ڈیجیٹل فارنسک آگہی ضروری ہے

597

پچھلے ہفتہ،ڈیجیٹل میڈیا بلکہ انٹرنیٹ کی دنیا سے جڑے جرائم پر بات ہوئی تھی ، اس سے پہلے 2سال قبل بھی اس موضوع پر متوجہ کیا تھا۔ڈجیٹل فارنسک کےموضوع پر عوام الناس کو اِس نئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے آگہی دینے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں International institute of digital forensic science and technologyنمایاں کام کر رہا ہے۔ یہ ادارہ اس فیلڈ کے ایک ماہر(پی ایچ ڈی )ڈاکٹر قمر العارفین کی سربراہی میں کام کر رہا ہے ، اپنی ٹیم کے ساتھ یہ پولیس سمیت دیگر اداروں کو جدید آلات و ٹیکنالوجی کی مدد سے مجرموں کو پکڑنے کی تربیت بھی دیتے ہیں۔ ادارے کے ڈائریکٹر ٹریننگ فہیم مرتضیٰ نے بتایا کہ اب تک بے شمار کیسز صرف موبائل ٹیکنالوجی کے معاملات کو سمجھ کر حل کیے گئے ہیں۔یہی نہیں بلکہ عدالت عالیہ سندھ نے بھی اس حوالے سے تدریسی امور میں اس شعبہ کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے اور ممکن ہے کہ اب آئندہ میٹرک، انٹر سطح پر باقاعدہ تدریس کے ذریعہ نئی نسل کو اس تباہی سے بچنے کے لیے آگاہ کیا جائےگا۔اس حوالے سے ڈاکٹر قمر العارفین کہتے ہیں کہ ’جب ہم اپنے سیشن مکمل کراتے ہیں توآخر میں ہر جگہ ہم سے لوگ یہی کہتے ہیں کہ اب ہم کیا اس موبائل کا استعمال ہی ختم کردیں، تو ہم ان کو یہی جواب دیتے ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے،جتنا ممکن ہو اسمارٹ ہونے سے بچیں پلے اسٹور سے مفت ایپلیکیشن سے حتی الامکان بچیں ، کوئی وڈیو گیم ہو یا کوئی اور ایپلی کیشن کسی صورت ڈاؤن لوڈ نہ کریں اور بچوں کے ہاتھ تو بالکل نہیں۔ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ یہ فون صرف رابطہ کرنے کے لیے ہے ، وڈیو گیم یا وڈیوز دیکھنے کے لیے نہیں۔جتنا ممکن ہو کسی غیر مانوس نمبر یا کسی عزیز ترین کے نمبر سے بھی کوئی انعامی اسکیم یا کسی مفت کے انعام، سالگرہ وغیرہ کے کسی لنک پر کبھی غلطی سے بھی کلک نہیں کریں۔ وہ میسج بھیجنے والےآپ کے اپنے عزیز کو نہیں معلوم ہوتا کہ اس میں کیا ہے۔‘خواتین اور طالبات میں آگہی کے لیے ٹریننگ دینے والی انسٹرکٹر زینب حفیظ نے بتایا کہ ’’ یہ جان لیں کہ موبائل فون کی اسمارٹنیس صرف یہی ہے کہ آ پ بغیر تار کے اس کو اپنے ساتھ کہیں بھی لے جا سکتے ہیں ، اس سے کام صرف اپنی ضرورت کے فون سننے کا اور کرنے کا یا بہت سے بہت تحریری میسج کرنے کا ہی کریں۔جیسے گھر پر ہونے والی ہر دستک کے لیے آپ دروازہ نہیں کھولتے ویسے ہی کسی بھی غیر مانوس یا غیر محفوظ نمبر کی کال ، واٹس ایپ میسیج نہ اٹھائیں جب تک وہ آپ کو یقین نہ دلا دے کہ وہ کون ہے۔سائبرسیکیوریٹی کے بارے میں فہیم مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ’انٹرنیٹ سے منسلک تمام آلات یا موبائل ، آئی پی کیمرے ہارڈ ویئر ہوں یا سافٹ ویئر اور اپنے ڈیٹا یعنی ہر قسم کی معلومات کا سائبر خطرات سے تحفظ ہے۔ اَب صرف آپ کے شناختی کارڈ نمبر کی مدد سے بہت ساری ایسی چیزیں معلوم کی جا سکتی ہیں جن کو یکجا کر لیاجائے تو آپ خاصی مشکلات میں پڑ سکتے ہیں۔اس لیے سائبر سیکیورٹی کی اصطلاح اب افراد سے لیکر اداروں تک پھیلتی جا رہی ہے۔ کمپیوٹر نے جیسے جیسے انسانوں کی جگہ لی ہے وہاں ڈیٹا چوری کے خطرات بھی جگہ بنا رہے ہیں۔اس لیے سائبر سیکیورٹی کو افراد اور کاروباری اداروں کے ذریعے ڈیٹا سینٹرز اور دیگر کمپیوٹرائزڈ سسٹمز تک غیر مجاز رسائی سے بچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ موبائل فون کی سم سے ہر قسم کی معلومات اور مقامات ٹریس کیے جا سکتے ہیں ، یہ عمل جیو فارنسک میں شامل ہے، اس حوالے سے پولیس و دیگر محکموں کو تربیت دی جاتی ہے۔یہی نہیں اگر آپ کبھی اپنا موبائل فون ریپیئر کے لیے دیں تو کوشش کریں کہ اپنے سامنے ہی مرمت کرائیں وگرنہ ڈیٹا چوری ہونے کا مکمل اندیشہ ہے،کیونکہ یہ ڈیٹا آگے فروخت ہوتا ہے ۔

سائبر کرائم میں جو نیا دروازہ کھلا ہے وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ ہے ، اب تک تو ہم صرف موبائل فون، ای میل، دفتری ڈیٹا کی بات کر رہے تھے،جس میں آپ کا مقصد بھی چیزوں کو چھپانا ہی ہوتا ہے،مگر سوشل میڈیا تو نام ہی ایسے عمل کا ہے جو آپ کے ہر نج کی بے رحمانہ ظاہر داری ہے۔ فیس بک، انسٹا گرام کے بعد وی لاگز، خصوصاً پرسنل فیملی وی لاگز نے تو کچھ بھی نہیں چھوڑا۔کچھ بھی نہیں، یعنی آپ اپنے ہر نج کو بیچ رہے ہوتے ہیں، لائکس، فالوورز اور اَب تو ڈالر کی خاطر ۔اس ڈالر کی محبت نے اَب سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے نام سے باقاعدہ ایسے ادارے پیدا کر دیئے ہیں، جو یہی کام کر رہے ہیں ۔یہ جو سوشل میڈیاپر مختلف وڈیوز یا مواد وائرل ہو جاتی ہیں، ہیش ٹیگ ٹرینڈز بن جاتے ہیں ، یہ خود بخود نہیں ہوتا ،کئی ادارے یہ کرتے اور کراتے ہیں، اس کام کے لیے وہ پیسے لیتے ہیں اور بانٹتے بھی ہیں۔یہ بات ٹھیک ہے کہ اس میں BOTS مطلب مصنوعی مشینی طریقہ بھی استعمال ہوتا ہے۔

پنجاب میں گزشتہ پانچ برس میں سائبر کرائمز میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔جرائم میں اِضافے کے باوجود، انٹرنیٹ کے مناسب استعمال کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی بہت کم کوشش کی گئی ہے۔ ویت نام نے بھی اعلان کیا کہ مقامی ہوں یا عالمی پلیٹ فارمز سوشل میڈیا پر بنائے جانے والے ہرشہری کے اکاؤنٹ کی سرکاری رجسٹریشن ہوگی، تاکہ اس کے ذریعہ ہونے والے جرائم و تمام سرگرمیوں کو گرفت میں لایا جا سکے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف نارتھ ڈیکوٹا ،جو سائبر سیکورٹی پروگرام میں ماسٹرز ڈگری کی تدریس کراتی ہے ، ان کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں سائبر مجرم صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استحصال کرکے ہر سال کوئی سوا 3 ارب ڈالر چوری کرتے ہیں۔ فیس بک، لنکڈ ان، انسٹاگرام، ٹویٹر اور اسنیپ چیٹ سائبر مجرموں کے لیے اب ایک زرخیز زمین بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کو سائبر مجرموں کی جانب سے استعمال کی جانے والی تکنیکوں اور حربوں سے آگاہ ہونا چاہیے اور اپنے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا چاہیے۔

سوشل میڈیا صارفین کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بے وجہ اعتماد اور لائکس و فالووئنگ سے ملنے والی اپنی تسکین و اظہار کی وجہ سے سائبر مجرموں کے لیے بہت پرکشش بن چکی ہے۔یہی نہیں سب کے لیے اکاؤنٹ کی دستیاب معلومات کی ایک بڑی مقدار آسانی سے دستیاب ہوتی ہے۔یہ سب سائبر مجرموں کے لیے اپنے ہدف کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا اور ایک مرکوز حملہ کرنا آسان ہو جاتاہے۔یونیورسٹی تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا سائبر کرائمز میں اضافے کی متعدد وجوہات ہیں۔ اِن وجوہات میں آن لائن ہیکنگ سروسز، ٹیوٹوریل اور ٹولز کی بڑھتی ہوئی دستیابی شامل ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اَب ڈارک ویب کے مساوی بن رہے ہیں؛ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم اب ڈارک ویب وسائل کے لنکس کا آپس میں اشتراک بھی کر رہے ہیں۔سائبر مجرموں کی طرف سے لگائے گئے حربے زیادہ حیران کن نہیں ہیں۔ ان میں اشتہارات کی بھرمار میں چھپا جال بھی شامل ہے ،جو ایک کلک کردہ اشتہار کے ذریعے وائرس فراہم کرتے ہیں، صارفین کو میلویئر پر مشتمل ویب لنک پر کلک کرنے کا اشارہ کرتے ہیں، اور فشنگ تکنیک۔ دیگر حربوں میںمضحکہ خیز تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے انفیکشن پھیلانا، سرگرمی کی تازہ کاریوں پر کلک کرنا، یا ایپس اور پلگ انز جیسے شخصیت کے ٹیسٹ یا گیم ڈاؤن لوڈز ۔

اسی ہفتے بھارتی شہر ہریانہ میں سو کروڑ روپے کے فراڈ کے66 اَفراد کوپکڑا گیا۔اِس کے لیے کوئی 102 ٹیمیں تشکیل دی گئیں جنہوں نے 14 مختلف دیہاتوں سے جا کر یہ افراد پکڑے جن کے پاس سے 166 جعلی اَدھار کارڈ،5پین کارڈ، 128 اے ٹی ایم، 100 سمیں،66 موبائل فون، پانچ POSمشینیں (پوائنٹ آف سیل) ،3 لیپ ٹاپ برآمد ہوئے۔یہ گروہ دیہاتوں میں بیٹھ کر ہریانہ، دہلی ، یوپی سمیت 35 ریاستوں کے 28000 شہریوں سے کوئی 100 کروڑ روپے لوٹ چکاتھا، انکے خلاف کوئی 1346 مقدمات درج ہوئے تھے ۔اس کام کے لیے یہ واقعہ اس لیے رپورٹ کر رہا ہوں کہ 2 سال قبل ایف آئی سے کے سائبر کرایم سیل نے بالکل ایسا ہی ایک گروہ ، ایسی ہی سخت مشقت کے بعد پنجاب کے دیہاتوں سے جا کر گرفتار کیاتھا( یہ ہم 6 دسمبر 2020 کے شمارے میں رپورٹ کر چکے ہیں)۔اب ایسی ہی ایک ٹیم بھارت سے پکڑی گئی ہے۔

اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے اہم طریقوں میں سے ایک طریقہ ’مضبوط پاس ورڈ ‘بنانا ہے جو کہیں اور استعمال اور آسانی سے اندازہ نہیں لگائے جاسکتے ۔اس کے علاوہ 2factor authentication بھی ضروری ہے کہ آپ کے بغیر کوئی آپ کے اکاؤنٹ میں داخل نہ ہو سکے۔ ایک اور حفاظتی اقدام اپنے تمام اکاؤنٹس کے ساتھ رازداری مطلب اپنی سیٹنگز کی ترتیبات کو ایڈجسٹ کرنا ہے۔اسی طرح ماہرین کے مطابق اب ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک یا وی پی این کا استعمال سائبر سیفٹی کے لیے بہت ضروری ہو گیا ہے، تاکہ آپ کی لوکیشن نہ ٹریس ہو سکے۔ مختلف پلیٹ فارمز کو متاثر کرنے والی کسی بھی خلاف ورزی کے بارے میں باخبر رہنا بھی ضروری ہے۔ اگر آپ والدین ہیں، تو اپنے آلات پر اپنے بچوں کی سرگرمی کو ٹریک کرنا بھی اہم ہے۔ مزید برآں، آلات اور سافٹ ویئر کو اپ ڈیٹ رکھنا ضروری ہے۔ فل سروس انٹرنیٹ سیکیورٹی سوٹ کا استعمال سائبر کرائم سے بچانے کا ایک اور زبردست طریقہ ہے۔ چند اہم نشانیاں ہیں جن پر دھیان رکھنا ضروری ہے کہ اکاؤنٹ ہیک ہونے کی اطلاع مل سکتی ہے۔ اِن میں کسی دوسرے اکاؤنٹ پر صارف کے ذاتی مواد کا ظاہر ہونا، لاگ ان کی تبدیل شدہ اسناد کے حوالے سے ای میل موصول ہونا، اور غیر مانوس اکاؤنٹس کی اچانک پیروی شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے، ایسی کئی تکنیکیں ہیں جن کا استعمال آپ ہیک یا ہائی جیک شدہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو بازیافت کرنے کے لیے کر سکتے ہیں۔ اِن میں ایپ کو دوبارہ انسٹال کرنا، لاگ اِن ہسٹری چیک کرنا، اکاؤنٹ کی سرگرمی کا جائزہ لینا اور اسپام کی اطلاع دینا شامل ہیں۔سائبر کرائم بہرحال ایک بڑھتی ہوئی تشویش ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا پر، اور سائبر سیکیورٹی کے پیشہ ور افراد، سوشل میڈیا صارفین اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اشتہارات دینے والی تنظیموں کی توجہ مبذول کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا سائبر سیکیورٹی کا زیادہ تر انحصار صارفین کی اپنی جانب سے اختیار کی گئی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی صلاحیت اور سائبر کرائم کے تازہ ترین حربوں کے بارے میں آگاہ رہنے پر ہے۔

ویسے تو موضوع یہی رکھنا تھا مگر کیا کریں کہ خان صاحب نے کوئی شعبہ نہیں چھوڑا۔ انکی گرفتاری سے جو ہلچل مچی تھی ، حکومت نے فیس بک، یو ٹیوب ، ٹوئٹراور موبائل انٹرنیٹ بند کر کے خاصا کام آسا ن کیا مگر سپریم کورٹ نے دو دن بعد رہائی کا فیصلہ دے کر سب کوحیران کردیا۔سوشل میڈیا پراس پابندی کے باوجود 8 مئی سے 11 مئی تک ’ آئی ایس پی آر، پریس ریلیز ریجیکٹڈ، فتنہ فیل ٹھکانہ جیل، زمان پارک پہنچو، عمران خان کو بچاؤ، عمران خان کی جان کو خطرہ،عمران خان کو رہا کرو، نیازی، رینجرز، عمران خان ہماری ریڈ لائن، بین پی ٹی آئی، سپریم کورٹ ، پاکستان بند کردو، نکلو خان کی زندگی بچاؤ، ‘‘ جیسے ہیش ٹیگ نے دنگل برپا کیا ہواہے۔کور کمانڈر کے گھر پر حملے کے بعد سوشل میڈیا پر سب سے مقبول جملہ ’ ویل اسکرپٹڈ‘ رہا۔ تمام سنجیدہ حلقوں سے یہی تجزیہ پیش کیا گیا کہ ’صاف محسوس ہوتا ہے کہ رستہ دیا گیا ‘ ، مگر یہ رستہ کس لیے دیا گیا، مائنس عمران خان کے لیے یا سیاسی منظر نامے سے مائنس پی ٹی آئی کے لیے ؟اس کا تعین ہونا باقی تھا کہ سپریم کورٹ فیصلے نے سب کچھ بدل دیا۔مردان واقعہ جس میں شرکا بھی مولوی مقرربھی، کونسلر بھی ، سب تحریک انصاف کے تھے ، مگر اس جلسہ میں ریڈ لائن تبدیل ہوگئی ۔لوگ کہہ رہے تھے کہ مولوی نے کہا بھی کہ اس کی نیت نہیں تھی ایسے الفاظ کہنے کی ،مگر کئی مذاکراتی سیشن کے بعد وہ عوام کو یہ ثابت نہ کر سکے اور مولویوں نے پہلی بار کسی مولوی کو حقیقی ریڈ لائن کراس کرنے پر اجتماعی سزا دے ڈالی۔نیت کی بات کی تو مجھے یاد آیا کہ سورۃ حجرات میں اپنی آواز نبی کی آواز سے نیچی رکھنے کا حکم جن دو عظیم ہستیوں کو دیا گیاتھا ، نیت ان کی بھی کبھی بھی بے ادبی کی نہیں تھی۔ فقہائ کرام نے اس آیت مبارکہ کی واضح نص کے بعد گستاخی کے عمل میں سے نیت کو بہت ثانوی قرار دیا ہے۔ یہی نہیں مفتی منیب کے نام سے فیس بک پر سخت توجہ کے ضمن میں پوسٹ چلتی رہی جس میں ایک بچہ جذبات میں عمران خان کے والدین کے حق میں غلو کرتے ہوئے ایسے الفاظ کہہ رہا تھا جس کا تصور بھی محال ہے، جبکہ حقیقت میں اس بچے کو عمران خان ہی کی رٹائی گئی تقریردہرائی گئی تھی۔ بہرحال اس پر آئندہ تفصیلی بات کریں گے۔

حصہ