بہو کیسے سدھری …..؟

237

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک بزرگ عورت خاندان کے ہمراہ رہتی تھی۔ وہ رحمت بی بی کے نام سے مشہور تھی۔ رحمت بی بی نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ زندگی وہ، جو انسانوں کے کام آئے۔ وہ صوم و صلوٰۃ کی پابند تھی۔ گاؤں کی عورتیں اپنے مسائل کے حل کے لیے رحمت بی بی کے گھر آتی تھیں۔ چلچلاتی دھوپ تھی، دوپہر کا وقت تھا، رحمت بی بی ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی کہ ایک عورت روتی ہوئی اس کے پاس آئی اور آتے ساتھ ہی سسرال والوں کے خلاف آگ برسانے لگی۔ بی بی نے عورت سے نرمی سے پوچھا کہ جب تمہارے سسرال والے تم سے بے وجہ لڑتے ہیں تو تمہارا کیا ردعمل ہوتا ہے؟ کیا تم اسی طرح لڑ کر جواب دیتی ہو؟ زبان

چلاتی ہو یا خاموش رہتی ہو؟ یہ سننا تھا کہ عورت نادم سی ہوگئی ، اب وہ پکڑ میں تھی۔ بی بی نے کہا: ”برائی کا جواب برائی میں دینا بھی برائی ہے۔ جب برائی کرنے والا یا والی اسی خاندان سے ہو تو ایک نے شکست کھانی ہے۔ تم بیاہ کر آئی ہو اس خاندان میں تو اس گھر کا فرد ہو۔ بھول چوک سبھی سے ہوتی ہے۔ تم جس رشتے سے بندھی ہو، وہ لازماً عفو و در گزر سے ہو کر ہی مستحکم بنتا ہے۔ ایک چپ سو کو ہرائے۔ بس جب ایسی صورت حال ہو تو تم بالکل جواب مت دینا۔ خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہنا: ”بڑے ہیں، کہہ رہے ہیں، میرے بھلے کے لیے ہی ہے ۔ دل و دماغ کو ان باتوں سے سنبھالنا۔ آسانیاں تمہارے گھر میں در آئیں گی۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجھتی ۔“ رحمت بی بی نے نرمی سے پڑوسن کو سمجھایا۔ وہ آنکھیں پونچھتے ہوئے کہنے لگی کہ آئندہ خیال رکھے گی اور گھر ٹوٹنے سے بچائے گی۔ رحمت بی بی نے نہ کوئی تعویذ دیا نہ کوئی الٹی سیدھی بات سکھائی بلکہ اس عورت کا گھر بچانے کے لیے سیدھی راہ دکھائی۔ کچھ دن بعد وہ عورت مسکراتی ہوئی آئی اور رحمت بی بی کو بتایا کہ اس کی بتائی ہوئی ترکیب پر عمل کر کے اس کا گھر آسودگی کی آماج گاہ بن گیا ہے۔ رحمت بی بی مسکرادی اور بہو کو آواز دی کہ چائے بنا کر لاؤ۔

حصہ