پاکستان کے حکمرانوں کے ہاتھوں میں قرآن ہے نہ تلوار،مولانا شاہ احمد نورانی کا ایک یادگار انٹریو

431

(دوسرا اور آخری حصہ)

طاہر مسعود: میرا مطلب ہے جس زمانے میں نواز شریف صاحب بڑی بڑی غلطیاں کر رہے تھے‘ اس زمانے میں آپ نے انہیں مشورے بھی دیے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: مشورے ضرور دیے۔ ایک مرتبہ انہوں نے یاد فرمایا تھا تو میں اسلام آباد گیا تھا۔ ان کے بھائی صاحب شہباز شریف بھی موجود تھے۔ شہباز شریف سے بھی کئی بار ملاقاتیں ہوئیں‘ تو جب انہوں نے یاد فرمایا تھا تو میں نے مشورے دے دیے تھے۔

طاہر مسعود: آپ نے انہیں کیا مشورے دیے تھے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: میں نے کرپشن کو دور کرنے اور احتساب کرنے کے سلسلے میں مشورے دیے تھے۔

طاہر مسعود: لیکن آپ کے مشورے کا انہوں نے کوئی اثر نہیں لیا؟

مولانا شاہ احمد نورانی: انہوں نے بڑی توجہ سے سنا‘ نوٹس بھی لیا۔ میں نے احتساب کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ جو ناچ و رقص و سرود ہے‘ یہ ہندوئوں کی تہذیب و ثقافت ہے۔ ہندوئوں کے ہاں بھجن‘ مندر میں عورتوں کا ناچنا وغیرہ ہوتا ہے‘ مسلمانوں کے ہاں یہ حرام ہے‘ یہ لعنت ہے۔ یہ سب باتیں ان سے عرض کی تھیں لیکن وہ پروگرام چلتے رہے۔ اللہ کے غیظ و غضب کو دعوت دیتے رہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے غیظ و غضب کا شکار ہو گئے۔

طاہر مسعود: مولانا یہ فرمایئے کہ پچاس برس میں ہمارے ہاں ادارے مستحکم نہیں ہوئے۔ جب بھی ادارے بنتے اور مضبوط ہونے لگتے ہیں فوج بیچ میں کود پڑتی ہے اور سب چیزیں لیپٹ کر ایک طرف رکھ دی جاتی ہیں۔فوج یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم صحیح جمہوریت لائیں گے اور یہ صحیح جمہوریت بھی کبھی نہیں آتی۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا اور ہم کب اسی قوم میں تبدیل ہوں گے جو اصولوں کے تحت زندگی گزارے اور جسے مستحکم اداروں کا سایہ نصیب ہو۔ آخر بند گلی سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: ہم اور ہندوستان ایک دن کے فرق سے آزاد ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں اداروں کو مضبوط کیا گیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ الیکشن بدستور ہوتے ہیں جس ادارے کو انہوں نے سب سے پہلے مضبوط کیا اس میں ایک تو تھی پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن‘ ہندوستان کا الیکشن کمیشن اتنا مضبوط‘ خود مختار اور آزاد الیکشن کمیشن ہے کہ برسر اقتدار وزیراعظم کی پارٹی ہار جاتی ہے اور وہ چوں چرا نہیں کرسکتا۔ الیکشن ختم ہو جاتے ہیں اور کسی پارٹی کو کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ کوئی پارٹی یہ نہیں کہتی کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ برسر اقتدار وزیراعظم اندرا گاندھی بھی ہار گئی‘ راجیو گاندھی بھی ہار گئے‘ نرسیمارائو بھی ہار گئے۔ یہ اس الیکشن کمیشن کی دیانت اور امانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارے ہاں جو بھی الیکشن ہوتا ہے‘ اس میں ہر پارٹی کے ادارے کو ہم نے مضبوط ہونے نہیں دیا۔ ایک الیکشن صرف ایسا ہوا جس کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ 75 فیصد منصفانہ تھا‘ جس میں انفرادی سطح پر دھاندلیاں ہوئیں لیکن اس میں الیکشن کمیشن شامل نہیں تھا۔ بعد کے جتنے بھی الیکشن ہوئے اس میں الیکشن کمیشن سب سے بڑا مجرم تھا۔ 77ء کے انتخابات جس میں بھٹو صاحب نے دھاندلی کرائی پھر 85ء میں غیر جماعتی انتخابات‘ پھر 89ء میں‘ پھر 90ء میں‘ پھر 93ء میں‘ 94ء میں سارے ہی انتخابات میں الیکشن کمیشن مجرم رہا۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ریفرنڈم ہوا جس کے نتائج 99 فیصد رہے۔ انتہائی کرپٹ اور ایسے لوگ جن کے دل میں خدا کا خوف نہیں تھا‘ وہ الیکشن کمیشن کے ذمہ دار بنائے گئے تھے۔ دھاندلی کی ان سے شکایت کی جاتی تھی تو کہتے تھے اچھا دیکھتے ہیں۔ بھئی گولیاں چل رہی ہیں‘ اچھا دیکھتے ہیں‘ یہ تو ہوتا ہی ہے۔ ایک لاکھ بائیس ہزار ووٹوں کی لیڈ تھی اُن کی۔ گنتی مکمل کرکے رات ایک بجے الیکشن کمیشن نتائج کا اعلان کر دیتا تھا اور جن لوگوں کو بیالیس ہزار‘ تینتالیس ہزار ووٹوں کی برتری ہوتی تھی‘ اس کی گنتی صبح نو بجے مکمل ہوتی تھی۔ یہ سب کچھ کراچی میں ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کے لوگ جیتتے رہے ہیں۔ ان الیکشنوں میں ایم کیو ایم کے غنڈے بدمعاش کلاشن کوف بردار گلیوں میں گھومتے رہتے تھے اور الیکشن کمیشن ان کی سرپرستی کرتا تھا۔ ان میں کسی کو پکڑا نہیں گیا۔ بیلٹ بکس اٹھا کر بھاگ گئے اور کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ جب کہ ہندوستان میں ملاحظہ فرمائیں کہ الیکشن ہوا ہے تو پانچ ہفتے تک وقفے وقفے سے الیکشن ہوتا رہا۔ بیلٹ بکس محفوظ رہے۔ مجال ہے جو کوئی بیلٹ بکس اٹھا کر بھاگ جائے پھر ووٹوں کی گنتی ہوئی اور سب پارٹیوں نے اظہار اطمینان کیا۔ اسرائیل میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ سیٹنگ پرائم منسٹر ہار گیا تو یہود و ہنود کا الیکشن کمیشن ایمان دار ہے اور مسلمانوں کا الیکشن کمیشن بے ایمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ بڑے شرم کی بات ہے۔ اس ادارے کو ہم مضبوط نہیں کرسکے۔ آپ صرف الیکشن کمیشن کے ادارے کو مضبوط کر دیجیے پھر دیکھیے قومی اسمبلی میں کیسے صحیح نمائندے پہنچتے ہیں۔ اب تو زمین دار‘ وڈیرے دھاندلی کرتے ہیں‘ مار پیٹ کرتے ہیں‘ شہروں کے اندر ایم کیو ایم کے غنڈے بدمعاشی کرتے پھرتے ہیں۔ الطاف حسین کے غنڈے کلاشن کوف لیے پھرتے ہیں اور بے چارے ووٹر کا خون ان کی بغلوں میں کلاشنکوف دیکھ کر خشک ہوتا رہتا ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے آپ کے سامنے ہے۔ وعدے تو ہر پارٹی کرتی ہے الیکشن کمیشن کو ٹھیک کر دیں گے۔ انتخابی اصلاحات کریں گے لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا۔ دیکھیے ہندوستان میں نگراں وزیراعظم کے بارے میں کسی نے نہیں کہا کہ یہ نگرانی کیوں کر رہا تھا‘ اس کو ہٹائو‘ اس لیے کہ ان کو یقین ہے کہ اس کا الیکشن کمیشن سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ کیا مجال ہے الیکشن کمیشن سے کوئی بات تو کرے۔ نرسیما رائو یا راجیو گاندھی بھی‘ وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان کے کام میں کوئی مداخلت ہی نہیں کرسکتا۔ ہمارے زمانے میں پارلیمنٹ کرپٹ نہیں تھی‘ کراچی سے ہم‘ پروفیسر عبدالغفور احمد‘ محمد اعظم فاروقی‘ شیر باز مزاری‘ مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری‘ حیدرآباد سے محمد علی رضوی‘ سرحد سے خان عبدالولی خان‘ پارلیمنٹ میں دور‘ دور تک کرپشن کا نام و نشان نہیں تھا اور اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ بکرا منڈی لگی ہوئی ہے۔ فلاں ممبر کی بولی ایک کروڑ ہے‘ فلاں ممبر کی پچاس لاکھ ہے۔

طاہر مسعود: یہ کرپشن کس طرح ہمارے قومی سیاست دانوں میں سرایت کر گیا؟ آپ کے ذہن میں اس کا کیا تجزیہ ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: اس کی ابتدا تو جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ہوئی۔ انہوں نے جو شوریٰ بنائی‘ اس شوریٰ میں انہوں نے ہر ممبر کے لیے پچاس لاکھ روپے مختص کیے اور کہا کہ یہ رقم اس لیے دے رہا ہوں کہ شوریٰ کے ممبران اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کرائیں اور اپنا کلّہ مضبوط کریں۔ یہ ان کا بڑا مشہور فقرہ ہے۔ کِلّہ پنجابی کا لفظ ہے اور مراد یہ تھی کہ اپنے آپ کو علاقے میں مضبوط کریں تاکہ آئندہ الیکشن میں جیت سکیں۔ وہ شوریٰ کی صورت میں اپنی پارٹی بنا رہے تھے۔ ظاہر ہے ممبروں کو پچاس لاکھ روپے دیے گئے تو اس سے ان میں بدعنوانی پھیل گئی۔ ان میں لالچ کی عادت پروان چڑھ گئی۔ بعد میں جو حکومتیں آتی رہیں ان کو بھی ممبران کو رقم دینی پڑی۔ ایک ایک کروڑ‘ دو دو کروڑ روپے دیے گئے۔

طاہر مسعود: اس کرپشن کی لعنت سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: بس یہی کہ الیکشن کمیشن ٹھیک ہو جائے۔ آزاد‘ خود مختار الیکشن کمیشن۔ ایسے جج موجود ہیں جو صاحبِ ضمیر ہیں‘ انہیں الیکشن کمیشن میں تعینات کیا جائے۔ ایسے بے ضمیر جج ماضی میں رکھے گئے جیسے جسٹس نصرت جنہوں نے ریفرنڈم کرایا تھا۔ اوّل درجے کا بے ایمان اور کرپٹ جج۔ چھانٹ چھانٹ کر ایسے لوگوںکو لا کر رکھا گیا جو بے ایمانی کراسکیں۔ جسٹس سجاد علی خان جنہیں بھٹو صاحب نے تعینات کیا‘ یہ سب کرپٹ قسم کے لوگ تھے۔ ان کا کرپشن زبان زد خاص و عام تھا۔ ان کو جان بوجھ کر رکھا گیا تاکہ ان کے ذریعے سے دھاندلی کرائی جاسکے۔ خدانخواستہ ایسا نہیں ہے کہ اس ملک میں ہنود و یہود سے بدتر مسلمان رہتے ہوں۔ اگر یہود و ہنود میں ایمان دار الیکشن کمیشن بن سکتا ہے تو مسلمانوں میں اہلِ ایمان موجود ہیں‘ الحمدللہ اور ججوں میں بھی انتہائی دیانت دار لوگ موجود ہیںجن کو اس عہدے پر رکھا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی اصلاح ہو جائے تو صحیح نمائندے قوم کے منتخب ہو کر آئیں گے۔ پھر دستور کی دفعہ 61 اور 63 کے تحت نمائندگی کہ لوگ اہل ہیں‘ اس شق پر سختی سے عمل کیا جائے۔ چھلنی سے چھن کر جو لوگ آئیں گے تو پھر پارلیمنٹ واقعی پارلیمنٹ ہوگی۔

طاہر مسعود: غیر سودی نظام کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی شریعت بنچ کے فیصلے پر حکومت نے جس کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے‘ اس کمیشن کے ممبران پر اعتراضات ہو رہے ہیں کہ ان میں ایسے لوگوں کو لیا گیا ہے جو سودی معیشت کے حامی ہیں اور وہ کمیشن کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: کمیشن میں ایک عالمِ دین بھی ہیں۔ مولانا مفتی رفیع عثمانی صاحب‘ ایک عالمِ دین کی موجودگی میں کوئی ایسا کام نہیں ہو سکے گا اور کوئی کام ہوگا بھی تو عالم دین اس کے خلاف آواز اٹھائے گا۔ کلمہ حق ظاہر ہوگا اور پول کھل جائے گا۔ بہت سے لوگ سودی معیشت کے یقینا حامی ہوں گے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کمیشن کے بیٹھنے کے بعد ان کا رویہ کیسا ظاہر ہوتا ہے اور اگر انہوں نے ایسی بات کی جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہے تو مولانا محترم (رفیع عثمانی) موجود ہیں‘ ان کا مقابلہ کریں گے۔

طاہر مسعود: تو آپ کمیشن کے قیام سے مطمئن ہیں؟

مولانا شاہ احمد نورانی: کمیشن بہرحال قائم کر دیا گیا ہے اور اگر وہ اِدھر اُدھر بھٹکا تو ان شاء اللہ اس سے بھی نمٹ لیا جائے گا۔

طاہر مسعود: 70ء کے انتخابات سے لے کر جنرل ضیا الحق کے زمانے تک آپ نے جماعت اسلامی کی شدت سے مخالفت کی اور اس پر تنقید بھی کرتے رہے‘ اسے مارشل لاء کی بی ٹیم بھی قرار دیتے رہے‘ اب قاضی حسین احمد کے زمانۂ قیادت میں آپ جماعت اسلامی سے قریب آگئے ہیں‘ اگر یہی اتحاد 70ء میں ہو جاتا تو دینی جماعتوں کو وہ ہزیمت تو نہ اٹھانی پڑتی اور شاید ملک کی سیاسی تاریخ بھی مختلف ہوتی۔ کیا اب آپ کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا خیال آتا ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: جہاں تک 70ء میں اتحاد ہونے کا تعلق ہے‘ اس کے لیے ہم نے کوشش کی تھی۔ مولانا ظفر احمد انصاری کے مکان پر اس وقت وہ بندر روڈ پر رہتے تھے‘ وہاں ہماری نشست ہوئی۔ ظفر احمد انصاری صاحب ہمارے بیچ میں تھے لیکن اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ نشستوں کے مسئلے پر اختلاف ہوا۔ منور حسن صاحب کا خیال تھا کہ جماعت بھاری اکثریت سے جیت رہی تو کسی دوسری جماعت سے اتحاد کیوں کیا جائے؟ یوں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔

طاہر مسعود: گویا انہوں نے آپ سے تعاون نہیں کیا؟

مولانا شاہ احمد نورانی: بہرحال کچھ ان کی اور کچھ ہماری غلطی‘ یہ سمجھوتا نہیں ہو سکا۔ لیکن ہم نے کوشش بہرحال کی تھی۔

طاہر مسعود: آئندہ انتخابات میں آپ کی جماعت کا جماعت اسلامی سے انتخابی اتحاد کا امکان ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: میں اب اپنی جماعت کا صدر تو نہیں ہوں‘ لیکن اگر ایسا ہو جائے تو ہونا چاہیے کاش کہ ایسا ہو جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ ملی یکجہتی کونسل میں ہم نے مل کر کام کیا ہے۔

طاہر مسعود: اس اتحاد سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچے گا؟ جمعیت علمائے پاکستان کو یا جماعت اسلامی کو؟

مولانا شاہ احمد نورانی: کسی کو بھی پہنچے‘ اصل میں تو دینی قوتوں کو فائدہ پہنچنا چاہیے۔ لادینی عناصر اس وقت تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ دینی جماعتوں کو متحد اور مربوط ہو کر سامنے آنا چاہیے۔

طاہر مسعود: آپ کی جماعت جو مولانا عبدالستار نیازی کی علیحدگی کے بعد دو دھڑوں میں بٹ گئی تھی‘ اب سننے میں آرہا ہے کہ نیازی صاحب سے اتحاد عمل میں آرہا ہے۔ جب مولانا نیازی نے 90ء میں علیحدگی اختیار کی تھی تو آپ نے ان پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے۔ اگر اتحاد ہو رہا ہے تو کیا ان الزامات کو واپس لیتے ہیں؟

مولانا شاہ احمد نورانی: مولانا پر کرپشن کا الزام نہیں تھا۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے جمعیت کی مجلس عاملہ سے پوچھے بغیر میاں نواز شریف سے ایک معاہدہ کر لیا تھا۔ وہ معاہدہ یہ تھا کہ حلقہ نمبر 90 لاہور کا الیکشن ہو رہا تھا۔ جمعیت علمائے پاکستان کا امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری کو انہوں نے دستبردار کرا لیا تھا اور میاں نواز شریف کے امیدوار کی حمایت کی تھی۔ اس پر جمعیت نے باز پرس کی تھی‘ نکالا نہیں تھا۔ باز پرس شروع ہوئی تو وہ خود ہی چلے گئے اور اپنا ایک علیحدہ دھڑا بنا لیا۔ حنیف طیب وغیرہ کو پہلے ہی نکالا جا چکا تھا۔ ان کو اچھا موقع ملا‘ وہ جا کر ان سے مل گئے‘ پہلے وہ ضلع کے جنرل سیکرٹری تھے پھر پورے ملک کے بن گئے۔

طاہر مسعود: اب پارٹی کو دوبارہ متحدہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: پہلے کوشش ہوتی تھی لیکن مولانا نیازی نہیں مانے۔ اب دوسرے لوگ جو آ رہے ہیں وہ کوشش کریں گے۔ اللہ کرے اتحاد ہو جائے۔ نو سال سے کوشش ہو رہی تھی اب تک تو نہیں ہوا۔ اب شاید ہو جائے۔ میں تو سات‘ آٹھ مرتبہ خود مولانا نیازی صاحب کے پاس گیا اور ان سے درخواست کی لیکن وہ تیار نہیں ہوئے۔

طاہر مسعود: موجودہ حکومت نے اپنی وزارتوں میں جن لوگوں کو شامل کیا ہے‘ ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ امریکن لابی ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: (بات کاٹ کر) اصل میں یہ ریکوری آفیسر ہیں۔ جب ریونیو کی وصول یابی کے لیے آدمی مقرر کیے جاتے ہیں نا تو اسے ریکوری آفیسر کہتے ہیں۔ یہ ریکوری آفیسرز ہیں (قہقہہ) وہ بیٹھے ہوئے ہیں اور وصولیاں کر رہے ہیں۔ دس ارب کے قریب وصول کر لیا ہے‘ جو ان کے منشا کے مطابق تو نہیں ہے کیوں کہ 211 ارب روپے ہیں جو وصول کرنے ہیں۔ اس میں 10 ارب روپے تو اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ اگر یہ مارک اَپ کے بجائے اصل رقم واپس مانگتے تو انہیں بہت کچھ واپس مل جاتا۔ ان کی پالیسی ہی غلط ہے یہ مارک اَپ نہیں میک اَپ ہے سود کا میک اَپ۔

طاہر مسعود: آپ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ اگر مطمئن نہیں ہیں تو اعتراضات کے پہلو کون کون سے ہیں؟

مولانا شاہ احمد نورانی: احتساب کا جو عمل ہے‘ وہ سست روی سے جاری ہے‘ اس سے مطمئن نہیں ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملک میں بے روزگاری کو دور کرنے کے لیے مؤثر اقدامات نہیں ہوئے۔ ملک میں تین ہزار سے زیادہ بیمار صنعتیں ہیں ان کے سلسلے میں کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آئے۔ وہی اگر چلنا شروع ہو جائیں تو ایک حد تک بے روزگاری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پھر یہ کہ بعض غلط فیصلے ہوئے۔ ان غلط فیصلوں کو صحیح خطوط پر لانے کے لیے صحیح اقدامات کرنے چاہئیں تھے۔ میاں صاحب محترم سابق وزیراعظم نے امریکہ جا کر عندیہ دیا تھا کہ ہم سی ٹی بی ٹی پر دستخط کر دیںگے۔ موجودہ حکومت کو اس غلط فیصلے کو صحت بخشنے کے لیے اقدام نہیں اٹھانا چاہیے۔

طاہر مسعود: آپ کیا نواز شریف کو ہٹائے جانے سے متفق ہیں؟ کیا ان کا ہٹایا جانا ٹھیک تھا؟

مولانا شاہ احمد نورانی: اب معاملہ سپریم کورٹ میں گیا ہے‘ اس لیے اس پر چھوڑ دیتے ہیں‘ دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

طاہر مسعود: ویسے آپ کی ذاتی رائے تو کوئی ہوگی؟

مولانا شاہ احمد نورانی: ذاتی رائے کا اظہار بھی نہیں کرسکتا کیوں کہ معاملہ عدالت میں ہے۔

طاہر مسعود: چند روز پیش تر افغان وزیر خارجہ نے بتایا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو افغانستان بدر کر دینے کی درخواست کی تھی جسے طالبان حکومت نے نرمی سے مسترد کر دیا‘ آپ کا اس پر کیا ردعمل ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: پاکستان کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔ پاکستان کو اپنے شہریوں کو امریکہ کے حوالے کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا تو اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دینے کے مطالبے کا کیا حق پہنچتا ہے۔ پاکستان کو تو اسامہ بن لادن کی حفاظت کرنی چاہیے۔ یہ پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔

طاہر مسعود: آپ نے ایک بیان دیا تھا کہ مسلم حکمرانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں تلوار ہونا چاہیے کیا پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کے ہاتھوں میں تلوار اور قرآن ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: بالکل نہیں‘ نہ قرآن ہے اور نہ تلوار ہے۔ بیان میں نے یہی کہنے کے لیے دیا تھا۔

حصہ