قیصروکسریٰ قسط(100)

369

فسطنیہ، فیروز کے ساتھ نیچے اُتری تو سین رہائشی مکان کے برآمدے میں کھڑا اس کی ماں سے کہہ رہا تھا۔ ’’میرے مہمان بھوکے ہیں۔ آپ فوراً کھانا بھجوانے کا انتظام کریں اور اگر آپ نے ابھی تک ناشتہ نہیں کیا تو ہم سب ایک جگہ بیٹھ کر کھائیں گے‘‘۔

یوسیبیا نے کہا۔ ’’ناشتا تیار ہے اور ہم آپ کا انتظار کررہے تھے‘‘۔

’’فسطنیہ کہاں ہے؟‘‘

’’وہ آپ کے پیچھے کھڑی ہے‘‘۔

سین نے مڑ کر دیکھا اور فسطنیہ آگے بڑھ کر اپنے باپ سے لپٹ گئی۔

یوسیبیا نے سوال کیا۔ ’’آپ نے عاصم کو قسطنطنیہ کیوں نہیں بھیجا؟‘‘۔

’’اُسے وہاں بھیجنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ رات قیصر سے میری ملاقات ہوگئی‘‘۔

’’کہاں؟‘‘

’’سمندر کے کنارے میرے خیمے میں ان کی آمد خلاف توقع تھی۔ ورنہ میں ان کے لیے کوئی بہتر انتظام کرتا اور تمہیں بھی اپنے ساتھ لے جاتا۔ اب تم ان کے ایلچی سے ملاقات کرو گی۔ اور میں دو تین دن کے اندر اندر ان کے ساتھ دست گرد روانہ ہوجائوں گا۔ آپ میرے ساتھ نہیں جاسکیں گی۔ اور میرا ارادہ تھا کہ عاصم کو آپ کے پاس چھوڑ جائوں۔ لیکن وہ میرے ساتھ جانے پر بضد ہے اور میں بھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ شاید سفر میں مجھے اس کی ضرورت پڑے۔ موجودہ حالات میں میرے لیے عاصم سے زیادہ قابل اعتماد ساتھی کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ تمہیں یہاں چھوڑ کر جانا میرے لیے بے حد صبر آزما ہوگا۔ لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ایران کی نسبت یہ جگہ تمہارے لیے زیادہ محفوظ ہوگی۔ اور ویسے بھی مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ میں تم کو ساتھ لے جا کر مجوسی کاہنوں کو چڑانے کی کوشش نہ کروں۔ اب تم کھانا لگوائو میں مہمانوں کو ساتھ لے کر آتا ہوں‘‘۔

سین یہ کہہ کر واپس مڑا۔ اور تیزی سے قدم اُٹھاتا ہوا مہمان خانے کی طرف چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد سین اور مہمان دستر خوان پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یوسیبیا اور فسطنیہ کمرے میں داخل ہوئیں اور وہ اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ فسطنیہ اپنی ماں کے اصرار پر اپنا بہترین لباس پہن کر آئی تھی اور رومیوں کی مرعوب اور خاموش نگاہیں اسے خراج تحسین پیش کررہی تھیں۔

سین نے رومی مہمانوں سے ان کا تعارف کرانے کے بعد یوسیبیا کو اپنے دائیں اور فسطنیہ کو بائیں ہاتھ بٹھالیا۔

فسطنیہ کھانے کے دوران کبھی کبھی دزدیدہ نگاہوں سے عاصم کی طرف دیکھتی اور اس کے خوبصورت چہرے پر سرخی دوڑ جاتی۔ یوسیبیا دسترخوان پر بیٹھتے ہی اپنے رومی مہمانوں سے بے تکلف ہوچکی تھی۔ بار بار اس بات پر اظہار افسوس کررہی تھی کہ وہ قیصر اور اسقفِ اعظم کی قدم بوسی کی سعادت حاصل نہ کرسکی‘‘۔

اچانک کلاڈیوس نے فسطنیہ کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’مجھے آپ سے مل کر جو خوشی حاصل ہوئی ہے وہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ ایک اجنبی ہونے کے باوجود میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ آپ کے متعلق آپ کے والدین اور عاصم کے بعد میری معلومات سب سے زیادہ ہیں‘‘۔

عاصم نے اپنے دل میں خوشگوار دھڑکنیں محسوس کیں۔ اور وہ سراپا احتجاج بن کر کلاڈیوس کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے عاصم کی طرف توجہ دیئے بغیر اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’بابلیون سے لے کر صحرائے نوبہ تک اور پھر نوبہ سے قسطنطنیہ تک ہمارا سفر بہت طویل تھا۔ ہم نے سیکڑوں دن اور سیکڑوں راتیں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے گزاری ہیں۔ اور عاصم کی گفت گو کے بہت کم لمحات آپ کے ذکر سے خالی ہوتے تھے‘‘۔

یوسیبیا مضطرب ہو کر کبھی اپنے شوہر اور کبھی عاصم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ تاہم سین کے چہرے سے اندازہ کرنا مشکل تھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے۔ اچانک فسطنیہ نے گردن اٹھائی اور ایک غیر متوقع اطمینان کے ساتھ کہا۔ ’’آپ کے دوست کو ہمارے ساتھ باتیں کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا تاہم آپ ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ ان کی بیشتر گفت گو آپ کے متعلق تھی۔ ہمارے لیے فرمس اور ان کی بیٹی بھی اجنبی نہیں‘‘۔

ولیریس نے قدرے جرأت سے کام لیتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے بھی عاصم کا دوست ہونے کا فخر حاصل ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ انہوں نے مجھے قابل ذکر نہیں سمجھا ہوگا‘‘۔

فسطنیہ مسکرائی۔ ’’نہیں، میں آپ کے متعلق بھی بہت کچھ سن چکی ہوں‘‘۔

سین نے اپنی بیوی کی پریشانی سے متاثر ہو کر کہا۔ ’’ہم عاصم کے شکر گزار ہیں کہ اس نے بدترین حالات میں بھی ہمیں فراموش نہیں کیا۔‘‘

کلاڈیوس نے کہا۔ ’’آپ کو فراموش کرنا عاصم کے بس کی بات نہ تھی۔ بیماری کے ایام میں ان کی باتوں سے مجھے بارہا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ زندگی کے ساتھ ان کا رشتہ فقط آپ کی یاد تک محدود ہے۔ بحری سفر کے دوران میری بیوی مجھ سے اکثر یہ کہا کرتی تھی کہ وہ لوگ جو عاصم کو اس قدر عزیز ہیں یقینا عام انسانوں سے مختلف ہوں گے اور آپ کو دیکھ کر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اس کا خیال غلط نہیں تھا‘‘۔

عاصم انتہائی اضطراب کی حالت میں کلاڈیوس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ لیکن کلاڈیوس اس کی نگاہوں کے خاموش احتجاج کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے میزبانوں کو اور زیادہ متاثر کرنے کے لیے عاصم کے ساتھ اپنی رفاقت کے ایام کے مختلف واقعات سنا رہا تھا۔ بالآخر عاصم نے کہا۔ ’’میرے خیال میں اب ہم سب کو آرام کی ضرورت ہے اور یہ ولگ اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔

تھوڑی دیر بعد مہمان خانے کے ایک کمرے میں عاصم کو تنہائی میں کلاڈیوس سے باتیں کرنے کا موقع ملا، تو اس نے بڑی مشکل سے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو سین کے سامنے میری بیچارگی اور بے بسی کی تصویر کھینچنے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔

کلاڈیوس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’عاصم میں نے صرف ایک دوست کا فرض ادا کیا ہے اور تمہیں یہ محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ وہ لوگ میری باتوں سے کوئی غلط نتیجہ اخذ کریں گے۔ سین ایک حقیقت پسند آدمی ہے اور وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوسکتا کہ تمہارے متعلق اس کی بیٹی کے جذبات کیا ہیں۔ آج چند باتوں سے مجھے یہ اطمینان ہوگیا ہے کہ اب میں ان کے ساتھ تمہارے اور فسطنیہ کے مستقبل کے متعلق کھل کر بات کرسکتا ہوں‘‘۔

’’تم ان سے کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ عاصم نے اور زیادہ مضطرب ہو کر سوال کیا۔

’’میں نہیں، ابھی ان باتوں کا وقت نہیں آیا۔ میں اس وقت سین کی بیٹی کو ایک ویران دنیا اور غیر یقینی مستقبل کے سوا اور کیا دے سکتا ہوں؟‘‘

’’تم اپنے دل کی وسعتوں میں اس کے لیے وہ عشرت کدے تعمیر کرسکتے ہو جو ایک عورت کو مرمریں ایوانوں سے زیادہ دلکش محسوس ہوتے ہیں۔ اور فسطنیہ جسے میں نے آج دیکھا ہے ایران کے سپہ سالار کی بیٹی ہونے کے باوجود صرف ایک عورت تھی۔ وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہی تھی جیسے قیصر اور کسریٰ کے سارے خزانے تمہارے قدموں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس کے والدین یہ جانتے ہیں کہ وہ تمہارے سوا کسی اور کی طرف نہیں دیکھے گی۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آج تک ایران کا کوئی شہزادہ اُسے اپنے محل میں جگہ دے چکا ہوتا‘‘۔

عاصم نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’میں ڈرتا ہوں کلاڈیوس‘‘۔

’’تم اس بات سے ڈرتے ہو کر فسطنیہ تمہیں ٹھکرادے گی؟‘‘

’’نہیں‘‘۔

’’تم سین سے ڈرتے ہو؟‘‘

’’نہیں نہیں، کلاڈیوس! میں صرف اپنے مقدر سے ڈرتا ہوں‘‘۔

’’میرے دوست تمہارا مقدر تمہیں رات کی بھیانک تاریکیوں سے نکال کر صبح کی
روشنی میں لے آیا ہے اور اب تمہیں آنکھیں بند کرکے مستقبل کا راستہ ٹٹولنے کی ضرورت نہیں۔ اگر تم مجھے اجازت دو تو میں سین سے بات کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔

’’میں تمہیں منع نہیں کرسکتا۔ لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ابھی اس موضوع پر سین سے گفت گو کا وقت نہیں آیا۔ اگر ہم اس مہم سے کامیاب ہو کر واپس آئے تو میں کسی جھجھک کے بغیر سین کے سامنے ہاتھ پھیلا سکوں گا‘‘۔

سین دو دن آبنائے باسفورس کے کنارے اپنے مستقر کا معائنہ کرنے اور فوج کے افسروں کو ضروری ہدایات دینے میں مصروف رہا۔ تیسرے روز غروب آفتاب کے وقت اس نے واپس پہنچتے ہی کلاڈیوس اور اس کے ساتھیوں کو اطلاع دی کہ ہم علی الصباح یہاں سے روانہ ہوجائیں گے۔

چناں چہ اگلے روز طلوع آفتاب سے ایک ساعت قبل عاصم اور اس کے ساتھی ایرانی سواروں کے ایک دستہ کے ساتھ قلعے کے دروازے پر کھڑے سین کا انتظار کررہے تھے۔ اچانک فیروز بھاگتا ہوا آیا۔ اور اس نے عاصم سے کہا۔ ’’آقا آپ کو بلاتے ہیں‘‘۔ عاصم کچھ کہے بغیر فیروز کے ساتھ ہو لیا۔ سین قلعے کے اندر اپنے رہائشی مکان کے برآمدے میں کھڑا اپنی بیوی اور بیٹی سے الوداعی باتیں کررہا تھا۔ عاصم اس سے چند قدم دور رک گیا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے فریب بلاتے ہوئے کہا۔ ’’عاصم! میں رخصت ہونے سے پہلے اپنی بیوی اور فسطنیہ کی موجودگی میں تم سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ کل تک میرا یہی خیال تھا کہ میں اس مہم سے فارغ ہونے کے بعد فسطنیہ کے مستقبل کے متعلق کوئی فیصلہ کروں گا۔ لیکن رات بھر سوچنے کے بعد میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ شاید مجھے وہاں روک لیا جائے اور میں جلد واپس نہ آسکوں، یہ بھی ممکن ہے کہ اس مہم کے نتائج سراسر ہماری توقعات کے خلاف ہوں۔ اور میرے لیے واپسی کا راستہ ہمیشہ مسدود ہوجائے۔ ویسے بھی میری عمر کے آدمی کو اپنے حصہ کا کام ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس لیے میں رخصت ہونے سے پہلے تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس دن تم واپس آئے تھے میں نے اسی دن یہ فیصلہ کرلیا تھاکہ فسطنیہ تمہاری ہے۔ اور اگر تم مجھے صلح کے ایلچی کی حیثیت سے دست گرد رخ کرنے پر آمادہ نہ کرتے تو آج اپنی بیٹی کی شادی میری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا اور میں تم سے صرف پوچھتا کہ روئے زمین کا وہ کونسا گوشہ ہے جہاں تم امن اور سکون کی زندگی بسر کرسکتے ہو۔ اب میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ کسریٰ کے دربار سے امن اور سکون کے متلاشیوں کے لیے یہ خوش خبری لے کر آئوں کہ یہ دنیا تمہاری ہے اور اس کی ساری مسرتیں تمہارے لیے ہیں۔

(جاری ہے)

حصہ