ماں تو ماں ہوتی ہے

366

آج معیز کے انتقال کو چار ماہ دس دن گزر چکے تھے۔اچھا خاصا جواں سال معیز اسنیچنگ کا شکار ہوگیا تھا۔ راحمہ کے میکے میں دور دراز کے رشتے داروں کے سوا کوئی نہ تھا، نہ والدین نہ بہن بھائی۔ شادی کے وقت صرف اس کی امی تھیں وہ بھی شدید بیمار۔ راحمہ کی ساس اور امی اسکول کے دور کی سہلیاں تھیں۔

راحمہ کی شادی کے ایک سال بعد اس کی امی بھی ساتھ چھوڑ گئیں۔ یوں راحمہ کی مکمل دنیا اب اس کی سسرال تھی۔ معیز نہایت پیار کرنے اور خیال رکھنے والا شوہر تھا۔

راحمہ کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔ تین سالہ معوذ، راحمہ اور بوڑھے ماں باپ… بس اللہ ہی بہتر جانتا تھا، یقینا اس نے کچھ اچھا ہی سوچا ہوگا۔

’’دیکھو بیٹا اب تمھاری عدت کی مدت پوری ہوگئی ہے، تم شادی کرلو‘‘۔ راحمہ کی ساس آمنہ بیگم نے اپنی جواں سالہ بیوہ بہو کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

’’نہیں امی! میں اپنے بیٹے کے بنا نہیں رہ سکتی۔ میرے لیے بس آپ لوگ ہیں نا… آپ، بابا اور معوذ۔‘‘اس نے گود میں لیٹے معوذ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’پھر معیز کی یادیں میرے کافی ہیں‘‘ اس نے قطعیت سے جواب دیا۔ اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

’’اور اگر کوئی معوذ کے ساتھ تمہیں قبول کرلے تو تم انکار تو نہیں کروگی؟‘‘آمنہ بیگم نے پیار سے مضبوط لہجے کہا۔ حالانکہ ان کا جگر چھلنی ہورہا تھا۔ آمنہ بیگم ٹھنڈا سانس کھینچ کر کھڑی ہوگئیں۔

یہ آگہی کا درد بھی بہت سنگین ہوتا ہے۔ اگروہ بھی ایک روایتی، دین سے نابلد ساس ہوتیں تو بیوہ بہو کی جوانی ان کے لیے کوئی معنی نہ رکھتی۔ مگر وہ ایسا نہیں کرسکتی تھیں۔ گزراوقات کے لیے اس کے سسر اور شوہر کی پینشن کافی تھی۔ ان کا گزارا آرام سے ہورہا تھا، مگرآمنہ بیگم کیا کرتیں کہ ان کا دل گوارا نہ کرتا تھا کہ وہ جوان بہو پر ظلم کریں۔ رات میں کسی پہر اگر وہ باہر آتیں تو راحمہ کے کمرے سے باہر آتی روشنی ان کو بے کلی میں مبتلا کردیتی۔ صبح راحمہ کی متورم آنکھیں رت جگے کی غمازی کرتیں۔

’’اماں! بابا! ناشتا کرلیں‘‘۔ اس کی آواز بھی خاصی بھاری ہورہی تھی۔

’’معوذ اٹھ گیا؟‘‘ آمنہ بیگم نے سوال کیا۔

’’نہیں…‘‘ راحمہ نے ساس سے آنکھیں چراتے ہوئے مختصر جواب دیا۔

’’السلام علیکم‘‘ راحمہ نے بابا کو سلام کیا۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا۔

’’ہمارا شیر کہاں ہے؟‘‘

’’سو رہا ہے۔‘‘ آمنہ بیگم بولیں۔

’’بیٹا! تم نے حساب میں ماسٹرز کیا ہے نا‘‘، بابا چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے بولے۔

’’جی بابا!‘‘ وہ ہولے سے مسکرائی۔

’’ایسا کرو اپنی سی وی اس پتے پر بھیجو۔ بہت بڑا اسکول ہے۔ انہیں اس مضمون کی ٹیچر چاہیے۔‘‘

’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ وہ ناشتے سے فارغ ہوئی تھی کہ معوذ روتا ہوا باہر آگیا۔ دادا نے بڑھ کر اسے گود میں اٹھا لیا۔

آمنہ بیگم نے راحمہ کو مصروف کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا تھا۔ سی وی بھیجنے کی دیر تھی کہ وہاں سے کال آگئی۔

آج اس کا اسکول میں پہلا دن تھا۔ اسٹاف روم میں قدم رکھا توجو جماعت اس کے حصے میں آئی اس کی کلاس ہی موضوعِ گفتگو تھی۔

’’مس راحمہ آپ کی کلاس میں دانین نامی بچی ٹیچرز کے لیے امتحان ہے… امتحان… لڑائی جھگڑا، بچوں کا لنچ کھا لینا۔ میں نے تو میڈم کی خوشامد کرکے جان چھڑائی… اف…کلاس کو ہینڈل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘ مس رخشی نے بتایا تو راحمہ گھبرا گئی۔

پہلا دن تو واقعی اس کے لیے آزمائش تھا۔ شروع شروع اس نے دانین سے دوستی کرنے کی کوشش کی مگر زیادہ کامیابی نہ حاصل کرسکی۔ عجیب بے حس سی بچی تھی۔ کبھی بالکل کچھ نہ کھاتی اور جب کھانے پر آتی تو بچوں کے لنچ تک کھا جاتی۔ راحمہ نے اس سے دوستی کرنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی خا کامیابی نہ مل سکی۔ اس کی وجہ سے کلاس میں ابتری پھیلی رہتی اور بار بار انتظامیہ راحمہ کو تنبیہ کرتی۔

آج جب راحمہ انتظامیہ کی تازہ تازہ جھاڑ سن کر آئی تو بہت بے زار تھی۔ اس نے کلاس میں داخل ہوتے ہی دانین کو دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا کردیا۔ لیکن نرم دل راحمہ کو کچھ دیر میں ہی اپنے غلط رویّے کا احساس ہوا، اس نے دانین کو پاس بلا کر پیار کیا تو اُس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور راحمہ کولگا جیسے اس نے کوئی راز پا لیا ہو۔

…٭…

’’راحمہ میری ایک دوست تمھارے لیے رشتہ لائی ہے۔‘‘ کھانا کھاتی راحمہ نے سوالیہ نظروں سے آمنہ بیگم کودیکھا۔

’’معوذ…‘‘ اس نے صرف اتناکہا۔

’’ہاں وہ نہ صرف معوذ کوباپ کا پیار دے گا بلکہ ہمیں اپنے ساس، سسر کی جگہ بھی دے گا۔‘‘ آمنہ بیگم نے اس کی تمام فکریں دور کرتے ہوئے کہا۔

’’مگر میرا دل نہیں مان رہا کہ میں آپ سے آپ کے بیٹے کی نشانی چھین لوں۔‘‘ وہ منہ ہی منہ میں منمنائی۔

’’بس اب یہ تمھارا میکہ ہوگا… اور تم اسی طرح آئو گی جیسے بیٹیاں میکے آتی ہیں، رب نے بیٹا لے کر بیٹی دے دی۔‘‘

’’باقی…؟‘‘

’’اس کی چار سالہ بیٹی ہے… بیوی سے بنی نہیں تو وہ طلاق لے کر چلی گئی۔آج ابراہیم اور اس کی بھابھی آئیں گی۔‘‘ وہ نم ناک آنکھیں لیے کمرے سے نکل گئیں۔

شام کو وہ ملگجے سے حلیے میں ان لوگوں کے سامنے آئی۔ خالی الذہنی کے ساتھ گود میں ہاتھ رکھے بیٹھی تھی۔

’’بیٹا! بچی کو بھی لے آتیں…‘‘ آمنہ بیگم نے کہا۔

’’وہ بہت ضدی ہوگئی ہے ماں کے جانے کے بعد سے۔‘‘ ابراہیم شائستگی سے بولا۔

…٭…

اور راحمہ نے جہاں اسکول چھوڑنے پر اللہ کا شکر اداکیا وہیں معیز کی یادیں اور اس گھر کو چھوڑنے کا دکھ اسے کچوکے لگا رہا تھا۔ سادگی سے نکاح ہوا۔ وہاں سے پانچ لوگ آئے تھے۔ رخصتی کے وقت وہ ماں اور بابا کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی۔

’’بیٹا! آج معوذ کو یہاں چھوڑ دو۔کل لے جانا۔‘‘ بابا نے ابراہیم کی گود میں چڑھے معوذ کو دیکھ کر کہا۔

’’بس اب یہ میری ذمہ داری ہے۔‘‘ ابراہیم نے پیار سے معوذ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اب دونوں بہن بھائی ساتھ رہیں گے۔‘‘وہ بولا۔

’’بچی کو بھی لے آتے‘‘، آمنہ بیگم نے کہا۔

’’وہ اپنی چچی کے پاس ہے۔‘‘ ابراہیم نے کہا۔ ’’اب تو راحمہ بیٹی کو سنبھال لیں گی… اور میں بیٹے کو۔‘‘

اس کے لہجے کا خلوص راحمہ کے دل میں اطمینان بن کر اتر گیا۔ جب وہ تینوں گھر میں داخل ہوئے تو بچی بھاگتی ہوئی ابراہیم سے لپٹ گئی۔

’’چلو بھئی اب تم اپنی ذمہ داری سنبھالو، ہم تو اس ضدی اور اکھڑ لڑکی سے تنگ آگئے ہیں۔‘‘ ابراہیم کی بھابھی بے زار سے لہجے میں بولیں۔

پہلے تو ابراہیم کے ساتھ کھڑی راحمہ دانین کو دیکھ کر گھبرا گئی ’’اُف…! اس کے ساتھ تو اسکول کے چند گھنٹے گزارنے دشوار لگتے تھے۔‘‘ مگر پھر راحمہ نے ابراہیم کے خلوص اور چچی کے رویّے کو محسوس کرکے دانین کو اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئے سوچ لیا کہ ماں تو ماں ہوتی ہے، سگی یا سوتیلی نہیں۔

حصہ