مومن کی فراست

441

بصیرت و بصارت کا ایک اہم واقع امام شافعی رحمہ اللہ سے ہے۔ ہوا یوں کہ جب آپؒ نے تعلیم سے فراغت کے بعد مدینہ واپسی کا ارادہ کیا تو اہلِ بغداد نے آپؒ کو تحفے میں اتنا کچھ دیا کہ آپ کو ان تحائف کو لادنے کے لیے اونٹ اور گھوڑے کی ضرورت پیش آئی۔ کئی دنوں کے سفر کے بعد جب آپ مدینہ کے قریب پہنچے رات ہو گئی۔ ابھی آپ اپنے خادم سے کسی معقول جگہ کی بابت بات کر ہی رہے تھے کہ ایک خوش لباس اور وضع قطع والے شخص نے آپ کو اپنے گھر ٹھہرنے کی دعوت دی۔ آپ نے اس کی دعوت قبول کرتے ہوئے اپنے خادم سے چپکے سے کہا کہ یہ شخص بڑی خسیس اور لالچی طبیعت والا ہے۔

خادم نے حیرت سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کل صبح دیکھ لینا۔ اس شخص نے بہترین کھانا آرام دہ بستر دیا جانوروں کو اصطبل میں رکھ کر ان کا اچھی طرح خیال رکھا۔ صبح ہوئی تو پھر بہتر تواضع کی مگر آپ روانہ ہونے لگے تو ہر چیز کا معاوضہ طلب کیا اور آپ نے اس کے مطالبے سے زیادہ اسے دیا اور اپنے ملازم سے کہا ’’دیکھا یہ شخص کتنا خسیس اور لالچی ہے۔‘‘ یہ تھی آپؒ کی فراست اور بصیرت۔

سید احمد شہیدؒ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے رفقا نے منافقین کی سازشوں کے بارے میں بتایا مگر آپ نے ان پر بھروسہ کیا اور جنگ میں ایسا دھوکا ہوا کہ غفلت میں مجاہدین کی بڑی تعداد شہید ہو گئی اور آپ بھی شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔

پاکستان کی دینی قیادت کالی بھیڑوں کو پہچان نہ سکی اور ان کے ماضی کو جانے بغیر ان کو نہ صرف اپنی صفوں میں شامل کیا بلکہ ان کو بڑے مناصب بھی دیے گئے۔ ماضی و حال کی ایک لمبی فہرست ہے۔

حسین حقانی، محمد علی درانی، اسد قیصر، اعجاز چودھری تو ہمارے کاندھوں پر بیٹھ کر بڑے ہوئے اور آج اپنی مخفی فطرت کے ذریعے ہمارے بال نوچ رہے ہیں۔ ہمیں تو نواز شریف میں صلاح الدین ایوبی نظر آرہا تھا، عمران خان کا کیا شاندار استقبال کیا گیا اور ہمارے جلسوں میں پہلی تقریر بھی کرتا تھا جب کہ وہ عالمی شہرت یافتہ پلے بوائے تھا اور اب تو اس کے بڑھاپے کی بدکاریوں کے چرچے بھی عام ہیں اور اس کا نکاح پڑھانے والا قاضی بھی عدالت میں اس کی بدکاری کی گواہی دے رہا ہے۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

بڑے بوڑھے تو کہتے ہیں پوت کے پاؤں پالنے میں دیکھ کر پتا چل جاتا ہے۔ یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ:

باپ پہ پوت پتا پہ گھوڑا
کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا

خدارا کسی کی شہرت اور اس کے گرد لوگوں کا ہجوم دیکھ کر اپنی قلتِ تعداد کو مت کوسو۔ جو کوٹھا جتنا بدنام ہوتا ہے اس کی دہلیز پر اتنی ہی زیادہ بھیڑ ہوتی ہے۔ جس غنڈے کی غنڈہ گردی کے چرچے عام ہوتے ہیں اس کے پاس موالی زیادہ ہوتے ہیں۔

ایک بدو طوافِ کعبہ کے دوران بلند آواز سے یہ دعا کر رہا تھا ’’اے اللہ! مجھے قلیلوں میں کر دے۔‘‘

طواف کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بلا کر پوچھا ’’تو یہ کیسی دعا مانگ رہا تھا؟‘‘

بدو نے جواب دیا ’’کیا آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا کہ جنت میں بہت تھوڑے لوگ جائیں گے‘ میں ان تھوڑے لوگوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔‘‘

خدارا ایسی مصالحانہ کوششوں سے بعض آجائیں جن کی بدولت فاسق و فاجر، خائن و بد دیانت لوگوں کی حکمرانی کے لیے باریاں بدلتی رہیں۔ ہم نے اس ملک کو بچانے کے لیے ہزاروں لعل و گہر کو قربان کیا ہے۔ یہ کام ان کو کرنے دیجیے جو اس کے ٹھیکے دار ہیں۔ آج بنگلہ دیش میں ہم پہلے سے زیادہ اس لیے مضبوط ہیں کہ:

آتش عشق کو ابھی اور تپانے دو
ممکن ہے کہ بن جائے یہ کھوٹا کھرا سونا

ہمارے ملک میں فحاشی اور بے دینی کا سیلاب ہے۔ تعلیم گاہیں نوجوان نسل کے لیے مذبح میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ ہمارے نوجوان تعلیمی میدان میں مہارت سے محروم ہیں۔ تطہیرِ افکار و نظریات اور تعمیر سیرت وکردار کے کام کو کب کا پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سیمیناروں اور تربیت گاہوں میں ایک دن میں پانچ پانچ تقریروں کی گھونٹی پلا کر معاملات کی پختگی اور نظریاتی شعور اگر ہو گیا ہوتا تو یہ نوبت نہیں آتی۔ معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ میں ایک کمزور آدمی ہوں اور عمر کے حصے میں یہ سمجھ پایا ہوں کہ جو شعوری ہیں وہ معذوری کے شکار ہیں۔

دل کے ٹکڑے کٹ کٹ کر جب آنسو میں بہ جائے ہے
تب کوئی فرہاد بنے تب مجنوں کہلائے ہے
صدائے درویش ہے مانو تو دیو نہیں تو پتھر

حصہ