کو سایہ میسر آگیا تھا۔ میں جس جگہ کھڑا تھا وہ کوئی مسجد نہیں ایک بس اسٹاپ تھا، اور آج اس بس اسٹاپ پر میرا دل سربہ سجود ہوگیا تھا۔

حصہ