نقل 200 روپے گھنٹہ

327

یہ لفظ ”تبدیلی“ بھی خوب ہے، کسی کا نعرہ ہے تو کوئی اپنے حالات میں تبدیلی کی راہ تکتا رہتا ہے۔ رواں ہفتے تبدیلی کے نعرے لگانے والوں نے کیا کچھ تبدیل کرڈالا اِس وقت یہ میرا موضوع نہیں، اور نہ ہی مجھے اس سے غرض ہے کہ ان تبدیل شدہ حالات میں کون تبدیل ہوتا ہے۔ میں تو صوبہ سندھ میں آئی اُس تبدیلی کا ذکر کررہا ہوں جس نے صاف ستھرا شہر کراچی گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا، یہاں کی پبلک ٹرانسپورٹ مافیا کے کنٹرول میں چلی گئی، روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈوب گیا، غریب بستیوں کی جانب جاتی پانی کی لائنوں کا رخ پوش علاقوں کی جانب کردیا گیا، یعنی لفظ ”تبدیلی“ نے کسی نہ کسی صورت اپنے کمال دکھائے ہیں۔ صوبائی حکومت ہو یا بلدیاتی ادارے… یہاں کے عوام نے ہر جگہ کچھ نہ کچھ تبدیل ہوتا ہوا ضرور دیکھا ہے۔ کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو لے لیجیے، ان کے نتائج بھی تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے بلکہ خاصی حد تک تبدیل بھی کردیے گئے ہیں جس کے ذریعے کراچی میں اپنا میئر لاکر تاریخی ”تبدیلی“ کی کوشش کی جارہی ہے۔ خیر جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ اِس وقت میرا موضوع سیاست نہیں، لہٰذا اُس تبدیلی کی جانب آتا ہوں جو سندھ سرکار کی نااہلی کے باعث پورے صوبہ سندھ خصوصاً کراچی کے تعلیمی اداروں میں اپنے جوہر دکھا رہی ہے۔ میرا اشارہ رواں ہفتے کراچی میں بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے تحت ہونے والے میٹرک کے امتحانات کی جانب ہے۔ میں اس وقت امتحانات کی آڑ میں کی جانے والی کرپشن اور بدانتظامی کی نشاندہی کرکے صوبہ سندھ کے تمام بورڈز خصوصاً کراچی بورڈ کے اُن اربابِ اختیار کے ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہتا ہوں جن کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اس گھناؤنے کھیل کو تقویت ملتی ہے۔ میں ہمیشہ اپنی تحریر میں اُن خرابیوں اور کرپشن کی نشاندہی کرتا رہتا ہوں جو گزشتہ کئی برسوں سے کی جارہی ہے۔ چونکہ میں کراچی کا رہائشی ہوں اس لیے کراچی بورڈ میں ہونے والی اس بدانتظامی اور کرپشن سے خاصا واقف ہوں جو کراچی بورڈ کی انتظامیہ کی ملی بھگت سے امتحانات میں ہوتی ہے۔ اِس سال تو حد ہوگئی، یعنی اِس مرتبہ ہونے والے امتحانات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ میٹرک بورڈ کراچی کے اربابِ اختیار کے پاس کوئی ایسا مربوط نظام موجود نہیں جس کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی نقل اور بورڈ میں ہونے والی مالی کرپشن کو کنٹرول کیا جا سکے۔ میں جان چکا ہوں کہ اس گلے سڑے فرسودہ نظام کے تحت نقل مافیا کو لگام دینا ممکن نہیں، خاص طور پر اس صورت میں جب بورڈ انتظامیہ خود فرمائشی پروگرام چلا رہی ہو۔

ابھی کل ہی کی بات ہے، میرا گزر لانڈھی میں قائم گورنمنٹ سیکنڈری اسکول کے سامنے سے ہوا جو امتحانی مرکز تھا۔ دور سے سب اچھا دکھائی دے رہا تھا، میرا مطلب ہے کہ اسکول کے باہر غیر متعلقہ لوگ جمع تھے اور نہ ہی نقل مافیا کا ہجوم دکھائی دیا سوائے اُن چند نوجوانوں کے، جو دھوپ سے بچنے کے لیے ایک درخت کے نیچے جمع تھے۔ ان نوجوانوں کو دیکھ کر میں نے سوچا کیوں نا ان سے اس سینٹر میں پُرامن طور پر ہونے والے پرچے سے متعلق گفتگو کی جائے۔ بس یہی سوچتا ہوا میں ان کے قریب جا پہنچا، اس سے پہلے کہ میں ان سے کوئی بات کرتا وہ کھسکنے کی تیاری کرنے لگے۔ میں نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلیں، ابھی وہ اٹھ بھی نہ پائے تھے کہ میں نے ایک نوجوان کا ہاتھ اپنی گرفت میں لے کر اسے اپنی باتوں کے حصار میں لے لیا اور اس امتحانی سینٹر میں پُرامن طور پر ہونے والے پرچے کے بارے میں پوچھ بیٹھا۔ بس پھر کیا تھا، ایسی کچہری لگی کہ رہے نام اللہ کا۔ اپنا نام عارف بتاتے ہوئے اس نے نہ صرف اِس سینٹر بلکہ اس علاقے میں بنائے جانے والے تمام امتحانی مراکز میں ہونے والے امتحانات کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ اس کا کہنا تھا:

”ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ اِس مرتبہ ہونے والی نقل نے گزشتہ کئی برسوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ نقل مافیا نے سائنسی ترقی کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے، یعنی اِس مرتبہ واٹس ایپ گروپ بنائے گئے ہیں جس کے باعث طلبہ کو نہ اب کسی فوٹو کاپی والے کی تلاش ہے اور نہ کتابیں پڑھنے کی زحمت اٹھانا پڑ رہی ہے، بلکہ حل شدہ پرچے کی تصویر بناکر گروپ میں ایڈ بچوں کو ارسال کی جارہی ہے، باقی کا کام انتظامیہ کی زیرنگرانی چل رہا ہے۔ امتحانی مراکز میں کچھ وقت کے لیے سختی کی جاتی ہے جس کا مقصد بچوں سے رقم اکٹھی کرنا ہوتا ہے، فی بچہ پانچ سو سے ہزار روپے وصول کیے جارہے ہیں، اس طرح اسکول انتظامیہ یومیہ ہزار روپے کا بھتہ وصول کررہی ہے۔ امتحانی مرکز پر ہونے والی یہ کارروائی اپنی جگہ، اس کے علاوہ بھی کئی دوسرے ذرائع سے مال کمایا جارہا ہے۔ کچھ امتحانی مراکز تو ایسے بھی ہیں جہاں دو سو روپے گھنٹہ کے حساب سے نقل کرائی جارہی ہے، اس کے علاوہ پانچ سے دس ہزار روپے دے کر امتحانی کاپی گھر لے جانے کی سہولت بھی دستیاب ہے، جبکہ اپنی جگہ دوسرے شخص کو بٹھانے کی اسکیم بھی جاری ہے۔ پانچ ہزار روپے سے کھولے جانے والے اس ٹینڈر کے تحت آپ کو مخصوص کمرے کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی جہاں قابل اساتذہ آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں گے۔ کسی کاروبار کی طرح میٹرک کے امتحانات کے دوران اسکولوں میں کام کرنے والے افراد اچھی خاصی رقم کماتے ہیں، پانی پلانے والے سے لے کر چوکیدار تک سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔“

عارف خاصی دیر تک بولتا رہا۔ وہ امتحانی مراکز پر ہونے والی کھڑکی توڑ نقل کی تفصیل بتاتے ہوئے انتہائی پُراعتماد دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے جو کچھ بھی کہا اسے ثابت کرنے کے لیے وہ کسی بھی فورم پر جانے کو تیار تھا۔ خیر عارف کو جو کہنا تھا وہ کہہ گیا، لیکن میرا کام ابھی باقی تھا۔ لہٰذا میں نے اس سلسلے اپنے ذرائع سے بھی رابطہ کیا جس پر ایسے ایسے انکشافات ہوئے جنہیں سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔

خاور صاحب ایک عرصے سے کراچی میٹرک بورڈ سے منسلک ہیں، وہ باقاعدہ ملازم تو نہیں لیکن پرائیویٹ طلبہ کے فارم جمع کروانے یا مسائل میں گھرے طلبہ کے اعتراضات دور کروانے کے سلسلے میں ان کا ہر دوسرے روز کراچی میٹرک بورڈ آنا جانا لگا رہتا ہے، اس لیے عارف کی باتوں کی تصدیق کرنے کا میرا واحد ذریعہ وہی ہیں، لہٰذا اسی شام میں خاور صاحب کے گھر چلا گیا اور عارف کی جانب سے کی جانے والی تمام باتیں یا اُس کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات ان کے سامنے رکھ دیے، جسے سن کر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا:

”حیران مت ہوں، وہ بچہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ یہ نئی بات نہیں، حقیقت تم بھی اچھی طرح جانتے ہو۔ بات سیدھی سی ہے، جس تعلیمی بورڈ میں سیکریٹری ہو اور نہ ہی ناظمِ امتحانات.. اس بورڈ میں نفسانفسی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے! گزشتہ کئی برسوں سے یہ دونوں اہم عہدے نگران بٹھا کر چلائے جارہے ہیں، لوگوں کا کہنا ہے کہ چیئرمین میٹرک بورڈ کراچی کے نزدیک ان عہدوں پر مستقل تعیناتی ضروری نہیں، وہ مبینہ طور پر کراچی بورڈ کو گھر کی لونڈی بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں جہاں تک میری رائے ہے، میں سمجھتا ہوں وہ چیزیں بہتر کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے ویژن کی تکمیل میں ان کا اپنا عملہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ اپنے ماتحت عملے سے محبت کا اظہار اپنی زمینوں کے میٹھے آم کھلاکر کرتے ہیں لیکن میٹرک بورڈ کراچی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز اُن ذمہ داران کی جانب نہیں دیکھتے جو دن رات مرغِ مسلّم کھانے میں مصروف ہیں، جنہوں نے اِس مرتبہ بھی باقاعدہ بولیاں لگائیں، اپنے من پسند امتحانی مراکز بنانے کے عوض ستّر ہزار سے ایک لاکھ روپے تک وصول کیے۔ پیسے لے کر آخری وقت تک امتحانی مراکز تبدیل کیے گئے۔ ایک جانب کرپشن کی یہ داستان ہے تو دوسری طرف بدانتظامی اور لاپروائی کے باعث ہزاروں طلبہ ایڈمٹ کارڈ کا اجراء نہ ہونے پر امتحان دینے سے محروم ہوگئے۔ میرے پاس من پسند امتحانی مراکز بنوانے والے اسکولوں اور اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے عہدے داروں کے نام اور موبائل نمبر تک موجود ہیں، میں ایک ایک بات سے باخبر ہوں۔“

عارف اور خاور صاحب کی باتیں سن کر میرے ذہن میں کئی سوالات ابھرنے لگے۔ اس سے پہلے کہ میں ان کا ذکر کروں، یہ بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ خاور صاحب نے جو باتیں کیں وہ اس کے شواہد پیش کرنے کو بھی تیار ہیں۔ وہ نام اور موبائل فون نمبر جن کا ذکر انہوں نے کیا، وہ دینے کو تیار ہیں۔ لہٰذا اگلی تحریر میں اس پر مزید عرق ریزی کروں گا۔ میں اب تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس فارمولے اور کس بنیاد پر بورڈ نے فرمائشی امتحانی مراکز بنائے؟ یا شاید ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی چیئرمین بورڈ کسی کی ناراضی مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ جو بھی ہو لیکن سچ یہ ہے کہ کرپشن اور بدانتظامی جیسے الزامات نے ایک مرتبہ پھر میٹرک بورڈ کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ اربابِ اختیار کو سوچنا ہوگا کہ نقل ایک ایسا روگ ہے جو ملک و ملّت کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے، نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود، ان کے ارادوں کو کمزور، عزائم کو پست اور خودی کو ملیامیٹ کرکے قومی ترقی کی جڑ پر کلہاڑی چلا رہا ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ وہ ادارہ جس کا کام قابلیت کے مطابق سند دینا ہے، وہ، اور چند نام نہاد اساتذہ اس مکروہ کام میں ملوث ہوکر علم دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ نقل کروانے والوں کی تعداد گنی چنی نہیں ہے بلکہ اس گھناؤنے کام کو منظم طور پر انجام دیا جاتا ہے، دیگر مافیاز کی طرح ’’نقل مافیا‘‘ اس کی نگرانی کرتا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ پرچے آؤٹ کروانے میں بورڈ کے چند کارندوں کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سخت نگرانی میں مرتب ہونے والے پرچے آؤٹ ہوجائیں؟ اندرونی عناصر کے ملوث ہوئے بغیر یہ کام کسی طور انجام نہیں دیا جا سکتا۔گلی،محلوں میں پڑے کچرے کی طرح اس نقل کلچر کا بھی کوئی پرسانِ حال نہیں۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ امتحانات میں نقل کے بڑھتے ہوئے رجحان پر جہاں بورڈ انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھیرایا جاسکتا ہے، وہیں والدین اور اساتذہ بھی بچوں کی درست سمت میں راہ نمائی میں ناکام نظر آتے ہیں۔ خصوصاً والدین کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنا محاسبہ کریں کہ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں وہ بچوں سے ان کی نصابی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو یاد رکھنا ہوگا کہ اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین بھی قصوروار ہیں۔ بچوں پر نظر رکھنا ان کی بھی ذمے داری ہے بلکہ یہ ان کا فرض بھی ہے۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ نوجوان علم و عمل کا پیکر ہیں، ان کی کامیابیاں محنت و لگن، جستجو اور جدوجہد سے عبارت ہیں، ان کی ڈگریاں ان کی اپنی محنت اور کاوش کا ثمر ہوتی ہیں، انہی کی کامیابیوں سے ملک و قوم کی عمارت بلند اور مضبوط تر ہوگی۔ یاد رکھیے امتحان میں نقل کرکے جو ڈگری حاصل کی جائے اُس کی حیثیت کاغذ کے پُرزے سے زیادہ نہیں ہوتی، نقل سے ملنے والی کامیابی بھی دیرپا نہیں ہوتی۔ ہم ببول بوکر گلاب کی آرزو نہیں کرسکتے۔ دنیا میں وہی کامیاب ہوئے جنہوں نے تعلیم حاصل کرنے کی جستجو کی۔ ورنہ نقل سے حاصل کی گئی ڈگری کی حیثیت کاغذ کے ایک ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں۔

حصہ