جو ہو ذوق یقیں پیدا۔۔۔ول فورم کے تحت بچوں کی جیل کے دورے کے موقع پر ایک تاثراتی تحریر

650

جیل اور قید کے تصور سے کرب کا احساس ابھرتا ہے۔ اس درد کا درماں کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ہم ’ول فورم‘ کی چیئر پرسن طلعت یاسمین اور سیکرٹری روبینہ جتوئی کے ہمراہ سینٹرل جیل کی زرد پرچھائیوں جیسی قلعہ نما عمارت کے آہنی دروازے میں داخل ہوئے۔ اندر کی دنیا جو باہر سے نہایت خطرناک اور پُراسرار معلوم ہوتی ہے، پُرسکون رہائشی فلیٹس اور دفاتر پر مشتمل تھی۔ اصل داخلہ تو اندرونی علیحدہ عمارت میں شناختی کارڈز دیکھ کر، موبائل رکھواکر، رجسٹر میں نام کا اندراج اور کلائی پر ’’وزٹر‘‘ کی اسٹیمپ لگوا کر ممکن ہوا۔ ہمارے اجازت نامے پہلے سے موجود تھے، لیکن داخلے کی لازمی کارروائی کے بعد ہی سینٹرل جیل میں بچوں کی juvenile jail تک رسائی ممکن تھی۔ بہ مشکل الخدمت کے فوٹو گرافر کی انٹری کروائی گئی کیوں کہ تصویر کی اجازت نہیں تھی۔ بچوں کی جیل کو جیل کے بجائے ’’مرکز اصلاح‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جہاں 12 سے 18 سال کی عمر کے بچے موجود ہیں۔ ہم یہاں ’’ول فورم‘‘ کے زیر اہتمام ایک پُروقار تقریب میں مدعو تھے۔55 بچوں کو ول فورم نے تین ماہ کا بیسک کمپیوٹر کورس کروایا ہے، ساتھ دینی تعلیم اور کائونسلنگ کی خدمات مہیا کی جاتی ہیں۔ کورس کی تکمیل کے بعد ان بچوں کے لیے تقسیم اسناد و انعامات کی یادگار تقریب تھی۔ رمضان میں بھی پروگرام ہوتے رہے۔ کچھ بچوں نے کمپیوٹر کا ایڈوانس کورس کیا تھا، یہ بہت زبردست کام تھا اُن بچوں کے لیے جو کرمنل گینگ کا حصہ بن کر اسنیچنگ اور دہشت گردی میں استعمال ہورہے تھے۔ انہیں قرآن کی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم اور ہنر سکھانا بڑا مشکل کام ہے۔ دو ینگ میل ٹیچرز ان کے لیے وقف ہیں اور بڑی تندہی اور جانفشانی سے کمپیوٹر کی تعلیم دے رہے ہیں۔

ول فورم کا کام پہلے صرف سنا ہی تھا، آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ بہت حساس اور اہم کام ہے۔ ایسے ماحول اور اس عمر کے بگڑے، ضدی، منتقم مزاج بچوں میں بڑی شفقت، محبت اور تحمل کے ساتھ اللہ سے محبت کا احساس اجاگر کرنا اور نماز کا شوق پیدا کرنا، دعائیں، کلمے اور سورتیں یاد کروانا جذبوں سے بھرپور کام ہے۔ برائی کی دلدل میں دھنسے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ایسا ہی ہے گویا جھلساتی دھوپ میں کسی پیاسے کو پانی پلانا، یا گڑھے میں گرتے ہوؤں کو کھینچ کھینچ کر نکالنا۔

طلعت یاسمین نے ہمیں بتایا کہ جیل انتظامیہ تین ماہ سے زیادہ بچوں کو یہاں نہیں رکھتی، صرف اصلاح کے لیے کام کرتے ہیں، اس عرصے میں ہم ان پر محنت کرتے ہیں تاکہ یہاں سے نکل کر یہ بچے باعزت شہری اور بنیادی دینی فرائض سے آگاہ مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزار سکیں۔ لیکن یہ تلخ حقیقت بھی پتا چلی کہ یہاں جو بچے دوسری بار آتے ہیں وہ پکے اور عادی مجرم بن جاتے ہیں۔ گینگسٹرز یہاں سے بچوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، ایک بار جیل میں آنے والے بچے اُن کے لیے نرم چارہ ہوتے ہیں اور آزاد ہوکر بھی یہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ چونکہ انہیں معاشرہ بھی دھتکارتا ہے اس لیے یہ گینگ میں واپس چلے جاتے ہیں۔

سینٹرل جیل میں ول فورم کی چیئر پرسن طلعت یاسمین اور سیکرٹری روبینہ جتوئی درحقیقت مجھے سپر سونک ویمن معلوم ہوئیں، جن کے آگے پولیس بچھی جارہی تھی، اتنی عزت دے رہی تھی، چہروں پر گویا خوش آمدید سجا ہوا تھا کہ یہ لوگ بغیر کسی مفاد کے یہ مشکل کام بڑے خلوص سے کرتے ہیں۔ جہاں سے گزرتے پولیس سلام کرتی۔ جیل میں ہم دوسری طرح کی تواضع کا سنتے تھے، لیکن یہاں ہمیں بھی عزت مل رہی تھی۔ لیکن ان سب کے پیچھے دس پندرہ سال کی انتھک محنت تھی۔

اس موقع پر رافعہ عادل کا مؤثر درس ’’نیکی اور بدی کے شخصیت پر اثرات اور کشمکش‘‘ پر سوال و جواب کی صورت میں تھا جسے سننے کے لیے بچے ہمہ تن گوش تھے اور سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ صاف ستھرے بچے آج خاص کامیابی کے لیے تیار ہوکر آئے تھے۔ طلعت یاسمین نے جب انہیں یہ بتایا کہ یہ ساری امیاں اور خالائیں آپ سے ملنے، آپ کی کامیابی پر مبارک باد دینے یہاں آئی ہیں تو حقیقتاً کتنے ہی بچوں کے چہروں پر چمک سی محسوس ہوئی، کتنے ہی اداس بچوں نے ماں کی یاد میں پہلو بدلے، اور کتنوں نے آنکھوں میں آئی نمی کو آستین کے کف میں چھپایا۔ سامنے بیٹھی خواتین یقینا انھیں ماں اور بہنوں کی یاد دلا رہی تھیں۔

طلعت یاسمین نے بتایا کہ معاشرے میں اجتماعی خوشی کے مواقع جیل میں بڑے بھاری اور درد بھرے لمحات ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا جسے سن کر ہم سب آبدیدہ ہوگئے کہ ایک 13 سالہ بچے نے اپنے ہی بازو پر بری طرح دانتوں سے کاٹ لیا تھا۔ وجہ یہ بتائی کہ چاند رات کو ماں بہت یاد آئی۔ ساری رات رویا اور امی کی نافرمانی پر خود پر اتنا غصہ آیا کہ اپنے ہی بازو پر کاٹ لیا۔

سب ہی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ طلعت یاسمین نے بتایا کہ انھوں نے اس کی بات سن کر بڑا ضبط کیا لیکن گھر آکر بہت روئیں۔ ایسے دردِدل رکھنے والے بے لوث افراد ہمارے معاشرے کا اثاثہ اور جماعت اسلامی کا بہترین سرمایہ ہیں جو اپنے گھروں کے آرام دہ ماحول کو چھوڑ کر فائیو اسٹار ہوٹلوں کے ٹھنڈے ٹھار کانفرنس رومز میں محض تقریروں سے لوگوں کے دل نہیں بہلاتے بلکہ یہ معاشرے کے رستے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، معاشرے کے بے رحم تپتے صحرا میں راہ سے بھٹک جانے والوں کے لیے امید کا چراغ بنتے ہیں… گم راہ لوگوں کو صراطِ مستقیم کی طرف بلاتے ہیں۔

اس دورے میں ہم پانچ چھ خواتین تھیں۔ جلد ہی وہ مرحلہ آگیا جس کا ہر بچے کو انتظار تھا۔ نام پکارے گئے۔ بچے اسناد اور تحفے کے ساتھ تصویر بنواتے ہوئے مسکرا رہے تھے، اس موقع پر جیل سپرنٹنڈنٹ صاحب اپنی مصروفیات کے باوجود وہاں موجود تھے، انہوں نے بچوں میں انعامات اور اسناد تقسیم کیں اور ول فورم کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کے تعاون کا شکریہ ادا کیا گیا۔ بعد ازاں بچوں کے لیے ریفریشمنٹ کا اہتمام کیا گیا تھا۔

یوں ہمارا مختصر قافلہ دکھ اور خوشی کے احساسات لیے، کچھ کرنے کا عزمِ تازہ کیے واپسی کے لیے روانہ ہوا۔ حسبِ سابق انتظامیہ کو ہر دروازے سے نکلتے ہوئے کلائی پر لگی اسٹیمپ دکھاتے ہوئے یہ تاثر لے کر رخصت ہوا کہ جس کی دسترس میں جو صلاحیت اور وسائل اللہ کی توفیق سے موجود ہیں، وہ ول فورم کے تعاون سے ان بچوں کی آخرت سنوارنے کے لیے، ان کی دنیا بدلنے کے لیے ول فورم کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے دامے، درمے، سخنے پیش کرے، اس یقین کے ساتھ کہ اِن شاء اللہ یہ ان بچوں کی زندگی میں تبدیلی اور خود اُس کے لیے آخرت میں بہت بڑا صدقۂ جاریہ ثابت ہوگا۔

حصہ