سکھ دیتی مائوں کو گنتی نہیں آتی

468

وہ بی بی ہاجرہ تھیں… ننگے پائوں دوڑتی۔ لق و دق صحرا، سیاہ خوف ناک چٹیل پہاڑ، سر پہ چمکتا سورج، سبزے کی ایک کونپل یا پانی کا ایک قطرہ کہیں دور دور تک نظر نہ آتا تھا۔ فرماں بردار ایسی کہ شوہر، جو اس تپتے صحرا میں چھوڑ گیا، اُس سے شکوہ تک نہ کیا۔ آج کی عورت ہوتی تو حقوقِ نسواں کے نام پر قیامت ڈھا دیتی کہ ایک شیر خوار بچے اور تنہا جوان عورت کو ایسے بنجر صحرا میں اللہ کے نام پر چھوڑ کر چلے گئے! ماں تھیں، تڑپ تڑپ کر دوڑتی تھیں اور دوڑ دوڑ کر تڑپتی تھیں کہ بچے کے لیے کہیں سے پانی کی ایک بوند مل جائے… وہ آگ اگلتا سورج اور تپتا صحرا جس میں ننگے پائوں دوڑنے سے پیروں میں آبلے پڑجائیں۔ ماں کی یہ تڑپ اور دوڑ اللہ کو ایسی بھائی کہ اس دوڑ کو حج اور عمرے کا مستقل رکن بنادیا۔ اور آج ٹھنڈے فرش پر دوڑتے وہ سات چکر بھی کتنے مشکل ہوتے ہیں یہ دوڑنے والے جانتے ہیں۔ صحرا میں دوڑنے کی اس اذیت کا شاید میں اور آپ تو تصور بھی نہیں کر سکتے جو بی بی ہاجرہ نے اٹھائی۔ لیکن اس ماں کی تڑپ کا صلہ اللہ نے ’’زم زم‘‘ کی صورت میں دیا جو تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔

ماں ایسی ہی عظیم ہستی ہے جس کی التجا، دعا یا بددعا عرش ہلا دیتی ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی خبردار کردیا گیا تھا کہ ’’خبردار موسیٰ اب سنبھل کر۔ ماں کی دعا ساتھ نہیں ہے۔‘‘

…٭…

’’باجی یہ روٹی میں گھر لے جائوں؟ میرا منا کھائے گا۔‘‘ وہ کمزور سی مدقوق سی عورت میرے گھر میں کام کرتی ہے، اسے صرف جھاڑو پونچھے کے لیے رکھا ہے، باقی کام ہم لوگ خود ہی کرلیتے ہیں۔ وہ بڑی خوددار عورت ہے، اور ماسیوں کی طرح نہ چرب زبان ہے نہ بلاوجہ باتیں کرتی ہے، نہ منہ سے خود کچھ مانگتی ہے۔ تنخواہ بھی دو تو بسم اللہ کرکے پیسے پکڑتی ہے، یا اگر کبھی ایکسٹرا کچھ دیا جائے تو ڈھیروں دعائیں دیتی ہے۔ اس کے چھ بچے ہیں، تین بیٹیاں اور تین بیٹے، میاں نشئی ہے جو کہ ہر ماسی کا میاں ہوتا ہے۔ یہ کئی سال سے میرے پاس ہے اور اسی طرح خاموشی سے آتی ہے اور فٹافٹ اپنا کام نمٹا کر چلی جاتی ہے۔ پہلے تو کچھ بھی کھاتی پیتی نہیں تھی، صاف منع کردیتی تھی کہ باجی پیٹ بھرا ہوا ہے۔ لیکن اب کبھی کبھار کھانے کا کہہ دیتی ہے۔

ابھی چند دن پہلے کی بات ہے میں نے کھانا دیا تو تازہ روٹی پکا کر دی، اس نے آدھی روٹی کھائی اور آدھی بچا لی… اور پھر مجھ سے کہنے لگی ’’باجی میں یہ روٹی لے جائوں؟ میرا منا چائے سے کھا لے گا۔‘‘

میں ایک دم چونک گئی ’’ارے تم تو پیٹ بھر کے کھا لو، منے کے لیے میں اور بنادوں گی۔‘‘

’’نہیں باجی! اور تکلیف نہ کریں، میں یہی لے جائوں گی۔‘‘

اس کے بعد روز وہ یہی کرتی کہ آدھا کھانا کھاتی اور آدھا بچا کر گھر لے جاتی۔ اُس کی اس حرکت نے مجھے بھی مجبور کردیا کہ میں اس کے لیے ایک روٹی زیادہ بنا دیتی اور فریج میں رکھا سارا کھانا اسے پکڑا دیتی کہ گھر لے جائو۔ ماں تو ماں ہے، خود بھوکی رہ لے گی، خود آدھا پیٹ کھائے گی لیکن اپنے بچے کو بھوکا نہیں سونے دے گی۔

…٭…

وہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھیں، ایک سابق وزیراعظم کی بیٹی بھی تھیں اور خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ لیکن ساتھ ساتھ ایک عورت اور ایک بیوی بھی تھیں۔ اس مشکل منصب پر فائز ہونے کے باوجود ایک عام عورت کی طرح کام کے دوران ہی بچوں کو بھی جنم دیا، ان کی پرورش میں بھی پیش پیش رہیں اور ملک اور بیرونِ ملک بھی بچوں کے ساتھ سفر کرتی رہیں۔ جی ہاں ہم بات کررہے ہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی، جو کہ ہر جگہ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ رکھتی تھیں، کیوں کہ ماں تو ماں ہے چاہے بادشاہ کی ہو یا فقیر کی۔ اس کے جذبات اپنے بچوں کے لیے ایک سے ہی ہوتے ہیں۔

…٭…

مدرز ڈے ہو یا فادرز ڈے، دونوں ہی دن اپنے اندر ایک سی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں اسے منانے کا اتنا رواج نہیں لیکن آج کے مصروف دور میں دیکھا جائے تو اُن لوگوں کے لیے یہ ایک نعمت ہے جن کی اولادیں ان سے الگ رہتی ہیں یا کبھی کبھار ان کو شکل دکھانے آتی ہیں۔ یہ کہنا تو بہت عام ہے کہ ہم لوگ اس دن کو نہیں مناتے کیوں کہ ہمارے لیے تو ہر دن ہی ماں کا اور باپ کا ہوتا ہے، لیکن کیا واقعی ہمارے ہاں اب ماں باپ کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے جتنی پہلے دی جاتی تھی؟ کیا ہم روزانہ اپنے ماں باپ کو وقت دیتے ہیں؟ اس وقت وہ بچے جو ماں باپ پر انحصار کرتے ہیں وہ بھی اپنے والدین کو ٹائم دینا وقت کا زیاں سمجھنے لگے ہیں۔ میں ایسے کتنے ہی لوگوں کو جانتی ہوں جن کی اولادیں ان سے الگ رہتی ہیں، کیوں کہ وہ اپنے ’’طور‘‘ پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور ماں باپ کی دخل اندازی نہیں چاہتے، اور ایسا صرف شادی شدہ لوگوں میں نہیں ہے بلکہ اب غیر شادی شدہ لڑکے لڑکیاں بھی علیحدہ رہ رہے ہیں۔ ایسے کتنے ہی والدین ہیں جو بڑے بڑے گھروں میں تنہا اپنے بچوں کے انتظار میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی اولادیں پیسہ بھیج دیتی ہیں کہ اپنے لیے نوکر رکھ لیں، اور بری الذمہ ہو جاتی ہیں کہ والدین کا حق ادا کر دیا۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ میری والدہ کا جنوری 2012ء میں دل کا آپریشن ہوا، کئی سال سے ان کو دل کی تکلیف تھی، انجیو گرافی، انجیو پلاسٹی کے بعد بھی جب کوئی چارہ نہ رہا تو بائی پاس کا کہا گیا۔ ویسے تو بائی پاس کو اب ایسا آپریشن نہیں کہا جاسکتا جس میں کوئی رسک ہو، لیکن امی کے آپریشن میں ہمیں نہ جانے کیوں ایسا لگتا تھا کہ کچھ برا نہ ہوجائے۔ آپریشن شروع ہوا، ملک کے مایہ ناز سرجن کی ٹیم یہ آپریشن کررہی تھی، اسپتال بھی بہت بہترین، انتظامات بھی عمدہ۔ لیکن دل کو قرار نہ آتا تھا۔ آپریشن کے لیے ڈاکٹروں نے تین گھنٹے کا ٹائم دیا تھا کہ شام پانچ سے آٹھ بجے تک یہ آپریشن مکمل ہوگا۔ لیکن جب آپریشن شروع ہوا تو آٹھ، نو، دس اور پھر گیارہ بج گئے لیکن کوئی ڈاکٹر باہر نہیں آرہا، کوئی خبر نہیں آرہی… ہم چاروں بہن بھائی ٹہلتے ٹہلتے تھک کر ٹھنڈی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے، شدید سردی تھی اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اندر سے کپکپی لگی ہے۔ ہم چاروں میں سے کوئی ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کررہا تھا، صرف دعائیں ہی ہمارا آسرا تھیں۔ بالآخر سوا گیارہ بجے کے قریب ڈاکٹرز آپریشن تھیٹر سے باہر آئے تو انہوں نے بتایا کہ آپریشن فی الحال تو ہوگیا ہے لیکن ابھی چوبیس گھنٹے اہم ہیں کیوں کہ خاصی پیچیدگیاں تھیں اور آپریشن بہت مشکل ہوگیا تھا۔

ہماری سانسیں لگتا تھا کہ بھاری ہوگئی ہیں۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مشینوں میں جکڑی اپنی بے ہوش ماں کو ہم کیسے اس تکلیف سے نجات دلائیں۔ آنسو تھے کہ بہتے جارہے تھے اور شیشے کے دروازے سے ٹکے ہم اللہ سے صرف یہ التجا کررہے تھے کہ ہماری ماں کو سلامت رکھیے گا۔

ہماری ماں ہمارے لیے آج بھی کتنی ضروری ہیں یہ کوئی ہمارے دل سے پوچھے، ہمیں لگتا ہے کہ اپنے سارے دکھ درد، سارے مسائل، ساری پریشانیاں اُن سے کہہ کر ہم ہلکے پھلکے ہوجاتے ہیں، نئے سرے سے زندہ ہوجاتے ہیں، یا پھر ان سے کہنا کہ دعا کیجیے گا یہ کام ہوجائے، یہ دل کو کیسا تسلی دیتا احساس ہے کہ کوئی ہے جو آپ کے لیے ہر پل دعا کررہا ہے بغیر کسی صلے اور بغیر کسی ستائش کی تمنا کے… اور میری تو تمام دوستوں کی بھی وہ اماں ہیں، جو دوست کسی مشکل میں ہو وہ فون کرکے کہتی ہے کہ آنٹی سے کہنا ہمارے لیے دعا کریں… اور ہم تو ان سے کہہ کر بھول جاتے ہیں لیکن وہ دعا کرتی رہتی ہیں جب تک ان کو منع نہ کردیں کہ بس کریں یہ کام ہوگیا ہے اب۔

مائیں کیسی پیاری ہوتی ہیں، اپنے جگر گوشوں کو پڑھا لکھا کر، تربیت کرکے جب پھل کھانے کا وقت آتا ہے تو دوسروں کے حوالے کردیتی ہیں۔ کیوں کہ یہی دنیا کا چلن ہے۔ ہماری ماں نے ہماری تعلیم و تربیت کے لیے ساری زندگی تج دی۔ لوگ کہیں گے کہ اس میں کون سی بڑی بات ہے! سب مائیں یہی کرتی ہیں۔ لیکن ہماری ماں نے ہم لوگوں کے لیے اپنے تمام مشاغل، سارے شوق اور ساری صلاحیتوں کو تالے میں بند کردیا تھا۔ وہ اپنے زمانۂ طالب علمی سے بہترین ڈبیٹر، بہترین نعت خواں، بہترین افسانہ نگار، شاعرہ، ہوسٹ اور ریڈیو کی مایہ ناز براڈ کاسٹر تھیں، جنہوں نے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ کام کیا اور جن کی صلاحیتوں کا اعتراف ان کے ڈھیروں ایوارڈز اور گولڈ میڈل تھے۔ لیکن چونکہ ہمارے والد کے خاندان میں خواتین کے یہ سب کام پسند نہیں کیے جاتے تھے تو انہوں نے بلا چوں چرا سب کچھ چھوڑ دیا۔ صرف اپنے شوہر اور بچوں کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ کیونکہ ماں تو ماں ہوتی ہے۔

اس مدرز ڈے میں اپنی امی کے لیے یہ دعا کروں گی کہ اللہ ان کو لمبی زندگی دے، انہیں ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھے، انہیں ہر قسم کی محتاجی سے بچائے۔ ان کے دَم سے ہمارے گھروں میں اجالا ہے، ان کے وجود کی برکت ہے جو ہمارے گھروں میں نظر آتی ہے۔ اللہ تمام مائوں کو سلامت رکھے،آمین۔

حصہ