موجِ سخن ادبی فورم کا مشاعرہ

298

گزشتہ ہفتے موجِ سخن ادبی فورم نے خالد میر کی رہائش گاہ پر کینیڈا سے تشریف لائی ہوئی شاعرہ پروین سلطانہ صبا کے اعزاز میں مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدار فراست رضوی نے کی۔ رفیع الدین راز‘ سعید الظفر صدیقی اور رفیق ساگر مہمانانِ خصوصی تھے۔مہمانانِ اعزازی میں اختر سعیدی‘ فیاض علی فیاض‘ محمد طارق‘ بشیر سدوزئی‘ رشید صارف اور ندیم خاور شامل تھے۔ یاسر سعید صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ نظر فاطمی نے تلاوت کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی۔ نسیم شیخ نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ آج کے مشاعرے میں کراچی کے علاوہ حیدرآباد کے کچھ شعرا بھی شامل ہیں۔ دبستانِ کراچی شاعری کے اعتبار سے انتہائی معتبر ہے کہ یہاںبہت عمدہ شاعری ہورہی ہے انہوں نے مزید کہا کہ پروین سلطانہ صبا ایک کہنہ مشق شاعرہ ہیں ان کی شعری مجموعے اردو ادب میں امل ہیں انہوںنے اپنی شاعری میں زندگی کے تمام روّیوں کو برتا ہے‘ ان کے کلام میںگہرائی‘ گیرائی اور غنایت موجود ہے۔ انہوں نے نسائی مسائل پر کھل کر بات کی ہے۔ انہوں نے ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ فراست رضوی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ پروین سلطانہ صبا کی شاعری سچی شاعری ہے‘ انہوں نے اپنی ذات کو زندہ رکھنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ یہ وسیع المطالعہ شخصیت ہیں اور جدید ویژن کی مالک ہیں‘ یہ زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہیں‘ ان کی ترقی کا سفر جاری ہے‘ ان کی شاعری میں زندگی رواں دواں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1936ء میں ترقی پسند تحریک نے اردو ادب کو نئے نئے مضامین دیے اس تحریک کے ذریعے شاعری میں بھی انقلابی رجحانات پیدا ہوئے۔ شعرائے کرام نے زندگی کے مسائل لکھے گل و بلبل کے افسانوں کا خاتمہ ہوا۔ نظم نگاری کی ترقی ہوئی اس تحریک کا اثر آج بھی موجود ہے کہ ہمارے دور کے شعرا جدید لفظیات اور جدید استعارے استعمال کر رہے ہیں۔ پروین سلطانہ صبا نے کہا کہ وہ کراچی کی شہری ہیں‘ وہ جب بھی یہاں آتی ہیں انہیں بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے یہاں کے شعرا شاعری کے تمام عنوانات پر بات کر رہے ہیں نوجوان نسل شعرا بھی بہت اچھے اشعار کہہ رہے ہیں۔ آج کا مشاعرہ کامیاب ہے جس کا سہرا موجِ سخن ادبی فورم کے بانی نسیم شیخ کو جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری رہائش کینیڈا میں ہے میں وہاںکے مسائل بھی لکھ رہی ہوں لیکن میں پاکستان کے بارے میں لکھتی ہوں کہ یہ ہمارا ملک ہے اس کی ترقی سے ہماری خوش حالی مشروط ہے۔ اس مشاعرے میں فراست رضوی‘ رفیع الدین راز‘ سعید الظفر صدیقی‘ پروین سلطانہ صبا‘ رفیق ساگر‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی فیاض‘ رشید صارف‘ ندیم خاور‘ ریحانہ روحی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ مقبول زیدی‘ یاسر سعید صدیقی‘ نسیم شیخ‘ خالد میر‘ ریاض ساگر‘ حیدر حسنین جلیسی‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ حکیم ناصف‘ نظر فاطمی‘ شائق شہاب‘ شمیم چوہدری اور باقر عباس فائز نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

نیاز مندان کراچی کا سلام پاکستان مشاعرہ
ادبی تنظیم نیاز مندان کراچی نے فاطمہ زہرہ کی سرپرستی میں فاران کلب گلشن اقبال کراچی میں پاکستان سے اظہار محبت و عقیدت کے طور پر ’’سلام پاکستان‘‘ مشاعرہ ترتیب دیا پروفیسر سحر انصاری صدر مشاعرہ تھے۔ گلنار آفرین اور نجمہ عثمان مہمانانِ خصوصی تھیں۔ مہمانانِ اعزازی میں افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی ایڈووکیٹ شامل تھے ڈاکٹر نزہت عباسی اور تنویر سخن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ نظر فاطمی نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی جب کہ عابد شیروانی نے نعتِ رسولؐ پیش کی۔ پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ پاکستان سے محبت کرنا ہم سب کا فرض ہے‘ یہ وطن ہماری آزادی کا ضامن ہے‘ ہم نے طویل عرصے تک انگریزوں کی غلامی کی‘ ان کے مظالم برداشت کی‘ 14 اگست 1947ء کو ہم آزاد ہوئے اور پاکستان قائم ہوا۔ قیام پاکستان کی تحریک میں آزادی کے تمام شعبے فعال تھے‘ شعرائے کرام نے بھی عوام الناس کے دلوں میں آزادی کی جوت جگائی‘ ان میں جوش و ولولہ پیدا کیا۔ پاکستان کے قیام میں شعرا کے کردار سے انکار ممکن نہیں‘ آج پاکستان مشکلات سے گزر رہا ہے ہم سب کا فرض ہے کہ ہم متحد ہو کر دشمن کی چالوں کا مقابلہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ 23 مارچ 1940ء ایک یادگار دن ہے کہ جس دن ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان بنانے کا عزم کیا اور آزادی کی جدوجہد میں بے شمار قربانیاں پیش کیں۔ آخر کار مسلمانوںنے 14 اگست 1947 کو پاکستان بنا لیا آج ہم آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں‘ ہماری آزادی کے دشمن ہماری تاک میں ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم پاکستان کی حفاظت کریں۔ الطاف احمد نے کلماتِ تشکر ادا کیا انہوں نے کہا کہ نیاز مندانِ کراچی وہ ادبی تنظیم ہے جو نظر انداز قلم کاروں کے لیے کام کر رہی ہے۔ مشاعرے میں پروفیسر سحر انصاری‘ گلنار آفرین‘ نجمہ عثمان‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ ریحانہ روحی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ مقبول زیدی‘ حیدر حسنین جلیسی‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ نسیم شیخ‘ نظر فاطمی‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ روبینہ تحسین بینا‘ زینت کوثر لاکھانی‘ وقار زیدی‘ رانا خالد محمود‘ شائستہ سحر‘ شاہد اقبال‘ تنویر سخن‘ کاوش کاظمی‘ شہناز رضوی‘ یاسر سعید صدیقی‘ شجاع الزماں شاد‘ شائق شہاب‘ شازیہ عالم‘ چاند علی‘ احسان سبز اور عفت مسعود نے اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ