ہندو کیلئے پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے

509

مولانا شاہ احمد نورانی کا ایک یادگار انٹریو

مولانا شاہ احمد نورانی سے ان کی زندگی میں میرا ایک عجیب احترام و بے زاری کا رشتہ استوار رہا۔ پس منظر اس قضیے کا یہ ہے کہ روزنامہ جسارت سے محمد صلاح الدین صاحب کے استعفے کے بعد میں نے بھی اس اخبار کو خیرباد کہہ دیا۔ پھر جمیل الدین عالی صاحب کی مہربانی سے میںجنگ سے بحیثیت کالم نگار وابستہ ہوگیا۔ چونکہ جسارت کے زمانۂ کالم نگاری میں مجھے لکھنے کی مکمل آزادی حاصل تھی‘ لہٰذا عادت خراب ہو چکی تھی۔ قطعی اندازہ نہ تھا کہ جنگ میں ایسی آزادی پریشان کن ثابت ہو سکتی ہے۔ جنگ کثیر الاشاعت اخبار تھا اور اس میں چھپنے والے ایک ایک فقرے کا نوٹس لیا جاتا تھا۔ اسی بے خبری میں ایک فقرے نے روزنامہ جنگ سے میرا تعلق ہی منقطع نہ کیا‘ شدید ذہنی اذیت اور کوفت سے بھی مجھے گزرنا پڑا۔ اس کی تفصیل میں اپنے خاکے ’’میر صاحب کا صحافتی مزاج‘‘ (مشمولہ ’’کوئے دلبراں‘‘ شخصی خاکوں کا مجموعہ) میں بیان کر چکا ہوں۔

مختصراً یہ کہ ایک کالم میں اس خاکسار نے ایک فقرہ مولانا شاہ احمد نورانی کے بارے میں لکھ مارا۔ زمانہ جنرل ضیا کا تھا اور ہمارے مولانا نورانی‘ میاں طفیل محمد امیر جماعت اسلامی سے سخت برگشتہ تھے کہ میاں صاحب جنرل صاحب کی ’’اسلام پسندی‘‘ کی وجہ سے ان کے زبردست حامی تھے۔ مولانا نورانی آئے دن جماعت اور میاں صاحب کے خلاف بیانات داغتے رہتے تھے۔ کالم میں فقط ایک فقرہ تھا‘ جو مولانا کی جماعت سے بے زاری کو ظاہر کرتا تھا۔ فقرے کا چھپنا تھا کہ قیامت آگئی۔ مولانا نورانی نے اگلے دن دوران پریس کانفرنس میر خلیل الرحمن کو اس بات پر بری طرح لتاڑا کہ انہوں نے جسارت کے ایک کالم نگار کو اپنے اخبار میں لکھنے کا موقع دے کر جنگ کو جماعت کی تحویل میں دے دیا ہے۔ حالانکہ جسارت میں ملازمت کے علاوہ میرا جماعت سے کبھی کوئی رشتہ ناتا رہا ہی نہیں تھا۔ جسارت میں اگر میں نے ملازمت کی تھی تو اس کی وجہ میرے استاد پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ تھے‘ جو سیاست کے اداریہ نویس تھے اور اس کے بعد صلاح الدین صاحب۔ چنانچہ ہر دو حضرات کے ساتھ ہی میں بھی اس اخبار سے علیحدہ ہوچکا تھا۔ مولانا نورانی کا یہ بیان کسی اور اخبار نویس نے تو چھاپا نہیں۔ نوائے وقت کراچی سے نیا نیا نکلا تھا۔ جنگ سے چپقلش چل رہی تھی۔ وہاں کے ایک رپورٹر جو ہمارے دیرینہ دوست تھے یا عادتاً خوش گمانی کی بنا پر ہم انہیں اپنا دوست سمجھتے تھے‘ ان دنوں نوائے وقت میں سیاسی رپورٹنگ پر مامور تھے۔ کیا عجب کہ ہمارے ان بظاہر دوست کو جنگ میں ہماری کالم نگاری کھٹک رہی ہو یا مولانا نورانی کی خوشنودی مطلوب ہو۔ چنانچہ انہوں نے مولانا نورانی کے بیان کو نمک مرچ لگا کر صفحہ اوّل پر تین کالمی شائع کر دیا سرخی کچھ اس قسم کی تھی:

’’میر خلیل الرحمن! جنگ کا منیجنگ ڈائریکٹر محمود اعظم فاروقی کو بنا دیں‘ مولانا نورانی‘‘

میر صاحب مرحوم کی نظر اگلے دن اس سرخی پر پڑی تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ برافروختہ ہو کر انہوں نے میرے کالم چھاپنے بند کردیے۔ سوئے اتفاق سے اسی ہفتے مولانا نورانی کے لختِ جگر انس نورانی ایک خوف ناک حادثے کا شکار ہوئے۔ میں ’’ہیرلڈ‘‘ کے رپورٹر ادریس بختیار کے ہمراہ ملاقات کے لیے مولانا نورانی کے دست راست اور رفیق خاص پروفیسر شاہ فریدالحق کے پاس گیا‘ باتوں باتوں میں انہوں نے مجھے پیش کش کی کہ اگر میں چاہوں تو وہ میری کالم نگاری کی بحالی کے لیے میر صاحب سے گفتگو کر کے انہیں آمادہ کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ بقول ان کے وہ میر صاحب کے بڑے صاحبزادے میر جاوید الرحمن کے استاد رہ چکے تھے۔ میں نے معذرت کی اور واضح کیا کہ ان سے ملاقات کا ہرگز یہ مقصد نہیں۔

اس واقعے کے ایک طویل عرصے بعد میں نوائے وقت سے وابستہ ہو کر انٹرویو نگاری پر مامور ہوا تو ایک دن مولانا نورانی کے انٹرویو کا خیال آیا۔فون کیا تو نہایت شفقت سے مدعا سن کر انٹرویو دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ صدر میں واقع ان کے سادہ سے گھر کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا تو مولانا کو منتظر پایا۔ میں اسی شش و پنج میں تھا کہ خدا جانے مولانا نے پہچانا یا نہیں کیوں کہ پچھلے واقعے کا ذکر میں نے کیا اور نہ انہوں نے ہی اپنے کسی روّیے سے شناسائی کا تاثر دیا۔ زمانہ بدل چکا تھا‘ جماعت کی قیادت صلحِ کُل کی پالیسی پر گامزن قاضی حسین احمد کے ہاتھوں میں تھی‘ جنہوں نے مولانا نورانی کو اپنے مخلصانہ اور منکسرانہ رویے سے قائل و گھائل کر رکھا تھا۔ انٹرویو ختم ہوا تو مولانا نے آہستگی سے پوچھا ’’آج کل آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ اس سوال میں بھولی بسری شناسائی کی ایک مہک سی تھی۔ مختصر سا جواب دے کر میں نے اجازت لی۔ پھر ایک صبح اخبار سے ان کی دنیا سے رحلت کی خبر ملی۔ دکھ ہوا‘ مولانا مرحوم کے لیے میرے دل میں اگر کوئی تلخی تھی تو وہ کب کی ختم ہو چکی تھی کیوں کہ بعد میں جس جرأت اور عزیمت سے ایک لسانی تنظیم کی فسطائیت کے سامنے وہ کھڑے رہے اور یہ ثابت کیا کہ وہ خدا کے علاوہ کسی فرعونِ وقت سے نہیں ڈرتے۔ کراچی کے سعود آباد گرائونڈ میں ان کے جلسے کو اکھاڑنے کے لیے اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں‘ جلسہ گاہ میں بھگدڑ مچی‘ حاضرینِِ جلسہ جان بچا کر فرار ہوئے لیکن مولانا نہایت بے باکی اور استقامت سے وہاں موجود رہے۔ مجال ہے جو موت کا خوف انہیں چھو کر بھی گزرا ہو۔ کراچی میں جو برسوں تک اندھی عصبیت کی آگ میں جلتا رہا۔ مولانا مرحوم جیسی حق گو‘ جرات مند و بے باک شخصیتوں کی وجہ سے اس شہر کی آبرو کسی نہ کسی حد تک محفوظ رہی۔ خداوند تعالیٰ انہیں اپنے جوار میں جگہ دے‘ نہایت روشن دماغ‘ سیاسی بصیرت کے حامل اور ملک و ملت کا درد رکھنے والے عوام کے سچے بہی خواہ تھے۔ ہر چند کہ اس انٹرویو کے بعض مباحث ازکار رفتہ ہو چکے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی یہ آج بھی لائق مطالعہ ہے کہ اس میں مولانا کا وژن قومی و عالمی مسائل پر پوری شدت و حدت کے ساتھ نمایاں ہے۔

طاہر مسعود: آپ نے اپنی جماعت کی صدارت سے استفعیٰ کیوں دے دیا‘ کیا آپ تھک گئے تھے یا بورس یلسن کی طرح نئی قیادت کے لیے راستہ صاف کرنا چاہتے تھے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: الحمدللہ! آپس میں کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ مجلس عاملہ سے شوریٰ سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مقصد اور نیت صرف یہ تھی کہ صدارت کے منصب پر اٹھائیس سال ہو گئے اور حالات تیزی سے بدل رہے ہیں‘ کچھ اچھے لوگوں کو آگے آنا چاہیے اور جو لوگ آگے آنا چاہتے ہوں وہ یہ محسوس نہ کریں کہ ہمارے راستے میں کوئی رکاوٹ ہے۔ اٹھائیس برس کا عرصہ بہت ہوتا ہے‘ ہمارے ہاں ہر تین سال بعد انتخابات ہوتے ہیں‘ اسی طرح اپریل میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ پارٹی میں دو مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک سال کے لیے انتخابات ملتوی ہوئے‘ اسی زمانے میں جنرل ضیا الحق کا مارشل لا تھا ورنہ پارٹی میں پابندی سے انتخابات ہوتے رہے ہیں۔

طاہر مسعود: ہمارے ہاں اس کی روایت مستحکم نہیں ہے کہ کوئی پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دے۔ ہوتا یہی ہے کہ جو ایک مرتبہ صدر بن جائے وہ تاحیات صدر رہتا ہے بلکہ پارٹی اس سیاست دان کا دوسرا نام بن جاتی ہے۔

مولانا شاہ احمد نورانی: اس تاثر کو بھی غلط ثابت کرنا تھا کہ ہم پارٹی کے عہدے سے چمٹے ہیں بلکہ یہ ثابت کرنا تھا کہ پارٹی کا تشخص اپنی جگہ ہے‘ اسے کسی ایک شخص کے نام سے وابستہ نہیں ہونا چاہیے۔ جِمعیت علمائے پاکستان تو نظام مصطفی کی جدوجہد کی ایک علامت ہے‘ یہی اس کا منشور ہے‘ صدارت سے ہٹنے کا مقصد یہی ہے کہ پیچھے رہنے والے آگے آئیں اور صوبہ سرحد کے انتخابات ابھی نہیں ہوئے ہیں۔ بلوچستان اور پنجاب کے ہو چکے ہیں۔ ان دونوں انتخابات کے بعد مرکز کے انتخابات ہوں گے۔

طاہر مسعود: اگر پارٹی آپ کو دوبارہ صدر منتخب کر لیتی ہے تو اس صورت میں کیا ہوگا؟

مولانا شاہ احمد نورانی: اب تک تو میرا حتمی فیصلہ یہی ہے کہ آئندہ مجھے صدر نہیں ہونا ہے۔ میں اس فیصلے پر ابھی تک قائم ہوں۔

طاہر مسعود: پارٹی میں کوئی ایسی شخصیت موجود ہے جس پر آپ کی موجودگی میں اتفاق رائے ہو جائے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: لوگ آئیں گے اور ان شاء اللہ اتفاق رائے ہو جائے گا۔

طاہر مسعود: ہر چند آپ نے تردید کی ہے لیکن ایک حلقے کا تاثر ہے کہ آپ نے پارٹی کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے استعفیٰ دیا ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: اندرونی اختلافات کوئی نہیں ہیں‘ اگر ہوتے تو منظر عام پر آجاتے اور اس کے نتیجے میں‘ میں استعفیٰ دے دیتا‘ لیکن ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ اخبار میں بھی ایسی کوئی خبر نہیں آئی‘ نہ کسی کا بیان آیا کہ 28 برس ہو گئے صدارت کا عہدہ کیوں نہیں چھوڑتے وغیرہ۔ یہ تو میرا اپنا فیصلہ ہے اگر میں صدر رہتا تو ابھی بزرگوں کا ادب و احترام ہے۔ لوگ کہتے بھئی اسی کو چلنے دو‘ جب مر جائیں گے تبھی سوچیں گے (قہقہہ) میں نے کہا نہیں مرنے سے پہلے سوچ لیں۔

طاہر مسعود: موجودہ سیاسی صورت حال کو آپ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ جو کچھ قومی سطح پر ہو رہا ہے کیا آپ اس سے مطمئن ہیں یا اس میں تشویش کے بھی کچھ پہلو ہیں؟

مولانا شاہ احمد نورانی: موجودہ سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے (ٹھہر کر) جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ مثلاً یہ کہ 12 اکتوبر کو جو سانحہ رونما ہوا‘ بظاہر اس کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا‘ جو صورت حال بتائی جاتی ہے وہ واقعی تھی یا نہیں تھی‘ چونکہ یہ معاملات ابھی عدالت میں ہیں اس لیے ہمیں عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ہمارے جنرل صاحب نے جو کچھ فرمایا وہ اپنی جگہ بجا ہے۔ انہوں نے ایک پیکج بھی دیا ہے۔ ان کا سات نکاتی ایجنڈا تھا جس میں صوبوں اور مرکز کے درمیان تعلقات‘ ملک کی مخدوش اقتصادی صورت حال وغیرہ۔ یہ باتیں ان کے سات نکاتی ایجنڈے میں موجود تھیں۔ دوسرے یہ کہ سب سے تشویش ناک بات یہ تھی کہ ان کے سات نکاتی ایجنڈے میں سی ٹی بی ٹی کا کوئی تذکرہ نہیں تھا جس پر اب زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ احتساب بھی ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا اور احتساب بھی ایسا کہ واقعی معلوم ہو کہ احتساب ہو رہا ہے۔ ماضی میں بھی احتساب بہرحال ہوا لیکن ملک بھر میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ یک طرفہ احتساب ہو رہا ہے لیکن جنرل صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد بعض چیزیں ایسی تھیں جن پر لوگوں کو ابھی تک تشویش ہے۔ پہلی بنیادی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے فوج کے بجٹ میں رضا کارانہ طور پر سات ارب روپے کی تخفیف کی۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہندوستان کے بجٹ میں اضافہ ہوا ہے جب کہ ہم نے اپنے بجٹ میں کمی کی ہے اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ہم اور ہندوستان بالکل حالتِ جنگ میں ہیں۔ یہ بالکل وہ حالات ہیں کہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے 71ء میں جو صورت حال پیدا ہو گئی تھی‘ آج کشمیر کی وجہ سے وہی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ ایسے میں بجٹ کی تخفیف سے شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ مغربی ممالک اور اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ اتنی بڑی فوج رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس لیے بجٹ میں کمی کی جائے‘ آپ مقروض ملک ہیں وغیرہ۔ جنرل صاحب نے رضا کارانہ طور پر جو کچھ کیا اس سے شبہات پیدا ہوئے اور ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ اس وقت زیادہ سے زیادہ زور سی ٹی بی ٹی پر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سی ٹی بی ٹی یہ ہماری خودکشی کا معاہدہ ہے۔ پاکستان کو اس پوزیشن میں لایا جائے کہ ہاتھ پیر باندھ کر دشمن کے سامنے ڈال دیا جائے اور دشمن جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے لیکن اس کی افادیت کا ایک طرفہ پروپیگنڈہ ریڈیو اور ٹی وی پر حکومت کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ نہ یہ جنرل صاحب کے ایجنڈے پر تھا‘ نہ اس کی کوئی خاص ضرورت تھی کہ اس پر اتنا زیادہ زور دیا جائے۔ امریکہ کی سینیٹ نے اس کو مسترد کرکے اسے ایک مردہ معاہدہ قرار دے دیا ہے جس کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ امریکہ جیسا ملک جس نے ہزار سے زیادہ ٹیسٹ کیے ہوں اس کی سینیٹ نے اسے رد کر دیا ہے۔ اس معاہدے میں ٹیسٹ پر پابندی ہے۔ یہ ابتدائی مرحلہ ہے اگلے مرحلے میں اسے بالکل رول بیک کرنا اور تیسرے مرحلے میں اسے بالکل ہی ختم کرنا ہے۔ امریکہ جیسے ملک نے یہ احساس کیا کہ ہم اپنے تجربات پر پابندی نہیں لگا سکتے تو ہم تو ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ ابھی تو ہم نے صرف چھ دھماکے کیے ہیں‘ ابھی تو مزید دھماکوں کی ضرورت ہے۔ اگر اس پابندی کو قبول کر لیں تو یہ اپنے ایٹمی پروگرام سے دست برداری ہی سمجھا جائے گا۔ اس سلسلے میں جس طرز پر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس سے دشمن کے عزائم کی تکمیل ہو رہی ہے اور یہ سازش ہے جو امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت مل کر ہمارے خلاف کر رہے ہیں اور ہمیں جس جال میں پھنسانا چاہتے ہیں‘ وہ جال ہمارے ہی ذریعے بچھایا جارہا ہے۔ سی ٹی بی ٹی کی افادیت پر جس پہلو سے بھی غور کیا جائے‘ اس میں ملک و قوم کی کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان نے بھی اسے منظور کر لیا تو ہم تنہا رہ جائیں گے۔ عالمی برادری سے کٹ کر رہ جائیں گے تو ہم ختم ہو جائیں گے۔ اصل میں عالمی برادری کی منظوری سے پاکستان نہیں بنا تھا۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور اسے برصغیر کے مسلمانوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائداعظم کی قابلِ فخر قیادت میں حاصل کیا تھا۔ مسلمانوں کے علاوہ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ یہ معرض وجود میں آئے۔ کشمیر کا مسئلہ جان بوجھ کر پیدا کیا گیا۔ اس وقت مسئلہ کشمیر بھی ہمارے سامنے ہے اور ہندو ذہنیت بھی۔ ہندو ذہنیت کو سمجھنے کے لیے زیادہ تکلفات کی ضرورت نہیں ہے۔ محمد بن قاسمؒ کی آمد کے بعد سے آج تک ہر دور میں ہماری ہندو سے لڑائی ہوتی رہی ہے۔ ہندوستان کا پڑھا لکھا ہندو ہو یا ان پڑھ‘ ذہن سب کا ایک ہی ہے کہ مسلمانوں کو مٹانا ہے اور خاص طور پر قیام پاکستان کے بعد سے ان کے دل کے پھپھولے کچھ زیادہ ہی ہو گئے ہیں۔ اس کی مثال دیتا ہوں کہ جب ایک سازش کے تحت ڈھاکا میں ہماری فوجوں سے ہتھیار ڈلوائے گئے تو اندرا گاندھی نے بیان دیا کہ ہم نے ہزار سالہ شکست کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی نظیرے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ یہ ہندوستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیراعظم کا ذہن ہے۔ اس کے ذہن میں ایک ہزار سالہ شکست کا زخم تازہ تھا اور اس زخم کو آج تک وہ چاٹ رہے ہیں اور دو قومی نظریہ ان کو کھَلتا ہے۔ ہندو کے لیے پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے۔ ایسی صورت میں اپنے آپ کو بے دست و پا کرنا کس طرح مناسب ہے۔ روایتی ہتھیار میں ہندوستان کو بالادستی حاصل ہے کیوں کہ بہرحال بڑا ملک ہے۔ تقریباً بیالیس سے زیادہ تو آرڈیننس فیکٹریاں وہاں کام کر رہی ہیں۔ ان کے مقابلے میں آرڈیننس فیکٹریاں ہمارے پاس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے میں یہی ایک ایٹمی ڈیٹرنٹ ہے جس سے ہم اپنے ملک کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ سیاست دان آپس میں لڑتے رہے‘ کرپشن رہا‘ سیاست دانوں نے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ ایک معجزہ ہوا کہ کچھ لوگ ایٹم بم بنانے میںلگے رہے اور بالآخر ایٹم بمِ بن گیا۔ جس طرح 27 رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی صورت میں ایک نعمت دی‘ اسی طرح پچاس سال بعد یہ نعمت عطا کی کہ لو بھئی اس ملک کی حفاظت کر سکتے ہو تو کرو۔ وہ حفاظت کا ہتھیار جو ہمیں ملا ہے وہ بھی ہم دشمن کے ہاتھ میں دے دیں۔ سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کے بعد ہمارے جتنے بھی دفاعی راز ہیں وہ سب کھل جائیں گے اس لیے کہ وہ مانیٹرنگ کریں گے اور مانیٹرنگ کرنے کے لیے امریکہ بہادر آگے آگے ہے۔ اقوام متحدہ کی اس میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ دیکھ لیجیے عراق میں کیا ہو رہا ہے؟ یوگوسلاویہ میں جو بم باری کی وہ بھی اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر ہوا۔ امریکہ اور برطانیہ کے ہوائی جہاز عراق پر روزانہ بم باری کرتے ہیں‘ اس کا حکم کب اقوام متحدہ نے دیا ہے‘ اس لیے اقوام متحدہ کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم اگر دستخط کر دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اقوام متحدہ ہے وہ یہ کرے گا اور وہ کرے گا‘ ایسا کچھ نہیں ہوگا‘ امریکہ بہادر بیچ میں کود پڑے گا اور جتنے ہمارے راز ہائے سربستہ ہیں‘ وہ سب امریکہ کے قبضے میں ہوں گے اور امریکہ کے پاس ہونے کے معنی یہ ہیں کہ بھارت اور اسرائیل کے پاس ہمارے راز ہوں گے۔ یہ کفر‘ ملت واحدہ ہے‘ یہ سب ایک چال ہے کہ عالمِ اسلام کی یہ پہلی ایٹمی قوت اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے والا یہ قلعہ کسی طرح اس میں دراڑیں ڈالی جائیں اور اس پر قابض ہوا جائے۔ یہ سارا پلان ہے‘ اب اگر جنرل صاحب سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرتے ہیں تو اس کے پیچھے ایک اور سازش ہے کہ امریکہ اور اسلام دشمن قوتوں کو یہ معلوم ہے کہ پاکستان کے عوام کو اپنی افواج سے والہانہ محبت ہے اور اس کے اقدامات کو وہ آنکھیں بند کرکے قبول کر لیتے ہیں لیکن سی ٹی بی ٹی کا ایسا مسئلہ ہے کہ اس کی وجہ سے عوام میں غلط فہمیاں پیدا ہو جائیں گی کہ یہ دفاعی ہتھیار ہے۔ فوج اس سے دست بردار ہوگئی تو فوج میں اور عوام میں غلط فہمیاں پیدا ہو جائیں گی‘ فاصلے بڑھ جائیں گے اور یہی ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ عوام میں اور فوج میں فاصلے بڑھ جائیں اور پھر ملک میں انارکی پھیلائی جاسکے۔ عدم استحکام پیدا کیا جائے۔ عوامی جذبات فوج سے ٹکرانے لگیں اور فوج جیسے ادارے کو متنازع بنایا جائے اس لیے کہ مقننہ یا قومی اسمبلی کے بارے میں جو عوامی رائے ہے کہ یہ راشی اور کرپٹ لوگ ہیں‘ دیگر اداروں کے بارے میں بھی ایسی ہی رائے ہے۔ فوج واحد ادارہ ہے جس کے بارے میں عوام سمجھتے ہیں کہ یہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے علاوہ اس کی جغرافیائی سرحدوں کی بھی محافظ ہے۔ سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے معنی یہ ہیں کہ فوج اور عوام میں خلیج پیدا کرنے کی جو سازشیں اسلام دشمن قوتیں کر رہی ہیں‘ وہ اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں اور یہ ملک کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ میں سمجھتا ہوںکہ موجودہ حکومت نے غیر ضروری طور پر سی ٹی بی ٹی کے حق میں مہم شروع کی ہوئی ہے مثلاً ہندستان سے جب سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی ہم انتخابات میں مصروف ہیں جب انتخابات سے فارغ ہوں گے تو دیکھیں گے۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہم ابھی رائے عامہ کا جائزہ لے رہے ہیں وغیرہ۔ ہمارے لیے بھی بڑا اچھا موقع ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ابھی الیکشن کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب الیکشن ہو کر نئی پارلیمنٹ سامنے آئے گی تو وہی اس فیصلے کی مجاز ہوگی۔ اس کو کشمیر کے مسئلے سے بھی منسلک کرسکتے ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو‘ الیکشن بھی نہ ہو‘ عوامی تائید بھی حاصل نہ ہو اور یک طرفہ فیصلہ ہو تو ظاہر ہے اس سے نقصان ہی ہوگا۔

طاہر مسعود: اچھا ایک سوال سی ٹی بی ٹی سے ہٹ کر۔ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے خلاف تو سیاست دانوں میں بہت ردعمل پایا جاتا تھا لیکن جنرل پرویز مشرف کے غیر اعلانیہ مارشل لا کے خلاف سیاست دانوں کا مجموعی تاثر حمایت کا یا مصلحت آمیز خاموشی کا ہے… کیوں؟

مولانا شاہ احمد نورانی: جنرل ایوب خان نے جب 1958ء میں مارشل لا لگایا تو ملک میں مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔ اس لیے انہوں نے آنے ساتھ ہی سونا پکڑو‘ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروںکو پکڑو اور ایسا ہوا بھی لیکن بعد میں صدر ایوب کے بعض اقدامات کی وجہ سے جس میں ان کے خاندان کا کرپشن میں ملوث ہونا شامل تھا‘ ان کے خلاف عوامی نفرت بڑھتی گئی۔ بنیادی جمہوریتوںکا جو نظام انہوں نے دیا تھا‘ وہ بے کار تھا۔ اس میں عوامی عمل دخل بالکل نہیں تھا۔ جنرل یحییٰ کے بارے میں لوگوں کو معلوم تھا کہ یہ عیاش اور بدکار جنرل ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی وجہ سے اس کے خلاف نفرت اور بڑھ گئی۔ جنرل ضیا الحق شروع میں یہ کہہ کر برسراقتدار آئے کہ نظام مصطفی کی جو تحریک چلی تھی‘ ہم ملک کو اسی پٹڑی پر رکھنا چاہتے ہیں اور نوے دن کے بعد انتخابات کرا دیں گے۔ میں آج سے تاریخ گننا شروع کرتا ہوں‘ اب اتنے دن رہ گئے ہیں اور اب اتنے دن باقی ہیں۔ اس کے بعد وہ نوے دن بڑھتے بڑھتے گیارہ سال پر محیط ہو گئے۔ پہلے تو لوگوں کو یہ تاثر تھا کہ یہ انتخابات کرائیں گے۔ ظاہر ہے کہ انتخابات میں چونکہ دھاندلی ہوئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ میں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کروائوں گا تو لوگوں کو یقین آگیا۔ پھر یہ وجہ بھی تھی کہ لوگوں کو معلوم تھا کہ نمازی اور پرہیزگار آدمی ہیں اور اپنے وعدے کو پور کریںگے لیکن کبھی انہوں نے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ ان کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک چلی لیکن ان کے اقدامات سے فوج کے خلاف کوئی نفرت پیدا نہیں ہوئی۔ ان کے فعل کو ان کا ذاتی فعل سمجھا گیا‘ یہی سمجھا گیا کہ اقتدار سے ان کو دل چسپی ہے۔ فوج کا نظام کچھ ایسا ہے کہ وہ اپنے کمانڈر کے احکامات کی تعمیل کرتی ہے۔ اس لیے فوج کو تقسیم کرنے کی سازش پوری نہیں ہوئی لیکن اس وقت جو خطرہ ہے وہ یہ ہے کہ ابھی بھی لوگوں نے فوج کا استقبال کیا۔ کیوں کہ میاں نواز شریف کی پالیسیوں‘ خصوصاً معاشی پالیسیوں سے لوگوں کو بہت شکایات تھیں اور افراتفری مچی ہوئی تھی۔ ایسے میں ملکی معیشت تباہ حال ہوجائے‘ بے روزگاری بڑھے‘ لوگ خودکشیاں کرنے لگیں اور یہ کبھی پاکستان کی تاریخ میں ہوا نہیں تھا۔ لیکن جنرل صاحب آئے اور انہوں نے اقتصادی پیکج وغیرہ دیا تو لوگوں کو اطمینان ہوا کہ یہ کرپشن کو دور کریںگے‘ لوگوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس دلوائیں گے۔ لیکن اب جنرل صاحب کا ایجنڈا بڑھ گیا ہے۔ اس ایجنڈے میں احتساب وغیرہ تو پیچھے چلا گیا‘ اب سی ٹی بی ٹی آرہا ہے۔ میں رات میں چونکہ کسی نہ کسی تقریب میں چلا جاتا ہوں تو کل رات گیارہ بجے واپس آیا تو لوگوں نے بتایا کہ ٹیلی ویژن پر ایک گھنٹے تک سی ٹی بی ٹی پر پروگرام ہوتا رہا ہے‘ اس کی افادیت پر گفتگو ہوتی رہی۔ نو بجے کی خبروں میں دس منٹ سی ٹی بی ٹی پر بات چیت ہوتی رہی۔ کہا جا رہا ہے کہ حزب اختلاف کو تقریر کی آزادی حاصل ہے لیکن ٹی وی پر سی ٹی بی ٹی کے مخالفین کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ غیر ضروری بحث ہے جس میں قوم کو الجھا دیا گیا ہے۔ ہم کو ملک کی بہتری کرنے اور معاشی حالات کو درست کرنے کے لیے احتساب کرنا چاہیے۔

طاہر مسعود: آپ کے خیال میں موجودہ حکومت کے قیام کا جواز کیا ہے اس کی Validity کیا ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: میرے خیال میں کچھ بھی نہیں ہے۔

طاہر مسعود: اس حکومت کی کوئی آئینی بنیاد ہے؟

مولانا شاہ احمد نورانی: کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اصل میں آئینی دروازے میاں صاحب محترم نے خود بند کر دیے تو کوئی گنجائش ہی نہیں رہی۔ صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیارات پر انہوں نے پابندی لگا دی۔ اب کوئی آئے گا تو انقلاب ہی آئے گا۔

طاہر مسعود: میاں صاحب کی حکومت سے تو آپ کی اور آپ کی پارٹی کی قربت بھی رہی‘ وہ اس طرح کہ آپ کی پارٹی کے شاہ فریدالحق سندھ میں غوث علی شاہ کے مشیر بھی رہے۔ آپ نے میاں صاحب کو مشورہ نہیں دیا کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟

مولانا شاہ احمد نورانی: آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ صوبے میں شاہ فریدالحق صاحب غوث علی شاہ کے مشیر رہے‘ اس میں کوئی شک نہیں لیکن ظاہر ہے کہ مشورہ تو یقینا غوث علی شاہ کو دیا گیا۔ غوث علی شاہ صاحب آئے تھے اور انہوں نے بتایا تھا کہ میں صوبے کے حالات درست کرنے آیا ہوں۔ صوبے میں بدامنی اپنی جگہ تھی‘ متحدہ اور مہاجر قومی موومنٹ میں قتل و غارت گری ہو رہی تھی۔ بھتہ‘ اغوا برائے تاوان‘ نوگوایریا‘ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے‘ کے نام پر کشت و خون ہو رہا تھا۔ لہٰذا ہم نے اس امید پر کہ امن و امان ہو جائے گا اور اس وعدے پر کہ انتخابات کرا دیے جائیںگے‘ حکومت اسمبلی توڑ دی جائے اور انتخابات کرا دیے جائیں۔ پروفیسر شاہ فریدالحق صرف ایک ماہ مشیر رہے ہیں اور اس کے بعد 12 اکتوبر آگیا (ہنستے ہوئے) یوں ان کی مشیری ختم ہوگئی۔
(جاری ہے)

حصہ