سوشل میڈیا دھاندلی

420

سوشل میڈیا اس صدی میں جس انداز سے اور جس مقناطیسی کشش لے کر وارد ہوا ہے ، اس کو سمجھے بغیر دنیا بھر میں اس کی مقبولیت و لوگوں کی شمولیت ہر گزرتے دن بڑا سوال بنتی جا رہی ہے.جیسے جیسے اس کے فیچرز بڑھتے جا رہے ہیں، جیسے جیسے نت نئی خصوصیات سامنے آر ہی ہیں وہ نتائج کے اعتبار سے بہت ہولناک ثابت ہو رہی ہیں. یہ نتائج صرف دماغی بیماریوں تک محدود نہیں ، بلکہ اس کے گہرے سماجی اثرات ہیں۔ جب سے سوشل میڈیا سرمایہ دارانہ نظام میں ایک مکمل ’’اٹینشن اکنامی‘‘ کے ذیل میں آیاہے۔ حصول ویوز،لائیکس ،اسٹارز تمام تر معاشرتی اخلاقیات سے باہر نکل کر اداروں کے ہاتھ میں جا چکے ہیں. اب کمیونٹی اسٹینڈرڈ و ہ ہیں جو یوٹیوب یا فیس بک بتائے گا، تصور اآزادی کے باوجود اب وہ طے کرے گا کیا صحیح ہے یا غلط.ایسے میں لوگ پوچھتے ہیں اس کا مثبت استعمال کیا ہے تو میں سوال کرتا ہوں کہ پہلے اس کی حقیقت تو بتادو، پھر مثبت یا منفی استعمال پر بات ہوگی .اآئیے اس ہفتہ ایک اہم موضوع میں سوشل میڈیا کے ایک ایسے فیچر کا شور دیکھتے ہیں.

ترکیہ اپنی تاریخ کے سب سے ہنگامہ خیز انتخابات کا مشاہدہ کر رہا ہے، جس میں سوشل میڈیاکی تدابیر سے دھاندلی کے عمل دخل کابھی شور داخل ہو چکا ہے۔ایسی صورتحال میں جہاں ترکیہ کا ایک اہم حصہ زلزلے سے بھی شدید متاثر ہے۔ ترکیہ میں سوشل میڈیا پرمستقل 14 مئی کی الیکشن مہم چھائی نظر آتی ہے۔ ووٹ ڈالنے کی ترغیب سے لے کر امیدواروں کے نعرے و سلوگن سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ شہر میں امیدواروں کے بڑے بڑے دیو ہیکل پوسٹرز، الیکشن ریلی و جلسوں کی تصاویر شیئر کرکے الیکشن ماحول گرمایا جاتا رہا۔ اس کے علاوہ یہ خبر بھی گرم ہے کہ ٹویٹر کے نئے الگورتھم نے اپوزیشن، ان کے حامیوں اور دہشت گرد گروپوں کے ہمدردوں کی طرف سے حکومت پر ہتک آمیز مواد کی مہم کو نمایاں کیا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا الگورتھم، جو اب ٹائم لائنز کو ’’آپ کے لیے‘‘ اور ’’فالونگ‘‘ حصوں میں تقسیم کرتا ہے، جان بوجھ کر غیر سیاسی مواد یا حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AK Party) کے حامیوں کے تخلیق کردہ مواد کو چھپا رہا ہے، ان سارے ڈسکس ہونے والے عوامل نے تجزیہ کاروں کو یہ لکھنے پر مجبور کیا ہے کہ 14 مئی کے انتخابات سے قبل ہیرا پھیری ہو سکتیؓ ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد یہ دوسری بار ٹوئٹر یا سوشل میڈیا کی ہیر پھیر سے رائے عامہ بنانے کا مدعا سامنے آیا ہے۔ ترکیہ میں ایک جانب ریپبلیکن پیپلز پارٹی کے کمال کلچدارو ہیں جن کے ساتھ دیگر چھ جماعتوں نےجسٹس ڈویلپمنٹ پارٹی کے صدر ایردوان کے خلاف کامل سیکولر اتحاد بنایا ہوا ہے۔یہ اتحادسیکولر عزائم کے ساتھ یورپی یونین کے الحاق کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے اور انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے احکام پر عمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔آنے والے مغربی تجزیوں میں 2018کی طرح اس بار بھی مخالف امیدوار سروے میں آگے ہیں۔اپنی دو دہائیوں کی حکمرانی میں پہلی بار صدر رجب طیب ایردوان کو ایردوان مخالف اکثریت اور متحدہ اپوزیشن بلاک کی صورت میں ایک حقیقی چیلنج کا سامنا ہے۔پاکستان کی طرح اس وقت ترکیہ میں بھی مہنگائی سب سے بڑا مدعا بنی ہوئی ہے ۔ صدرایردوان نے حالیہ برسوں میں اپنی خارجہ پالیسی کے ساتھ بہت زیادہ بین الاقوامی توجہ مبذول کرائی۔دوسری جانب ترکی نے انتخابات سے قبل اسی ہفتہ PKK ( کردستان ورکرز پارٹی)سے تعلق کے شبہ میں 110 کو گرفتار کر لیا۔6 فروری کے زلزلے کے بعد بھی خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شہریوں میں خوف، تشویش اور خوف و ہراس پھیلانے کے لیے ایک غلط معلومات کی مہم بھی رپورٹ ہوئی۔ترکیہ کے معروف نجی میڈیا ادارے صباح کی رپورٹ نے 6 فروری اور 13 مارچ کے درمیان زلزلوں کے حوالے سے کی گئی ٹویٹر پوسٹس کا جائزہ لیا اور دریافت کیا کہ 26ملین پوسٹس 21ملین اکاؤنٹس کے ذریعے کی گئی تھیں، کل7 ملین بوٹ اکاؤنٹس کے ذریعے کی گئی تھیں، جو کہ کل 255 فیصد کے مساوی ہیں۔رپورٹ میں پتا چلا کہ ان 5.3 ملین پوسٹس میں سے تقریباً فیصد27قطعی طور پر FETÖ اور PKK کے زیر انتظام بوٹ اکاؤنٹس کے ذریعے کی گئی تھیں۔بہرحال 69 سالہ ترکیہ کے مقبول صدررجب طیب ایردوان تیسری ٹرم کے لیے الیکشن لڑنے جا رہے ہیں ، ان کو مہنگائی، گہرے سیاسی تناؤ، زلزلے کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہی نہیں ایردوان نے ہائی الیکٹورل کونسل کے تمام ججوں کی تقرری کی تھی، اس لیے مخالفین خوفزدہ ہیں کہ وہ اپوزیشن کی اپیلیں دائر کرنے سے پہلے اپنی جیت کا اعلان کر دیں گے۔ تمام اپوزیشن پارٹیاں انتخابی سکیورٹی کے معاملے پر متحرک ہو گئی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے مبصر ہر جگہ موجود ہیں۔ ترکی میں 1,لاکھ 92 ہزار کے قریب ووٹنگ اسٹیشنز ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ ان میں سے کم از کم پونے 1لاکھ 60ہزار مبصر ہوں۔ 18 اپریل سے 24 اپریل 2023 کے درمیان ایک اور ادارےالمانیٹر ، کی جانب سے کرائے گئے سروے میں جو نتائج آئے اُن میں ایردوان کےلیے 45 فیصد اور کمال کےلیے 44 فیصد کے نتائج آئے ۔60 فیصد نے حکومتی موجودہ پالیسیوں پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا۔45 فیصد نےکہاکہ حکومت غلط سمت جا رہی ہے۔سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کو نمایاں کیا گیا۔سوشل میڈیا پر خبروں کی ٹیمپرنگ کا اندازہ مزید ترکی سے یوں کریں کہ، اہم صدارتی امیدوار صدر رجب طیب ایردوان کی اس ہفتہ ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران طبیعت اچانک خراب ہوگئی ۔ خبر اہم تھی، موقع الیکشن کا تھا تو سوشل میڈیا پر یہ بھی مشہور کرایا گیا کہ روسی جاسوس نے زہر دیا ہے یا کوشش کی گئی ، جبکہ سرکاری موقف تو ہارٹ اٹیک کا سامنے آیا۔2015 میں بھی ایردوان کے قتل کی سازش کے تناظر میں زہر خورانی سے بچانے کی تدابیر کی گئی تھیں.بہرحال مقبول لیڈر کے لیے سوشل میڈیا پر پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ان کے لیے دعائیہ کلمات کا ٹرینڈ بنا ۔آخری کلپ بھی وائرل رہا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ،’ ’ابھی ابھی پتا چلا ہے کہ ترک صدر ایردوان کی طبیعت ناساز ہے۔ ہم سب اُن کی صحت اور ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔ وہ مسلم مقاصد کی حمایت اور اسلام فوبیا کے خلاف سب سے نمایاں آوازوں میں سے ایک رہے ہیں۔‘‘اِس وقت اُن کی حالت خطرے سے باہر ہے صدر ایردوان نے مہم کی سرگرمیوں میں وقفہ لے کر آرام کرنے کو ترجیح دی۔ مگر اگلے روز اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ترکیہ کے پہلے نیو کلیئر فیول پلانٹ کے آغاز کی ٹوئیٹ لگا کر اپنے ایک وعدے کی تکمیل کا اظہار کیا۔

امریکہ کی دوبارہ کچھ بات کر لیں۔ سی این این نے ٹوئٹر پر اپنی سرخی شیئر کی کہ’’بڑے پیمانے پر عوامی فائرنگ سے لرزائی جانے والی قوم، بندوق خریدنے کی طویل دوڑ میں مصروف ہے۔‘‘ معاملہ یہ ہے کہ ِاس ہفتہ بلکہ اپریل کے مہینے میں 60 اجتماعی قتل عام کی وارداتوں نے اہم موضوع کے طور پرجگہ بنائی۔ مطلب 2023 میں بھی ریکارڈ رفتار سے امریکہ بڑے پیمانے پر فائرنگ و قتل عام کے واقعات کا سامنا کر رہا ہے۔ 2023 میں اب تک 17 ماس شوٹنگ کے واقعات ہو چکے ہیں۔ جس میں 88 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ فی ہفتہ تقریباً 1 بڑے پیمانے پر شوٹنگ ہے۔( فاکس نیوز)ہر بار، قاتلوں نے آتشیں ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا ، 2009 کے بعد دوبارہ ایک سہ ماہی کی تعداد اتنی ہوئی ہے۔عد م برداشت، ٹالیرنس ، عدم تشدد، پر امن، انصاف کی باتیں بلکہ بطور نعرہ و سلوگن پیش کرنے والے ملک میں تشدد، اسلحہ، برداشت، عدم تشدد کی صورت حال ایسی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟کیا جدید ترقی کا حاصل یہ سب کچھ ہے کہ اسکول کے بچے ما ردیئے جائیں، لوگ سڑک پر جا رہے ہوں اور کوئی بھی اآئے اور سب کو مار دے ،محض اپنے بندوق چلانے کے شوق میں یا کسی نام نہاد نفسیاتی بیماری میں . خبروں کے مطابق نیش وِل کے ایک گریڈ اسکول کے بچوں کو، ایک عام پیر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ شمالی کیلیفورنیا میں فارم ورکرز، کام کی جگہ پر رنجش پر گولیوں سے بھون دیا۔ لاس اینجلس کے باہر بال روم میں رقاصوں نے نئے قمری سال کا جشن مناتے ہوئے قتل عام کر دیا۔صرف پچھلے ہفتے میں، الاباما کے ڈیڈیویل میں پارٹی کے چار افراد ہلاک اور 32 زخمی ہو گئے، جب سویٹ 16 کے جشن پر گولیوں کی بارش کر دی گئی. 2021 میں 103 سے گزشتہ سال 100 تک – اجتماعی فائرنگ میں زخمی ہونے والوں کی کل تعداد 140 سے بڑھ کر 213 ہو گئی۔ریاست ہائے متحدہ میں تازہ ترین ہائی پروفائل شوٹنگ منگل کو بوڈوئن، مین میں ہوئی، جہاں ایک گھر میں چار افراد ہلاک اور ایک پڑوسی کمیونٹی میں مصروف شاہراہ پر فائرنگ سے تین دیگر زخمی ہوئے۔ بات یہ ہے کہ ہم اپنے مضمون میں تواتر سے ان واقعات کو صرف سوشل میڈیا کی وجہ سے نہیں بتاتے ، بلکہ اُن خطرنا ک تہذیبی اثرات سے قبل از وقت بچنے کی تدبیر کے طور پر بھی بتاتے ہیں.اگر ایک پیراسیٹا مول کھا کر امریکی کا سر درد ٹھیک ہوتا ہے تو وہ اسی تجربے کی بنیاد پر دنیا بھر میں پیراسیٹا مول متعارف کراتا ہےاور سب لے لیتے ہیں ، تو یہ تہذیبی اثرات بھی ایسے ہی ہیں کیونکہ ہم کو تیسری دنیا اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ ہم پہلی دنیا یعنی جدید دنیا کے ایک اندھے مقلد بھی ہیں.ہم ان سے صرف بیماریاں نہیں لیتے ، ویکسین و ادویہ بھی لیتے ہیں، اِسی طرح گاڑیاں، تہوار، اولڈ ہاؤسز، فلمیں، ہیئر اسٹال، کپڑے،نصاب، کھانے بلکہ زبان بھی شوق لیتے ہیں.تو لازمی ہے کہ اِن سب کے اثرات یہاں بھی ویسے ہی آتے ہیں.اکثر لوگ اس بات پرکمنٹ کرتے ہیں کہ اِس میں ممانعت کیا ہے، دین میں منع تو نہیں ہے، حرام تو نہیں ہے. اکثر ایسے فوری کمنٹس سے لوگ اپنے عمل کو تسلی دیتے ہیں کہ اُن کو لگتا ہے کہ دین نے منع نہیں کیا، اس لیے کیے جاؤ۔ ایسے میں میں صرف یہ بات سمجھاتا ہوں کہ منع کیا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اِستعمال کے نتائج ملا کر دیکھ لو۔ اگر کسی چیز کے استعمال سے سب ذہنی مریض بن رہے ہوں، ٹی بی کے مریض بن رہے ہوں، پیٹ کے امراض کا شکار ہو رہے ہوںتو کیا آپ کا دین اُس کے استعمال کی اجازت دےگا؟

کینیڈا میں مقیم طارق فتح بھی سوشل میڈیا پرموضوع بحث بنا رہا۔1949 میں پاکستانی خطہ میں پیدا ہوا۔مگر بھارت کی محبت میں گرفتار یہ دیسی لبرل پاکستان کے خلاف ایسی باتیں کرتا جس پر اس کو 80 کی دہائی میں ملک چھوڑ کر بھارت بھاگنا پڑا۔ وہاں بھارت کی محبت میں یہ تک کہتا تھا۔’’ہم خالص ہندوستانی ہیں جناب، ہم پر قطعاً یہ الزام نہ لگائیں کہ ہم کسی عرب کے جوتے چاٹنے بیٹھے ہیں۔ہندوستان ہے تو دنیا ہے ہندوستان نہیں تو دنیا ختم ـ‘‘ہندوستانی قوم پرستی کو ایسا اور اِس اَنداز سے پروموٹ کیا کہ خود بھارتی چینل پر اسکو یہ لقب ملا کہ ’’آپ آر ایس ایس کے نمائندے لگتے ہیں۔‘‘ ایل جی بی ٹی کیو کی حمایت سمیت کئی بے بنیاد اور ہوائی بیانات پر اس کوبھارت سے بھی کینیڈا بھاگنا پڑا۔پھر کینیڈا سے بیٹھ کر وہ جو کچھ کرتا رہا وہ سب نے دیکھا۔ اس دوران وہ کینسر کا شکار ہوا کوئی 6-7 سال علاج چلا۔پھر اسکا دنیا میں مزید کسی عمل کا وقت ختم ہوگیا۔بھارت نے تو میڈیا پر اس کو پنجاب کا ہیرو بنا کر پیش کیا اور پاکستان و اسلام کے خلاف بکواس کرنے پر خاصا پروموٹ کیا ۔

حصہ