میری بغاوت اپنے سسٹم کے خلاف ہے،زاہدہ حنا کا ایک یادگار انٹریو

450

طاہر مسعود: بغاوت اور انحراف کے عناصر آپ کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ آپ کی تحریریوں سے بھی ان کی تصدیق ہوتی ہے۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون سے عوامل اور حالات تھے جن کی بنا پر یہ عناصر آپ کی شخصیت میں در آئے اور پھر آپ کی تحریروں میں ان کی عکاسی ہونے لگی؟

زاہدہ حنا: میرا یہ گمان ہے کہ یہ صرف حالات ہی نہیں ہوتے جو کسی کے مزاج کی تشکیل کرتے ہیں۔ فرد کا خاندانی پس منظر بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے ہمارے خاندان میں بھی بغاوت کی روایت رہی ہے۔ مثلاً میرے والد کے نانا گورہ فوج میں ڈاکٹر تھے۔ 1857ء میں جب بغاوت ہوئی تو ان کی تعیناتی جہلم میں تھی۔ اصولاً انہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کا ساتھ دینا چاہیے تھا لیکن انہوں نے باغیوں کا ساتھ دیا تھا اور اسی پاداش میں انہیں پھانسی کی سزا ہوئی۔ ان کا مزار بھی جہلم میں ہے۔ ہم اپنے بچپن میں یہ کہانیاں سنتے تھے جو میرے والد نے جو ایک ڈپٹی کلکٹر کے بیٹے تھے‘ آرہ (صوبہ بہار کا ایک شہر) کے ایک بلوے میں حصہ لیا تھا اور گرفتار ہو کر دو ڈھائی سال تک قید بامشقت کاٹی تھی۔ اسی طرح میرے والد کے ماموں نے تین جلدوں میں ایک کتاب ’’مسالک السالکین‘‘ صوفیائے کرام کے بارے میں لکھی ہے۔ اس کتاب میں بھی بغاوت و انحراف اور ایک مختلف راستے پر چلنے کا رنگ ہے۔ میری ننھیال میں بھی یہی روایت رہی ہے کہ 1857ء میں ان میں سے کچھ لوگ پھانسی چڑھے‘ کچھ توپ دم ہوئے‘ کچھ جنگلوں میں روپوش ہوئے اور یقینا کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے نہایت پُر آسائش زندگی گزاری۔ یہ میرا خاندانی پس منظر ہے اور جب والدین ان واقعات کا تذکرہ بچوں سے کرتے رہیں تو یہ باتیں اثر انداز تو ہوتی ہیں۔ چونکہ میں اپنے والد کی بہت چہیتی تھی اس لیے انہوں نے میری تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ انہوں نے ہی میرے لیے کتابیں منتخب کیں۔ ان ہی کا بنایا ہوا نصاب میں نے پڑھا۔ ہاں ابا اس بات پر بہت ناراض ہوا کرتے تھے کہ جن کتابوں کو پڑھ کر میں ایک نتیجے پر پہنچتا ہوں‘ ان ہی کا مطالعہ کرکے تم دوسرا نتیجہ کیسے نکال لیتی ہو۔ ابا کو تاریخ سے بہت دل چسپی تھی۔ انہوں نے مجھے تاریخ کی کتابیں پڑھائیں‘ گھر میں کتابیں بھی بہت تھیں۔ اس ماحول اور ان کتابوں سے میرا مزاج بنا۔ میری امی کے مزاج میں بھی بغاوت کا ایک عنصر تھا۔ میری دادی تھیں وہ 1921ء میں اکیلے حج پر گئیں ور واپس آئیں پھر انگلینڈ چلی گئیں۔ افغانستان میں مسئلہ ہوا تو کابل پہنچ گئیں۔ میری دو پھوپھیاں تو جوانی میں بیوہ ہوگئیں لیکن وہ کسی کی مدد و اعانت کی طلب گار نہ ہوئیں بلکہ پٹنہ میں ٹیچر ٹریننگ لی اور کلکتہ کے ایک اسکول میں پڑھاتی رہیں۔ اس زمانے کے لحاظ سے بھی بغاوت کا ایک رنگ تھا۔ یہ تمام چیزیں میرے مزاج پر اثر انداز ہوئی ہوں گی کیوں کہ کوئی بھی شخص آسمان سے مزاج لے کر نہیں آتا بلکہ مطالعہ‘ مشاہدہ‘ گردوپیش کے حالات اور سماج مل جل کر اس کے مزاج کو بناتے ہیں۔

طاہر مسعود: آپ کے آبا و اجداد کی بغاوت سیاسی انداز کی تھی جب کہ آپ کی بغاوت اپنی اقدار اور اپنے نظام کے خلاف ہے؟

زاہدہ حنا: یہ کہا جائے کہ میری بغاوت اپنے سسٹم کے خلاف ہے تو زیادہ درست ہوگا کیوں کہ اقدار تو عالمی ہوتی ہیں۔ سچ بولنا چاہیے‘ جھوٹ سے نفرت کرنی چاہیے یہ اور اس طرح کی اقدار دنیا بھر میں یکساں ہیں۔

طاہر مسعود: اقدار کی بھی قسمیں ہوتی ہیں‘ انسانی اقدار تو یکساں ہوتی ہیں لیکن ثقافتی اقدار میں اختلاف ممکن ہے۔

زاہدہ حنا: آپ درست کہہ رہے ہیں۔ جب میں نے اخبار میں سیاسی تحریریں لکھنی شروع کیں تو اس میں بھی انحراف کا سلسلہ رہا۔ مثلاً میں بے نظیر بھٹو کی دس باتوں سے اتفاق کرتی تھی تو چھ باتوں سے اختلاف بھی کرتی تھی۔ اسی طرح نواز شریف صاحب کو میں اس توقع پر بہتر سمجھتی ہوں کہ شاید وہ کوئی تبدیلی لا سکیں‘ لیکن ان کی حمایت بھی ایشو کی بنیاد پر کرتی ہوں اور جہاں اختلاف کا موقع آتا ہے تو شدت سے مخالفت بھی کرتی ہوں۔ مثلاً ایٹمی دھماکوں کے بارے میں میرا خیال تھا کہ یہ پاکستانی معیشت کے لیے مناسب نہیں ہے تو میں نے کھل کر مخالفت کی لہٰذا میں بغاوت برائے بغاوت کی قائل نہیں ہوں۔

طاہر مسعود: گویا آپ بغاوت برائے بہتری کی قائل ہیں؟

زاہدہ حنا: جی ہاں سماج کو بہتر بنانے کے لیے جہاں اختلاف کی ضرورت پیش آئے وہاں میں ایسا کرتی ہوں۔

طاہر مسعود: آپ ایک زمانے تک لیفٹسٹ سمجھی جاتی رہیں پھر آپ نے ان قوتوں سے اپنے آپ کو بریکٹ کیا جو دائیں بازو کی قوتیں ہیں مثلاً مسلم لیگ۔ چنانچہ اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے کہ آپ نے نامعلوم کن وجوہ کی بنا پر اپنے قبلہ کا رخ تبدیل کیا۔

زاہدہ حنا: میرا قبلہ تو وہی ہے‘ قبلہ نہیں بدلا۔ جہاں تک مسلم لیگ کا تعلق ہے تو مسلم لیگ چاہے قائداعظم کی ہو یا نواز شریف کی۔ قائداعظم کی مسلم لیگ تو اعتدال پسند (Centrist) جماعت تھی۔ میں اسے دائیں بازو کی جماعت نہیں مانتی۔ نواز شریف صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں سیاست کرنی ہے‘ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے تو ان کے ساتھ نئے لوگ شامل ہو رہے ہیں۔ خود ان کی پارٹی کا اتحاد اے این پی جیسی جماعت کے ساتھ رہا ہے جو خالص بائیں بازو کی جماعت ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بڑی تبدیلیاں آئی ہیں‘ خاص طور پر سیاست میں ہمارے ہاں ابھی تک پرانے حوالوں سے سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو دیکھا جاتا ہے۔ نواز شریف نے سیاست شروع کی تھی تو جماعت اسلامی ان کے ساتھ تھی جو اب نہیں ہے۔ خود اے این پی کے ساتھ ان کی نو سال تک جو قربت رہی‘ وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور اے این پی سے جو ان کا اختلاف ہوا ہے تو وہ بھی کسی مذہبی اور ثقافتی معاملے پر نہیں ہوا بلکہ ایک ایسے ایشو پر ہوا جسے اے این پی بوجوہ سلجھانا نہیں چاہتی تھی۔ اسی لیے دونوں سیاسی جماعتوں کے راستے الگ ہو گئے۔ چنانچہ میں مسلم لیگ کو دائیں بازو کی جماعت نہیں مانتی بلکہ اسے ایک اعتدال پسند پارٹی سمجھتی ہوں۔

طاہر مسعود: مسلم لیگ تو دائیں بازو کی جماعت سمجھی جاتی ہے مثلاً یہ دیکھیے کہ انہوں نے ایک پابند صوم و صلوٰۃ اور با شرع بزرگ کو صدر بنایا۔ اسی طرح نفاذِ شریعت کا اسمبلی میں بل پیش کیا۔

زاہدہ حنا: جہاں تک پابند صوم و صلوٰۃ ہونے کا تعلق ہے تو یہ لیفٹسٹ معاشرہ تو نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرہ ایک ٹھیک ٹھاک لوگوں کا معاشرہ ہے جہاں کچھ لوگ نماز پڑھتے ہیں‘ کچھ نہیں پڑھتے۔ اس کے جو حکمران ہیں وہ بھی ان ہی جیسے لوگ ہوں گے۔ شریعت بل پیش کرنا نواز شریف حکومت کی ایک سیاسی مجبوری تھی اور پھر یہ دیکھیے کہ نواز شریف بھارت سے دوستی کی باتیں کرتی ہیں۔ ان کے منشور میں بھی اس کا ذکر کیا ہے جب کہ کوئی بھی دائیں بازو کی جماعت مثلاً جماعت اسلامی بھارت سے دوستی کی بات کبھی نہیں کرتی۔

طاہر مسعود: یہ تو ہوگئیں سیاست کی باتیں‘ آیئے اب کچھ باتیں ادب کے حوالے سے ہو جائیں۔ یہ فرمائیں کہ قرۃ العین حیدر کے فن کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

زاہدہ حنا: میں ان کی نہایت معترف ہوں اور ان کا بے حد احترام کرتی ہوں اور یہ سمجھتی ہوں کہ انکے فن کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

طاہر مسعود: کچھ میرا بھی تاثر ہے اور کچھ دوسرے لوگوں کا بھی خیال ہے کہ آپ کی تحریروں پر ان کے بے حد گہرے اثرات نظر آتے ہیں مثلاً اسلوبِ تحریر میں‘ کردار نگاری میں یہاں تک کہ موضوعات میں آپ نے اپنے ناولٹ ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘ میں ایک پارسی گھرانے کو پیش کیا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ناول ’’چاندنی بیگم‘‘ میں اسی انداز میں عیسائیوں کا ایک گھرانا پیش کیا گیا ہے۔ بعض اوقات تو یہ مماثلت بہت گہری ہو جاتی ہے۔ قرۃ العین حیدر اپنی نثر میں اشعار کا استعمال کرتی ہیں آپ کے ہاں تو کبھی کبھار اشعار تک وہی استعمال ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ اثرات غیر شعوری ہوں گے لیکن کیا ان سے آپ کی انفرادیت مجروح نہیں ہوتی؟

زاہدہ حنا: دیکھیے صاحب! میں اپنی نقاد خود تو نہیں ہوسکتی۔ جہاں تک قرۃ العین حیدر کے اثرات کا تعلق ہے تو یہ سوال مجھ سے اکثر کیا جاتا ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ہم چیزوں کو بہت سہل طریقے سے لیتے ہیں۔ اب مثلاً عزیز احمد کو پڑھیں تو کہا جائے تو کہ عزیز احمد کا اثر قرۃ العین حیدر پر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عزیز احمد وقت کے ساتھ جس طرح کھلواڑ کرتے ہیں‘ قرۃ العین حیدر کے ہاں بھی یہ اسی طرح ہے اور اس میں کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ قرۃ العین حیدر کا مسئلہ 1947ء کی تقسیم پر آکر ختم ہو جاتا ہے۔ آپ ’’چاندنی بیگم‘‘ یا ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ دیکھ لیں‘ وہ زمانی اعتبار سے تو آج تک آئی ہیں لیکن مسائل وہی ہیں‘ میرے مسائل ان سے آگے کے ہیں۔

طاہر مسعود: دیکھیے مسئلہ آپ کا بھی تقریباً وہی ہے مثلاً ہجرت قرۃ العین حیدر کا بھی مسئلہ ہے اور آپ کا بھی۔

زاہدہ حنا: اچھا میں آپ سے ایک سوال کرتی ہوں۔ ہجرت قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کا مسئلہ ہے لیکن بتایئے کہ میری اور ان دونوں افسانہ نگاروںکی تحریروں میں آپ کو کوئی فرق نظر آتا ہے یا نہیں؟

طاہر مسعود: اس سوال پر تو آپ کو غور کرنا چاہیے۔

زاہدہ حنا: (ہنستے ہوئے) یہ سوال میں آپ سے اس لیے کر رہی ہوں کہ ایک ہی واقعہ ایک ہی سانحہ کو دیکھنے کے بے شمار زاویے ہو سکتے ہیں۔ ہجرت پرقرۃ العین حیدر نے اپنے انداز میں لکھا ہے اور انتظار حسین نے اپنے رنگ میں اور چونکہ اس ہجرت کی میں بھی قتیل ہوں اس لیے میں نے اسے اور حوالے سے پیش کیا ہے۔ صرف اس لیے کہ اس موضوع پر قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین لکھ چکے ہیں لہٰذا مجھے اس موضوع پر نہیں لکھنا چاہیے۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی۔ میں قرۃں العین حیدر کا بے حد احترام کرتی ہوں۔ ان جیسا لمبا سانس‘ لمبا سانس اس لیے کہہ رہی ہوں کہ وہ اب تک لکھ رہی ہیں اور ان کے ہاں تھکن نہیں آئی ہے۔ بہت سی جگہوں پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دہرا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ تھکی نہیں ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے دوسرے لکھنے والے جنہوں نے بہت لمبی عمریں پائی ہیں‘ وہ تھک گئے ہیں۔

طاہر مسعود: تو آپ کا خیال ہے کہ عینی کے فن سے متاثر ہونے سے آپ کی انفرایت مجروح نہیں ہوتی ہے؟

زاہدہ حنا: اس کی وجہ یہ ہے کہ میری جو دیگر کہانیاں ہیں‘ جن کا ہجرت سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر میری کہانی ہے ’’زمیں آگ کی آسماں آگ کا‘‘ یا ’’ابن ایوب کا خواب‘‘ ان کہانیوں کا قرۃ العین حیدر سے دور‘ دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

طاہر مسعود: آپ کی ایک کہانی ’’آخری بوند کی خوشبو‘‘ پڑھتے ہوئے بے اختیار قرۃ العین کا ناول ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ یاد آجاتا ہے۔

زاہدہ حنا: دیکھیے ان دونوں میں فرق ہے ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ کا جو مرکزی کردار ہے وہ آخری میں سمجھوتا کر لیتا ہے لیکن میری کہانی کا کردار سمجھوتا نہیں کرتا۔

طاہر مسعود: اتنا فرق تو ہے۔

زاہدہ حنا: یہ بہت بڑا فرق ہے۔ میری کہانی کا مرکزی کردار فیض بخش کی زندگی اتنی تلخ ہے کہ وہ جب باہر جانے کے لیے نکلتے ہیں اور عطر لگانے کے لیے عطر کی شیشی کھولتے ہیں تو اس میں عطر کی آخری بوند ہے اور وہ بھی سالہا سال کی بچائی ہوئی بوند ہے یا وہ وڈیرہ شاہی کے اوطاق میں جاتے ہیں تو وہاں کھانا اس لیے نہیں کھاتے ہیں کہ ان کی بیٹی بھوکی بیٹھی ہے۔ یہ فیض بخش کا کردار ہے جب کہ ’’آخر شب کا ہم سفر‘‘ میں جو کردار ریحان کا ہے جو ایک بہت بڑی انقلابی تحریک کا سالارِ کارواں ہے وہ آخر میں قیمتی لباس پہن کر ایک مہنگی گاڑی سے اترتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں مہنگی سگریٹ کا ڈبہ ہوتا ہے۔ یہ ہم دونوں کے کردار کا فرق ہے چاہے آپ اسے معمولی فرق قرار دیں۔

طاہر مسعود : آپ بھی قرۃ العین حیدر کی طرح تاریخ سے‘ ماضی سے آنے والی روشنی سے بہت انسپائر ہوتی ہیں؟

زاہدہ حنا: تاریخ کے بغیر کوئی بھی چیز اپنی معنویت نہیں رکھتی۔ میں تاریخ کو بنیادی چیز سمجھتی ہوں۔ خواہ وہ فرد کی تاریخ ہویا قوم کی تاریخ۔ تاریخ سے تو کسی حال میں بھی چھٹکارا نہیں ہے۔ قرۃ العین حیدر بھی یقینا تاریخ سے متاثر ہیں لیکن میں اپنے طور پر متاثر ہوں۔

طاہر مسعود: آپ نے اپنے ناولٹ ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘ میں ایک مہاجر خاندان دکھایا ہے جو مہاجروں کا نمائندہ خاندان ہے اور ہجرت کے بعد بد عہدی‘ مادہ پرستی اور دیگر اسباب کی بنا پر اپنی شناخت کھو بیٹھا ہے۔ اس خاندان کی شخصیت ہی بدل گئی ہے۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ خاندان ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں کی ہوبہو نمائندگی کرتا ہے؟

زاہدہ حنا: آپ کا یہ سوال سیاسی نوعیت کا ہے اور میں اسے ادبی حوالے سے نہیں دیکھتی۔

طاہر مسعود: سیاست بھی ادب کا موضوع ہو سکتا ہے۔

زاہدہ حنا: یقینا ہم سیاست کو ادب سے جدا کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ ایسا ہے کہ جب آپ اپنی زمین چھوڑ دیتے ہیں تو آپ اپنی بہت سی خوبیاں بھی ترک کر دیتے ہیں وہ آپ کی مجبوری ہوتی ہے۔ آپ پر ایک نئی زمین پر قدم جمانے کا دبائو ہوتا ہے۔ پھر آپ کی بہت سی خرابیاں جن پر خاندانی دبائو کا ملمع چڑھا ہوتا ہے۔ ہجرت کے بعد یہ ملمع اتر جاتا ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ یہاں آنے والوں میں بہت سوں نے دنیا داری برتی‘ اپنی بہت سی خاندانی خوبیوں کا جلد سے جلد صاحبِ حییثت ہو جانے کے خیال سے ترک کیا اور پھر پاکستان میں متروکہ املاک نے جو ستم ڈھائے‘ وہ بہت پریشان کن صورت حال تھی۔ اس سے افراد‘ خاندانوں اور سیاست میں بہت سی الجھنیں پیدا ہوئیں۔ میں یہ نہیں سمجھتی کہ وہاں سے آنے والے تمام افراد بے ایمان تھے‘ غلط تھے‘ جھوٹے تھے‘ جب آپ اپنی سرزمین سے اٹھ کر کسی ایسی سرزمین پر پہنچتے ہیںجیسے پاکستان سے نوجوان امریکا اور کینیڈا جا کر مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے پیپر میرج کر لیتے ہیں۔

طاہر مسعود: آپ کے ناولٹ اور افسانوں میں ایک چیز بہت طاقت ور نظر آتی ہے اور وہ ہے آپ کا بیانیہ۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ اپنے بیانیے پر بہت محنت کرتی ہیں اور اس پر آپ نے خاصی ریاضت کی ہے۔ کیوں کہ آپ کا بیانیہ بہت مؤثر ہوتا ہے۔ یہ فرمایئے کہ آپ کا لکھنے کا طریقہ کار کیا ہے؟

زاہدہ حنا: میں دعوے تو نہیں کرتی‘ آپ کہہ رہے ہیں تو درست ہی ہوگا۔ لیکن میں عرض کروں کہ میں اس کے لیے کوئی خاص ریاضت نہیں کرتی۔ اب ہمارے ہاں کاتا اور لے دوڑی کا ماحول ہو گیا ہے اس لیے دوسروں کے موازنے میں ممکن ہے کہ میرا بیانیہ مضبوط نظر آتا ہو۔ اصل چیز لکھنے والے کی تربیت ہوتی ہے۔ ذہنی تربیت کہ اس نے کون سی کتابیں پڑھیں‘ کون سی باتیں اس کے کانوں میں پڑیں۔ میرضے گھر میں یہ ممکن نہیں تھا کہ میں رات کو اپنی والدہ سے کہانیاں سنے بغیر سو جائوں۔ چار برس کی عمر میں مجھے مسدس حالی اور شکوہ جوابِ شکوہ کے بند کے بند اَزبر تھے۔ میرے والد نے میرے تلفظ پر اور حفظ کرانے پر مجھ پر بہت محنت کی تھی۔ مجھے ’’طلسم ہوش ربا‘‘ پہلے سنائی گئی اور پھر پڑھوائی گئی۔ اس طرح ابا مجھے بٹھا کر انیس‘ دبیر کے مرثیے پڑھاتے اور پھر سنتے تھے۔ میرے کانوں میں ان لفظوں کی گونج ہے۔ ذہن میں جو پڑھے ہوئے لفظ ہیں وہ اندوختہ میرے کام آتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں میں نے گوئٹے انسٹی یوٹ میں ایک کہانی پڑھی ’’معدوم ابن معدوم ابن معدوم‘‘ اس محفل کی صدارت ضمیر علی بدایونی کر رہے تھے‘ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس تحریر میں ایسے الفاظ استعمال ہوئے جو ہم نے بھلا دیے ہیں۔ میں آپ سے عرض کروں کہ میں شعوری طور پر ایسے الفاظ کے استعمال کی کوشش نہیں کرتی بلکہ میں اکثر الجھتی ہوں کہ جب ہمارے ہاں الفاظ موجود ہیں تو پھر ہم ان کی جگہ انگریزی الفاظ کیوں استعمال کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہماری جو لفظیات ہیں‘ ہم نے انہیں سمیٹ لیا ہے‘ سکیڑ لیا ہے۔ نہ صرف پڑھنے والوں نے بلکہ بڑی حد تک ادیبوں نے بھی۔ مجھے جو داستانیں وغیرہ پڑھوائی گئی ہیں‘ یہ سب ان ہی جوتیوں کا صدقہ ہے۔ چنانچہ مجھے کسی حالت یا کسی کیفیت کو ادا کرنے کے لیے لفظوں کی کمی کبھی درپیش نہیں ہوئی۔

طاہر مسعود: ایک کہانی کے آپ کتنے ڈرافٹ تیار کرتی ہیں؟

زاہدہ حنا: کوئی ایک بات ذہن میں آئی پھر اس کے لیے اسباب جمع ہوئے اور پھر نہ جانے کس طرح کہانی اپنی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

طاہر مسعود: آپ نے 1964ء سے لکھنا شروع کیا‘ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آپ کی کہانیوں کی تعداد بہت کم نہیں ہے؟

زاہدہ حنا: 1962ء سے لکھ رہی ہوں۔ ویسے تو میں نے پہلی کہانی نو برس کی عمر میں لکھی تھی اور اس کے بعد بھی کہانیاں لکھتی رہی ہوں لیکن میں اسے شمار نہیں کرتی۔ تیرہ سال کی عمر سے میرے مضامین چھپنے لگے تھے۔ کہانیوں کی طرف جو میرا رجحان نہیں ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد کا کہنا یہ تھا کہ تمہیں مضامین لکھنے چاہئیں۔ وہ میری کہانیاں لکھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے اور ظاہر ہے مجھ پر ان کا بہت اثر تھا۔ میں نے صحیح معنوں میں کہانیاں لکھنے کا آغاز والد صاحب کے انتقال کے بعد کیا۔ ان کا انتقال فروری 1971ء میں ہوا۔چنانچہ میں نے 1972ء سے تسلسل کے ساتھ کہانیاں لکھیں۔ پھر مجھ پر گھر کی ذمہ داریاں بھی تھیں اس لیے بھی کم لکھنا پڑا۔ 1988ء سے میں کالم لکھ رہی ہوں لہٰذا کہانیاں لکھنے کے لیے وقت نکالنا بھی مسئلہ رہا اور اس کا مجھے شدید قلق ہے۔

طاہر مسعود: ہمارے ہاں علامتی کہانیوں کی ایک تحریک چلی تھی۔ اس تحریک سے آپ بھی متاثر ہوئیں؟

زاہدہ حنا: میں نے دو ایک کہانیاں اس وضع کی لکھیں لیکن ان میں بھی کہانی کا عنصر موجود تھا۔ اس تحریک نے مجھے بہت زیادہ متاثر نہیں کیا کیوں کہ میں سمجھتی ہوں کہ بات دل سے نکلے دل میں اترے۔ اگر میری بات کی تفہیم نہیں ہو رہی ہے اور میری علامتیں انتی ذاتی نوعیت کی ہیں کہ صرف میں ہی اس کی تفہیم کر سکتی ہوں تو ایسی تحریر کا فائدہ کیا ہے۔ جب ہم پیدا ہوئے ہیں اور ہم نے اس زمین سے اس کے اشجار و اثمار سے ہر چیز لی ہے تو ہم جس شعبے میں ہیں‘ اس میں ہمارا فرض ہے کہ واپس کریں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ہم سماج سے تو سب کچھ لیں اور پھر واپس کچھ نہ کریں‘ اضافہ نہ کریں۔

حصہ