ننھے جاسوس۔ ڈبل ایجنٹ

309

تھوڑی دیر تک تو جمال اور کمال ایک دوسرے کو نہایت غور سے دیکھتے رہے پھر ایک پُر عزم سی مسکراہٹ کے بعد دونوں نے بیک آواز کہا کہ سچ پوچھو تو ایسا لگ رہا ہے جیسے پہلے سے زیادہ اب کام کرنے کا مزا آئے گا لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اب یہاں حیدر علی نہیں ہونگے۔ ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ان کے کمرے میں ان کے والد محترم داخل ہوئے اور کہا کہ انسپکٹر حیدر علی کا تمہارے لیے ایک اہم پیغام میرے پاس آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش ہو یا کوئی ایسی بات جو گزشتہ کی طرح تم پولیس کے علم میں لانا ضروری سمجھتے ہو تو مجھے اس ای میل ایڈریس پر ارسال کر سکتے ہو۔ فون، وائرلیس یا خود آکر ملاقات کرنا زیادہ غیر محفوظ ہوگا۔ یہ کہہ کر جمال اور کمال کے والد نے ایک کاغذ ان دونوں کی جانب بڑھا دیا جس پر ای میل ایڈریس تحریر تھا۔
ابھی تک تو ان کی بستی کے تھانے کی حدود میں کوئی ایسی بڑی واردات تو نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے عام لوگوں کو کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو لیکن اس کے باوجود بھی نہ جانے کیوں ایسا لگتا تھا جیسے کسی بڑے طوفان سے پہلے شدید حبس کی سی کیفیت ہو جایا کرتی ہے، ویسا ہی ایک حبس ہو اور پھر اچانک شدید طوفان آ جائے۔ یہ ساری کیفیت جمال اور کمال کی اپنی سوچ بھی ہو سکتی تھی لیکن اتنی بڑی آبادی میں اچانک اتنا زیادہ سکون ان دونوں کو چغلیاں کھاتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ ممکن ہے کہ بستی کے اور بہت سارے افراد بھی کچھ اسی قسم کی کیفیت کا شکار ہوں، جس طرح جمال اور کمال خود تو ایسا ہی محسوس کر رہے تھے لیکن کسی سے اس کا اظہار نہیں کر رہے تھے، ممکن ہے کہ بہت سے لوگ بھی ایسا ہی سب کچھ محسوس تو کر رہے ہوں لیکن ایک دوسرے سے شیئر نہ کر رہے ہوں۔
بے شک خوشی کی بات تو تھی کہ گلیوں اور بازاروں میں جو چھینا چھپٹی کی وارداتیں ہوا کرتی تھیں، سننے میں آنا بہت ہی کم ہو گئی تھیں۔ چوری اور ڈاکہ زنی کی بھی کوئی بڑی واردات سننے میں نہیں آئی جس کی وجہ سے کہا جا سکتا تھا کہ نئے انسپکٹر ملک احمد خان نے یہاں کے حالات پر ایک بھر پور اور شکرے والی نظر رکھی ہوئی ہے۔ بعض اوقات یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ اگر کسی بھی محکمے یا ادارے میں کسی بھی پوسٹ پر کسی فرد کی کارکردگی اچھی نہیں بھی ہوتی ہے تو دوسری جگہ تبادلے کی صورت میں وہ اپنے اعلیٰ عہدیداروں کی گڈ بک میں آجاتا ہے۔ اب تک کی کارکردگی کے لحاظ سے یہی سوچا جا سکتا تھا کہ کسی بھی وجہ سے ملک احمد خان کے متعلق جو سوچ بھی ان کے اعلیٰ عہدیداروں میں پائی جا رہی تھی، ملک احمد خان اس کو دور کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے جو بہر حال محکمے اور عام لوگوں کے لیے ایک اچھا شگون ہوگا۔ امن و امان میں بہتری اور ناپسندیدہ وارداتوں میں کافی کمی آجانے کے باوجود نہ جانے کیوں جمال اور کمال کو ایسا کیوں محسوس ہو رہا تھا جیسے غیر محسوس طریقے سے ان کی بستی میں کچھ ہونے والا ہے۔ جمال اور کمال پاکستان کی ایسی بستی میں رہائش پذیر تھے جو دشمن ملک کی سرحد سے زیادہ دور نہیں تھی۔ یہیں ان کے اجداد پیدا ہوئے تھے اور یہاں ہی ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ جس شہر یا بستی میں کسی کا خاندان برس ہا برس سے رہ رہا ہو وہاں کے ذرے ذرے سے اسے پیار ہو جاتا ہے۔ بے شک یہ خاندان بہت نامی گرامی تو نہیں تھا اور نہ ہی زمینوں اور جائیدادوں کا مالک، مگر اس خاندان کے ایک ایک فرد کو علم سے بڑی محبت تھی اور اسی وجہ سے سارے علاقے والے، خواہ وہ وڈیرے ہوں یا عام لوگ، ان سے محبت ہی نہیں عقیدت بھی رکھتے تھے۔
جمال اور کمال نے آج اپنی اپنی “حبس” والی کیفیت کا بہت جائزہ لیا اور اسی نتیجے پر پہنچے کہ وہ جیسا بھی سوچ رہے ہیں غلط نہیں ہے۔ انھیں نہ جانے کیوں یہ احساس ہو رہا تھا جیسے ان کی بستی میں کچھ ایسے سائے لہرا رہے ہیں جن کا تعلق ان کی بستی سے ہے ہی نہیں لیکن وہ سائے کن انسانوں کے ہیں، یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی۔ وہ انسانوں کو سائے اس لیے کہہ رہے تھے کہ انھیں ایسا تو ضرور لگ رہا تھا کہ جیسے ان کی بستی میں اجنبیوں کی تعداد میں اضافہ سا ہو رہا ہو لیکن اس کے باوجود بھی وہ حیران تھے کہ اگر یہاں اجنبی بڑھتے جا رہے ہیں تو پھر وہ انھیں نظر کیوں نہیں آتے۔ یہ بات تو سب کے علم میں ہے کہ اللہ نے دونوں بھائیوں کو “پہچان” کی ایسی حس عطا کی تھی کہ وہ کسی کو بھی ایک مرتبہ دیکھ لیں تو کسی اور جگہ دیکھنے پر اسی شخص کو کئی زاویوں سے پہچان سکتے تھے لیکن یہ محسوس کرنے کے باوجود بھی کہ بستی میں اجنبیوں کی آمد ہو رہی ہے، وہ کسی بھی اجنبی کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
آج کافی دنوں بعد وہ اپنی والدہ کے ساتھ کچھ ضروری خریداری کے سلسلے میں بازار کی جانب نکلے تھے۔ گھر سے نکلنے سے لیکر بازار آنے تک اس احساس سے وہ چھٹکارا حاصل نہ کر سکے کہ کوئی آنکھ ان کی مسلسل نگرانی کر رہی ہے۔ اب تو وہ جیسے اس کے عادی سے ہو چلے تھے لیکن اس کا یہ مقصد بالکل نہیں تھا کہ انھوں نے محتاط رہنا چھوڑ دیا تھا۔ کپڑوں کی خریداری وہ کبھی تنہا نہیں کیا کرتے تھے اس کے لیے وہ والد کو ساتھ لیا کرتے تھے یا والدہ کو۔ ابھی وہ ایک کلاتھ شاپ پر اپنے لیے کپڑے پسند ہی کر رہے تھے کہ دو تین پولیس کی جیپیں بازار میں آکر رکیں۔ ایک جیپ میں سے کافی سخت گیر شکل والی ایک شخصیت اتری جن کے لباس میں لگے پھولوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ انسپکٹر ہی ہونگے۔ اتنی میں کلاتھ شاپ پر بیٹھے ایک سیلزمین نے آہستہ سے کہا کہ یہ انسپکٹر ملک احمد خان ہیں۔ آج پہلی مرتبہ جمال اور کمال کے ذہنی کیمرے نے ان کی تصویر کھینچ کر اپنی یاد داشت میں محفوظ کی تھی۔ قد کاٹھ سے واقعی وہ انسپکٹر کہلانے کے مستحق تھے۔ ان ہی کے پیچھے سول لباس میں ایک شخصیت اور دکھائی دی جو دراز قد کی حامل تھی۔ گہرے ساؤنلے رنگ اور دبلے پتلے جسم والا یہ شخص آس پاس کی کسی آبادی والا نہیں لگتا تھا۔ کلاتھ شاپ والے نے بتایا کہ یہ شخص اکثر انسپکٹر ملک احمد خان کے ساتھ نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی یہ اکیلا بھی آتا ہے اور پورے بازار میں گھومتا ہے۔ لوگ اس بات کو پہلے تو بہت محسوس کرتے تھے لیکن اب جیسے عادی ہو گئے ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ نہ تو ملک احمد خان سے لوگوں کو کوئی شکایت ہے اور نہ ہی اس شخص نے کبھی لوگوں کو پریشان کیا۔ کیونکہ یہ اکثر ملک احمد خان کے ساتھ دیکھا گیا ہے اس لیے اجنبی ہونے کے باوجود بھی اب لوگ اس سے کافی مانوس ہو چکے ہیں۔ (جاری ہے)
گھر آکر جمال اور کمال نے کہا کہ گویا ہماری چھٹی حس اگر یہ کہہ رہی ہے کہ بستی میں اجنبیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو شاید غلط بھی نہیں۔ ایک اجنبی چہرے کا ملک احمد خان کے ساتھ سرکاری گاڑی میں آنا اور اکثر بازار میں بلاوجہ گھومنا یقیناً بے معنیٰ تو نہیں ہوگا لہٰذ ہمیں اس بات کو آسان نہیں لینا چاہیے۔

آج کل جمال اور کمال اپنے والد صاحب میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھ رہے تھے۔ یہ بھی نہیں کہ ان کے والد صاحب ان سے فاصلہ رکھا کرتے تھے یعنی ان سے بے تکلف نہیں تھے یا انھیں وقت نہیں دیا کرتے تھے بلکہ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان کے والد صاحب کو ان کی جاسوسی والی سر گرمیوں سے کبھی کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی تھی لیکن اس مرتبہ انھیں ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ غیر محسوس انداز میں ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہوں۔ یہ جان کر بھی جمال اور کمال نے کبھی ان سے اس قسم کی تبدیلی کے متعلق کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔ ایک دن والد صاحب نے کہا کہ کیوں نہ کچھ آؤٹنگ ہو جائے، تم دونوں اور میں، کسی اچھی سی جگہ چل کر کچھ چٹورپن کیوں نہ کر لیں۔ چٹور پن پر پہلے بھی کبھی کبھی جانا ہو جایا کرتا تھا لیکن ایسا کبھی والدہ کے بغیر نہیں ہوا تھا۔ اس مرتبہ والدہ کو ساتھ لیے بغیر کسی کھلی جگہ کھانے پینے کی جگہ پر لے جانے کی بات بلا مقصد تو کسی صورت نہیں ہو سکتی تھی لیکن اس کے باوجود بھی جمال اور کمال کو یہ بات اچھی نہ لگی کہ وہ ان سے اس خلافِ معمول پروگرام کے مطابق سوال کریں بلکہ انھوں نے سوچ لیا تھا کہ اس تبدیلی کا راز وہ خود سے ہی جان لینے کی کوشش کریں گے چناچہ دونوں نے یہی فیصلہ کیا خاموش رہ کر اس بات کا کھوج لگایا جائے کہ والد صاحب میں اس تبدیلی کا سبب کیا ہے۔

جمال، کمال اور ان کے والد جس لان نما ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے، ان سے کچھ فاصلے پر ایک ہی میز ایسی تھی جو خالی پڑی تھے لیکن ہوٹل میں داخل ہوتے ہوئے جمال اور کمال نے اس پر “ریزرو” کی تختی لگی ہوئی دیکھ لی تھی۔ ایسی ہی ایک تختی خود ان کی میز پر بھی لگی تھی۔ گویا والد صاحب نے یہاں آنے سے قبل ہی اپنے لیے میز ریزرو کرا لی تھی۔ یہ بات بھی دونوں کے لیے بہت نئی اور ان کی حس کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔ وہ دونوں نہایت خاموشی سے ایک ایک بات نہایت توجہ سے نوٹ کر رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ والد صاحب میں اس تبدیلی کا راز کبھی نہ کبھی تو ضرور سامنے آئے گا۔ کچھ ہی دیر کے بعد پھلوں کے تازہ جوس کے گلاس ان کے سامنے پیش کئے گئے جو خوش دلی کے ساتھ قبول کر لیے۔ کھانا آرڈر کے مطابق تیار ہونے میں ابھی دیر تھی جس کی وجہ سے دونوں بھائی ہال کا ایک سر سری جائزہ لینے لگے لیکن یہ جائزہ بالکل عام سے انداز میں لیا جا رہا تھا۔ اس لان نما ہوٹل کے لان میں ساری میزیں بھر چکی تھیں۔ کافی لوگ ویٹنگ ایریا میں بھی نظر آ رہے تھے جو اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ ہوٹل زبان کے چٹخاروں کے لیے کافی شہرت رکھتا ہے۔ قریب کے جس شہر میں یہ لان نما ہوٹل تھا وہاں جمال اور کمال کا بہت کبھی آنا جانا ہوتا تھا وہ بھی زیادہ تر والدہ کے ساتھ کسی خریداری کے سلسلے میں اس لیے وہ یہاں کے سب لوگوں کے چہرہ شناس نہیں تھے اس کے باوجود بھی نہ جانے کیوں جمال اور کمال کو ایسا لگ رہا تھا جیسے یہاں جو لوگ کھانے پینے کیلے آئے ہوئے ہیں ان میں سے کچھ شاید اس آبادی سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہ اپنی بستی اور بستی کے ساتھ اس جڑے شہر کی آبادی والوں کی شکل و صورت کے علاوہ بھی ان کی دورانِ گفتگو ہاتھ ہلاتے رہنے، ہنسنے، چلنے پھر نے اور ادب آداب کے بہت سارے انداز پر نہ صرف غور کرتے رہا کرتے تھے بلکہ ان کے لباس کی تراش خراش اور کپڑوں کی اقسام پر بھی بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔ یہ سب صلاحیتیں ہر انسان میں نہیں ہوا کرتیں لیکن اللہ نے کم عمری میں بھی انھیں ایسی صلاحتیں عطا کی ہوئی تھیں جو کسی بڑے عمر والے کو بھی بہت تجربات کے بعد حاصل ہوتی ہیں۔ انھیں صلاحیتوں کی بنیاد پر انھیں ایسا نظر آ رہا تھا جیسے اس لان نما ہوٹل میں کافی افراد ایسے ہیں جو کم اس کم اس شہر کے نہیں ہیں۔ ابھی وہ اس بات پر غور ہی کر رہے تھے کہ قریب کی خالی میز پر تین افراد آکر بیٹھ گئے۔ لیکن اب بھی ایک نشست خالی تھی اور لگ رہا تھا کہ جیسے آنے والوں کو اپنے چوتھے ساتھی کا انتظار ہے۔ جمال اور کمال کے لیے دلچسپی کی بات یہ تھی ان تین میں بھی انھیں ایک فرد ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ آس پاس کی کسی آبادی والوں سے مختلف ہے۔ یہ بات ان کی چھٹی حس کہہ رہی تھی ورنہ بظاہر ایسی کوئی بات نہیں تھی جس کی بنیاد پر ان کے اندازوں کی تصدیق کی جا سکتی ہو۔ یہ سب جائزہ اتنی صفائی سے لیا گیا تھا کہ کسی کی آنکھ بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی تھی کہ جمال اور کمال کچھ شخصیات کو آنکھیں گاڑ کر دیکھتے رہے ہوں۔

ابھی جمال اور کمال اپنی بات اور محسوس ہونے والے کچھ اندازوں پر غور ہی کر رہے تھے کہ سامنے والی میز پر بیٹھے لوگوں کو اپنی اپنی نشستوں پر کسی کی آمد پر احتراماً کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا۔ جمال اور کمال نے ان کی نگاہوں کا تعاقب کرتے ہوئے دیکھا تو انھیں ایک ایسی شخصیت دکھائی دی جس کی جانب انھیں غور سے دیکھتے چلے جانے پر مجبور ہونا ہی پڑا۔ وہ اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کے ساتھ ساتھ مطلوبہ میز تک آجانے تک مسلسل دیکھتے رہے اور کچھ دیر کے لیے یہ بات بھی بھول گئے کہ ان کے ساتھ ان کے والد صاحب بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور آنے والے کو مسلسل دیکھے جانے پر وہ جمال اور کمال کا بڑے بھر پور طریقے سے جائزہ لے رہے ہیں۔ جیسے ہی جمال اور کمال کی نظر اس آنے والے کی جانب سے ہٹی، اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ جمال اور کمال کے والد نے ان کی جانب سے ہٹائی اور پانی کی اس بوتل کی جانب ہاتھ بڑھادیا جو ان کی میز پر ان کی آمد سے بھی پہلے کی رکھی ہوئی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس بات کو جمال اور کمال کی شاطرانہ نگاہیں بھی ٹھیک سے نہ بھانپ سکیں۔

جمال اور کمال آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے جیسے پوچھ رہے تھے کہ آنے والے کے متعلق جیسا میں سوچ رہا ہوں کیا ہم دونوں بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں جس پر دونوں جانب سے یہی جواب آیا کہ جناب ہم دونوں ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔ جمال اور کمال کے والد نہایت کمالِ ہوشیاری کے ساتھ ایسے بن گئے جیسے انھوں نے جمال اور کمال کی بدلتی کیفیت کو دیکھا ہی نہ ہو۔ کچھ دیر کے بعد وہ واش روم جانے کا اشارہ کرکے اٹھ گئے۔ ان کے جاتے ہی جمال نے کمال سے کہا کہ سب سے عجیب بات یہ ہے یہ جو شخصیت ان تین آدمیوں کے پاس آکر بیٹھی ہے اس کے چہرے کے علاوہ ہر ہر عضو ہمارا دیکھا ہوا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اسے ہم نے خواہ ایک بار ہی دیکھا ہو، یہ سو فیصد دیکھا ہوا سا لگتا ہے۔ تو کیا جس شخص کو ہم انسپکٹر ملک احمد کے ساتھ دیکھتے رہے ہیں اس نے اپنا چہرہ کسی اور سے بدل لیا ہے۔ کمال نے کہا کہ جو بات تم مجھ سے کہہ رہے ہو، وہی بات میں تم سے کہنے والا تھا۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم نے دیکھا مرد ہو اور وہ عورت کی شکل اختیار کر لے بس اس شخصیت میں جو ملک احمد خان کے ساتھ دیکھی تھی اور جو ہمارے سامنے ہے، صرف چہرے کا فرق ہو۔ کمال نے جمال کی بات سن کر کہا ایک بات ایسی ہے جس پر مزید غور کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سامنے بیٹھی ہوئی شخصیت اور ملک احمد خان کے ساتھ گھومنے پھرنے والا فرد جڑواں بہن بھائی ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ایک بات کی اور تصدیق کر لیں تو اچھا ہے۔ اچھا ہے کہ ہمارے والد صاحب بھی واش روم کی جانب گئے ہوئے ہیں ورنہ جو کچھ میں کرنے جا رہا ہوں شاید وہ مجھے ایسا نہ کرنے دیتے۔ یہ کہہ کر جمال، کمال کو اشارہ کرکے اپنی نشست سے یہ کہتے ہوئے اٹھ گیا تم اس خاتون کے ردِ عمل کو بہت غور سے دیکھتے رہنا اور اس میز کی جانب بڑھ گیا جس پر آنے والی مشکوک خاتون آکر بیٹھی تھیں۔ اس کی کرسی کی پشت کے قریب پہنچ اس نے لڑکھڑانے کی اداکاری کرتے ہوئے اپنا قیمتی قلم اس کی گود میں اس طرح اچھال دیا جیسے اس کے لڑکھڑانے کی وجہ سے وہ قلم سہواً اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہو۔ جیسے ہی قلم بیٹھی خاتون کی گود میں گرنے کے قریب ہوا تو اس نے غیر ارادی طور پر اپنی دونوں ٹانگوں کو اس طرح پھیلایا کہ قلم زمین پر گرنے کی بجائے اس کے اسکرٹ پر محفوظ طریقے سے جا گرا۔ جمال نے زبردست طریقے سے سنبھل جانے کی اداکاری کرتے ہوئے خاتون سے معذرت کی جو بظاہر تو قبول کر لی گئی لیکن اس کی آنکھوں میں شک کی ایک ایسی لہر ابھری جس کو جمال کی تیز نگاہیں بھی نہ بھانپ سکیں۔ قلم جمال کو واپس کر دیا گیا جس کو اس نے تشکرانہ انداز اور اچھے کلمات کے ساتھ لے لیا۔ جمال کارروائی ڈال کر اپنی سیٹ پر واپس آ چکا تھا لیکن جمال اور کمال کے والد صاحب ابھی تک اپنی نشست پر لوٹ کر نہیں آئے تھے جس پر دونوں ہی کو بڑی تشویش ہونے لگی تھی۔

کیوں نہ ہم واش روموں کی جانب چلیں تاکہ والد صاحب کا معلوم ہو سکے کہ ان کے ساتھ کچھ ہوا تو نہیں جو اب تک نہیں لوٹے۔ یہ کہہ کر جیسے ہی وہ دونوں اپنی اپنی نشستوں سے اٹھے، انھوں نے محسوس کیا کہ لان میں موجود دو تین افراد ان کے ساتھ اٹھے ہوں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز انداز میں دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں تعجب کا اظہار اور محتاط رہنے کا اشارہ کیا۔ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے جیسے ہی وہ واش روم ایریے میں داخل ہوئے پورے لان کی بجلی چلی گئی اور ہر جانب گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتے یا ان کی آنکھیں اندھیرے کی عادی ہو کر دور سے آنے والی روشنی میں کچھ دیکھنے کی عادی ہو جاتیں، بہت مضبوط ہاتھوں نے نہ صرف ان کو اپنی گرفت میں لے لیا بلکہ ان کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بھی باندھ دی گئی اور سرگوشیانہ انداز میں کہا کہ منہ سے آواز نہ نکلے۔ جمال اور کمال بے شک مارشل آرٹ کے تربیت یافتہ تھے لیکن ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اس کی ان کو کہیں سے کہیں تک بھی توقع نہیں تھی۔ ان کو گرفت میں لینے والوں نے جس پھرتی اور چابک دستی کے ساتھ ان کو قابو کیا وہ نہایت تربیت یافتہ اور مضبوط لوگ رہے ہونگے۔ جمال اور کمال، دونوں نے بیک وقت سوچا کہ ممکن ہے ان کے والد صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا ہو لہٰذا اب انتظار اور حالات کے دھارے پر اپنے آپ کو حوالے کر دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

ان کو گرفت میں کرتے ہی ان کو کندھوں پر اٹھا لیا گیا اور تقریباً دوڑتے ہوئے انھیں کہیں لے جایا گیا۔ ان کے اندازے کے مطابق جس سمت ان کو لے جایا جا رہا تھا وہ پارکنگ ایریے کی جانب جانے والا راستہ نہیں تھا۔ ان کا خیال درست ہی تھا کیونکہ پارکنگ ایریا لان سے متصل اور قریب تھا جبکہ اٹھانے والوں نے کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک گاڑی میں انھیں ڈالا اور آنکھوں پر سے پٹیاں کھول کر صرف اتنا کہا کہ “دشمن نہیں دوست”۔ لیکن خدا جانے یہ اگر دوست تھے تو کیسے دوست تھے کہ اپنے منہ کو مکمل طریقے سے سیاہ غلاف میں چھپائے ہوئے تھے۔ یہ کہہ کر انھوں نے کیبن نما گاڑی کا دروازہ بند کر دیا۔ یہ کنٹینر نما گاڑی تھی لیکن اس کے باوجود اس میں گھٹن یا گرمی کا احساس بالکل بھی نہیں تھا کیوں کہ یہ کیبن روشن بھی تھا، ہوادار بھی تھا اور ایئر کنڈیشن بھی۔ جن سیٹوں پر جمال اور کمال کو بٹھا یا گیا تھا وہ نہایت آرام دہ تھیں جس سے جمال اور کمال کو یہ احساس ضرور ہو رہا تھا کہ وہ دوستوں کے ہاتھوں میں ہی ہیں لیکن پھر بھی دونوں نے اپنے آپ کو ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کر لیا تھا۔ جمال اور کمال اس قسم کے غیر یقینی حالات کے باوجود بالکل بھی خوف زدہ نہیں تھے اس لیے کہ انھیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ موت اپنے مقررہ وقت سے پہلے کبھی آ ہی نہیں سکتی، نیز یہ کہ جس قسم کی سرگرمیوں میں وہ حصہ لیتے رہے ہیں اس میں ایسا کچھ ہونا بعید از قیاس بھی نہیں تھا۔ کیبن نما گاڑی یقیناً کسی عمارت میں جاکر ہی رکی ہوگی لیکن وہ اس عمارت کو اس لیے بھی نہیں دیکھ سکتے تھے پورے کیبن میں کوئی ایسا سوراخ تک موجود نہیں تھا جس سے باہر کا جائزہ لیا جا سکے۔ کیبن کا دروازہ بھی جہاں کھولا گیا تھا وہاں دروازے کے سامنے ہی عمارت کا دروازہ تھا جس سے گزار کر انھیں ایک کمرے میں داخل کر نے کے بعد باہر سے بند کر دیا گیا۔ راہداری نیم سے بھی زیادہ تاریک تھی جس کی وجہ سے صرف ایک دو فٹ سے آگے کچھ دیکھا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ کمرہ ہر قسم کے مناسب فرنیچر سے آراستہ اور روشن تھا۔ جمال اور کمال کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

اس کمرے میں بند ہوئے آج تیسرا دن تھا۔ علاوہ اس کے کہ وہ دونوں اس کمرے میں قید تھے اور کسی بھی قسم کی کوئی دشواری انھیں محسوس نہیں ہوئی۔ سامنے کی دیوار میں ایک کھڑکی تھی جس کے ذریعے انھیں کھانے پینے کی ہر شے مل جایا کرتی تھی اور وہ حیران تھے کہ ناشتے سے لیکر رات کے کھانے تک جو جو چیزیں بطور تواضع ان کو پیش کی جاتی تھیں وہ سب ان کی پسند کے عین مطابق تھیں۔ جمال اور کمال بہت حیران تھے کہ وہ جو لوگ بھی ہیں، ان کی پسند اور نا پسند سے اس حد تک کیسے واقف ہیں۔

وقت کے مطابق آج تیسرے دن کی شام کا وقت تھا کہ دو مضبوط و توانہ جوان ان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے چہروں پر کسی بھی قسم کی کوئی نقاب یا غلاف چڑھا ہوا نہیں تھا۔ آتے ہی کہا کہ “کیوں دوستو! تمہیں یہاں کسی قسم کی مہمان نوازی میں کوئی کوتاہی تو محسوس نہیں ہوئی”۔ جمال اور کمال نے اس بات کا کوئی بھی جواب نہ دیا لیکن جیسے وہ دونوں آنکھوں آنکھوں میں کوئی فیصلہ کر چکے ہوں۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی قدم اٹھاتے، ایک ہلکی سی ہنسی لیکن رعب دار آواز میں ان سے کہا گیا کہ ہم پہلے ہی تم دونوں کو بتا چکے ہیں کہ “دشمن نہیں دوست” اس لیے بہتر ہے کہ اپنے ذہن کے تناؤ کو ختم کرو۔ ہمارے پاس تمہاری پوری ہسٹری ہے اور ہم جانتے ہیں کہ تم اپنے مارشل آرٹ کے مقابلوں میں بڑا نمایا مقام رکھتے ہو۔ ہمارے پیچھے پیچھے باہر آؤ، ہم تمہیں مزید سرپرائز دینا چاہتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ پیچھے دیکھے بغیر اس انداز میں دروازے کی جانب بڑھ گئے جیسے انھیں پورا یقین ہو کہ جمال اور کمال نہ صرف کسی جارحیت کا مظاہرہ نہیں کریں گے بلکہ وہ لازماً ان کے پیچھے پیچھے چلے آئیں گے۔ ہوا بھی ایسا ہی اور جمال اور کمال ان کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر آکر، جس سمت وہ جا رہے تھے، چلنے لگے۔ آج عمارت روشن تھی لیکن اس عمارت کی راہداری کے علاوہ انھیں اور کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

چلتے چلتے ان کو اپنے پیچھے پیچھے چلنے کا کہنے والے ایک ہال نما ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ یہاں پہنچ کر جمال اور کمال کو جیسے 440 وولٹ کا جھٹکا لگا۔ بالکل سامنے والے صوفے پر ان کے والد صاحب تشریف فرما تھے جو استقبالیہ مسکراہٹ کے ساتھ انھیں اندر آتا دیکھ رہے تھے اور ان کی برابر والے صوفے پر انسپکٹر حیدر علی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں کی جانب سے آنکھوں آنکھوں میں اشارہ کیا گیا کہ وہ سامنے والے خالی صوفوں پر وہ بیٹھ جائیں۔ وہ سراپا حیرانی کے عالم میں نہایت خاموشی کے ساتھ ان دونوں کے سامنے والے صوفوں بیٹھ گئے اور دل ہی دل میں سوچنے لگے کہ کہیں وہ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ دو اور قدآور شخصیات کمرے میں داخل ہوئیں جن کو دیکھتے ہی جمال اور کمال کے والد اور انسپکٹر حیدر علی کھڑے ہو گئے۔ یہ دیکھ کر جمال اور کمال بھی کھڑے ہوکر ان ہی کی جانب دیکھنے لگے۔ آنے والوں نے جمال اور کمال کو دیکھتے ہی بہت پاٹ دار آواز میں “ویلڈن بچو” کہا۔ جمال اور کمال اس “ویلڈن” کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھے۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد آنے والوں میں سے ایک نے کہا کہ ہم پولیس کے اسپیشل دستے سے تعلق رکھتے ہیں اور اب تک کی جو بھی کاروائی ہوئی ہے وہ سب ہمارے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق عمل میں آئی ہے۔ ہمیں خبر ہے کہ تم دونوں کن کن خداداد صلاحیتوں کے مالک ہو اس لیے ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم تمہاری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کو انسپکٹر ملک احمد خان کی سر گرمیوں کی جانب سے بڑے شکوک و شبہات تھے۔ وہ ایک بڑے شہر کے تھانے میں تعینات تھے لیکن لگتا تھا کہ ان کے کچھ معاملات سرحد کے اس پار سے بھی جڑے ہوئے ہیں جس کو وہ کمال ہوشیاری سے چلا رہے ہیں۔ جمال اور کمال کی بستی کیونکہ پڑوسی ملک کی سرحد سے کافی قریب تھی اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ کیوں نہ ان کی پوسٹنگ اس بستی میں کر دی جائے تاکہ ان کے سرحد پار معاملات کھل کر سامنے آ سکیں۔ اسی لیے ہم نے انسپکٹر حیدر علی کو عارضی طور پر وہاں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا اور انسپکٹر ملک احمد خان کو وہاں تعینات کیا۔ الجھن یہ تھی کہ ان کا ایک ایسے فرد سے گہرا یارانہ تھا جو پولیس کی بہت مدد کیا کرتا تھا۔ اس کا ہمارے ملک کے ریکارڈ میں نام خالد تھا لیکن بعد میں یہ بات علم میں آئی کہ اس کا نام “اجے” ہے لیکن اس سے عجیب بات خفیہ ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ “اجے” مرد نہیں بلکہ عورت ہے اور اس کے رابطے پڑوسی ملک سے بہت گہرے ہیں۔ اب ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا تھا کہ اجے کو اٹھا لیا جاتا اور اس بات کی تصدیق کی جاتی کہ عورت ہے یا مرد لیکن اس سے ہوتا یہ کہ اگر اس کی سرگرمیاں ہمارے ملک کے خلاف ہیں تو اس کا علم شاید ہمیں نہیں ہو پاتا۔ اب جبکہ بیشمار شواہد اس کے خلاف جمع ہو چکے تھے اس لیے بس اس بات کی تصدیق ضروری تھی کہ وہ عورت ہے یا مرد۔ اس سلسلے میں ہمیں جمال اور کمال کے والد کو اعتماد میں لینا پڑا اور ہمارے ہی کہنے پر جمال اور کمال کے والد دونوں کو ایسے مقام پر لے گئے جہاں وہ اکثر بیٹھ کر کوئی نہ کوئی شام گزارا کرتا تھا۔ اس کی موجودگی پر وہاں کئی اجنبی چہرے بھی علم میں آئے جن کو اجے کے ساتھ ہی گرفتا کر لیا گیا ہے لیکن اجے عورت تھا یا مرد اس کی تصدیق ہمارے ذہین ترین ننھے جاسوسوں، جمال اور کمال نے کی۔ ہمیں تعجب ہے کہ ان دونوں نے اتنی سی عمر میں عورت اور مرد کی حرکات و سکنات پر اتنی معلومات کہاں سے حاصل کیں جن کا علم ہمیں بھی نہیں تھا۔ جب جمال نے اجے کی جانب نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اپنا قلم اچھالا تو اس نے قلم کو اپنی دونوں ٹانگیں جوڑ کر روکنے کی بجائے ٹانگوں کو کھول کر اپنی اسکرٹ پر روکا۔ مرد عام طور پر کیونکہ پتلون یا کرتا شلوار زیب تن کرتے ہیں تو اگر وہ بیٹھے ہوئے ہوں اور کوئی چیز ان کی ٹانگوں کے درمیان گرنے والی ہو تو وہ غیر ارادی طور پر اس گرنے والی چیز کو اپنی ٹانگیں بھینچ کر گرنے سے بچاتے ہیں جبکہ خواتین اپنی قمیص، جمپر یا اسکرٹ پر روکتی ہیں ہم کیوں کہ ہال کی پوری سر گرمیوں پر بہت بھر پور نظر رکھے ہوئے تھے اس لیے ہر ہر معاملے کو بہت اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ ہمیں یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ اجے اور اس کے ساتھ بیٹھے افراد کو جمال اور کمال پر یقین کی حد تک شبہ ہو چکا تھا کیونکہ ان کے علم میں بھی یہ بات تھی کہ اس بستی میں دو ذہین بچے ایسے ہیں جو خداداد صلاصیتوں مالک ہیں اور وہ پولیس کے بہت کام آتے ہیں۔ ہم نے جمال اور کمال کے والد کو پہلے ہی واش روم ایریا سے اٹھا لیا تھا اور ہمیں یقین تھا کہ دیر ہونے پر وہ اپنے والد کی تلاش میں اس سمت ضرور آئیں گے۔ ہم نے یہ بھی نوٹ کیا تھا کہ جیسے ہی جمال اور کمال واش روم ایریا کی جانب بڑھے تو ان کے ساتھ ہی کچھ لوگ اٹھ کر ان کی جانب لپک رہے تھے۔ لہٰذا مقدم ہو گیا تھا کہ دونوں کو محفوظ مقام پر اس طرح منتقل کیا جائے کہ کسی کو کان و کان خبر نہ ہو سکے۔ جمال اور کمال کا یہ شک درست ہے کہ انھیں کچھ خفیہ آنکھیں دیکھتی رہتی تھیں جس کا اظہار وہ اپنے والد سے کیا کرتے تھے۔ ہمارے محکمے نے ان کی حفاظت کے خیال سے ایسے اہل کار ان کی نگرانی کے لیے رکھے تو جو ہردم ان پر نگاہ رکھتے تھے لیکن وہ اتنے شارپ تھے کہ باوجود کوشش، انھیں دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔ ہمارا خیال ہے ہم نے جتنی تفصیل بتانا ضروری سمجھا تھا بتادی۔ ہم جمال اور کمال کو ایک مرتبہ پھر ویلڈن کرتے ہیں اور ان کے والد کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور جمال اور کمال کو خوشخبری سناتے ہیں کہ انسپکٹر حیدر علی کو پھر سے ان کی بستی کے تھانے میں تعینات کیا جا چکا ہے۔

حصہ